مجھے ہر گلی کا غم ہے
عمران خان کی باتیں،اس کا عمل،اس کا اٹھنا بیٹھنا،ایسا حکمران پہلے کہاں آیا تھا۔اسی لیے یہ سب ایک سہانا خواب سا لگتا ہے۔
''پاکستان روزانہ ایک ارب روپے بطور سود ادا کر رہا ہے'' وزیر اعظم عمران خان کوئٹہ میں خطاب کر رہے تھے۔ اس بات سے حالات کی سنگینی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے، یہ اربوں کھربوں کا قرضہ دوچار دنوں کی بات تو نہیں ہے یہ قصہ تو بہت پرانا ہے۔ اس قصے کا رونا دھونا بہت ہوچکا ہے، مختصر یہ کہ پاکستان بننے سے پہلے ہی لٹیروں نے ''منصوبہ بندی'' کر لی تھی کہ نوزائیدہ ملک کوکیسے کیسے لوٹنا ہے،کیا کیا حربے استعمال کرنے ہیں۔ آج آزادی حاصل (کہنے کو) کرنے کے 72 سال بعد صورتحال یہ ہے کہ ملک کنگال ہوچکا ہے۔
عمران خان جو باتیں کر رہا ہے وہ تو کبھی کسی حکمران نے کی ہی نہیں ۔ وزیر اعظم کا صاف صاف اعلان ہے کہ '' ہر شہری ہر مرد و زن کو اپنا اپنا حصہ ڈالنا ہوگا '' عوام تو پہلے ہی نڈھال ہیں، ان پر چاروں طرف سے یلغار ہے، پھر بھی وزیر اعظم عمران خان بھوکے ننگے عوام سے کہہ رہا ہے کہ '' حوصلہ رکھو ملک لوٹنے والوں کا یوم حساب آچکا، لٹیروں کو غریب عوام کا پیسہ واپس کرنا ہوگا۔'' عوام جو مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں ملاوٹ زدہ چیزیں کھا رہے ہیں، جعلی دوائیں استعمال کر رہے ہیں، غریبوں کے معصوم بچے دودھ کے نام پر زہر پی رہے ہیں۔
عوام گندے پانیوں میں اگائی سبزیاں کھا رہے ہیں۔ گاؤں دیہاتوں میں مہلک بیماریاں پھیلی ہوئی ہیں ۔ غریب دیہاتی گندا پانی پی رہے ہیں۔ نہ ڈاکٹر ہے نہ اسپتال، غریب بغیر علاج مر رہے ہیں اورگاؤں دیہاتوں کے ''مالک'' زمیندار غریبوں کو مرتا دیکھ رہے ہیں۔ ان غیر انسانی حالات کے خاتمے کے لیے عمران خان کہتا ہے ''ہم اختیارات اور فنڈ نچلی سطح پر پہنچائیں گے تاکہ روپیہ پیسہ ڈائریکٹ غریبوں، مصیبت زدہ لوگوں کے کام آسکے۔
عمران خان کہتا ہے ''ہم گاؤں دیہاتوں میں غریبوں کو دیسی مرغیاں دیں گے، لکڑیاں دیں گے، غریبوں کو سبزیاں لگانے کے بیج دیں گے'' عمران خان نے ہی انڈوں کا بھی ذکرکیا تھا اور چور لٹیروں، ڈاکوؤں نے عمران کا مذاق اڑایا تھا۔ تم مذاق اڑاتے رہو، کیا فرق پڑتا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ اسلام آباد میں بیٹھے عمران خان کو ملک کی ہر گلی کا غم ہے، عمران اپنے سیاسی مخالفین سے کہتا ہے ۔
تمہیں فکر اپنے گھرکی،مجھے ہرگلی کا غم ہے
عمران خان کی باتیں، اس کا عمل، اس کا اٹھنا بیٹھنا، ایسا حکمران پہلے کہاں آیا تھا۔ اسی لیے یہ سب ایک سہانا خواب سا لگتا ہے۔ خدا کرے یہ سہانا خواب سچ ثابت ہوجائے، کیونکہ غریبوں نے بہت دکھ سہہ لیے، بڑے غم برداشت کرلیے، جالب کا ایک شعر یاد آرہا ہے، جالب دیوانہ بھی اچھے دنوں کی آس لگائے جیتا رہا، مرتا رہا۔
گھر دیکھ لیا اپنا زمانے کے دکھوں نے
یہ دکھ کسی بے درد کے گھر کیوں نہیں جاتے
بھلا بے دردوں کے گھر دکھ کیوں جائیں، وہاں تو ان کے تہہ خانوں سے ڈالروں کی بھری پیٹیاں نکلتی ہیں، سونے کے ڈھیر نکلتے ہیں، جعل سازی کے کاغذات نکلتے ہیں۔ دکھوں کا وہاں گزرکہاں ! خیر عنقریب غریبوں کے دن بھی پھر جائیں گے، سنتے ہیں کہ سمندر سے تیل نکلنے والا ہے، گیس کا بہت بڑا ذخیرہ بھی ہے، لٹیروں کی لوٹی ہوئی غریبوں کی دولت بھی واپس آئے گی۔ یہ سارے خواب ہیں، لگتا ہے۔ اب یہ خواب، خواب نہیں رہیں گے، ان خوابوں کی سچی تعبیریں ملنے والی ہیں۔ دنیا کے بڑے نیک نام انسان مہاتیر محمد کا پاکستان آنا اور یوم پاکستان (23 مارچ ) کی پریڈ میں بطور مہمان خصوصی شرکت کرنا ۔ مہاتیر محمد کی بیگم کا عمران خان سے ہاتھ ملانے کی خواہش کا اظہار کرنا اور ہاتھ ملانا ۔ ہم غریبوں کے لیے یہ سب سہانے خواب سے ہیں۔ اب تک ہم خوابوں کے سہارے ہی جیتے آئے ہیں۔ عبید اللہ علیم یاد آگئے ہیں۔
خواب ہی خواب کب تلک دیکھوں
کاش تجھ کو بھی اک جھلک دیکھوں
علیم بھی اچھے دنوں کے خواب دیکھتا گزرگیا۔ لیجیے انور شعور بھی آگئے ہیں۔ ان کا شعر ہے:
سڑک پہ سوئے ہوئے آدمی کو سونے دو
وہ خواب ہی میں پہنچ جائے گا بسیرے تک
عمران خان کہتا ہے ''ہم شیلٹر ہوم بنا رہے ہیں، جہاں بے ٹھکانہ لوگ رات بسر کیا کریں گے'' اور سحر انصاری کے شعر کا بھی بندوبست ہوجائے گا۔اب محفل سے اٹھ کر جانے والا ''بے گھر'' سیدھا شیلٹر ہوم جایا کرے گا، سحر انصاری کا مشہور شعر ہے:
عجیب ہوئے ہیں آداب رخصتِ محفل
کہ اٹھ کے وہ بھی چلا' جس کا گھر نہ تھا کوئی
غریبوں کا پیسہ لوٹنے والوں کے گرد شکنجہ کسا جا رہا ہے۔ غریب خوش ہیں کہ ان کے جھونپڑوں میں بھی خوشیاں ناچیں گی۔ جالب کے دو اشعار اور اجازت:
جب شباب پر آکر کھیت لہلہاتا ہے
کس کے نین روتے ہیں کون مسکراتا ہے
کس کی محنتوں کا پھل داشتائیں کھاتی ہیں
جھونپڑوں سے رونے کی کیوں صدائیں آتی ہیں