لاہورکا شاہی قلعہ کئی تہذیبوں کا مدفن

شاہی قلعہ لاہوراپنے جمالیاتی اورعمارتی حسن کی وجہ سے یونیسکو کی بین الاقوامی ثقافتی ورثہ کی فہرست میں شامل ہے


آصف محمود April 03, 2019
شاہی قلعہ کا آج تک صرف 20 سے 25 فیصد حصہ ہی سامنے آسکا ہے، ماہرین فوٹو ایکسپریس

ISLAMABAD: شاہی قلعہ لاہوراپنے جمالیاتی،عمارتی حسن اور خوبصورتی کی وجہ سے یونیسکو کی بین الاقوامی ثقافتی ورثہ کی فہرست میں شامل ہے۔اس طرح اس کی حفاظت اورنگہداشت پنجاب حکومت کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کی ذمہ داری ہے۔ شاہی قلعہ لاہور کے در و دیوار سے آج بھی وہی جاہ و جلال جھلکتا ہے جس کی وہ صدیوں تک علامت رہا ہے۔ قلعوں کا مقصد اگر بیرونی خطرات سے حفاظت تھا تو اس تعمیراتی شاہکار کو تعمیر کرنے والوں نے اس مقصد کو جس طرح حاصل کیا وہ قابلِ داد ہے۔

شاہی قلعہ 1100 فٹ طویل جبکہ 1115 فٹ وسیع ہے۔روایت کے مطابق لاہور کے قلعہ اور شہر کی تعمیر راجہ رام چندر کے بیٹے لوہ سے منسوب کی جاتی ہے جس کا زمانہ200 سے 80 قبل از مسیح کے درمیان بیان کیا جاتا ہے۔ تاہم 1959 میں محکمہ آثار قدیمہ نے دیوان قدیم کے سامنے میدان میں کھدائی کروائی تھی ، 25 فٹ کی گہرائی سے سلطان محمود غزنوی کے عہد 1025 کا سونے کا سکہ ملا تھا جبکہ پندرہ فٹ کی مزیدکھدائی میں آبادی کے نشانات برآمدہوئے تھے جس سے اندازہ لگایا گیا ہے کہ سلطان محمود غزنوی کے حملیدس سواکیس سے کافی عرصہ پہلے بھی یہ قلعہ آباد تھا۔



لاہور کے قلعہ کا ذکر سلطان شہاب الدین غوری کے حملوں کے حالات میں بھی ملتا ہے، اس قلعہ کو1241 میں منگولوں نے تباہ کیا اور1267 میں غیاث الدین بلبن نے پھر سے تعمیر کروایا۔اس کے بعد امیر تیمور کی افواج نے 1398 میں اس کو تاراج کیا اور سلطان مبارک شاہ سید نے 1421 میں مٹی اور گارے سے پھر اس کی تعمیر کروائی۔ 1432 میں کابل کے شیخ علی نے اس پر قبضہ کیا اور اس کی مرمت کروائی تھی۔



موجودہ قلعہ مغل شہنشاہ جلال الدین محمد اکبر نے قریباً 1568 میں اس کی پرانی بنیادوں پرپکی اینٹوں سے تعمیر کروایا اورشمال کی جانب دریائے راوی کے کنارے تک اس کی توسیع کی۔ دریائے راوی 1849 تک قلعہ کی شمالی دیوار کے ساتھ ساتھ بہتا تھا۔اکبر کے عہد کی تعمیرات میں اکبری محل،دولت خانہ خاص و عام ،مشہورجھروکہ درشن اورمسجدی دروازہ شامل ہے، بعد میں آنے والے حکمرانوں نے اس میں مختلف عمارتوں کا اضافہ کیا۔ شہنشاہ جہانگیر نے دولت خانہ جہانگیر جسے احاطہ جہانگیری کہا جاتا ہے اورمکتب خانہ تعمیرکروائے، شاہجہان نے 1631 میں شیش محل اور دیوان عام تعمیر کروائے۔ 1633 میں خواب گاہ،خلوت خانہ اور شاہی حمام تعمیرہوئے، 1645 میں دیوان خاص اور اورغالباً اسی سال موتی مسجد کا بھی اضافہ کیا گیا۔ اورنگزیب عالمگیر نے1674 میں عالمگیری دروازہ تعمیر کروایا تھا۔



مہاراجہ رنجیست سنگھ نے 1799 سے 1839 کے دوران قلعہ کی بیرونی دیوار، سنگ مرمرکا آٹھ درہ، حویلی مائی جنداں ، حویلی کھڑک سنگھ اور راجہ دہان سنگھ کی بارہ دری تعمیر کروائی۔مہاراجہ رنجیت سنگھ کے دور میں ہی قلعہ کے مختلف حصوں پرلگے قیمتی پتھراتارلئے گئے۔ 1846 میں یہاں انگریزوں کا عمل دخل شروع ہوا،انگریزوں نے قلعہ کی جنوبی دیوارتوڑکرسیڑھیاں اورچبوترے بنائے اوراس قلعہ کی حصاری کیفیت ختم کردی، شاہی قلعہ 1927 میں محکمہ آثارقدیمہ کی تحویل میں آگیا۔برطانوی دور میں قلعہ کی حصاری دیواروں کومضبوط کرنے کے لئے مخصوص فاصلوں پر نصف دائرہ نما مورچے بنائے گئے جس میں تین تین دروازے ہیں۔شاہی قلعہ میں مغلوں سے قبل اتوار کی اب کوئی عمارت موجود نہیں ہے ، مغلیہ دور کی عمارت کو چار بڑے احاطوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔جس میں 21 مختلف عمارتیں ہیں جو گزشتہ 500 برس میں اس مسکن کو بنانے والے بادشاہوں اور ان کے ادوار کی نشانیاں ہیں۔ ہر ایک کا طرزِ تعمیر منفرد ہے۔ ان عمارتوں جیسے شیش محل، دیوان خاص، دیوان عام، موتی مسجد، دولت خانہ خاص و عام، خوابگاہ شاہجہانی اوردنیا کی سب سے بڑی پکچروال قابل ذکرہیں۔



والڈ سٹی اتھارٹی لاہور کے ڈائریکٹر کنزرویشن نجم الثاقب اور ان کے ساتھیوں نے حال ہی میں شاہی قلعہ کے دامن میں منوں مٹی تلے دفن کئی قدیم آثاربرآمد کیے ہیں جن میں شاہی باورچی خانہ، اکبری حمام ، کالے برچ کے نیچے تہہ خانے ، میثم دروازہ اوربارودخانہ قابل ذکرہے۔جبکہ شاہی قلعہ کی خوبصورتی میں اس کے ماتھے کا جھومردنیا کی سب سے بڑی پکچروال جس کے بڑے حصے کی آرائش وتزئین مکمل کرلی گئی ہے۔

اس قلعہ میں مغلیہ دورسے پہلے کی کوئی عمارت موجود نہیں ہے جبکہ اکبری دورکی یادگاریں بھی شاہی قلعہ کے دامن میں دفن ہیں۔یہ تعمیرات زیادہ ترقلعہ کے اس حصے میں تھیں جہاں ان دنوں قلعہ کے ملازمین کی رہائش گاہیں ہیں۔نجم الثاقب کا ماننا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ اکبری دور کی عمارتیں اسی کالونی کے نیچے کہیں دفن ہوں۔ اس کی کئی نشانیاں حمام کے طرزِ تعمیر، اس کی عمر اور اس کی تعمیر کی جگہ سے عیاں ہیں۔



محکمہ آثارقدیمہ پنجاب کے ڈائریکٹرافضل خان نے بتایا کہ 1959 میں قلعہ کے دیوان عام کے سامنے بین الاقوامی ماہرین کے ساتھ مل کرکھدائی کی گئی تھی اس دوران ہمیں 13 مختلف ادوارکے نشانات ملے تھے۔ مطلب یہ کہ یہاں 13 مختلف ادوارمیں تعمیرات ہوئیں۔ یہ قلعہ چونکہ ایک ٹیلہ پربنایا گیا تھا۔گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ پہلی آثارمٹی میں دفن ہوتے گئے اوران پرنئی تعمیرات ہوتی رہیں، آج بھی قلعہ کے کسی بھی حصے میں کھدائی کرلی جائے توچندفٹ نیچے سے کوئی نہ کوئی آثاربرآمدہوں گے۔ انہوں نے یہ بھی واضع کیا کہ شاہی قلعہ میں سے آج تک کوئی خفیہ سرنگیں سامنے نہیں آئی ہیں، دیواروں کے ساتھ زیرزمین کمرے اورراہداریاں تھیں جوقلعہ کے مختلف حصو ں میں بنی عمارتوں کو آپس میں ملاتی تھیں۔ ان راہداریوں اورزیرزمین عمارتوں کے جوآثاربرآمدہوئے ان کے بارے میں لوگوں نے مشہورکردیا کہ یہاں خفیہ سرنگیں تھیں جو قلعہ سے باہر نکلتی تھیں، کچھ لوگ یہ بھی کہتے تھے کہ یہاں سے سرنگیں دہلی تک جاتی تھیں تاہم یہ سب افسانے ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

ماہرین کے مطابق شاہی قلعہ کا آج تک صرف 20 سے 25 فیصد حصہ ہی سامنے آسکا ہے۔قدیم ادوارکی نشانیاں سامنے لانے میں برسوں لگ جائیں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں