سانحہ کرائسٹ چرچ اور اس کے مضمرات

کرائسٹ چرچ کا یہ شرمناک واقعہ کوئی انفرادی کارروائی نہیں ہے کہ جسے محض اتفاقیہ کہہ کر درگزر اور فراموش کردیا جائے۔


Shakeel Farooqi April 02, 2019
[email protected]

گزشتہ 15 مارچ کو نیوزی لینڈ کے شہرکرائسٹ چرچ میں پیش آنے والے انسانیت سوز، اندوہناک سانحہ عظیم پر ہر آنکھ اشکبار اور ہر دل سوگوار ہے۔ یہ سانحہ انسانیت کے ماتھے پر لنک کا ٹیکہ لگانے کی مکروہ ترین حرکت ہے۔ آسٹریلیائی دہشت گرد کی اس سفاکانہ اور وحشیانہ حرکت نے درندوں کو بھی مات کر دیا۔

کرائسٹ چرچ کا یہ شرمناک واقعہ کوئی انفرادی کارروائی نہیں ہے کہ جسے محض اتفاقیہ کہہ کر درگزر اور فراموش کردیا جائے۔ دراصل یہ اس خطرناک سوچ کا نتیجہ ہے جو گوروں کے احساس برتری اور برسوں پرانی اسلام دشمنی کی بنیاد پر پروان چڑھ رہی ہے۔

مسلمانوں کے خلاف تعصب اور نفرت کا پرچارکرنا آج کل مغربی اور بھارتی میڈیا کا معمول بن گیا ہے۔ یہود و ہنود اسلام دشمنی میں برابر کے شریک ہیں۔ ایک جانب اسرائیل فلسطینی مسلمانوں کی نسل کشی کرنے میں مصروف ہے تو دوسری طرف بھارت میں عام مسلمانوں اور خصوصاً کشمیری مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کیا جا رہا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ، اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو اور بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کا بس چلے تو مسلمانوں کا نام ہی صفحہ ہستی سے مٹا دیں۔ یہ تینوں ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں۔گویا جیسی شکل 'ع' کی ویسی ہی 'غ' کی صرف نقطے کا فرق ہے۔

ابھی کرائسٹ چرچ کے سانحے کی بازگشت تھمنے نہ پائی تھی کہ فرانس کے جنوب مغربی شہر میں 25 مارچ کو ایک اور مسلم مخالف گھناؤنا واقعہ پیش آ گیا جو مسلمانوں کی عبادت گاہوں کی بے حرمتی کے سلسلے کی تازہ ترین کڑی ہے۔ ہوا یوں کہ ایک زیر تعمیر مسجد کے احاطے میں خنزیرکا سر اور خون پڑا ہوا پایا گیا جس کی نشاندہی صبح کو مسجد کی تعمیر کرنے والے مزدوروں نے کی۔

ادھر امریکا کی ایک ریاست میں مسلم دشمن عناصر نے شب کی تاریکی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک مسجد کو نذر آتش کرنے کی مذموم کوشش کی جسے بروقت کارروائی کے ذریعے ناکام بنادیا گیا۔ امریکا میں جب سے صدر ٹرمپ برسر اقتدار آئے ہیں مسلم دشمن عناصر کے حوصلے بلند ہوگئے ہیں۔ سیاں بھئے کوتوال ڈر کاہے کا! نیوزی لینڈ کا واقعہ کیا ہوا ٹرمپ کے ہاتھوں ایک اچھا موقع آگیا۔ اس دوران جب کہ پوری دنیا کی توجہ کرائسٹ چرچ میں ہونے والے مسلمانوں کے قتل عام پر مرکوز تھی ٹرمپ نے فائدہ اٹھاتے ہوئے یہ اعلان کردیا کہ امریکا 1967 کی جنگ میں شام سے چھینی گئی گولان کی پہاڑیوں کو اسرائیل کا باضابطہ حصہ تسلیم کرتا ہے۔

یاد رہے کہ اسرائیل نے 1981 میں یکطرفہ طور پر گولان کی پہاڑیوں کے علاقے کو اسرائیل کا حصہ قرار دے دیا تھا لیکن اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے اپنی قرارداد 497 کے تحت اس اعلان کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔ غور طلب بات یہ ہے کہ گولان کی پہاڑیوں کا یہ حصہ شام کے دارالحکومت دمشق سے صرف 60 کلومیٹرز کے فاصلے پر ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس علاقے کا اسرائیل کے پاس رہنا شام کی شہ رگ کے اسرائیل کے ہاتھ میں ہونے کے مترادف ہے۔ صدر اوباما کے دور میں جب اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے یہ بیان دیا تھا کہ اسرائیل گولان کی پہاڑیاں کبھی بھی خالی نہیں کرے گا تو اس وقت سلامتی کونسل نے اسرائیل کی سرزنش کی تھی جس کی بظاہر امریکا نے اس وقت حمایت کی تھی۔

سانحہ کرائسٹ چرچ کے بعد نیوزی لینڈ کی خاتون وزیر اعظم جیسنڈا آرڈرن نے جس بلند حوصلے کے ساتھ سنگین صورتحال کا مقابلہ کیا اس کی جتنی بھی تعریف کی جائے وہ کم ہے۔ کسی دوسرے ملک کو دوش دینے کے بجائے انھوں نے اس حقیقت کو تسلیم کیا کہ مذہبی جنونی مائنڈ سیٹ اس بدترین صورتحال کا اصل ذمے دار ہے۔ انھوں نے مشکل کی گھڑی میں مظلوم مسلمانوں کا ساتھ دیا جس کے نتیجے میں پورا نیوزی لینڈ مسلمانوں کی حمایت میں اٹھ کھڑا ہوا اور وہاں کے عوام نے مسجدوں میں جاکر نماز کے دوران مسلمانوں کی حفاظت کے لیے پہرا دینا شروع کردیا۔ نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم مسلمانوں کے غم میں برابر کی شریک ہوئیں اور انھوں نے کھل کر اعلان کیا کہ 15 مارچ کا دن نیوزی لینڈ کی تاریخ کا بدترین دن تھا۔

نیوزی لینڈ کی پارلیمنٹ کی کارروائی کا آغاز تلاوت قرآن پاک سے ہوا اور کرائسٹ چرچ کی یونیورسٹی میں باقاعدہ اذان دی گئی۔ اس کے علاوہ جمعہ کی اذان کو ملکی سطح پر نشر کرنے کا اہتمام کیا گیا جب کہ حفاظتی انتظامات کو بہتر بنانے کے لیے اسلحہ کے قوانین بھی تبدیل کردیے گئے۔ 29 مارچ کو سرکاری سطح پر کرائسٹ چرچ میں شہیدوں کی یاد میں ایک خصوصی اجتماع کا اہتمام کیا گیا جس کا بنیادی مقصد اس بات کا اظہار کرنا تھا کہ نیوزی لینڈ کے باشندے اپنے سینوں میں دھڑکتے ہوئے دل رکھتے ہیں اور وہ ہر قسم کے تعصب سے بالاتر ہیں۔ نیوزی لینڈ کی کل آبادی 4.8 ملین کے لگ بھگ ہے جس میں مسلمانوں کا تناسب 1 فیصد سے کچھ زیادہ ہے۔

نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم نے 25 مارچ کو کرائسٹ چرچ کے سانحے کی اعلیٰ سطح عدالتی انکوائری کرانے کے احکامات جاری کردیے ہیں۔ انھوں نے کہا ہے کہ دہشت گردی کے اس سنگین واقعے کی تحقیقات کرانے میں کوئی کسر باقی نہ چھوڑی جائے گی۔ نیوزی لینڈ کے وزیر خارجہ ونسٹن پیٹرز کا کہنا ہے کہ نیوزی لینڈ نے اس سانحے کے بعد مسلم برادری کا جس بھرپور انداز میں ساتھ دیا ہے اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی کے ممبران نے اس کی زبردست تعریف کی ہے۔

کرائسٹ چرچ کے سانحے کے بعد نیوزی لینڈ کی حکومت، عوام اور خاص طور پر وزیر اعظم مادام آرڈرن نے متاثرہ خاندانوں ہی نہیں بلکہ تمام غم زدہ مسلمانوں کے ساتھ عملی ہمدردی، خیر خواہی، غمگساری اور رواداری کا جو شاندار مظاہرہ کیا ہے اس پر پورا نیوزی لینڈ دنیا بھر کے مسلمانوں کے شکریے اور تحسین کا مستحق ہے پوری دنیا کے مسلمان نیوزی لینڈ کے اس ہمدردانہ سلوک کو کبھی فراموش نہیں کرسکتے۔ اسلام فوبیا کے ایسے واقعات دیگر مغربی ممالک میں بھی پیش آتے رہتے ہیں لیکن ان میں سے کسی بھی ملک نے ایسے حسن سلوک کا مظاہرہ کبھی نہیں کیا۔ نیوزی لینڈ کا یہ مثالی طرز عمل صرف مغرب ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے لیے قابل رشک اور قابل تقلید ہے۔

اسلام فوبیا لفظ ''اسلام'' اور یونانی لفظ ''فوبیا'' کا مرکب ہے۔ فوبیا کے معنی ہیں خوف۔ اسلام کے مخالفین غیر مسلموں کو اسلام کے خلاف بھڑکانے کے لیے یہ اصطلاح استعمال کر رہے ہیں جس کا بنیادی مقصد اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنا ہے۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ دین اسلام امن وآشتی اور سلامتی کا درس دیتا ہے۔ سچ پوچھیے تو سانحہ نیوزی لینڈ نے مسلم امہ کو اتحاد بین المسلمین اور دنیا کو دین حق کی دعوت دینے کا ایک سنہری اور نادر موقع فراہم کیا ہے۔ مختلف مذاہب کی نمایاں شخصیات نے مطالبہ کیا ہے کہ مذہبی منافرت پیدا کرنے اور پھیلانے کو عالمی سطح پر جرم قرار دیا جائے جیساکہ ہولو کاسٹ کے خلاف قانون موجود ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔