جنرل کیانی کا مختصر اور جامع خطاب بھارتی ہم منصب کے برعکس دانشمندانہ اظہار خیال

آرمی چیف نے اپنے خطاب میں تازہ حالات اورنئے حکمرانوں کی موجودگی میں جو ضروری بات کہنا چاہیے تھی، پورے اعتماد سے کہہ دی


Tanveer Qaisar Shahid August 14, 2013
آرمی چیف نے اپنے خطاب میں تازہ حالات اورنئے حکمرانوں کی موجودگی میں جو ضروری بات کہنا چاہیے تھی،پورے اعتماد سے کہہ دی۔ فوٹو: فائل

ABBOTTABAD: یوم آزادی کے موقع پر چیف آف آرمی سٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے کاکول اکیڈمی میں قومی زبان میں خطاب کرکے ایک دفعہ پھر شاندار اور قابلِ تقلید مثال قائم کی ہے لیکن افسوس کہ اُن سے قبل اسٹیج سیکریٹری نے مسلسل غیر ملکی زبان کا استعمال کیا، جنرل کیانی کا یہ خطاب گزشتہ سال کی تقریرکے مقابل مختصر تھا۔

زیادہ سے زیادہ سات منٹ کو محیط لیکن اِس اختصار میں ابلاغ مکمل تھا۔ انہیں تازہ حالات اور نئے حکمرانوں کی موجودگی میں جو ضروری بات کہنا چاہیے تھی،پورے اعتماد کے ساتھ کہہ دی اور کوئی لفظ یا جملہ متنازعہ اورقابلِ تشریح نہ بن سکا۔ عوام انتظار کررہے تھے کہ ایل او سی کی صورت حال ،تازہ بھارتی کہہ مکرنیوں اور بھارتی سیاستدانوں اور بھارتی چیف آف آرمی اسٹاف جنرل بکرم سنگھ کی پاکستان کے خلاف نہایت غیر محتاط زبان اور بیانات کے پس منظر میں جنرل کیانی بھی کوئی جوابی بیان دیں گے لیکن سُننے والے منتظر عوام اور غیر ملکیوں کی توقعات پوری نہ ہوسکیں۔انھوں نے جہاں شاندار ،سہل اور غیر متنازع الفاظ کا چناؤ کرکے دانش مندی کا مظاہرہ کیا ہے،وہیں اُن کی ہمیشہ سے محتاط پیشہ وارانہ زندگی کا بھی پھر اظہار ہوا ہے۔

گزشتہ برس کی طرح اس بار بھی جنرل کیانی نے دہشت گردی کے جلد خاتمے کی جدوجہد کا ذکرتے ہوئے اِس عفریت کے خلاف پوری قوم اور سبھی اداروں کو یکجا،یکجہت اور یکسُو ہونے کی اپیل کی ہے تاکہ اِس خونریز جنگ کے خلاف کسی کے دل میں کوئی ابہام باقی نہ رہے۔ گزشتہ سال بھی تیرہ اور چودہ اگست کی درمیانی شب چیف آف آرمی اسٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے پی ایم اے کاکول اکیڈمی سے خطاب کرتے ہوئے افواجِ پاکستان، عوام اور پاکستان میں بروئے کار شدت پسندوں کو کھلے اور غیر مبہم الفاظ میں پیغامات دیے اور یہ بھی کہا تھا کہ انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف ہماری کھلی جنگ ہے۔ جنرل کیانی نے کہا تھا ''پاکستان اسلام کے نام پر بنا اور دنیا کی کوئی طاقت اسلام کو پاکستان سے نہیں نکال سکتی، اسلام اور پاکستان لازم وملزوم ہیں''۔

یہی دراصل نظریہ پاکستان بھی ہے جس کی کھلے بندوں جنرل کیانی نے حمایت بھی کی اور تبلیغ بھی اوریہ بھی سُننے والوں پر واضح کردیا تھا کہ سیکولرازم کا وطن عزیز میں کبھی کوئی عمل دخل نہیں ہوسکے گا۔ پچھلے سال بھی دہشت گردوں اور انتہا پسندوں نے ملک میں غدر، قتل وغارت گری اور خودکش حملوں کا بازار گرم کر رکھا تھا اور یہ سلسلہ ایک سال گزرنے کے باوجود ہنوز جاری ہے انتہا پسندوں کے خلاف فوج پچھلے سال بھی ثابت قدمی سے کردار اداکررہی تھی اور اب بھی کررہی ہے۔البتہ یہ سوال اب بھی پوچھا جارہا ہے کہ پچھلی اور موجودہ منتخب حکومتیں دہشت گردوں کی ناک میں نکیل کیوں نہ ڈال سکیں؟ پچھلے سال یومِ آزادی پرجنرل کیانی نے انتہا پسندوں کے خاتمے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا:''کوئی بھی شخص اگر یہ سمجھتا ہے کہ اُس کی رائے ہی آخری رائے ہے تو وہ ایک انتہا پسند ہے،اِس لئے کہ عقلِ کل اللہ تعالیٰ ہے اور انسان فانی اور اس کی عقل محدود ہے۔

اگر کوئی اپنی ناقص اور نامکمل رائے بندوق کا سہارا لے کر تھوپنے کی کوشش کرتا ہے تو یہ دہشت گردی ہے اور اس کے خلاف ہماری جنگ ہے۔اس لیے ہمارے ذہن اِس طرف صاف ہونے چاہئیں۔ کوئی بھی ریاست ایک متوازی نظام اور متوازی عسکری قوت کی متحمل نہیں ہوسکتی۔''جنرل کیانی نے کل بھی درست بات کہی تھی اور آج بھی درست بات کررہے ہیں لیکن شومئی قسمت سے پاکستان میں بعض عناصر دہشت گردی اور دہشت گردوں کے خلاف نہ خود ذہن صاف رکھتے ہیں اور نہ ہی دوسروں کو کلیئر کرنے کا موقع فراہم کررہے ہیں۔ ٹی وی اور اخبارات میں اُن کے منفی پروپیگنڈے کی وجہ سے اب بھی کئی لوگ دہشت گردی کے خلاف جنگ کو ''پرائی جنگ'' قراردے کر کنفیوژن پیدا کررہے ہیں، مثال کے طور پر تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے بیانات اور تقاریر۔ اِس''مہم ''میں کئی دیگر سیاستدان بھی شامل ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں