بھٹو شہید کی برسی وہ جوش اور والہانہ پن کہاں گیا

مارشل لاء کی سختیوں کے باوجود ذوالفقار علی بھٹو شہید کی برسی میں شریک عوام کا جوش و خروش دیدنی ہوا کرتا تھا


مختار احمد April 04, 2019
مارشل لاء کی سختیوں کے باوجود ذوالفقار علی بھٹو شہید کی برسی میں شریک عوام کا جوش و خروش دیدنی ہوا کرتا تھا۔ (فوٹو: فائل)

LONDON:

یہ غالبا 5 جولائی 1977 کی بات ہے کہ جب ایک فوجی آمر جنرل محمد ضیاء الحق نے اپنے ہی محسن، ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت پر شب خون مارا اور انہیں گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا۔


کتنی عجیب بات ہے کہ اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے سینئر فوجی افسران کو نظر انداز کرتے ہوئے جنرل ضیاء الحق کو چیف آف دی آرمی اسٹاف کے منصب تک پہنچایا تھا۔ تب شاید انہیں یہ علم نہیں تھا کہ انہوں نے جس شخص پر احسان کیا ہے، وہی آگے چل کر ان کے زوال کا سبب بنے گا۔ بھٹو صاحب اس جنرل سے اخلاص کے ساتھ پیش آتے رہے اور اسی طرح جنرل بھی جھک جھک کر انہیں سلام پیش کر نے کے ساتھ منتخب جمہوری حکومت کے خلاف سازش کے تانے بانے بُنتا رہا۔

بالآخر 5 جولائی1977 کو وہ موقع اس کے ہاتھ آگیا اور اس نے شب خون مار کر نہ صرف جمہوری حکومت کو ختم کردیا بلکہ اپنے محسن ذوالفقار علی بھٹو کو ان کی رہائش گاہ 70 کلفٹن سے گرفتار کروا لیا۔ اس دن کے بعد سے ذوالفقار علی بھٹو کا ایک قدم جیل کے اندر رہا تو دوسرا قدم عدالتوں میں نظر آیا؛ اور انہیں طرح طرح سے جیل کے اندر اور عدالتوں میں رسوا کیا جاتا رہا۔ مگر، اس کے باوجود، اس عظیم شخصیت کے ماتھے پر بل تک نہیں آیا اور وہ پوری ثابت قدمی کے ساتھ اپنی سچائی پر ڈٹے رہے۔ انہوں نے سر جھکانے کے بجائے سر کٹانے کو ترجیح دی۔ آخرکار اپریل کے مہینے میں جب اللہ تعالیٰ پنجاب کو دلہن کی طرح حسن سے نوازتا ہے، محنت کشوں اور دہقانوں کی محنت کی بدولت فصلیں اپنے حسن کی انتہا کو پہنچ جاتی ہیں، باغات میں نئے نئے پھول اور کونپلیں بہار کے موسم کا جھومر بنتی ہیں، پرندے نئی توانائی کے سا تھ اپنی موجودگی کا احساس دلاتے ہیں، پہاڑوں کی برف پگھل کر دریاؤں کو روانی بخشتی ہے اور دہقان اپنی فصل کاٹنے اور اپنی محنت کا ثمر پانے کے منتظر ہوتے ہیں، اس عظیم ہستی اورعظیم لیڈر ذوالفقار علی بھٹو کو اچانک ہی سزائے موت سنا دی گئی۔

یہ وہی ذوالفقار علی بھٹو تھا جسے جنرل ضیاء الحق کے حکم پر راولپنڈی ڈسٹرکٹ جیل میں قید رکھا گیا تھا اور طرح طرح کی اذیتیں دے کر اس کے حوصلے شکستہ کرنے کی کو شش کی جارہی تھی، مگر اس کے حوصلے بلند تھے جس کے باعث فوجی حکام نے انہیں اچانک 4 اپریل کو پھانسی دیئے جانے کی خبر سنائی جس پر اس باہمت انسان نے اپنے حوصلے بلند رکھتے ہوئے، اپنی بیوی نصرت بھٹو اور بیٹی بینظیر بھٹو سے آخری ملا قات کی خواہش ظاہر کی۔ بیگم نصرت بھٹو اور بینظیر بھٹو اس وقت سہالہ ریسٹ ہاؤس میں نظر بند تھیں۔ 3 اپریل کو شہید بھٹو سے ان کی ملاقات کرائی گئی جو نصف گھنٹے سے زائد جاری رہی۔ اس دوران بھی بھٹو شہید انتہائی پر عزم تھے اور وہ حوصلے کے ساتھ اپنی بیوی اور بیٹی سے اہم امور پر تبادلہ خیال کرتے رہے، بلکہ انہیں دلاسے بھی دیتے رہے۔ ملاقات کا وقت ختم ہوا، دونوں ماں بیٹی انتہائی غمزدہ انداز میں باہر آئیں مگر ذوالفقار علی بھٹو کے ماتھے پر کوئی شکن تک نہیں آئی۔

انہوں نے حسب معمول شیو اور غسل کیا، کپڑے پہنے اور پھانسی کے وقت کا انتظار کرنے لگے۔ کیونکہ بہار کے موسم میں پھانسی کا وقت صبح 4 بجے متعین ہے لہٰذا وہ عبادت میں مشغول ہوگئے۔ اچانک رات کے دو بجے سپرنٹنڈنٹ جیل چوہدری یار محمد، ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ سید مہدی، مجسٹریٹ درجہ اول بشیر احمد خان، سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس راولپنڈی جہاں زیب برکی دبے قدموں کال کوٹھری میں آئے اور انہیں پھانسی گھاٹ کی جانب لے گئے۔ اور پھر ٹھیک رات کے دو بجے میڈ یکل افسراصغر حسین کی موجودگی میں جلاد تارا مسیح نے صرف دس روپے کے معاوضے پر اس عظیم شخص کو تختہ دار پر لٹکا دیا۔ پھانسی کی خبر کو خفیہ رکھا گیا اور پھر فوجی حکام نے تدفین کی تیاریاں شروع کردیں۔ میت کو جیل میں غسل دیا گیا اور اسے تابوت میں بند کرکے ایئرفورس کے میڈیم رینج طیارے سی 130 کے ذریعے سکھر ایئرپورٹ روانہ کردیا گیا۔

پائلٹ اس بات سے بے خبر تھا کہ اس کے جہاز میں ذوالفقار علی بھٹو کی میت ہے۔ لیکن اسے جیسے ہی اس بات کا پتا چلا تو اس نے میت کو آگے لے جانے سے انکار کرتے ہوئے، جہاز کو سرگودھا میں لینڈ کرادیا جہاں سے ایک اور پائلٹ نے جہاز کو سکھر پہنچایا۔ پھر سکھر ایئرپورٹ سے اس عظیم ہیرو کی میت دو ہیلی کاپٹروں کے ذریعے (جن میں سے ایک پر فوجی حکام سوار تھے اور دوسرے پر میت تھی) گڑھی خدا بخش روانہ کی گئی جہاں فوج نے پہلے ہی غیر اعلانیہ کرفیو نافذ کر رکھا تھا۔ دونوں ہیلی کاپٹرز میت کے ہمراہ صبح سات بجے وہاں پہنچے۔ وہاں کے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بریگیڈیئر سلیم تھے جنہوں نے بھٹو خاندان کے اہم رکن مظفر علی بھٹو سے میت کی تصدیق کروا کر صرف دس منٹ میں میت کی تدفین کا حکم دیا۔

مگر چونکہ بھٹو شہید کی پھانسی اور میت آنے کی خبر گاؤں بھر میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل چکی تھی، لہٰذا لوگ تمام پابندیاں توڑ کر گھروں سے باہر نکل آئے اور انہوں نے فوجی حکام پر زور دیا کہ ہم میت کو اپنی روایت کے مطابق دفن کریں گے۔ بالآخر فوجی حکام گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوگئے جس کے باعث جسد خاکی کو زنان خانے میں لے جایا گیا جہاں شیریں امیر بیگم، مظفر علی بھٹو، مولا بخش بھٹو اور بھٹو شہید کے مینیجرعبدالقیوم خان نے میت کا آخری دیدار کیا۔ بقول عبدالقیوم خان، بھٹو شہید کی گردن پر پھانسی کے آثار کے بجائے سینے اور گردن پر زخم کے نشانات تھے۔ پھر زنان خانے میں آخری دیدار کے بعد مولانا محمود علی بھٹو نے نماز جنازہ پڑھائی اور باوجود پابندیوں کے جنازے میں لگ بھگ 1500 افراد نے شرکت کی؛ اور ٹھیک ساڑھے دس بجے دن، شہید بھٹو کو لحد میں اتار دیا گیا۔ یہ وہی دن تھا جب ذوالفقار علی بھٹو مر کر بھی زندہ ہو گیا اور کیونکہ وہ عوام کے دلوں میں زندہ تھا لہذا ہر سال لاڑکانہ کے علاقے گڑھی خدا بخش میں ان کی برسی منانے کا سلسلہ 40 سال گزرنے کے باوجود اب بھی جا ری ہے۔

یہ برسی کوئی عام برسی نہیں بلکہ ایک ایسی برسی بن چکی ہے جس میں ملک بھر سے لاکھوں مرد و خواتین شرکت کرکے اپنے قائد محترم کو خراج عقیدت پیش کرتے نظر آتے ہیں۔

مارشل لاء دور میں 4 اپریل کو منائی جانے والی ایسی ہی ایک برسی میں جانے کا اتفاق ہوا۔ غالباً یہ 1983 کی بات تھی جب ملک بھر کی طرح کراچی سے بھی کارکنان باوجود پابندیوں اور سختیوں کے ٹرینوں، گاڑیوں، ٹرکوں میں بھر بھر کر لاڑکانہ کی جانب چل پڑے۔ ہمارا قافلہ بھی بذریعہ ٹرین لاڑکا نہ جانے کےلیے جب کینٹ اسٹیشن پہنچا تو فوجیوں کی بھاری تعداد نے اپنے بو ٹوں سے ہمیں سلامی دی۔ لاتعداد کارکنان شدید زخمی ہوگئے مگر اس کے باوجود ان کی ہمت اور حوصلے میں کمی نہیں آئی اور وہ ''جیے بھٹو'' کا نعرہ مارتے ہوئے ٹرین پر سوار ہوگئے۔ کراچی سے لاڑکانہ تک ہر اسٹیشن پر کارکنان کی اسی طرح تواضع کی جاتی رہی مگر وہ پیچھے نہیں ہٹے۔

ہر اسٹیشن پر ٹرین روکے جانے اور پوچھ تاچھ، مارپیٹ کے بعد ٹرین کئی گھنٹوں کی تاخیر سے لاڑکا نہ پہنچی مگر وہاں بھی فوجیوں نے گھیرا تنگ کر رکھا تھا لہٰذا کارکنان بجائے دروازے کے دوسرے راستوں سے شہر پہنچے۔ لیکن کیونکہ وہاں بھی جگہ جگہ لوگوں کی تلاشی لینے کے ساتھ ساتھ گرفتاریاں بھی ہورہی تھیں، اس لیے ہمارے قافلے کے لوگوں نے فوری طور پر تانگے والوں سے بات چیت کی اور گڑھی خدا بخش روانہ ہوگئے۔

اس وقت گڑھی خدا بخش ایک اجڑا چمن بنا ہوا تھا۔ کھیتوں کی ہر یالی غائب تھی اور چاروں طرف سوائے خشک مٹی کے کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ بالآخر ہم لگ بھگ دوگھنٹوں میں بھٹو کے آبائی قبرستان پہنچ گئے جس کے دونوں جانب کھنڈر نما دو قدیم عمارتوں کے ساتھ میں قبرستان بھی انتہائی مخدوش حالت میں تھا۔ بھٹو صاحب کی قبر پر کوئی کتبہ نہیں تھا۔ لوگوں کو بھٹو کی قبر بتانے کےلیے ایک ٹین کا بورڈ نصب تھا جسے دیکھتے ہوئے ہم نے قبر پر حاضری دی اور پھر اس کچے قبرستان میں بھٹو خاندان کے دیگر لوگوں کی قبروں بھی حاضری دی۔

پھر جیسے ہی باہر آئے تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ باہر میلوں کے رقبے پر بنجر زمین پر شامیانوں کا ایک شہر آباد ہوچکا تھا۔ جگہ جگہ ڈھابے کی طرز پر ہوٹل قائم ہوچکے تھے اور سگریٹ بیڑی کے کھوکھوں کے علاوہ لائبریری و دیگر دکانیں کھل چکی تھیں۔ ہم نے سب سے پہلے بھٹو قبرستان کے ساتھ واقع دو کھنڈر نما بنگلوں میں سے ایک میں، جس کے صحن میں ملک بھر سے آنے والوں کے آرام کےلیے سوکھی گھاس بچھائی گئی تھی، لیٹ کر آرام کیا اور شامیانوں کے شہر کی جانب چل پڑے۔

ہر شامیانے کے اوپر کشمیر، پنجاب، بلوچستان، سرحد کے چھوٹے چھوٹے علاقوں کے بینر آویزاں تھے جنہیں دیکھ کر ہم نے وہاں لوگوں سے ملاقات کی۔ ان شامیانوں کے نیچے بھی لوگ کسی چارپائی، بستر، چادر اور تکیے کے بغیر گھاس پھوس پر لیٹ کر اس طرح آرام کر رہے تھے جیسے کہ وہ کسی مخملی گدے پر آرام کر رہے ہوں۔ لوگوں سے ملاقاتوں کا یہ سلسلہ شام تک جاری رہا اور ہمیں ہر کیمپ سے وہ محبت وہ خلوص وہ مہمان نوازی ملی جو اس دور میں ناپید ہوچکی ہے۔ ملاقاتوں میں نہ جانے کب شام ہوگئی۔ کھنڈر نما ایک بنگلے میں گھاس پھوس پر بٹھاکر لوگوں کو مصالحے دار چاول کا لنگر کھلایا جانے لگا۔ گو کہ اس کا ذائقہ اتنا اچھا نہیں تھا مگر لوگ اس طرح کھارہے تھے جیسے اللہ تعالیٰ نے ان کےلیے کوئی من و سلوی اتارا ہو۔

کھانے کا سلسلہ ختم ہوا اور پھر کھنڈر نما دوسرے گھر میں مشاعرہ شروع ہو گیا جہاں ملک بھر سے آئے ہوئے شعرائے کرام اپنا کلام سناتے رہے۔ مشاعرے کے دوران ہی بھٹو کے آبائی گاؤں کے غریب ترین بچے، جن کے جسموں پر کپڑے بھی نہیں تھے، کالی کالی گندی کیتلیوں میں قہوہ بیچتے نظر آئے۔ مگر پھر بھی برسی کے شرکاء یہ قہوہ خرید کرپی رہے تھے جبکہ اکثر لوگ ایک روپے کے ملنے والے اس قہوے کو مٹی میں انڈیل کر ان بچوں کو پیسے دے رہے تھے۔ ان لوگوں کا کہنا تھا کہ غربت کے مارے یہ بچے پورے سال 4اپریل کا صرف اس لیے انتظار کرتے ہیں کہ ملک بھر سے لوگ آئیں اور ان سے قہوہ خریدیں تاکہ اپنے گھروں کے چولہوں کو پورے سال نہیں تو کچھ روز کےلیے روشن کرسکیں۔

مشاعرہ ابھی جاری تھا۔ کچھ اسے سنتے سنتے سوگئے جبکہ اکثریت رات بھر مشاعرے اور قوالی کو سنتے رہی۔ پھر صبح کی سپیدی نمودار ہوئی تو مزار پر قرآن خوانی شروع ہوئی جس میں 600 سے زائد قرآن ختم ہوئے۔ اس کے علاوہ فاتحہ خوانی اور پھولوں کی چادر چڑھانے والوں کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوگیا۔ مزار پر تل دھر نے کی گنجائش نہیں تھی مگر اس باوجود ملک کے دور دراز علاقوں سے آئے ہوئے لوگ ایک دوسرے پر چڑھتے ہوئے مزار کے اندر داخل ہوتے رہے۔

اس زمانے میں جلسہ صبح کے اوقات میں ہوا کرتا تھا جس سے ملک بھر سے آئے ہوئے مرکزی قائدین خطاب کیا کرتے تھے اور پھر جلسے کے اختتام پر لوگوں کی واپسی کا سلسلہ شروع ہوجا تا تھا جو کئی روز تک جاری رہتا تھا۔ اس زمانے میں آج کی طرح نہ تو کوئی عالیشان مقبرہ تھا اور نہ ہی کوئی ہوٹل اور موٹل کی سہولت تھی۔ ٹرانسپورٹ کے طور پر آج کی طرح فراٹے بھرتی گاڑیاں بھی موجود نہیں تھیں بلکہ لوگ لاڑکا نہ سے گڑھی خدا بخش کا سفر یا تو تانگوں میں یا پھر پیدل طے کیا کر تے تھے۔ اس سب کے باوجود، لوگوں کا اپنے قائد سے لگاوٹ اور محبت کے ساتھ ساتھ ان کے نظریات سے گہری وابستگی دیکھنے کو ملتی تھی۔

آج پیپلز پارٹی کے کئی بار اقتدار میں آنے اور سندھ کے اندر مسلسل 10 سال سے اقتدار میں رہنے، گڑھی خدا بخش کے کچے قبرستان کی جگہ عالیشان مقبرے، عالیشان ہوٹلز، موٹلز، ریسٹورنٹ اور چمکیلی گاڑیاں ہونے کے باوجود نہ تو لوگوں کی پہلے کی طرح سال میں برسی میں شر کت کا جنون اور نہ ہی نظریات دکھائی دیتے ہیں؛ حالانکہ بھٹو خاندان کے اس آبائی قبرستان میں ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ ساتھ ان کی زوجہ محترمہ بیگم نصرت بھٹو، ان کی صاحبزادی محترمہ بینظیر بھٹو، ان کے صاحبزادے میر مرتضی بھٹو اور شاہنواز بھٹو شہید بھی مدفون ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں