نام تبدیل کرنے کی سیاست

ہمارے کئی علاقوں کے نام تبدیل کر دیے گئے ہیں جنھیں عوام نے مسترد کردیا ہوا ہے۔


[email protected]

مہنگائی، معیشت اور عوامی مسائل سے ہٹ کر آج ایک اور موضوع پر گرماگرم بحث جاری ہے۔ اور یہ موضوع کوئی اور نہیں بلکہ ''بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام (BISP)''کے نام کی تبدیلی ہے۔

حکومتی وزراء اور اُس کے بعض اتحادیوں کا یہ عذر ہے کہ سندھ میں انھیں ووٹ اس لیے نہیں ملتا کہ سادہ لوح عوام یہ سمجھتے ہیں کہ انھیں بی بی شہید کے ورثاء اپنی جیب سے ہر ماہ رقم ادا کرتے ہیں، جب کہ اس کے برعکس اپوزیشن کا کہنا ہے کہ حکومت نان ایشوز کو ''ایشو'' بنا کر اصل مسائل سے توجہ ہٹانا چاہ رہی ہے، حکومت بی بی کے نام کو ختم نہیں کر سکتی!اس معاملے میں شاہ محمود قریشی اور چوہدری فواد حسین کے بیانات میں بھی ہیں لیکن دونوں میں فرق ہے۔ بلا شبہ اس پروگرام سے غریب خاندانوں کو مالی فائدہ ہواہے۔ ورلڈ بینک نے بھی پروگرام کو سراہا ہے اورکہا ہے کہ اس سے ایک بڑی تعداد کو اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کا موقع ملاہے۔

BISPپروگرام 2007ء میں بی بی کی شہادت کے بعد پیپلزپارٹی کے دورحکومت میں شروع کیا گیا۔ آج اس پروگرام سے 60لاکھ کے قریب خواتین مستفید ہو رہی ہیں۔ جنھیں ماہانہ 2000روپے کے لگ بھگ رقم ملتی ہے۔ یہ پروگرام وفاق کے زیر اہتمام چاروں صوبوں میں جاری ہے جب اس منصوبے کو شروع کیا گیا تھا، اُس وقت ہر پارلیمنٹرین کو 8،8 ہزار فارم دیے گئے جنھیں اپنے اپنے حلقوں میں غریب خاندانوں کا تعین کرنا تھا۔ اس پروگرام میں یہ بات بھی سامنے آتی رہی کہ من پسند لوگوں کو بھی فارم دیے گئے تاہم یہ پروگرام کامیابی سے جاری رہا۔

اب اگر یہ بحث چل ہی نکلی ہے کہ پروگرام کا نام تبدیل کر دیا جائے جس سے شاید حکومت یا جی ڈی اے کو فائدہ پہنچے گا توتاریخ گواہ ہے کہ ''مخصوص نام'' بدلنے کی روایت کو ہمیشہ عوام نے مسترد کیا ہے۔ ویسے بھی یہ فنڈ بین الاقوامی سطح پر اپنی ایک شناخت قائم کر چکا ہے، جس کی غرض سے 27فیصد فنڈ ہم بیرون ممالک سے وصول کرتے ہیں۔ ماضی میں روانڈاجیسے افریقی ملک میں وہاں کے صدر Grégoire Kayibanda کی خدمات کے عوض قحط زدہ افراد کے لیے فنڈ قائم کیا گیا، بعد میں اپوزیشن جب اقتدار میں آئی تو انھوں نے اس فنڈ کا نام تبدیل کرکے ''نیشنل فنڈ'' رکھا تو دنیا کی نہ صرف دلچسپی ختم ہوگئی بلکہ آہستہ آہستہ یہ فنڈ بھی ختم کردیاگیا۔

اسی طرح ہمارے اندر ایک تعصب یہ بھی ہوتا ہے کہ اُن جگہوں کے نام بدل دیے جائیں جن کا تعلق ہمارے مذہب یا کلچر سے نہیں ہوتا، میرے خیال میں یہ بھی بھونڈی حرکت کے سوا کچھ نہیں ہے۔ نواز شریف کے دوسرے دور حکومت میں اُن کے پاس لاہور کے میو اسپتال کو تبدیل کرنے کی تجویز آئی انھوں نے اسے مسترد کردیا اور کہا کہ تاریخی ناموں کی ہمیشہ ایک اہمیت ہوا کرتی تھی۔ اُن کے اس فیصلے کو مخالفین نے بھی سراہا۔

ہمارے کئی علاقوں کے نام تبدیل کر دیے گئے ہیں جنھیں عوام نے مسترد کردیا ہوا ہے۔ جیسا کرشن نگر کا نام اسلام نگر رکھ دیا گیا۔ جیسے لائل پور کا نام تبدیل کر کے فیصل آباد کر دیا گیا۔اگر لائل پور نو آبادیاتی دور کی یاد تھا تو نیا نام مفاد پرستی کی یاد گار کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔لائل پور کا سنگِ بنیاد تو سر جیمز لائل نے اٹھارہ سو اسی میں رکھا تھا۔کیا کبھی شاہ فیصل لائل پور بھی تشریف لائے؟ اگر انھیں خوش بھی کرنا تھا تو نیا شہر بسا لیا جاتا،ویسے بھی سعودی عرب نے بدلے میں اپنے کسی شہر کا نام الجناح یا بلد الضیا رکھا ؟ لاہور کے لکشمی چوک کا نام بدل دیا گیا لیکن کسی کو پتہ نہیں ہے۔

عجیب بات یہ ہے کہ ٹوبہ ٹیک سنگھ کو دارالسلام ٹوبہ، ابیٹ آباد کو رحمت آباد اور ہری پور کو سبز پور لکھا جا رہا ہے۔ایسے اور بھی شہر ہیں جن کے نام اپنے طور پر تبدیل کیے جا رہے ہیں جس کا نوٹس لینے والا کوئی نہیں ہے۔سلام ہے جیکب آباد کے شہریوں پر،جب ضیا دور میں ان کے شہر کی شناخت تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی تو نہ صرف بلدیہ کے ارکان بلکہ عام شہریوں نے بھی احتجاج کر کے یہ کوشش ناکام بنا دی۔ اس سوچ کے پیچھے کیا مقصد ہے ؟ اگراحساسِ برتری جتانا ہے تو آپ کسے جتانا چاہ رہے ہیں۔خود کو یا دنیا کو ؟ اگر یہ احساسِ کمتری ہے تو پہلے نام بدلنے کے بجائے اپنے ہیروز کے نام پر نئے شہر ، قصبے ، اسپتال ، اسکول، پارک بسا کر بھی دور کیا جا سکتا ہے۔اگر کوشش ہے یہ ثابت کرنے کی کہ ہمارا بحیثیت پاکستانی اور مسلمان برِ صغیر کی پرانی تاریخ ، ثقافت اور رہن سہن سے کوئی رشتہ نہیں تو یہ کوئی دلیل والی بات نہیں ہے۔

ہرچند بشن داس دس برس بلدیہ کراچی کے چیئرمین رہے اور انھی کے دور میں کراچی میں بجلی آئی۔ ان کی خدمات کے اعتراف میں کراچی کی ایک شاہراہ کا نام ہر چند بشن داس روڈ رکھا گیا۔مگر تقسیم کے بعد اس کا نام بلدیہ کراچی کے ایک افسر کے نام سے بدل دیا گیا۔ رام باغ آرام باغ ہو گیا۔ برنس روڈ کا نام شاہراہِ لیاقت ہوگیا، میر پور خاص کی سندھڑی روڈ سر سید روڈ ہو گئی۔ حیدرآباد میں گرلز ہائی اسکول تو بنایا کندن مل نے اور نام اس کا بدل کے رکھ دیا گیا جامعہ عربیہ ہائی اسکول۔ بہاولپور کے فرید گیٹ کے اندر ایک گلی کے نکڑ پر لکھا تھا '' گندی گلی''۔ دیکھنے میں خاصی صاف ستھری تھی۔اس کا پس منظر یہ ہے کہ اس کا نام تو گاندھی گلی تھا مگر اب اسے گندی گلی کہتے ہیں۔

آپ انڈیا چلے جائیں، ابھی گزشتہ ہفتے شمالی بھارتی ریاست اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ نے الہ آباد شہر کا نام بدل کر 'پریاگ راج' اور فیض آباد کا نام بدل کر ایودھیہ رکھنے کا اعلان کر دیا۔ بھارتی ریاست گجرات میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت اس بارے میں غور کر رہی ہے کہ احمد آباد کا نام بدل کر 'کارن وتی' رکھ دیا جائے۔ یہی نہیں بلکہ جنوبی ریاست تلنگانہ میں وزیر اعظم نریندر مودی کی جماعت ہی سے تعلق رکھنے والے ایک رکن پارلیمان راجہ سنگھ نے بھی حال ہی میں یہ تجویز پیش کر دی تھی کہ ریاستی دارالحکومت حیدر آباد کا نام بدل کر بھاگیا نگر رکھ دیا جائے۔

جیسے تین برس قبل نئی دلی کی مشہور اورنگ زیب روڈ کا نام تبدیل کر کے اے پی جے عبدالکلام روڈ رکھ دیا گیا۔جلال الدین اکبر روڈ کا نام مہارانا پرتاپ سنگھ کے نام سے بدلنے کے لیے بھارتی بری فوج کے سابق سربراہ جنرل وی کے سنگھ بطور وزیر خاصے سرگرم ہیں۔تاج محل کے بارے میں بھی بحث چھیڑ دی گئی ہے کہ یہ شیو مندر کے اوپر تعمیر کیا گیا لہٰذا اس کا نام بھی شیو محل رکھا جائے۔ حیرت یہ ہے کہ وہاں بھی ہندؤوں نے اسے یکسر مسترد کر دیا ہے۔ تاریخ کو ایسے حربوں سے بدلنا اگلی نسلوں کے تاریخی شعور کو آلودہ کرنے اور ان کو سونپی جانے والی امانت میں خیانت کے برابر ہے۔

بہرکیف نام تبدیل کرنا ایک بری روایت ہوتی ہے، 90فیصد نام پرانے ہی استعمال کرنے کو عوام ترجیح دیتے ہیں۔ بے نظیر شہید قوم کی ہیرو ہیں، وہ بیرون ملک میں پاکستان کے لیے جمہوریت کی علامت سمجھی جاتی ہیں۔لہٰذااُن کا نام رہنا چاہیے اور ویسے بھی یہ فنڈ غریبوں کے لیے ہے، ہاں اگر کہیں کوئی کرپشن نظر آرہی ہے تو اسے دور کیا جائے نہ کہ نام کے حوالے سے ہم ''مودی اسٹائل '' کو اپنا لیں۔ جب کہ اس کے برعکس عوام عمران خان کو کشادہ دل،اعلیٰ ظرف اور مثبت ذہن کا حامل لیڈر سمجھتے ہیں۔

اس لیے اُن سے ایسے کسی اقدامات کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ آخر میں دنیا بھر میں غریبوں کے لیے کام کرنے والے کین آئزیکس کا تجربہ بتاتا چلوں کہ کین آئزکس عراق،ایتھوپیا، ایریٹریا، جنوبی سوڈان، ہیٹی، کوسووو، افغانستان،پاکستان، فلپائن اور دوسرے بہت سے ممالک میں امدادی کاموں کی رہنمائی کر چکے ہیں۔ وہ 2004 اور 2005 میں امریکی ادارے برائے عالمی ترقی میں بیرون ملک سانحات میں معاونت کے شعبے کے سربراہ بھی رہ چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس دوران انھوں نے بعض انتہائی پیچیدہ انسانی مسائل کو حل کرنے کی خاطر بعض عظیم لوگوں، حکومتوں اور طبقوں کے ساتھ کام کیا۔اور وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ جن لوگوں نے واقعی کام کرنا ہے انھیں نام اور شہرت کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی...لہٰذانام تبدیل کرنے کی سیاست سے اجتناب ہی بہتر ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں