ایک سفر باب الاسلام کے تاریخی مقامات کا ساتویں قسط

اس شہر نے ہر اس آدمی کو بھی خود میں بسایا ہے جس کو اس کے خاندان والوں نے بھی نہ اپنایا

صدر میں آپ کو دنیا کی ہر چیز مل سکتی ہے، بس آپ میں اس چیز کو خریدنے کی سکت ہو۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

میں بابائے قوم کے مزار سے نکل کر پیدل صدر کی جانب روانہ ہوا۔ صدر کا شمار پاکستان کے بہترین اور پرانے بازاروں میں ہوتا ہے۔ صدر کو کراچی کا دل بھی کہا جاتا ہے۔ اس دل کی وجہ سے صدر کا بازار دنیا کے سستے ترین بازاروں میں شمار ہوتا ہے۔ اگر آپ کے پاس دو سو روپے ہیں تو آپ صدر میں کھانا بھی کھا سکتے ہیں اور کپڑا بھی خرید سکتے ہیں۔ صدر میں آپ کو دنیا کی ہر چیز مل سکتی ہے، بس آپ میں اس چیز کو خریدنے کی سکت ہو۔ اتور کا دن تھا، بازار کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ میں تنہا بازار میں گھوم رہا تھا اور آگے چلا جارہا تھا۔ کہیں گھڑی ساز بیٹھے تھے تو کہیں جوتے ساز، کہیں اسپیکر پر یہ سننے کو مل رہا تھا کہ 'سو روپے میں اپنی قسمت بدل لو!'


آگے بڑھنے سے پہلے یہ بلاگز بھی ضرور پڑھیے:

ایک سفر باب الاسلام کے تاریخی مقامات کا (پہلی قسط)


ایک سفر باب اسلام کے تاریخی مقامات کا (دوسری قسط)


ایک سفر باب الاسلام کے تاریخی مقامات کا (تیسرا حصہ)


ایک سفر باب اسلام کے تاریخی مقامات کا (چوتھی قسط)


ایک سفر باب الاسلام کے تاریخی مقامات کا (پانچویں قسط)


ایک سفر باب الاسلام کے تاریخی مقامات کا (چھٹی قسط)


یہاں انسانوں کا جم غفیر موجود تھا، کسی کو کوئی بھی نہیں جانتا تھا، ہر شخص اپنے اپنے کام میں مصروف تھا۔ دکانداروں کی آوازیں گونج رہی تھیں۔ ٹی وی لے لو، کیمرہ لے لو، گھڑی لے لو۔ اس وقت ہم باب الاسلام سندھ کے سب سے بڑے شہر کراچی کے صدر میں موجود تھے، جہاں دن کا سورج اور چاند کی روشنی صرف اور صرف کام اور کام کا سبق دیتے ہیں۔

کراچی وہ شہر ہے جس نے عبدالستار ایدھی کو اپنی آغوش میں پناہ دی، بڑا کیا اور دنیا میں پاکستان کا نام روشن کروایا۔ یہ وہ شہر ہے جہاں کی سڑکوں پر عبدالستار ایدھی کی ہزاروں ایمبولینسیں صبح سے شام تک دوڑتی رہتی ہیں۔ اگر ہم اس شہر کو عبدالستار ایدھی کا شہر کہیں تو بے جا نہ ہوگا کیونکہ عبدالستار ایدھی نے دنیا کی سب سے بڑی ایمبولینس سروس اسی شہر سے شروع کی۔ ایدھی صاحب کے اچھے کاموں کی وجہ سے ہم دنیا میں اس حوالے سے بھی جانے جاتے ہیں کہ ہم ایدھی کی قوم سے ہیں۔

جب میں صدر کے ریگل چوک پہنچا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ مہنگے مہنگے جوتے ایئرکنڈیشنڈ دکانوں میں سجے تھے اور کتابیں فٹ پاتھ پر بکھری پڑی تھیں۔ میرے سامنے ریگل چوک کا اتوار بازار سج رہا تھا اور اس بازار میں کتابیں، بوریوں سے نکل رہی تھیں۔ چند منٹوں میں یہاں ایک فٹ پاتھ کتاب بازار سج گیا۔




جی ہاں! یہ سستی اور نایاب کتابوں کا بازار ہے۔ علم کے متوالے ہر اتور کو اس بازار کا رخ کرتے ہیں۔ اس بازار میں ہزاروں پرانی اور نئی کتابیں موجود ہوتی ہیں۔ یہ کتابیں بازار سے بہت سستی ہوتی ہیں۔ پورے ملک میں اس جیسا سستا ترین کتاب بازار کہیں نہیں لگتا۔ جو کتاب مارکیٹ میں مکمل قیمت پر دستیاب ہو، وہی کتاب یہاں پر پچاس فیصد رعایت پر مل جاتی ہے۔ اس کتاب بازار میں اکثریت غریب اور مڈل کلاس طالب علموں کی ہوتی ہے جو آدھی قیمت میں اپنے لیے کورس کی کتابیں تلاش کرتے ہیں۔ یہ کتاب بازار کئی دہائیوں سے چلا آرہا ہے اور ہم جیسے پیاسوں کو سیراب کرتا آرہا ہے۔ دنیا کی نایاب ترین کتابیں بھی یہاں دستیاب ہیں جو انٹرنیٹ کی دنیا تک بھی رسائی حاصل نہیں کرسکیں۔ یہ کتاب بازار باب الاسلام کا عظیم سرمایہ ہے۔



میں نے چند کتابیں خریدیں اور آگے بڑھا تو ایک قلفی کی دکان دیکھی، جو 70 سال سے زائد عرصے سے قائم ہے۔ دو کروڑ سے زائد آبادی کے شہر میں بہترین چیز ملنا بے حد مشکل ہوتا ہے۔ چوہدری فرزند علی نے آزادی کا سورج نکلنے کے ایک سال بعد صدر میں قلفی کا کاروبار شروع کیا تھا اور یہ کاروبار اس وقت سے آج تک مقبول ہے۔ جب جب کراچی آنا ہوتا ہے، اس قلفی کا مزا لازمی چکھتے ہیں۔ چوہدری فرزند علی قلفی مرچنٹ کی قلفی کھانے عظیم شخصیات آتی تھیں۔ آج بھی قلفی کا معیار آزادی کے ایک سال بعد جیسا ہے۔ اگر کچھ بدلا ہے تو صرف یہاں پر کام کرنے والے بدل گئے ہیں۔



میں نے دکان کے کانسی کے ٹوکن پر تاریخ دیکھی جو 1948 درج تھی۔

کراچی دنیا کا واحد شہر ہے جہاں پانی سے لے کر فٹ پاتھ تک سب بکتے ہیں۔ اس شہر کو اندھی گولیوں نے اندھا کردیا ہے۔ اس شہر میں پرچی مافیا اور پولیس مافیا سرگرم ہیں۔ اس شہر کے رہائشی خود کو محفوظ کرنا چاہتے ہیں مگر اس شہر کی قسمت میں لکھی گئی خون کی ہولی، تین سو پینسٹھ دن جاری رہتی ہے، چاہے حادثے کی صورت میں ہو یا پرچی مافیا کی صورت میں یا لوٹ مار کی صورت میں ہو۔

اس شہر کی سب سے بڑی خاصیت یہ ہے کہ اس نے ہر اس آدمی کو بھی خود میں بسایا ہے جسے اس کے اپنے خاندان والوں نے بھی نہ اپنایا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story