ایک مثالی غریب پرور شخص کی یاد میں

عبدالرزاق کھوہارا شہید ایک غریب پرور شخص تھے اور غریب غرباء کے کام آنا اور ساتھ دینا ان کا شیوہ تھا


عبدالرزاق کھوہارا شہید ایک غریب پرور شخص تھے اور غریب غرباء کے کام آنا اور ساتھ دینا ان کا شیوہ تھا۔ (تصویر بشکریہ بلاگر)

خالقِ کائنات نے اس دنیا میں آنے والے ہر ذی روح انسان کے رزق کا ذمہ اپنے سر لے رکھا ہے لیکن اپنی خاص حکمت اور تنوع کےلیے اس نے اپنی مخلوقات میں رزق کی تقسیم یکساں نہیں رکھی۔ اسی لیے ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ ایک ہی علاقے، ایک ہی محلے، الغرض ایک ہی خاندان تک میں ایک شخص بے پناہ امیر ہے تو دوسرا غریب ترین۔ بعض اوقات یوں بھی ہوتا ہے کہ دو بھائیوں میں سے ایک کے پاس تو بے اندازہ دولت ہوتی ہے جبکہ دوسرے کے پاس تن ڈھانپنے کے کپڑے تک نہیں ہوتے۔

اس طرح کی تقسیمِ دولت میں قدرت کی کیا منشاء ہے؟ یہ تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ تاہم یہ طے ہے کہ وہ کسی کو بے پناہ دے کر آزماتا ضرور ہے کہ اس کا بندہ اپنے جیسے دیگر انسانوں کے ساتھ کیسا سلوک کرتا ہے۔ ایک بخیل اور تنگ دل شخص تو اس امتحان میں ناکام ہوجاتا ہے لیکن ایک فیاض اور سخی دل شخص، آزمائش پر پورا اترتا ہے؛ اور دولت کے معاملے میں اپنے سے کم تر انسانوں کو حقیر نہیں سمجھتا بلکہ حتی الوسع ان کی امداد، دلجوئی اور تشفی کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ایسے انسان کو دنیا ''غریب پرور'' کے نام سے جانتی ہے۔

راقم الحروف کے والد محترم عبدالرزاق کھوہارا شہید بھی ایک ایسے ہی غریب پرور شخص تھے۔ غریب غرباء کے کام آنا، ان کی امداد کرنا اور ہر مسئلے پر ان کا ساتھ دینا والد صاحب کا شیوہ تھا۔ پوری برادری اور اہل علاقہ میں ایک غریب پرور کے طور پر مشہور تھے۔ ان کی فیاضی اور غریب پروری کے چرچے دور دور تک پھیلے ہوئے تھے۔

عبدالرزاق کھوہارا شہید بذاتِ خود بھی ایک ایسے گھرانے سے تعلق رکھتے تھے جہاں بنیادی ضروریات زندگی کا حصول جوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔ وہ مکمل طور پر ایک سیلف میڈ انسان تھے۔ انہوں نے جہد مسلسل سے اپنے خاندان کو پاؤں پر کھڑا کیا اور ضروریات سے بڑھ کر سہولیاتِ زندگی سے آراستہ کیا۔ اس لیے وہ ایک غریب کے درد سے بھی بخوبی واقف تھے۔ وہ جانتے تھے کہ مالی طور پر غیر مستحکم شخص کو معاشرے میں اپنا مقام بنائے رکھنے کےلیے کتنی جدوجہد کرنا پڑتی ہے۔ اسی بناء پر اور اپنی رحم دل طبیعت کے باعث وہ ہمیشہ غریب غرباء کی مدد کرنے کو تیار رہتے۔

ابتدائے زندگی سے ہی عبدالرزاق کھوہارا شہید کی غریب پروری کی مثال کچھ یوں ہے کہ جب وہ میٹرک میں پڑھ رہے تھے تو ان دنوں وہ روز لگ بھگ تین میل کا پیدل سفر کرکے ایک ہائی اسکول میں تعلیم حاصل کرنے جایا کرتے تھے۔ ایک روز وہ یوں ہی اپنے خیالوں میں گم جا رہے تھے کہ انہیں کسی بچے کی سسکیاں سنائیں دیں۔ انہوں نے دیکھا کہ ایک پانچ چھ سال کا لڑکا کھیت میں بیٹھا درانتی سے چارہ کاٹ رہا تھا۔

انہوں نے لڑکے سے استفسار کیا کہ وہ کیوں رو رہا ہے؟ جواباً اس نے بتایا کہ دراصل وہ پڑھنا چاہتا تھا لیکن اس کے ابا جان روز اسے زبردستی درانتی پکڑا کر کھیت میں چارہ لانے کو بھیج دیتے ہیں؛ اور ساتھ ہی ساتھ مار پیٹ بھی کرتے ہیں۔ والد صاحب کو اس لڑکے کی بپتا سن کر بہت دکھ ہوا۔ وہ واپسی پر اس کے گھر گئے۔ اس کے والد سے ان کی خاندانی علیک سلیک تھی۔ اس بناء پر والد صاحب نے اس لڑکے کے والد سے استدعا کی کہ وہ اپنے بیٹے کو ان کے ساتھ اسکول جانے دیا کرے۔ جواباً لڑکے کے والد نے کہا کہ ہمارے پاس کھانے کو پیسے نہیں ہوتے، اسکول کے اخراجات کون ادا کرے گا؟

والد محترم نے بچے کے اخراجات کا ذمہ خود پر لیا اور اس کے والد سے اسے اسکول لے جانے کی اجازت لے لی۔ آپ اندازہ کیجیے کہ میٹرک کا طالب علم ایک لڑکا، جو خود بھی بمشکل اپنی اسکول فیس پوری کرتا تھا، وہ کیسے ایک اور طلب علم کے اخراجات پورے کرتا؟ لیکن والد صاحب نے اپنا پیٹ کاٹ کر، اپنا جیب خرچ بچا کر اس بچے کو قلم، دوات، کتابیں، کاپیاں لے کر دیں... اس کے اخراجات پورے کرتے رہے۔ اور پھر ایک دن وہ وقت بھی آیا جب وہ غریب لڑکا ایک معروف سرکاری کالج کا پروفیسر بنا۔ یہ واقعہ والد صاحب کی وفات کے بعد مجھے ان ہی پروفیسر صاحب نے بتایا ورنہ شاید یہ راز کبھی طشت از بام نہ ہوتا۔

زندگی کی ابتداء سے ہی غریب پروری کا یہ عالم تھا تو سوچیے آگے کیا مقام ہوگا؟

عبدالرزاق کھوہارا شہید اہل علاقہ میں سخی دل انسان کے طور پر مشہور تھے۔ وہ گھر آئے سائل کو خالی ہاتھ لوٹنے نہیں دیتے تھے۔ اپنے سامنے پڑا کھانا بھی اٹھا کر دے دیا کرتے تھے۔ اکثر ایسا ہوتا کہ دروازے پر کوئی سائل آتا اور شومئی قسمت جیب میں پیسے نہ ہوتے تو وہ سائل کو روک کر گھر میں پڑے کپڑے یا استعمال کی کوئی دوسری شئے فی سبیل اللہ دے دیا کرتے، لیکن خالی ہاتھ جانے نہ دیتے۔

والد محترم کی غریب پروری کا یہ عالم تھا کہ نہ صرف گاؤں بلکہ گرد و نواح میں بسنے والے غریب اور نادار افراد کو جب بھی کوئی مسئلہ درپیش آتا تو وہ والد صاحب کے پاس آ جایا کرتے، اور ان سے اپنا مسئلہ بیان کرتے۔ والد صاحب اپنا تمام کام چھوڑ کر ان کے ساتھ ہو لیتے اور جب تک معاملہ حل نہ ہوجاتا، تب تک گھر واپس نہ لوٹتے۔ تھانے کچہری اور عدالت سے لے کر پنجایت اور صلح صفائی تک، تمام کاموں میں ان کے ساتھ رہتے اور حتی المقدور اپنی جیب سے خرچ کرتے۔

یہاں پر میں عبدالرزاق کھوہارا شہید کی غریب پروری کی ایک مثال کا آنکھوں دیکھا حال بیان کرنا چاہوں گا۔ یہ قصہ محض زیب داستان کےلیے نہیں بلکہ سو فیصد سچ پر مبنی ہے۔ اسے پڑھ کر قارئین یقینی طور پر والد محترم کی غریب پروری کے گرویدہ ہوجائیں گے۔

ایک بار والد صاحب بیٹھک کے باہر بیٹھے ہوئے تھے۔ میں بھی وہیں موجود تھا کہ گاؤں میں سکونت پذیر کمہار (رحمانی) برادری کا ایک شخص والد صاحب کے پاس آیا اور آتے ہی رونے لگا۔ والد صاحب نے وجہ پوچھی تو کہنے لگا، ''میں نے اپنی بیٹیوں کی شادی کے اخراجات پورے کرنے کےلیے اپنے گھر کے سامنے موجود کچھ درخت کاٹ کر بیچے ہیں اور کچھ بیچنا چاہتا ہوں۔ یہ درخت میں نے ہی لگائے تھے۔ اور میرے ہی ہاتھوں پروان چڑھے تھے۔ اب میں انہیں بیچ کر اپنی بیٹیوں کا جہیز بنوانا چاہتا تھا تو کچھ لوگ بے ایمان ہو گئے ہیں۔''

والد صاحب نے اس کی فریاد سنی اور تمام چھان بین کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ اس شخص کا مؤقف درست تھا۔ ویسے بھی غریب پروری کا تقاضا تھا کہ صاحب حیثیت اور زمینداروں کے مقابلہ میں ایک غریب ہاری کی مدد کی جائے۔ اس لیے والد صاحب نے اس کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا اور کہا کہ وہ بلا کسی خوف و خطر اپنی بیٹیوں کی شادی کے سلسلے میں انتظامات کرے۔ جاگیرداروں سے میں خود نمٹ لوں گا؛ نیز مزید اخراجات کی ضرورت ہو تو بھی بتائے۔

وہ آدمی تو شکریہ ادا کر کے چلا گیا لیکن گاؤں کے چند بڑوں کے ساتھ والد صاحب کی ٹھن گئی۔ گاؤں کے ایک بڑے کو پتا چلا تو وہ والد صاحب کے پاس آئے اور مطالبہ کیا کہ اس شخص کی حمایت چھوڑ دی جائے۔ والد صاحب نے جواباً مطالبہ کیا کہ غریب شخص کو تنگ کرنا چھوڑ دیا جائے بلکہ اس کی امداد کی جائے تو وہ پیچھے ہٹنے کو تیار ہیں۔ جب کسی طور بات نہ بنی تو اس نے اپنے چہرے پر ہاتھ پھیر کر کہا، ''میں اس شخص کے درخت بھی بکواؤں گا اور اسے تھانے میں بھی بند کرواؤں گا۔ دیکھتا ہوں تم اس کی کیا مدد کرتے ہو۔''

والد صاحب نے بھی ترکی بہ ترکی جواب دیتے ہوئے کہا، ''معاملہ ایک غریب آدمی کی مدد کا ہے۔ اگر وہ تمہارے جوڑ کا ہوتا تو میں کبھی بیچ میں نہ آتا۔ لیکن وہ خود کچھ کرنے سے قاصر ہے تو کس کے پاس جائے۔ میں اس کی ڈھال بنوں گا۔ اس شخص کے درختوں کو کسی کو ہاتھ بھی نہیں لگانے دوں گا اور اسے ہر قسم کی کارروائی سے بھی بچواؤں گا۔ تم سے جو ہوسکے، کرلینا!''

یہ ایک غریب پرور شخص کا مصمم ارادہ تھا۔ اور پھر وقت نے وہ دن بھی دکھلایا جب اس شخص کے درخت گاؤں والوں نے بیوپاری کے ہاتھ بکوائے اور پولیس نے ایک جعلی کیس میں اس کے گھر پر چھاپہ مارا۔ تب والد صاحب نے نہ تو لکڑی سے بھری ٹرالی کو گاؤں سے نکلنے دیا اور نہ ہی اس شخص کو پولیس کی تحویل میں جانے دیا۔ ایک بڑی پنجایت ہوئی اور بالآخر یہ فیصلہ ہوا کہ وہ شخص حق پر ہے اس لیے لکڑی کی مالیت کے برابر پیسے اسے دیئے جائیں اور پولیس کیس بھی ختم کیا جائے۔

اس سارے مدعے کے دوران والد صاحب نے کیا کیا پاپڑ بیلے، کیسے کیسے تعلقات کو استعمال کیا اور کس طرح دن رات ایک کرکے اس شخص اور اس کے خاندان کے گرد پہرہ دیا، یہ ایک الگ اور لمبی داستان ہے۔ مختصر یہ کہ ایک روپے کی بھی غرض اور لالچ کے بغیر، اپنی جیب سے خرچ کرکے، بڑے بڑوں کی مخالفت مول لے کر والد صاحب نے اس شخص کی مدد کی... جب تک کہ اس کا مسئلہ حل نہ ہوگیا۔

اسی طرح ایک بار یوں ہوا کہ ایک حکومتی پروگرام کے تحت ایک طاقتور محکمے کے اعلی افسران گاؤں میں تجاوزات کے خاتمے اور صفائی وغیرہ کے سلسلے میں آئے۔ ان کے ساتھ بڑی تعداد میں پولیس اور فوج کی نفری تھی۔ خوش قسمتی سے ان میں والد صاحب کا ایک واقف کار نکل آیا۔ اب جوں جوں گاؤں میں لوگوں کو پتا چلتا تو لوگ والد صاحب کے پاس آنے لگے۔ والد صاحب ان کی سفارش لے کر افسران کے پاس جاتے اور وقت لے کر دیتے۔ جب کئی بار ایسا ہوا تو وہ افسر تنگ آ گیا اور کہنے لگا، ''میں دیکھ رہا ہوں کہ ان میں کوئی بھی تمہارا عزیز یا رشتہ دار نہیں، تو کیا تم نے پورے گاؤں کا ٹھیکہ لے رکھا ہے؟ ہر کسی کےلیے وقت لے رہے ہو۔ جانے دو، ان کے خلاف آپریشن ہونے دو!''

تب والد صاحب نے جواب میں کہا، ''میں کیا کروں... جو بھی آتا ہے، غریب میرے پاس آتا ہے اور دہائی دینے لگتا ہے کہ صرف ایک بار ہمیں بچوا دو۔ ہمارے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔ ہم جلد ہی کسی اور جگہ منتقل ہوجائیں گے۔ صرف ایک دن کی مہلت لے دو۔ ان کی آہ و زاری سن کر مجھ سے رہا نہیں جاتا۔ آپ کا کیا جاتا ہے۔ ایک بار موقع دے دیجیے۔ غریب لوگ دعائیں دیں گے۔''

یہ عبدالرزاق کھوہارا شہید کی جانب سے غریب اور بے سہارا افراد کا ساتھ دینے کی اعلی مثال ہے۔ ایسی بے شمار مثالوں سے ان کی زندگی عبارت تھی، جن کا تذکرہ کرتے کرتے یہ تحریر بہت طویل ہوجائے گی۔ مختصر یہ کہ زندگی میں جب بھی کوئی ایسا موقع آیا جب کسی محدود وسائل والے شخص کا سابقہ مقتدر شخصیت سے پڑا ہو تو والد صاحب نے ہمیشہ نتائج کی پرواہ کیے بغیر اول الذکر کا ساتھ دیا۔ اور اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ انہیں سرخرو کیا۔

دعا ہے کہ اللہ پاک ایسی غریب پرور و غریب نواز شخصیت کو اپنی خصوصی رحمت کے سائے تلے رکھے، انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے، جنت کے اعلی باغوں کا امین بنائے اور ہمیں بھی ان کی مانند غریب اور بے سہارا لوگوں کا ساتھ دینے کی توفیق عطاء فرمائے آمین۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں