میرا پاکستان
ہمارا پڑوسی دشمن ملک کشمیر سے شکست کھا کر جائے گا یہ تاریخ کا فیصلہ ہے۔
پاکستان ایک ایسا ملک ہے جس کی مثال دنیا میں نہیں ہے۔ سب سے پہلے تو ایک مضبوط اسلامی ایٹمی قوت کا مالک ملک جس سے استعمار لرزتا رہتا ہے اور جو دوسرے برادر اسلامی ملکوں کے لیے فخرکا باعث بھی ہے۔
استعمارکو آپ جان گئے ہوں گے پڑوس میں ہے ، پاکستان کا دوست نہیں اور ستر سال سے دشمن کے ایجنٹ کا کردار انجام دے رہا ہے اور اس کے گماشتے نسلوں سے یہ کام کر رہے ہیں۔ سمندر کے کنارے تک پہاڑوں سے اتر کر کمانے آگئے یہاں کے کاروبار پر قبضہ کر رکھا ہے یہاں کے لوگ بے روزگار پھر بھی پاکستان کا کھا کر پاکستان کے دشمنوں کا ساتھ دیتے رہے، پورے ملک میں دہشت گردی کے نیٹ ورک کے سہولت کار دھاگے یہی ہیں۔
ہمارا پڑوسی دشمن ملک کشمیر سے شکست کھا کر جائے گا یہ تاریخ کا فیصلہ ہے اور عالمی طاقت ذلیل و رسوا ہوکر ویتنام کی طرح یہاں سے جانے والی ہے ، جس نے بھارت اور اسرائیل جیسے دہشت گرد ملکوں کا ہاتھ تھام رکھا ہے۔ پاکستان کی محبت ہر سچے پاکستانی کی طرح میرے اندر بھی کوٹ کوٹ کر بھری ہے لہٰذا وطن دشمنوں کے خلاف قلم رکتا نہیں ۔
دکھ یہ ہوتا ہے کہ اس حسین ملک سے دشمنی کرنے والے ہرجگہ ہیں کہیں نمایاں کہیں پوشیدہ ۔ اسے اور اس کے عوام کو تو جھوٹے نعروں سے بہلاکر آنے والوں نے بہت لوٹا ہے یہ سب سے بڑے وطن دشمن ہیں اور ان پر تو غداری کے مقدمات چلنے چاہئیں۔ مگر ایسا ہوتا نظر نہیں آتا، نامور وکلا بھاری فیسوں کے عوض ملک کے بجائے حسب سابق ان سے وفاداری نبھائیں گے اور قانون سنا پڑھا ہے کہ اندھا ہوتا ہے اور ہم کچھ عرض نہیں کرسکتے یہ یورپی قانون کے بارے میں کہا جاتا ہے، فیصلے ریکارڈ پر ہیں دیکھا جاسکتا ہے عمل کہاں ہوا ہے۔
خیر ان تلخ حقائق سے کچھ دیر الگ ہوکر خوبصورت پاکستان کی بات کرتے ہیں۔ میرے وسائل کبھی وہ نہیں رہے نہ آج ہیں مگر مزاج جاوید چوہدری جیسا رہا ہے یعنی سیاحت، ہر سال اپنے محدود وسائل کے باوجود پندرہ دن میں چھٹی لے کر فیملی کے ساتھ شمالی علاقوں کی سیاحت پر نکل جاتا تھا۔ ٹرین کے تھرڈکلاس ڈبوں اور بسوں میں سفرکرتا، نچلے درجے کے ہوٹلوں میں قیام اور ایسا ہی طعام مگر سیاحت ضروری۔ بچوں کو واحد تحفہ زندگی میں دے سکا کہ انھیں زیارت سے سیف الملوک اور کالام، چترال تک سب کچھ دکھا دیا۔
پھر ملازمت کے دوران خود مجھے پاکستان کے بہت سے علاقوں کو اچھی طرح دیکھنے کا موقع ملا ۔ لاہور، اسلام آباد، کراچی، خیرپور اور خضدار جہاں میں چار سال رہا ۔ جی چار سال جہاں ٹرانسفر ہوکر جانے والے چار ماہ میں رو دیا کرتے تھے اور سفارشیں کرکے واپس آجاتے تھے کراچی کے سبطین جعفری دو ماہ میں پریشان ہوکر لوٹ گئے اور میں اپنی درخواست پر ٹرانسفر ہوکر وہاں آگیا ان کی جگہ۔
لی مارکیٹ کراچی کے چائے خانوں سے میں یہاں کے سفر کے دوران واقف ہوا ورنہ کہاں میں حیدرآبادی اردو بولنے والا سندھی اورکہاں لی مارکیٹ، لیاری، جب یہ سب تب ہی دیکھنے کو ملے جب میں نے خضدار کے سفر کا آغاز کیا۔ لی مارکیٹ سے خضدار کی مقامی بس ''شالیمار'' رات 9 بجے چلتی تھی۔ قدرتی A.C تھی کیونکہ رات کو بلوچستان ''سرد'' ہوجاتا ہے۔ راستے بھر ٹھنڈی ہوا اور نیند کا ساتھ رہتا تھا، کھڑکی والی سیٹ لازمی تھی بعد میں تو میں حیدرآباد سے فون کرکے سیٹ بک کروا لیا کرتا تھا۔ وہاں کے لوگ سمجھ گئے تھے کہ میں ان کی جان چھوڑنے والا نہیں ہوں اور ایک پردیسی بروہی کا خضدارکی آبادی میں اضافہ ہوچکا ہے۔
شالیمار کے علاوہ کوئٹہ جانے والی بسیں بھی ملتی تھیں اور ویگنیں بھی تھیں مگر یہ بسیں اور ویگنیں کراچی، کوئٹہ ہائی وے پر اتار دیتی تھیں، خضداری بہت کاہل ہوتے ہیں ایک دوکلو میٹر پیدل بھی نہیں چل پاتے یا گاڑیاں، اسکوٹر کم سے کم سائیکل پر سفر ان کا معمول ہے۔ خضدار ایک خوبصورت شہر ہے لوگوں سے شہر مشہور ہوتے ہیں مگر خضدار سے بروہی مشہور ہیں۔ لوگ بے حد سیاسی ہیں اور ہر کام وہ زندگی کے ہر شعبے میں کرتے ہیں۔ ہماری یونیورسٹیاں پورے پاکستان کے لوگوں کے لیے کھلی ہیں مگر خضدار میں ایک لڑکے کو محض اس وجہ سے داخلے میں دشواری ہوئی کہ اس کے والد لاڑکانہ کے سندھی تھے۔ والدہ اسکول ٹیچر تھیں بروہی خاتون جن کا خاندان بلوچستان کا مستقل رہائشی تھا۔
اس لڑکے کو میں نے ریڈیو میں اردو اناؤنسر بنادیا یوں اس کا داخلہ ہوا۔ خضدار شہر سے پہلے بہت خوبصورت علاقے ہیں جن کا ذکر آج نہیں کر رہا، کروں گا ضرور یہ سب میری زندگی کا حصہ ہیں۔ بلوچستان ریزیڈنشل کالج خضدار سے پہلے ہے بہت اچھا اور خوبصورت کالج ہے پانچویں چھٹی کلاس سے وہاں داخلہ ہو جاتا ہے۔ ہوسٹل ہے اور بہت اچھا انتظام ہوسکتا ہے ،1994 میں اتنا اچھا نہیں تھا لوگوں کو شکایتیں تھیں۔ انجینئرنگ یونیورسٹی کا بھی یہی حال تھا۔ حقوق آپ لے لیتے ہیں فرائض ادا نہیں کرتے جس میں کم سے کم دیانتداری لازم ہے وہ بھی ندارد۔
پی او سی کے بعد اسٹاپ آتا ہے ''چمروک'' اس لفظ کے معنی ہیں ''روشن آنکھیں'' اور وہاں کے ہوٹل میں کھانا کھا کر بل ادا کرتے اور دوسری اشیا خریدتے مسافروں کی آنکھیں روشن ہی نہیں ''چوڑی'' ہوجاتی ہیں۔ چمروک میں شام کے بعد مسافروں سے زیادہ خضدار میں آباد ہم جیسے پردیسیوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے جن کا رات کے کھانے کے بعد یہ واک اسٹاپ ہے خضدار میں پانی ٹھیک نہیں تھا بورنگ کا پانی تھا ہاضمہ پردیسیوں کا ٹھیک نہیں رہتا تھا واک ضروری تھی۔
خیر تو رات کھانا کھانے کے بعد سید قمر حسین مرحوم، راقم اور چند اور احباب چمروک اور سانپوں سے ملنے ''واک'' پر بی آر سی تک جاتے۔ سانپ خضدار میں بہت تھے پہاڑی علاقہ اور جنگل ہے نہ جانے کس نے یہاں یہ شہر بسادیا، رابعہ خضداری یہاں کی معروف شاعرہ تھیں، شہر پرانا ہے، لوگوں کے ذہن بھی اور سہولیات جدید۔
تو ہم نکلتے تو ہر ایک کے ہاتھ میں ٹارچ ہوتی رخ سڑک پر یا ساتھ کی جھاڑیوں پر، دن بھر شہر تپتا تھا، جوں جوں رات ہوتی ٹھنڈ بڑھ جاتی اور سانپ بلوں سے نکل آتے۔ سڑک پر بسیں ٹرک ان کو کچل کر گزر جاتے مگر ہم لوگ پھر بھی ان سے دور گزرتے کیونکہ پتا نہیں ہوتا تھا کہ سانپ زندہ ہے یا نہیں۔ سانپ بہرحال سانپ ہوتا ہے چاہے مردہ ہو ، سیاست کے میدان میں آپ اس جملے کا زیادہ لطف حاصل کرسکتے ہیں۔
قمر حسین شوگر کے مریض تھے اور ان کی شوگر کم بھی ہوجاتی تھی لہٰذا ہماری جیبیں بھی ٹافیوں گولیوں سے بھری ہوتی تھیں وہ کھاتے چوستے، سانپ دیکھتے اور بی آر سی سے واپس ہوکر چمروک کے ہوٹل میں چائے پینے اور گپ لگانے بیٹھ جاتے وہاں مسافروں میں جاننے والے بھی مل جاتے جو کوئٹہ یا کراچی جا یا آرہے ہوتے تھے۔ رات بھیگتی جاتی اور ہم لوگ آدھی رات کو چمروک لوٹتے اور سناٹا زیادہ ہوتا، ہوا کی پتوں سے گزرنے کی آواز جنگل میں جانوروں کی آوازیں، دور گاڑیوں کے گزرنے کی آوازیں اور راستے کے دونوں طرف جھاڑیوں میں سر سراہٹ اور جانوروں کی چمروک آنکھیں۔
استعمارکو آپ جان گئے ہوں گے پڑوس میں ہے ، پاکستان کا دوست نہیں اور ستر سال سے دشمن کے ایجنٹ کا کردار انجام دے رہا ہے اور اس کے گماشتے نسلوں سے یہ کام کر رہے ہیں۔ سمندر کے کنارے تک پہاڑوں سے اتر کر کمانے آگئے یہاں کے کاروبار پر قبضہ کر رکھا ہے یہاں کے لوگ بے روزگار پھر بھی پاکستان کا کھا کر پاکستان کے دشمنوں کا ساتھ دیتے رہے، پورے ملک میں دہشت گردی کے نیٹ ورک کے سہولت کار دھاگے یہی ہیں۔
ہمارا پڑوسی دشمن ملک کشمیر سے شکست کھا کر جائے گا یہ تاریخ کا فیصلہ ہے اور عالمی طاقت ذلیل و رسوا ہوکر ویتنام کی طرح یہاں سے جانے والی ہے ، جس نے بھارت اور اسرائیل جیسے دہشت گرد ملکوں کا ہاتھ تھام رکھا ہے۔ پاکستان کی محبت ہر سچے پاکستانی کی طرح میرے اندر بھی کوٹ کوٹ کر بھری ہے لہٰذا وطن دشمنوں کے خلاف قلم رکتا نہیں ۔
دکھ یہ ہوتا ہے کہ اس حسین ملک سے دشمنی کرنے والے ہرجگہ ہیں کہیں نمایاں کہیں پوشیدہ ۔ اسے اور اس کے عوام کو تو جھوٹے نعروں سے بہلاکر آنے والوں نے بہت لوٹا ہے یہ سب سے بڑے وطن دشمن ہیں اور ان پر تو غداری کے مقدمات چلنے چاہئیں۔ مگر ایسا ہوتا نظر نہیں آتا، نامور وکلا بھاری فیسوں کے عوض ملک کے بجائے حسب سابق ان سے وفاداری نبھائیں گے اور قانون سنا پڑھا ہے کہ اندھا ہوتا ہے اور ہم کچھ عرض نہیں کرسکتے یہ یورپی قانون کے بارے میں کہا جاتا ہے، فیصلے ریکارڈ پر ہیں دیکھا جاسکتا ہے عمل کہاں ہوا ہے۔
خیر ان تلخ حقائق سے کچھ دیر الگ ہوکر خوبصورت پاکستان کی بات کرتے ہیں۔ میرے وسائل کبھی وہ نہیں رہے نہ آج ہیں مگر مزاج جاوید چوہدری جیسا رہا ہے یعنی سیاحت، ہر سال اپنے محدود وسائل کے باوجود پندرہ دن میں چھٹی لے کر فیملی کے ساتھ شمالی علاقوں کی سیاحت پر نکل جاتا تھا۔ ٹرین کے تھرڈکلاس ڈبوں اور بسوں میں سفرکرتا، نچلے درجے کے ہوٹلوں میں قیام اور ایسا ہی طعام مگر سیاحت ضروری۔ بچوں کو واحد تحفہ زندگی میں دے سکا کہ انھیں زیارت سے سیف الملوک اور کالام، چترال تک سب کچھ دکھا دیا۔
پھر ملازمت کے دوران خود مجھے پاکستان کے بہت سے علاقوں کو اچھی طرح دیکھنے کا موقع ملا ۔ لاہور، اسلام آباد، کراچی، خیرپور اور خضدار جہاں میں چار سال رہا ۔ جی چار سال جہاں ٹرانسفر ہوکر جانے والے چار ماہ میں رو دیا کرتے تھے اور سفارشیں کرکے واپس آجاتے تھے کراچی کے سبطین جعفری دو ماہ میں پریشان ہوکر لوٹ گئے اور میں اپنی درخواست پر ٹرانسفر ہوکر وہاں آگیا ان کی جگہ۔
لی مارکیٹ کراچی کے چائے خانوں سے میں یہاں کے سفر کے دوران واقف ہوا ورنہ کہاں میں حیدرآبادی اردو بولنے والا سندھی اورکہاں لی مارکیٹ، لیاری، جب یہ سب تب ہی دیکھنے کو ملے جب میں نے خضدار کے سفر کا آغاز کیا۔ لی مارکیٹ سے خضدار کی مقامی بس ''شالیمار'' رات 9 بجے چلتی تھی۔ قدرتی A.C تھی کیونکہ رات کو بلوچستان ''سرد'' ہوجاتا ہے۔ راستے بھر ٹھنڈی ہوا اور نیند کا ساتھ رہتا تھا، کھڑکی والی سیٹ لازمی تھی بعد میں تو میں حیدرآباد سے فون کرکے سیٹ بک کروا لیا کرتا تھا۔ وہاں کے لوگ سمجھ گئے تھے کہ میں ان کی جان چھوڑنے والا نہیں ہوں اور ایک پردیسی بروہی کا خضدارکی آبادی میں اضافہ ہوچکا ہے۔
شالیمار کے علاوہ کوئٹہ جانے والی بسیں بھی ملتی تھیں اور ویگنیں بھی تھیں مگر یہ بسیں اور ویگنیں کراچی، کوئٹہ ہائی وے پر اتار دیتی تھیں، خضداری بہت کاہل ہوتے ہیں ایک دوکلو میٹر پیدل بھی نہیں چل پاتے یا گاڑیاں، اسکوٹر کم سے کم سائیکل پر سفر ان کا معمول ہے۔ خضدار ایک خوبصورت شہر ہے لوگوں سے شہر مشہور ہوتے ہیں مگر خضدار سے بروہی مشہور ہیں۔ لوگ بے حد سیاسی ہیں اور ہر کام وہ زندگی کے ہر شعبے میں کرتے ہیں۔ ہماری یونیورسٹیاں پورے پاکستان کے لوگوں کے لیے کھلی ہیں مگر خضدار میں ایک لڑکے کو محض اس وجہ سے داخلے میں دشواری ہوئی کہ اس کے والد لاڑکانہ کے سندھی تھے۔ والدہ اسکول ٹیچر تھیں بروہی خاتون جن کا خاندان بلوچستان کا مستقل رہائشی تھا۔
اس لڑکے کو میں نے ریڈیو میں اردو اناؤنسر بنادیا یوں اس کا داخلہ ہوا۔ خضدار شہر سے پہلے بہت خوبصورت علاقے ہیں جن کا ذکر آج نہیں کر رہا، کروں گا ضرور یہ سب میری زندگی کا حصہ ہیں۔ بلوچستان ریزیڈنشل کالج خضدار سے پہلے ہے بہت اچھا اور خوبصورت کالج ہے پانچویں چھٹی کلاس سے وہاں داخلہ ہو جاتا ہے۔ ہوسٹل ہے اور بہت اچھا انتظام ہوسکتا ہے ،1994 میں اتنا اچھا نہیں تھا لوگوں کو شکایتیں تھیں۔ انجینئرنگ یونیورسٹی کا بھی یہی حال تھا۔ حقوق آپ لے لیتے ہیں فرائض ادا نہیں کرتے جس میں کم سے کم دیانتداری لازم ہے وہ بھی ندارد۔
پی او سی کے بعد اسٹاپ آتا ہے ''چمروک'' اس لفظ کے معنی ہیں ''روشن آنکھیں'' اور وہاں کے ہوٹل میں کھانا کھا کر بل ادا کرتے اور دوسری اشیا خریدتے مسافروں کی آنکھیں روشن ہی نہیں ''چوڑی'' ہوجاتی ہیں۔ چمروک میں شام کے بعد مسافروں سے زیادہ خضدار میں آباد ہم جیسے پردیسیوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے جن کا رات کے کھانے کے بعد یہ واک اسٹاپ ہے خضدار میں پانی ٹھیک نہیں تھا بورنگ کا پانی تھا ہاضمہ پردیسیوں کا ٹھیک نہیں رہتا تھا واک ضروری تھی۔
خیر تو رات کھانا کھانے کے بعد سید قمر حسین مرحوم، راقم اور چند اور احباب چمروک اور سانپوں سے ملنے ''واک'' پر بی آر سی تک جاتے۔ سانپ خضدار میں بہت تھے پہاڑی علاقہ اور جنگل ہے نہ جانے کس نے یہاں یہ شہر بسادیا، رابعہ خضداری یہاں کی معروف شاعرہ تھیں، شہر پرانا ہے، لوگوں کے ذہن بھی اور سہولیات جدید۔
تو ہم نکلتے تو ہر ایک کے ہاتھ میں ٹارچ ہوتی رخ سڑک پر یا ساتھ کی جھاڑیوں پر، دن بھر شہر تپتا تھا، جوں جوں رات ہوتی ٹھنڈ بڑھ جاتی اور سانپ بلوں سے نکل آتے۔ سڑک پر بسیں ٹرک ان کو کچل کر گزر جاتے مگر ہم لوگ پھر بھی ان سے دور گزرتے کیونکہ پتا نہیں ہوتا تھا کہ سانپ زندہ ہے یا نہیں۔ سانپ بہرحال سانپ ہوتا ہے چاہے مردہ ہو ، سیاست کے میدان میں آپ اس جملے کا زیادہ لطف حاصل کرسکتے ہیں۔
قمر حسین شوگر کے مریض تھے اور ان کی شوگر کم بھی ہوجاتی تھی لہٰذا ہماری جیبیں بھی ٹافیوں گولیوں سے بھری ہوتی تھیں وہ کھاتے چوستے، سانپ دیکھتے اور بی آر سی سے واپس ہوکر چمروک کے ہوٹل میں چائے پینے اور گپ لگانے بیٹھ جاتے وہاں مسافروں میں جاننے والے بھی مل جاتے جو کوئٹہ یا کراچی جا یا آرہے ہوتے تھے۔ رات بھیگتی جاتی اور ہم لوگ آدھی رات کو چمروک لوٹتے اور سناٹا زیادہ ہوتا، ہوا کی پتوں سے گزرنے کی آواز جنگل میں جانوروں کی آوازیں، دور گاڑیوں کے گزرنے کی آوازیں اور راستے کے دونوں طرف جھاڑیوں میں سر سراہٹ اور جانوروں کی چمروک آنکھیں۔