میں ایک جنونی آدمی ہوں محمد ذاکر
فوج میں جانا چاہتا تھا، گھر والے کوکنگ کی جانب لے آئے، معروف شیف محمد ذاکر کے حالات و خیالات
پختگی کی خواہش، ہمہ وقت متحرک رہنے کی آرزو، آگے بڑھنے کا جذبہ!
کہانی تو ایک شیف کی ہے، مگر سنتے سمے کسی جنگ جُو کی کتھا معلوم ہوتی ہے کہ اِسے جنون کے خمیر میں گوندھا گیا۔ تکمیلیت پسند شیف ذاکر گذشتہ چار دہائیوں سے ذایقے کی دنیا سے وابستہ ہیں۔ کوکنگ شوز کو اوج بخشنے والوں کی فہرست میں وہ نمایاں ہیں۔ رفتار اُن کا ہتھیار ہے، اور جدت اُن کی پہچان۔ گرفت کا یہ عالم ہے کہ لائیو پروگرام میں آنکھوں پر پٹی باندھ کر کھانا پکانے کا مظاہرہ کر چکے ہیں۔ اعتماد ایسا کہ اپنی بنائی ہوئی ڈش چکھنے کا تردد نہیں کرتے۔ مقبولیت کی دوڑ میں شوبز کی کئی شخصیات کو پیچھے چھوڑ چکے ہیں کہ ٹی وی اسکرین نے اُنھیں کروڑوں ناظرین سے جوڑ دیا ہے۔ یوں تو گذشتہ بارہ برس سے عوام میں اپنی تراکیب تقسیم کر رہے ہیں، مگر گذشتہ چھے برس میں اِس عمل میں باقاعدگی نظر آتی ہے۔ ٹی وی شو کے علاوہ اُن کی ''ریسیپیز'' پر مبنی کتابوں کا بھی بڑا چرچا ہے۔ ریکارڈ تعداد میں فروخت ہوتی ہیں یہ کتابیں۔ اب تک گیارہ کتابیں شایع ہوچکی ہیں۔ کتاب کی تیاری کے ہر مرحلے پر گہری نظر رکھتے ہیں۔
خود کو جنونی قرار دینے والے شیف ذاکر کے مطابق کوکنگ اُن کا اوڑھنا بچھونا ہے۔ اِس کے سوا اُنھیں کوئی کام نہیں آتا۔ سیکھنے کا عمل بھی ساتھ ساتھ جاری ہے۔ جب کسی نئی ڈش کا ذکر سنتے ہیں، تو اُس کے تعاقب میں نکل جاتے ہیں، چاہے وہ یورپ کے کسی دورافتادہ ملک میں چھپی ہو، یا کراچی کے کسی ڈھابے میں اس کا نسخہ برتا جارہا ہو۔ کئی برسوں سے اپنی تراکیب بانٹ رہے ہیں، مگر بہ قول اُن کے، اب بھی زنبیل میں کئی ریسیپیز موجود ہیں۔
ذاکر کے مطابق وہ فائٹر شیف ہیں۔ کہتے ہیں،''عام شیف اور فائٹر شیف میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ فائٹر شیف آل راؤنڈر ہوتا ہے۔ وہ ہر قسم کے کھانے بنانے کا ماہر ہوتا ہے۔ اس مقام تک پہنچنے کے لیے برسوں کی ریاضت درکار ہوتی ہے۔ فائٹر شیف کی مثال کم ہی ملتی ہے، اس کا براہ راست تعلق آپ کے جذبے سے ہے۔'' کیا وہ پاکستان کے اکلوتے فائٹر شیف ہیں؟ اِس سوال کا جواب دینا مناسب خیال نہیں کرتے، مگر یہ ضرور کہتے ہیں کہ اُن کی نظر سے ایسا کوئی شیف نہیں گزرا۔
خاندان کے اکلوتے شیف نہیں۔ ''بڑوں'' نے بھی اِس میدان میں خوب نام کمایا۔ اُن سمیت 27 افراد اِس پیشے میں ہیں۔ البتہ بیرون ملک سے اکتساب علم کرنے والے وہ اکلوتے ٹھہرے۔ محسنین کا ذکر بہت محبت سے کرتے ہیں۔ اِس فہرست میں سلطانہ صدیقی اور اطہر وقار عظیم نمایاں ہیں۔
پورا نام ہے محمد ذاکر۔ گھر والے پیار سے ذاکر میاں کہہ کر پکارتے تھے۔ شعور کی آنکھ کراچی میں کھولی۔ عبدالعزیز کے گھر وہ پیدا ہوئے، جو بہ طور شیف برٹش ایئرویز اور پی آئی اے سے وابستہ رہے۔ اُن کو دیکھ کر ہی ذاکر کے اندر یہ شوق پروان چڑھا۔ والد کے مزاج میں شفقت نمایاں تھی۔ ہر موڑ پر وہ راہ نمائی کرتے۔ کبھی ایسی کوئی حرکت کی ہی نہیں کہ سزا کی نوبت آتی۔ بہن بھائیوں میں وہ پانچویں ہیں۔ بچپن میں کھیلوں سے میلوں دُور رہے۔ البتہ لیڈری کا شوق تھا۔ دوست مسائل میں اُن ہی سے مشورے کرتے۔
طالب علم وہ ٹھیک ٹھاک تھے۔ شہر قائد کی درس گاہوں سے تعلیمی مراحل طے کیے۔ سائنس نہیں پڑھنا چاہتے تھے۔ شوق تو فوجی بننے اور ملک کی خدمت کرنے کا تھا۔ اسی جذبے نے اعتماد سے لیس کیا، گفت گو کا ڈھنگ سِکھایا۔ یہ خواہش پوری نہیں ہوسکی کہ والد اور دیگر بھائی ہوٹل انڈسٹری کا حصہ بن چکے تھے، اور چاہتے تھے ذاکر بھی اِسے ہی اپنائیں۔ بہ قول اُن کے،''میں فوج میں جانا چاہتا تھا، مگر گھر والے زبردستی کوکنگ کی جانب لے آئے۔ میں اس بات پر بہت رویا، مگر وہ نہیں مانے۔''
ہر صبح بڑے بھائی اُنھیں اپنے ساتھ ہوٹل لے جاتے۔ سیکھنے کی تحریک دیتے۔ جواباً وہ منہ بسورتے۔ لڑتے جھگڑتے۔ پھر اپنے ایک سابق استاد سے ملاقات ہوئی، جنھوں نے ان پر اِس شعبے کی اہمیت آشکار کی، سمجھایا کہ وہ کوکنگ کی دنیا میں رہتے ہوئے بھی ملک کی خدمت کر سکتے ہیں۔ بات دل کو لگی۔ جس پنج ستارہ ہوٹل سے بڑے بھائی منسلک تھے، وہاں ''کچن ہیلپر'' ہوگئے۔ باورچی خانے میں ہاتھ کا کٹنا، یا جلنا معمولی بات ہے، مگر ذاکر کے مطابق عملی میدان میں اساتذہ کے زیر سایہ تمام مراحل طے کیے جاتے ہیں، اور اتنی احتیاط برتی جاتی ہے کہ حادثہ قریب نہیں پھٹکتا۔ جب تک ایک کام میں مہارت حاصل نہیں کر لی جاتی، دوسرا کام نہیں سونپا جاتا۔ ''اب اگر میں پیاز کاٹ رہا ہوں، تو یومیہ چار چار من پیاز کاٹنی پڑے گی، تب ہی اگلا کام ملے گا۔''
شروع میں مسائل ضرور پیش آئے، مگر جب حتمی فیصلہ کر لیا، تو پچھتاوے کو اپنی لغت سے خارج کردیا۔ انٹر کے بعد ہوٹل انڈسٹری سے نتھی ہوگئے تھے۔ اب تدریسی سفر نے نئی شکل اختیار کر لی۔ کوکنگ ہی ان کی دنیا تھی۔ کچھ عرصہ کراچی میں مصروف رہے، پھر لاہور کا رخ کیا، جہاں ہوٹل انڈسٹری میں قدم جمانے میں زیادہ وقت نہیں لگا۔ نئے امکانات کی کھوج دبئی لے گئی۔ وہاں ایک کوکنگ کورس کیا۔ ساتھ ہی ایک ہوٹل میں پارٹ ٹائم ملازمت کرتے رہے۔ پھر سنگاپور کی سمت بڑھے۔ کچھ عرصے بعد وہ جنوبی افریقا میں تھے۔ بس، پھر نہیں رکے۔ نئے نئے ذایقوں کی تلاش میں کورسز کرتے چلے گئے۔ مختلف ممالک میں کام کیا۔ جس سمے شیف کا ٹائٹل ملا، وہ جنوبی افریقا کے ایک پنج ستارہ ہوٹل سے منسلک تھے۔
اُس لمحے کیا محسوسات تھے؟ یہ بیان کرنا مشکل ہے کہ بہ قول اُن کے، ان دنوں آگے بڑھنے کی خواہش اتنا متحرک رکھتی تھی کہ اردگرد کیا بیت رہا ہے، اِس کا اندازہ ہی نہیں ہوتا تھا۔ بہتر سے بہتر بننے کی للک نے باصلاحیت لوگوں کے حلقے میں انھیں شامل کر دیا، جنھوں نے فائٹر شیف بننے کا مشورہ دیا۔ اِس مشکل مرحلے کو بھی کام یابی سے طے کر گئے۔
98ء میں پاکستان واپسی ہوئی۔ ایک بڑی کیٹرنگ کمپنی سے وہ منسلک ہوگئے۔ اسی زمانے میں پہلی بار کیمرے کا سامنا کیا۔ یہ گیارہ برس پہلے کی بات ہے۔ ایک پرائیویٹ چینل نے بقرعید کے حوالے سے شو کا اہتمام کیا تھا۔ سیٹ کے ایک کونے میں باربی کیو آئٹمز تیار ہو رہے تھے، اور جو صاحب یہ فریضہ انجام دے رہے تھے، وہ شیف ذاکر تھے۔
اُن ہی دنوں ایک پرائیویٹ چینل نے ''مرچ مسالا'' کے نام سے پروگرام شروع کیا۔ ذاکر سے رابطہ کیا گیا۔ پیش کش اُنھوں نے قبول کی۔ ایک ڈیڑھ برس وہ پروگرام کیا۔ اِس دوران سولو شوز بھی کیے، کوکنگ کے مقابلوں کی بھی دیکھ ریکھ کی۔ اُس پروگرام نے اُنھیں حقیقی شناخت عطا کی۔ اُس تجربے کی بابت کہتے ہیں،''خوشی تھی کہ جو کچھ میں نے سیکھا، وہ اب میرے کام آرہا ہے۔''
پھر وہ سلطانہ صدیقی کی سربراہی میں چلنے والے چینل سے نتھی ہوگئے۔ کومل رضوی کے مارننگ شو میں پندرہ منٹ ذاکر کے پاس ہوا کرتے تھے۔ اُسی چینل پر غزل صدیقی کا پروگرام بھی آیا کرتا تھا۔ اس میں بھی اُنھوں نے اپنا جادو جگایا۔ اُس شو کو بہت پسند کیا گیا۔ پھر اچانک ڈیڑھ برس کا وقفہ آگیا۔ ٹی وی سے رابطہ منقطع ہوگیا۔ بہ قول اُن کے، وہ وقت بیرون ملک گزرا۔ خاموشی کے اس وقفے کے بعد پلٹے، تو اُنھیں سلطانہ صدیقی کا بلاوا ملا۔ کہتے ہیں، ''اُنھوں نے پہلے مجھے ڈانٹا۔ پھر کہا، اب کہیں جانے کی ضرورت نہیں۔ ان کا مجھ پر بڑا احسان ہے۔ بس، پھر میں اِسی چینل کا ہو کر رہ گیا۔'' آغاز میں ہفتے اور اتوار کو نشر ہونے والا پروگرام ''ویک اینڈ مسالا'' کیا کرتے تھے۔ یہ لائیو پروگرام تھا۔ بعد میں پیر تا جمعہ نشر ہونے والا شو مل گیا۔ اِس پروگرام نے ان کی شہرت پر تصدیق کی مہر ثبت کر دی۔ شوز کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔
ذاکر کے کوکنگ شو سے اصلاحی اور دینی رنگ جھلکتا ہے۔ اِس بابت کہنا ہے، ''کروڑوں لوگ مجھے دیکھتے ہیں۔ میں سوچتا ہوں، اگر میری کسی بات سے کوئی بھٹکا ہوا انسان راہ راست پر آجائے، تو شاید میری بخشش کا امکان پیدا ہوجائے۔ بس، یہ ایک کوشش ہے۔'' دینی رجحان دراصل والدہ سے وراثت میں ملا۔ بیرون ملک جانے کے بعد اسلام کی حقانیت کے قائل ہوگئے، اسی لیے واپس لوٹے۔ تصوف سے گہرا شغف ہے، مگر کسی سلسلے میں بیعت نہیں۔ قرآن پاک اور سنت رسولﷺ کو دنیا اور آخرت میں کام یابی کے لیے کافی قرار دیتے ہیں۔
ہندوستانی چینلز ریالٹی کوکنگ شوز پیش کر رہے ہیں، کیا یہ سلسلہ یہاں بھی شروع ہونا چاہیے؟ اس بابت وہ کہتے ہیں،''سلسلہ یہاں بھی شروع ہونا چاہیے، مگر اس میں حقیقت ہونی چاہیے۔ اُن کے کوکنگ شوز میں ڈراما زیادہ ہوتا ہے۔ بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک گھریلو لڑکی ماہرین کے سامنے کھڑی ہو کر نئی نئی ڈشز بنائے، اور چند ہفتوں میں شیف بن جائے۔''
دوران گفت گو ''شیف'' اور ''کوکنگ ایکسپرٹ'' کا فرق بھی موضوع بنا۔ اُن کے مطابق ہمارے گھر کی خواتین بھی کوکنگ ایکسپرٹ ہیں، مگر وہ شیف نہیں۔ شیف بننے کے لیے بین الاقوامی معیارات کے مطابق کئی مراحل طے کرنے پڑتے ہیں۔ کوکنگ شوز کی مقبولیت کے بعد ہر ماہر اپنے نام کے ساتھ شیف لگانے لگا تھا، جس کے خلاف ہم نے آواز بلند کی۔ اب یہ مسئلہ بڑی حد تک حل ہوچکا ہے۔''
شیف ذاکر کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ ڈش تیار کرنے کے بعد اُسے چکھتے نہیں۔ اس بابت کہتے ہیں،''جو شخص اپنا کھانا چکھتا ہے، وہ حقیقی شیف نہیں۔ پروفیشنل شیف کو یہ خوف نہیں ہوتا کہ کھانے میں نمک زیادہ ہوگیا ہے، یا مسالا کم ہوگیا۔ میری تمام ڈشز ڈائریکٹرز کے دفتر چلی جاتی ہیں، جہاں سے ہمیشہ مثبت ردعمل آتا ہے۔''
گو آفرز کئی ہوئیں، مگر شیف ذاکر فی الحال بیرون ملک جانے کا ارادہ نہیں رکھتے۔ کہتے ہیں،''میری خواہش ہے کہ جو علم میں نے آدھی دنیا گھوم کر، اپنی زندگی کے کئی برس صرف کرکے سیکھا، اُسے یہاں، اپنوں میں بانٹوں۔'' ذاکر کے مطابق وہ پاکستان کے اکلوتے شیف ہیں، جو Kosher کوکنگ جانتا ہے۔ بہ قول اُن کے،''یہ کوکنگ یہودیوں کے لیے مخصوص ہوتی ہے۔ میں نے یہ کوکنگ جنوبی افریقا میں سیکھی۔ Kosher کوکنگ کی دنیا میں بہت مانگ ہے۔ مجھے کئی آفرز ہوئیں، لیکن میرا باہر جانے کا ارادہ نہیں۔'' وہ لوگوں کی محبت کو اپنے لیے اعزاز قرار دیتے ہیں۔ ''یہ محبت میرا سرمایہ ہے۔ مجھے اِس پر فخر ہے۔ البتہ کبھی کبھی میں ڈر بھی جاتا ہوں۔ تنہائی میں روتا ہوں۔ اپنے گناہوں کی معافی مانگتا ہوں۔ درحقیقت میں ایک حقیر انسان ہوں، یہ عزت یہ مقام، سب اﷲ کی دین ہے۔''
ذاکر تسلیم کرتے ہیں کہ الیکٹرانک میڈیا کے طفیل کوکنگ ایکسپرٹس کو پہچان اور عزت ملی، مگر دکھ ہے کہ حکومت کی جانب سے تاحال اس شعبے کی جانب توجہ نہیں دی گئی۔ ''دنیا بھر میں کوکنگ سِکھانے کے لیے ادارے قائم ہیں۔ وہاں شیف کو ڈاکٹر اور انجینئر سے زیادہ عزت دی جاتی ہے۔ ہمارے ہاں شیف کو عزت تو مل رہی ہے، مگر حکومت کی جانب سے سنجیدہ اقدامات نہیں کیے گئے۔ حیرت انگیز طور پر پاکستان میں کوئی کوکنگ انسٹی ٹیوٹ نہیں ہے۔'' وہ اِس ضمن میں کوشش کر رہے ہیں۔ بین الاقوامی معیار کا ادارہ بنانے کی خواہش ہے۔ ایک چھوٹا ادارہ تو چلا بھی رہے ہیں، جہاں تین ماہ کا کورس ہوتا ہے۔ اِس شعبے کی جانب آنے والوں کو ایک ہی مشورہ دیتے ہیں،''میں ایک ہی بات کہتا ہوں کہ بھائی، اپنے سب سے اچھے دوست تم خود ہو۔ تو خود سے باتیں کرو۔ یہ جاننے کی کوشش کرو کہ تمھارا مقصد کیا ہے۔''
اپنوں کی جدائی کو وہ رب کی رضا قرار دیتے ہیں۔ والد کا انتقال ایک کرب ناک لمحہ تھا، مگر وہ خاموشی سے پیشہ ورانہ ذمے داریاں نبھاتے رہے۔ کسی پر ظاہر نہیں ہونے دیا کہ وہ کس سانحے سے گزرے ہیں۔
87ء میں شادی ہوئی۔ خدا نے دو بیٹوں، تین بیٹیوں سے نوازا۔ بچوں میں کوکنگ کا شوق منتقل نہیں ہوا۔ گھر والے، خصوصاً بیٹیاں ڈشز کی فرمایش کرتی ہیں، جنھوں وہ بہ خوشی پورا کرتے ہیں۔ لباس کے معاملے میں کوئی خاص پسند نہیں۔ لوگوں کو خوش ذایقہ کھانوں کے نسخے بتانے والے اس شیف کو باسی کھانے زیادہ پسند ہیں۔ بیگم کے ہاتھ کی دال اچھی لگتی ہے۔ فرمایش کرکے بنواتے ہیں۔ اوائل عمری میں فکشن بھی پڑھا، اور شاعری بھی، مگر اب وقت نہیں ملتا۔ فلموں میں کوئی خاص دل چسپی نہیں۔
اٹھارہ برس لگ جاتے ہیں شیف بنتے بنتے!
شیف بننے کی تفصیلات زیر بحث آئیں، تو بتانے لگے؛ اِس کے لیے سترہ اٹھارہ سال کی محنت درکار ہے۔ نیا آنے والا ایک برس ''کچن ہیلپر'' کی حیثیت سے کام کرتا ہے۔ پھر وہ ''کک ہیلپر'' ہو جاتا ہے۔ چند برس بعد وہ ''تھرڈ کک'' کہلانے لگتا ہے۔ چار برس بعد وہ ''فرسٹ کک'' کی کیٹیگری میں آجاتا ہے۔
اب شیف بننے کے مراحل شروع ہوتے ہیں۔ ہر مرحلہ وقت اور محنت کا متقاضی ہوتا ہے۔ ''شیف دی پارٹی'' کی حیثیت سے کام کیا جاتا ہے۔ چار پانچ برس بعد ''سو شیف'' کا درجہ اسے دیا جاتا ہے۔ پھر ''سینیر شیف'' کا درجہ ہے۔ ذاکر کے بہ قول،''اِس طرح بہ طور کچن ہیلپر ہوٹل انڈسٹری میں آنے والا لڑکا سترہ اٹھارہ سال میں شیف کے درجے پر پہنچتا ہے۔ پھر اسپیشلائزیشن ہوتی ہے۔ کوئی سلاد بنانے کا ماہر ہوتا ہے، تو کوئی کیک تیار کرنے کا۔ ایک شخص اٹالین کھانے بناتا ہے، دوسرا چائنز!''
کون سے ادارے اِس امر کا تعین کرتے ہیں کہ جدوجہد کرنے والا اب شیف کے عہدے پر پہنچ گیا ہے؟ اس سوال کے جواب میں کہتے ہیں، ''پاکستان سمیت دنیا بھر کی ہوٹل انڈسٹری میں ایک بین الاقوامی سسٹم رائج ہے۔ انتظامیہ کی جانب سے کارکردگی اور قابلیت کی جانچ کی جاتی ہے، جس کی بنیاد پر ترقی اور ٹائٹل دیا جاتا ہے۔''
پتھر قیمتی ہوتے ہیں!
ذاکر کے ہاتھوں میں پتھر جڑی انگوٹھیاں نظر آتی ہیں۔ کیا وہ پتھروں کے اثرات پر یقین رکھتے ہیں؟
اِس سوال کے جواب میں اُن کا کہنا تھا،''پتھر قیمتی ہوتے ہیں۔ میرا ایمان ہے کہ رب کائنات کی بنائی ہوئی کوئی بھی شے بے کار نہیں ہوسکتی۔ میرے ہاتھ میں دو عقیق ہیں۔ اور دونوں بہت قیمتی ہیں۔''
عادت سر ڈھانپنے کی
ذاکر ایک مخصوص قسم کی ٹوپی پہنتے ہیں، جو اب اُن کی شناخت بن چکی ہے۔ یہ ٹوپی دراصل جنوبی افریقا کی دَین ہیں۔ بتاتے ہیں،''وہاں ایک مسلم گروپ 'ڈرگس' کے خلاف کام کر رہا تھا۔ اس کے ارکان سے میری دوستی تھی۔ وہ یہ ٹوپی پہنا کرتے تھے۔ ایک دو بار پہنی، پھر اِس کی عادت پڑ گئی۔'' یوں تو شیف سر ڈھانپنے کے عادی ہوتے ہیں، مگر اُن کے معاملے میں دینی رجحان نے اِس عادت کی پختگی میں کلیدی کردار ادا کیا۔ ''مذہب کے مطالعے نے مجھ پر سر ڈھانپنے کی اہمیت اجاگر کی، جس کے بعد اِس ضمن میں سنجیدگی برتنے لگا۔''
کہانی تو ایک شیف کی ہے، مگر سنتے سمے کسی جنگ جُو کی کتھا معلوم ہوتی ہے کہ اِسے جنون کے خمیر میں گوندھا گیا۔ تکمیلیت پسند شیف ذاکر گذشتہ چار دہائیوں سے ذایقے کی دنیا سے وابستہ ہیں۔ کوکنگ شوز کو اوج بخشنے والوں کی فہرست میں وہ نمایاں ہیں۔ رفتار اُن کا ہتھیار ہے، اور جدت اُن کی پہچان۔ گرفت کا یہ عالم ہے کہ لائیو پروگرام میں آنکھوں پر پٹی باندھ کر کھانا پکانے کا مظاہرہ کر چکے ہیں۔ اعتماد ایسا کہ اپنی بنائی ہوئی ڈش چکھنے کا تردد نہیں کرتے۔ مقبولیت کی دوڑ میں شوبز کی کئی شخصیات کو پیچھے چھوڑ چکے ہیں کہ ٹی وی اسکرین نے اُنھیں کروڑوں ناظرین سے جوڑ دیا ہے۔ یوں تو گذشتہ بارہ برس سے عوام میں اپنی تراکیب تقسیم کر رہے ہیں، مگر گذشتہ چھے برس میں اِس عمل میں باقاعدگی نظر آتی ہے۔ ٹی وی شو کے علاوہ اُن کی ''ریسیپیز'' پر مبنی کتابوں کا بھی بڑا چرچا ہے۔ ریکارڈ تعداد میں فروخت ہوتی ہیں یہ کتابیں۔ اب تک گیارہ کتابیں شایع ہوچکی ہیں۔ کتاب کی تیاری کے ہر مرحلے پر گہری نظر رکھتے ہیں۔
خود کو جنونی قرار دینے والے شیف ذاکر کے مطابق کوکنگ اُن کا اوڑھنا بچھونا ہے۔ اِس کے سوا اُنھیں کوئی کام نہیں آتا۔ سیکھنے کا عمل بھی ساتھ ساتھ جاری ہے۔ جب کسی نئی ڈش کا ذکر سنتے ہیں، تو اُس کے تعاقب میں نکل جاتے ہیں، چاہے وہ یورپ کے کسی دورافتادہ ملک میں چھپی ہو، یا کراچی کے کسی ڈھابے میں اس کا نسخہ برتا جارہا ہو۔ کئی برسوں سے اپنی تراکیب بانٹ رہے ہیں، مگر بہ قول اُن کے، اب بھی زنبیل میں کئی ریسیپیز موجود ہیں۔
ذاکر کے مطابق وہ فائٹر شیف ہیں۔ کہتے ہیں،''عام شیف اور فائٹر شیف میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ فائٹر شیف آل راؤنڈر ہوتا ہے۔ وہ ہر قسم کے کھانے بنانے کا ماہر ہوتا ہے۔ اس مقام تک پہنچنے کے لیے برسوں کی ریاضت درکار ہوتی ہے۔ فائٹر شیف کی مثال کم ہی ملتی ہے، اس کا براہ راست تعلق آپ کے جذبے سے ہے۔'' کیا وہ پاکستان کے اکلوتے فائٹر شیف ہیں؟ اِس سوال کا جواب دینا مناسب خیال نہیں کرتے، مگر یہ ضرور کہتے ہیں کہ اُن کی نظر سے ایسا کوئی شیف نہیں گزرا۔
خاندان کے اکلوتے شیف نہیں۔ ''بڑوں'' نے بھی اِس میدان میں خوب نام کمایا۔ اُن سمیت 27 افراد اِس پیشے میں ہیں۔ البتہ بیرون ملک سے اکتساب علم کرنے والے وہ اکلوتے ٹھہرے۔ محسنین کا ذکر بہت محبت سے کرتے ہیں۔ اِس فہرست میں سلطانہ صدیقی اور اطہر وقار عظیم نمایاں ہیں۔
پورا نام ہے محمد ذاکر۔ گھر والے پیار سے ذاکر میاں کہہ کر پکارتے تھے۔ شعور کی آنکھ کراچی میں کھولی۔ عبدالعزیز کے گھر وہ پیدا ہوئے، جو بہ طور شیف برٹش ایئرویز اور پی آئی اے سے وابستہ رہے۔ اُن کو دیکھ کر ہی ذاکر کے اندر یہ شوق پروان چڑھا۔ والد کے مزاج میں شفقت نمایاں تھی۔ ہر موڑ پر وہ راہ نمائی کرتے۔ کبھی ایسی کوئی حرکت کی ہی نہیں کہ سزا کی نوبت آتی۔ بہن بھائیوں میں وہ پانچویں ہیں۔ بچپن میں کھیلوں سے میلوں دُور رہے۔ البتہ لیڈری کا شوق تھا۔ دوست مسائل میں اُن ہی سے مشورے کرتے۔
طالب علم وہ ٹھیک ٹھاک تھے۔ شہر قائد کی درس گاہوں سے تعلیمی مراحل طے کیے۔ سائنس نہیں پڑھنا چاہتے تھے۔ شوق تو فوجی بننے اور ملک کی خدمت کرنے کا تھا۔ اسی جذبے نے اعتماد سے لیس کیا، گفت گو کا ڈھنگ سِکھایا۔ یہ خواہش پوری نہیں ہوسکی کہ والد اور دیگر بھائی ہوٹل انڈسٹری کا حصہ بن چکے تھے، اور چاہتے تھے ذاکر بھی اِسے ہی اپنائیں۔ بہ قول اُن کے،''میں فوج میں جانا چاہتا تھا، مگر گھر والے زبردستی کوکنگ کی جانب لے آئے۔ میں اس بات پر بہت رویا، مگر وہ نہیں مانے۔''
ہر صبح بڑے بھائی اُنھیں اپنے ساتھ ہوٹل لے جاتے۔ سیکھنے کی تحریک دیتے۔ جواباً وہ منہ بسورتے۔ لڑتے جھگڑتے۔ پھر اپنے ایک سابق استاد سے ملاقات ہوئی، جنھوں نے ان پر اِس شعبے کی اہمیت آشکار کی، سمجھایا کہ وہ کوکنگ کی دنیا میں رہتے ہوئے بھی ملک کی خدمت کر سکتے ہیں۔ بات دل کو لگی۔ جس پنج ستارہ ہوٹل سے بڑے بھائی منسلک تھے، وہاں ''کچن ہیلپر'' ہوگئے۔ باورچی خانے میں ہاتھ کا کٹنا، یا جلنا معمولی بات ہے، مگر ذاکر کے مطابق عملی میدان میں اساتذہ کے زیر سایہ تمام مراحل طے کیے جاتے ہیں، اور اتنی احتیاط برتی جاتی ہے کہ حادثہ قریب نہیں پھٹکتا۔ جب تک ایک کام میں مہارت حاصل نہیں کر لی جاتی، دوسرا کام نہیں سونپا جاتا۔ ''اب اگر میں پیاز کاٹ رہا ہوں، تو یومیہ چار چار من پیاز کاٹنی پڑے گی، تب ہی اگلا کام ملے گا۔''
شروع میں مسائل ضرور پیش آئے، مگر جب حتمی فیصلہ کر لیا، تو پچھتاوے کو اپنی لغت سے خارج کردیا۔ انٹر کے بعد ہوٹل انڈسٹری سے نتھی ہوگئے تھے۔ اب تدریسی سفر نے نئی شکل اختیار کر لی۔ کوکنگ ہی ان کی دنیا تھی۔ کچھ عرصہ کراچی میں مصروف رہے، پھر لاہور کا رخ کیا، جہاں ہوٹل انڈسٹری میں قدم جمانے میں زیادہ وقت نہیں لگا۔ نئے امکانات کی کھوج دبئی لے گئی۔ وہاں ایک کوکنگ کورس کیا۔ ساتھ ہی ایک ہوٹل میں پارٹ ٹائم ملازمت کرتے رہے۔ پھر سنگاپور کی سمت بڑھے۔ کچھ عرصے بعد وہ جنوبی افریقا میں تھے۔ بس، پھر نہیں رکے۔ نئے نئے ذایقوں کی تلاش میں کورسز کرتے چلے گئے۔ مختلف ممالک میں کام کیا۔ جس سمے شیف کا ٹائٹل ملا، وہ جنوبی افریقا کے ایک پنج ستارہ ہوٹل سے منسلک تھے۔
اُس لمحے کیا محسوسات تھے؟ یہ بیان کرنا مشکل ہے کہ بہ قول اُن کے، ان دنوں آگے بڑھنے کی خواہش اتنا متحرک رکھتی تھی کہ اردگرد کیا بیت رہا ہے، اِس کا اندازہ ہی نہیں ہوتا تھا۔ بہتر سے بہتر بننے کی للک نے باصلاحیت لوگوں کے حلقے میں انھیں شامل کر دیا، جنھوں نے فائٹر شیف بننے کا مشورہ دیا۔ اِس مشکل مرحلے کو بھی کام یابی سے طے کر گئے۔
98ء میں پاکستان واپسی ہوئی۔ ایک بڑی کیٹرنگ کمپنی سے وہ منسلک ہوگئے۔ اسی زمانے میں پہلی بار کیمرے کا سامنا کیا۔ یہ گیارہ برس پہلے کی بات ہے۔ ایک پرائیویٹ چینل نے بقرعید کے حوالے سے شو کا اہتمام کیا تھا۔ سیٹ کے ایک کونے میں باربی کیو آئٹمز تیار ہو رہے تھے، اور جو صاحب یہ فریضہ انجام دے رہے تھے، وہ شیف ذاکر تھے۔
اُن ہی دنوں ایک پرائیویٹ چینل نے ''مرچ مسالا'' کے نام سے پروگرام شروع کیا۔ ذاکر سے رابطہ کیا گیا۔ پیش کش اُنھوں نے قبول کی۔ ایک ڈیڑھ برس وہ پروگرام کیا۔ اِس دوران سولو شوز بھی کیے، کوکنگ کے مقابلوں کی بھی دیکھ ریکھ کی۔ اُس پروگرام نے اُنھیں حقیقی شناخت عطا کی۔ اُس تجربے کی بابت کہتے ہیں،''خوشی تھی کہ جو کچھ میں نے سیکھا، وہ اب میرے کام آرہا ہے۔''
پھر وہ سلطانہ صدیقی کی سربراہی میں چلنے والے چینل سے نتھی ہوگئے۔ کومل رضوی کے مارننگ شو میں پندرہ منٹ ذاکر کے پاس ہوا کرتے تھے۔ اُسی چینل پر غزل صدیقی کا پروگرام بھی آیا کرتا تھا۔ اس میں بھی اُنھوں نے اپنا جادو جگایا۔ اُس شو کو بہت پسند کیا گیا۔ پھر اچانک ڈیڑھ برس کا وقفہ آگیا۔ ٹی وی سے رابطہ منقطع ہوگیا۔ بہ قول اُن کے، وہ وقت بیرون ملک گزرا۔ خاموشی کے اس وقفے کے بعد پلٹے، تو اُنھیں سلطانہ صدیقی کا بلاوا ملا۔ کہتے ہیں، ''اُنھوں نے پہلے مجھے ڈانٹا۔ پھر کہا، اب کہیں جانے کی ضرورت نہیں۔ ان کا مجھ پر بڑا احسان ہے۔ بس، پھر میں اِسی چینل کا ہو کر رہ گیا۔'' آغاز میں ہفتے اور اتوار کو نشر ہونے والا پروگرام ''ویک اینڈ مسالا'' کیا کرتے تھے۔ یہ لائیو پروگرام تھا۔ بعد میں پیر تا جمعہ نشر ہونے والا شو مل گیا۔ اِس پروگرام نے ان کی شہرت پر تصدیق کی مہر ثبت کر دی۔ شوز کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔
ذاکر کے کوکنگ شو سے اصلاحی اور دینی رنگ جھلکتا ہے۔ اِس بابت کہنا ہے، ''کروڑوں لوگ مجھے دیکھتے ہیں۔ میں سوچتا ہوں، اگر میری کسی بات سے کوئی بھٹکا ہوا انسان راہ راست پر آجائے، تو شاید میری بخشش کا امکان پیدا ہوجائے۔ بس، یہ ایک کوشش ہے۔'' دینی رجحان دراصل والدہ سے وراثت میں ملا۔ بیرون ملک جانے کے بعد اسلام کی حقانیت کے قائل ہوگئے، اسی لیے واپس لوٹے۔ تصوف سے گہرا شغف ہے، مگر کسی سلسلے میں بیعت نہیں۔ قرآن پاک اور سنت رسولﷺ کو دنیا اور آخرت میں کام یابی کے لیے کافی قرار دیتے ہیں۔
ہندوستانی چینلز ریالٹی کوکنگ شوز پیش کر رہے ہیں، کیا یہ سلسلہ یہاں بھی شروع ہونا چاہیے؟ اس بابت وہ کہتے ہیں،''سلسلہ یہاں بھی شروع ہونا چاہیے، مگر اس میں حقیقت ہونی چاہیے۔ اُن کے کوکنگ شوز میں ڈراما زیادہ ہوتا ہے۔ بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک گھریلو لڑکی ماہرین کے سامنے کھڑی ہو کر نئی نئی ڈشز بنائے، اور چند ہفتوں میں شیف بن جائے۔''
دوران گفت گو ''شیف'' اور ''کوکنگ ایکسپرٹ'' کا فرق بھی موضوع بنا۔ اُن کے مطابق ہمارے گھر کی خواتین بھی کوکنگ ایکسپرٹ ہیں، مگر وہ شیف نہیں۔ شیف بننے کے لیے بین الاقوامی معیارات کے مطابق کئی مراحل طے کرنے پڑتے ہیں۔ کوکنگ شوز کی مقبولیت کے بعد ہر ماہر اپنے نام کے ساتھ شیف لگانے لگا تھا، جس کے خلاف ہم نے آواز بلند کی۔ اب یہ مسئلہ بڑی حد تک حل ہوچکا ہے۔''
شیف ذاکر کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ ڈش تیار کرنے کے بعد اُسے چکھتے نہیں۔ اس بابت کہتے ہیں،''جو شخص اپنا کھانا چکھتا ہے، وہ حقیقی شیف نہیں۔ پروفیشنل شیف کو یہ خوف نہیں ہوتا کہ کھانے میں نمک زیادہ ہوگیا ہے، یا مسالا کم ہوگیا۔ میری تمام ڈشز ڈائریکٹرز کے دفتر چلی جاتی ہیں، جہاں سے ہمیشہ مثبت ردعمل آتا ہے۔''
گو آفرز کئی ہوئیں، مگر شیف ذاکر فی الحال بیرون ملک جانے کا ارادہ نہیں رکھتے۔ کہتے ہیں،''میری خواہش ہے کہ جو علم میں نے آدھی دنیا گھوم کر، اپنی زندگی کے کئی برس صرف کرکے سیکھا، اُسے یہاں، اپنوں میں بانٹوں۔'' ذاکر کے مطابق وہ پاکستان کے اکلوتے شیف ہیں، جو Kosher کوکنگ جانتا ہے۔ بہ قول اُن کے،''یہ کوکنگ یہودیوں کے لیے مخصوص ہوتی ہے۔ میں نے یہ کوکنگ جنوبی افریقا میں سیکھی۔ Kosher کوکنگ کی دنیا میں بہت مانگ ہے۔ مجھے کئی آفرز ہوئیں، لیکن میرا باہر جانے کا ارادہ نہیں۔'' وہ لوگوں کی محبت کو اپنے لیے اعزاز قرار دیتے ہیں۔ ''یہ محبت میرا سرمایہ ہے۔ مجھے اِس پر فخر ہے۔ البتہ کبھی کبھی میں ڈر بھی جاتا ہوں۔ تنہائی میں روتا ہوں۔ اپنے گناہوں کی معافی مانگتا ہوں۔ درحقیقت میں ایک حقیر انسان ہوں، یہ عزت یہ مقام، سب اﷲ کی دین ہے۔''
ذاکر تسلیم کرتے ہیں کہ الیکٹرانک میڈیا کے طفیل کوکنگ ایکسپرٹس کو پہچان اور عزت ملی، مگر دکھ ہے کہ حکومت کی جانب سے تاحال اس شعبے کی جانب توجہ نہیں دی گئی۔ ''دنیا بھر میں کوکنگ سِکھانے کے لیے ادارے قائم ہیں۔ وہاں شیف کو ڈاکٹر اور انجینئر سے زیادہ عزت دی جاتی ہے۔ ہمارے ہاں شیف کو عزت تو مل رہی ہے، مگر حکومت کی جانب سے سنجیدہ اقدامات نہیں کیے گئے۔ حیرت انگیز طور پر پاکستان میں کوئی کوکنگ انسٹی ٹیوٹ نہیں ہے۔'' وہ اِس ضمن میں کوشش کر رہے ہیں۔ بین الاقوامی معیار کا ادارہ بنانے کی خواہش ہے۔ ایک چھوٹا ادارہ تو چلا بھی رہے ہیں، جہاں تین ماہ کا کورس ہوتا ہے۔ اِس شعبے کی جانب آنے والوں کو ایک ہی مشورہ دیتے ہیں،''میں ایک ہی بات کہتا ہوں کہ بھائی، اپنے سب سے اچھے دوست تم خود ہو۔ تو خود سے باتیں کرو۔ یہ جاننے کی کوشش کرو کہ تمھارا مقصد کیا ہے۔''
اپنوں کی جدائی کو وہ رب کی رضا قرار دیتے ہیں۔ والد کا انتقال ایک کرب ناک لمحہ تھا، مگر وہ خاموشی سے پیشہ ورانہ ذمے داریاں نبھاتے رہے۔ کسی پر ظاہر نہیں ہونے دیا کہ وہ کس سانحے سے گزرے ہیں۔
87ء میں شادی ہوئی۔ خدا نے دو بیٹوں، تین بیٹیوں سے نوازا۔ بچوں میں کوکنگ کا شوق منتقل نہیں ہوا۔ گھر والے، خصوصاً بیٹیاں ڈشز کی فرمایش کرتی ہیں، جنھوں وہ بہ خوشی پورا کرتے ہیں۔ لباس کے معاملے میں کوئی خاص پسند نہیں۔ لوگوں کو خوش ذایقہ کھانوں کے نسخے بتانے والے اس شیف کو باسی کھانے زیادہ پسند ہیں۔ بیگم کے ہاتھ کی دال اچھی لگتی ہے۔ فرمایش کرکے بنواتے ہیں۔ اوائل عمری میں فکشن بھی پڑھا، اور شاعری بھی، مگر اب وقت نہیں ملتا۔ فلموں میں کوئی خاص دل چسپی نہیں۔
اٹھارہ برس لگ جاتے ہیں شیف بنتے بنتے!
شیف بننے کی تفصیلات زیر بحث آئیں، تو بتانے لگے؛ اِس کے لیے سترہ اٹھارہ سال کی محنت درکار ہے۔ نیا آنے والا ایک برس ''کچن ہیلپر'' کی حیثیت سے کام کرتا ہے۔ پھر وہ ''کک ہیلپر'' ہو جاتا ہے۔ چند برس بعد وہ ''تھرڈ کک'' کہلانے لگتا ہے۔ چار برس بعد وہ ''فرسٹ کک'' کی کیٹیگری میں آجاتا ہے۔
اب شیف بننے کے مراحل شروع ہوتے ہیں۔ ہر مرحلہ وقت اور محنت کا متقاضی ہوتا ہے۔ ''شیف دی پارٹی'' کی حیثیت سے کام کیا جاتا ہے۔ چار پانچ برس بعد ''سو شیف'' کا درجہ اسے دیا جاتا ہے۔ پھر ''سینیر شیف'' کا درجہ ہے۔ ذاکر کے بہ قول،''اِس طرح بہ طور کچن ہیلپر ہوٹل انڈسٹری میں آنے والا لڑکا سترہ اٹھارہ سال میں شیف کے درجے پر پہنچتا ہے۔ پھر اسپیشلائزیشن ہوتی ہے۔ کوئی سلاد بنانے کا ماہر ہوتا ہے، تو کوئی کیک تیار کرنے کا۔ ایک شخص اٹالین کھانے بناتا ہے، دوسرا چائنز!''
کون سے ادارے اِس امر کا تعین کرتے ہیں کہ جدوجہد کرنے والا اب شیف کے عہدے پر پہنچ گیا ہے؟ اس سوال کے جواب میں کہتے ہیں، ''پاکستان سمیت دنیا بھر کی ہوٹل انڈسٹری میں ایک بین الاقوامی سسٹم رائج ہے۔ انتظامیہ کی جانب سے کارکردگی اور قابلیت کی جانچ کی جاتی ہے، جس کی بنیاد پر ترقی اور ٹائٹل دیا جاتا ہے۔''
پتھر قیمتی ہوتے ہیں!
ذاکر کے ہاتھوں میں پتھر جڑی انگوٹھیاں نظر آتی ہیں۔ کیا وہ پتھروں کے اثرات پر یقین رکھتے ہیں؟
اِس سوال کے جواب میں اُن کا کہنا تھا،''پتھر قیمتی ہوتے ہیں۔ میرا ایمان ہے کہ رب کائنات کی بنائی ہوئی کوئی بھی شے بے کار نہیں ہوسکتی۔ میرے ہاتھ میں دو عقیق ہیں۔ اور دونوں بہت قیمتی ہیں۔''
عادت سر ڈھانپنے کی
ذاکر ایک مخصوص قسم کی ٹوپی پہنتے ہیں، جو اب اُن کی شناخت بن چکی ہے۔ یہ ٹوپی دراصل جنوبی افریقا کی دَین ہیں۔ بتاتے ہیں،''وہاں ایک مسلم گروپ 'ڈرگس' کے خلاف کام کر رہا تھا۔ اس کے ارکان سے میری دوستی تھی۔ وہ یہ ٹوپی پہنا کرتے تھے۔ ایک دو بار پہنی، پھر اِس کی عادت پڑ گئی۔'' یوں تو شیف سر ڈھانپنے کے عادی ہوتے ہیں، مگر اُن کے معاملے میں دینی رجحان نے اِس عادت کی پختگی میں کلیدی کردار ادا کیا۔ ''مذہب کے مطالعے نے مجھ پر سر ڈھانپنے کی اہمیت اجاگر کی، جس کے بعد اِس ضمن میں سنجیدگی برتنے لگا۔''