معجزۂ معراج کا فکری اور اصلاحی پہلو

معراج سے یہ سبق ملتا ہے کہ انسان جیتے جی آخرت کی دل میں فکر رکھے۔


[email protected]

عقلیت زدہ، مغرب پرست ذہن عموماً اور منکرین حدیث خصوصاً فرضیت نمازکی متفق علیہ روایت کی درایت پر شک اور بک بک کرتے ہیں اورکہتے ہیں کہ یہ بھی کوئی بات ہوئی کہ بولی لگی پچاس کی اور آکر رکی پانچ پر۔ یہ اتار چڑھاؤکا بہاؤ، یہ عبد کی طرف سے معبود پر بھاؤ تاؤکا بار بار دباؤ۔ چہ معنی دارد۔ یہ عقل کے غلام شری، بکی، شکی لوگ کہتے ہیں کہ اس میں تو اللہ کی سبکی ہوئی کہ جو اس نے چاہا وہ نہ ہوا، وہ ہوا جو بندے نے چاہا۔ اس چک چک، بک بک کا سبب جہل خرد ہے۔

ورنہ حق بات یہ ہے کہ دوران معراج اللہ کی طرف سے محبوبؐ کی التجا اور درخواست پر حکم نماز میں بار بار تخفیف اور بتدریج کمی کرنے سے یہ بتانا سمجھانا اور دکھانا مقصود و مطلوب تھا کہ اسی طرح آخرت میں بھی امت کے حق میں اپنے محبوبؐ کی بار بار شفاعت کی منظوری، امر یقینی اور دلیل بینی ہے۔

خالق عالم نے سرور عالم کو عالم اسفل سے عالم بالا پر بلاکر اپنے محبوبؐ کو مقام محمود پر فائز کرنے کے وعدے پر اور مثال تخفیف صلوٰۃ سے آپؐ کی آخرت میں حق شفاعت پر مہر تصدیق ثبت کردی۔دین سے بدظن، شوق پرواز میں مہجور نشیمن منکرین کا اٹھایا ہوا دوسرا یہ سوال کہ دوران معراج آپؐ کو بعض لوگوں کی جزا و سزا کا معائنہ اور مشاہدہ کیسے کرا دیا گیا جب کہ ہنوز قیامت دور است۔یہ اعتراض بھی بے وزن ہے کیونکہ جو مشاہدات آپؐ کی نظروں سے گزرے وہ دراصل عالم آخرت میں متوقع مکافات عمل کے پس منظر کا لباس تمثیل میں پیش منظر تھا۔معراج کے موقع پر جن نیک اور بداعمال کی جزا و سزا کا آپؐ کو پیشگی مشاہدہ و معائنہ کرایا گیا اس کی قدرے تفصیل یہ ہے۔

٭ایک کھیت ہے جس کے سینے پر ہری بھری موتی جڑی کھیتی کھڑی ہے۔ کچھ لوگ شاداں و فرحاں فصل کی کٹائی پر نازاں ہیں۔ عقل اس بات پر سرگرداں ہے کہ جوں جوں کھیتی کٹتی ہے توں توں اور بڑھتی ہے۔ یہ تمثیل تھی۔ ان لوگوں کی جو راہ خدا میں جذبۂ عشق و مستی میں خوب سے خوب تر کی تلاش میں ہر دم جوان رواں دواں رہتے ہیں۔

٭کچھ لوگوں کے سروں کو پتھروں سے کوٹا اور کچلا جا رہا ہے۔یہ تمثیل تھی ان لوگوں کی جن کی عقل پر پتھر پڑے ہوئے ہیں۔ جن کے سروں میں خناس سمایا ہوا ہے۔ جس کے سبب یہ لوگ رب الناس کے آگے بہ مشکل نماز سرِ تسلیم خم نہیں کرتے۔ ٭ کچھ لوگ میلے کچیلے پھٹے پرانے جگہ جگہ پیوند لگے کپڑے پہنے ہوئے ہیں اور جانوروں کی طرح گھاس کھا رہے ہیں۔یہ تمثیل تھی ان لوگوں کی جو زکوٰۃ کا مال کھا جاتے ہیں۔

٭ ایک شخص لکڑیاں چن چن کرگٹھا بناکر اٹھانے کی کوشش کر رہا ہے لیکن وزن اٹھا نہیں پاتا۔ مزید حماقت یہ کر رہا ہے کہ وزن ہلکا کرنے کی بجائے گٹھے میں اور لکڑیاں شامل کرتا جا رہا ہے۔ یہ تمثیل تھی ذمے داری کے احساس سے عاری شخص کی جس کے سر پر پہلے ہی ذمے داریوں کا کافی وزن ہے اس کو تو ہلکا کر نہیں پاتا اور مزید ذمے داریاں اپنے سر مول لینے کو تیار رہتا ہے۔

٭کچھ لوگ ہیں جن کے ہونٹوں اور زبانوں کو قینچی سے کاٹا جا رہا ہے۔ یہ تمثیل تھی فتنہ پرور مقرر، واعظ، خطیب حضرات کی جن کی سحرالبیان زبان سے الفاظ کی صورت میں نفرت کے شعلے نکلتے ہیں۔ جن کے برسنے سے فسادات کی آگ بھڑک اٹھتی ہے۔

٭ ایک پتھر میں چھوٹا سا شگاف پڑتا ہے جس میں سے دیکھتے ہی دیکھتے موٹا سا بیل نکلتا ہے پھر وہ بیل اسی شگاف میں واپس جانے کی کوشش کرتا ہے لیکن جا نہیں پاتا۔ یہ تمثیل تھی اس شخص کی جو تفریح طبع کی خاطر کسی بات کو معمولی سمجھ کر بک دیتا ہے۔ لیکن جب وہ رائی برابر بات برائی کا پہاڑ بنتی صورتحال قابو سے باہر ہوتی نظر آتی ہے تو گھبراتا اور عرق ندامت بہاتا ہے۔ بگاڑ سے بناؤ کی طرف واپسی کی کوشش کرتا ہے لیکن کامیاب نہیں ہوتا۔

٭ کچھ لوگ ہیں جو اپنا ہی گوشت کاٹ کاٹ کر کھا رہے ہیں۔ یہ تمثیل تھی ان لوگوں کی جن کی زبانیں دوسروں پر لعن طعن کرنے سے تھکتی نہیں۔ ٭انھی لوگوں کے آس پاس دوسرے لوگ ہیں جن کے ناخن تانبے کے بنے ہوئے ہیں جن سے وہ اپنے منہ اور سینہ بری طرح کھرچے اور نوچے دے رہے ہیں اور لہو لہان ہو رہے ہیں۔ یہ تمثیل تھی ان لوگوں کی جن کی عادت، خصلت اور سیرت یہ بن گئی ہے کہ جب تک وہ کسی کی غیبت نہ کریں اور کسی پر تہمت نہ لگائیں ان کو چین نہیں آتا۔

٭کچھ لوگ ہیں جن کے ہونٹ اونٹوں کے مشابہ چوڑے چکلے، موٹے بھدے ہیں اور وہ آگ کھا رہے ہیں۔یہ تمثیل تھی ان لوگوں کی جن کا من بھاتا کھاجا یتیموں کا مال کھا جانا ہے۔ ٭کچھ لوگ راستے میں پڑے ہوئے ہیں ان کی خوب بڑی سی توند نکلی ہوئی ہے جس میں سانپ بھرے ہوئے ہیں راہ گیر یکے بعد دیگرے ان پر سے گزر رہے ہیں لیکن ان میں اپنی جگہ سے ہلنے جلنے، ہٹنے اٹھنے کی ذرا سی بھی سکت نہیں۔یہ تمثیل تھی ان لوگوں کی جنھوں نے سود کو ذریعہ معاش بنایا ہوا ہے۔٭کچھ لوگ ہیں جن کی ایک طرف صاف ستھرا تر و تازہ گوشت رکھا ہے اور دوسری طرف گلا سڑا بدبودار۔ لیکن یہ دیکھ کر عقل کی حیرانی نہیں جاتی کہ وہ لوگ اچھا گوشت چھوڑ کر گلا سڑا گوشت کھا رہے ہیں۔ یہ تمثیل تھی ان زانی اور زانیہ مردوں اور عورتوں کی جو اپنی بیویوں اور شوہروں کو چھوڑ کر غیروں سے جنسی پیاس بجھاتے ہیں۔

٭کچھ عورتیں ہیں جو اپنے پستانوں کے بل لٹک رہی ہیں۔ یہ تمثیل تھی ان بے حیا بے شرم بیویوں کی جو اپنے شوہروں کو جُل دے کر غیروں کے نطفوں کی کفالت کا بار اپنے شوہروں کے کاندھوں پر ڈال دیتی ہیں۔

٭یہ تھیں تمثیلات کی صورت میں مکافات عمل کی چند جھلکیاں۔ جس طرح جز سے کل کا پتا چلتا ہے۔ چند دانوں کو دیکھ کر کل دیگ کی حالت معلوم ہوجاتی ہے۔ علی ہٰذالقیاس، جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہوگی وہ بھی آخرت میں دیکھ لے گا اور جس نے ذرہ برابر برائی کی ہوگی وہ بھی دیکھ لے گا۔ یہی معراج کا پیغام ہے۔

خرد اگر دل کی نگاہ سے دیکھے تو معراج کے آئینے میں کئی حقائق کا علم الیقین، عین الیقین اور حق الیقین کی طرح واضح، صاف اور روشن نظر آتا ہے۔ واقعہ معراج آخری نبیؐ کی عینی شہادت کے ساتھ اتمام حجت کا آخری موقعہ تھا تاکہ لوگ ناحق پکڑے جانے کا عذر پیش نہ کرسکیں۔ یہ بتانا اور سمجھانا مقصود و مطلوب تھا کہ اللہ کی قدرت، جنت دوزخ، عدالت بعداز قیامت، مکافات عمل، عظمت النبیؐ، شفاعت النبیؐ، حقیقت نفس الامری ہیں۔

معراج سے یہ سبق ملتا ہے کہ انسان جیتے جی آخرت کی دل میں فکر رکھے تاکہ کل ان لوگوں کی طرح بے کل نہ ہو جن کی سزاؤں کا پیشگی مشاہدہ رسول اللہؐ کو کرایا گیا۔اہل ایمان کے قلوب و اذہان، عالم بالا کا آنکھوں دیکھا حال، مخبر صادق کی زبان سے سن کر یقین و ایقان، اطمینان و ادغان سے بھر جاتے ہیں۔ واقعی واقعہ معراج میں دل بینا کے لیے پھول میں خوشبو کی طرح فکر آخرت اور اصلاح احوال و اعمال کا ایمان افروز اور سبق آموز پہلو نہاں ہے لیکن جو نبی صادق و امین کی عینی شہادت پر بھی یقین نہ کرے ایسے بے اعتبارے، عقل کے مارے، بولہبی پروانے کو اور کس حوالے سے اللہ کی قدرت، زندگی کی حقیقت اور آخرت کی کیفیت سمجھائی جائے۔ رسول برحقؐ کی چشم دید گواہی سے بڑھ کر اور کون سی وزنی دلیل لائی جائے۔ بقول اقبال:

پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر

مردِ ناداں پرکلامِ نرم و نازک بے اثر

ایسے وہمی، ضدی، جھکی، اندھے، گونگے بہرے۔ دہریے سے بحث و تکرار میں الجھنے کی بجائے، سلام کرتے ہوئے اور یہ کہتے ہوئے گزر جانا بہتر ہے:

کَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُونَOثُمَّہ کَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُونَO

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں