مِرے وطن کی زمیں آسماں ہے میرے لیے
'پاکستان ہم نے بنایا ٹھیک تھا، چلایا ٹھیک نہیں‘
14 اگست 2013ء کو وطن عزیز کی عمر کے 66 برس مکمل ہو گئے ہیں، مہ و سال کی گنتی میں یہ زمانہ بھلے ہی قوموں کی نشوونما کے حوالے سے کم ہو مگر یہ بات بھی اپنی جگہ پر ایک حقیقت ہے کہ اس دوران میں کم از کم تین نسلیں گزر چکی ہیں اور اُن کے لیے ہماری قومی ترقی کی رفتار (جسے بعض لوگ عدمِ رفتار بھی کہتے ہیں) تسلّی بخش نہیں ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ اس عدمِ اطمینان کے اظہار میں شدت بھی بڑھتی جا رہی ہے اور جدید نسل اس طرح کے سوالات بھی تکرار سے کرتی دکھائی دیتی ہے کہ کیا پاکستان بنانے کی کوئی ضرورت تھی بھی یا نہیں؟ اس کی ایک وجہ تو یقینا ہماری مجموعی قومی کارکردگی ہے۔ جس سے اس مایوسی پر مبنی منفی روّیئے کو طاقت ملتی ہے لیکن اس تصویر کے بہت سے پہلو ایسے بھی ہیں جہاں تیرگی اور روشنی ساتھ ساتھ چلتے دکھائی دیتے ہیں اور کچھ منطقے بلا شبہ ایسے ہیں جہاں روشنی کی فراوانی دُور سے بھی دکھائی دے رہی ہے تو میرے نزدیک حالات کی اصلاح کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی ضروری ہے کہ نئی نسل کو یہ احساس اور یقین دلایا جائے کہ پاکستان کیوں ہمارے لیے ناگزیر اور ضروری تھا اور آج بھی یہ تمام تر مسائل کے باوجود کتنی بڑی نعمت ہے ۔ آسان لفظوں میں نئی نسل کو دینے والا پیغام یہی ہے کہ
''پاکستان ہم نے بنایا ٹھیک تھا، چلایا ٹھیک نہیں''
اب یہ مسئلہ ایسا ہے جس پر بہت کچھ لکھا اور کہا جا چکا ہے اور 1980ء تک زیادہ تر اہلِ فکر و نظر اس معاملے کو اسی نظر سے دیکھتے تھے لیکن اس کے بعد سے افغان جہاد، دہشت گردی، فرقہ پرستی، لوٹ مار، بیڈ گورننس اور آخر میں آ کر الیکٹرانک میڈیا کی وسعت اور دبائو کے پیش نظر صورتِ حال کچھ ایسی بدلی ہے کہ اب بزرگ، درمیانی اور نوجوان تینوں نسلوں کے سامنے چیزیں نہ صرف دھندلی ہو رہی ہیں بلکہ ایک دوسرے میں مد غم بھی ہوتی چلی جا رہی ہیں جس کے نتیجے میں اردگرد کا کنفیوژن بڑھتا جا رہا ہے یہاں تک کہ لوگ 14 اگست کو ایک نئے اور روشن سفر کا پہلا سنگِ میل سمجھنے کے بجائے اس بات پر بھی بحث کرتے نظر آ رہے ہیں کہ کیا اس دن کو ''یوم آزادی'' کہنا چاہیے یا ''یومِ قیامِ پاکستان'' اب یہ ایک ایسی بحث ہے جس پر اس طرح کے شعر آسانی سے منطبق کیے جا سکتے ہیں کہ
بات وہ کرتے رہے ہم جس کا مطلب کچھ نہیں
اس کا مطلب یہ ہُوا کہ اس کا مطلب کچھ نہیں
بلاشبہ اس وقت وطن عزیز ہمارے اپنے، اغیار کے اور تاریخ کے پیدا کردہ بے شمار مسائل کی زد میں طوفان میں گِھری کسی کشتی کی طرح ہچکولے کھا رہا ہے مگر یہ اس کہانی کا ایک موڑ ہے، انجام نہیں۔ فارسی میں کہتے ہیں کہ ''مَن کر دم شمار حذر بکنسیر'' یعنی میں نے احتیاط نہیں کی مگر تم ضرور بچ کے رہنا یعنی جن غلطیوں کا ارتکاب پہلی اور دوسری نسل نے کیا ہے اگر تیسری نسل ان سے بچ کر چلے اور اس کے ساتھ ساتھ اپنے بزرگوں کی غلطیوں کو درست کرنے کی کوشش بھی کرتی رہے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہماری اگلی نسلوں کے لیے پاکستان ایک ایسا ملک بن جائے جو بنا بھی ٹھیک تھا اور جو چل بھی ٹھیک طرح سے رہا ہے۔
تاریخ ''اصلاحِ احوال'' کی ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے جب کسی ایک موڑ پر کسی رہنما یا اندرونی اصلاحی عمل کی وساطت سے ایک بے سمت اور شوریدہ سر ہجوم کی طرح چلتی ہوئی قومیں ایک ایسے قافلے اور کاروان کی شکل میں ڈھل گئیں جس کو نہ صرف اپنے رستے اور منزل کی خبر تھی اور اس کے لیے نہ صرف اہلِ سفر ہر طرح کی قربانی دینے کو بھی تیار تھے بلکہ ان کے حُدی خوان بھی مسلسل انھیں جگاتے اور برسرِ عمل رہنے کے لیے تیار اور خبردار کر رہے تھے۔ دُور کیوں جایئے امریکا اور چین کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد سے امریکا کی لیڈر شپ کیا کر رہی ہے اسے ایک منٹ کے لیے ایک طرف رکھ کر جارج واشنگٹن سے ابراہام لِنکن تک کے زمانے کو دیکھیئے تو واقعی عقل دنگ رہ جاتی ہے اور انسان کی عظمت پر یقین مزید پختہ ہوجاتا ہے۔ کم و بیش ایسی ہی صورتِ حال مائوذے تنگ اور چو این لائی اور اُن کے بعد ڈین ژیاوپنگ اور اُن کے جانشینوں کے چین میں بھی دیکھی جاسکتی ہے کہ کس طرح ایک افیم زدہ معاشرہ دیکھتے ہی دیکھتے سپر پاور بن گیا ہے۔
پاکستان جغرافیائی طور پر امریکا، اسرائیل اور بھارت کی تخریبی کاروائیوں کا ہدف سہی، مذہبی طور پر بھی ہمارے بعض مسلمان ہمسایوں اور بھائیوں کی پراکسی وار نے اسے فرقوں اور مسلکوں کی آگ کا ایندھن بنا رکھا ہے اندرونی طور پر دہشت گردی اور حکمرانوں کی نا اہلی اور لوٹ مار بھی بر حق لیکن دیکھنے والی بات یہ ہے کہ اب بھی اس ملک میں اچھے اور امن پسند لوگ بہت بھاری اور واضح اکثریت میں ہیں اور متذکرہ بالا تمام جھمیلوں اور مسائل کے ہوتے ہوئے بھی زندگی کے کئی شعبوں میں انفرادی سطح پر ہمارے لوگوں نے شاندار کارنامے انجام دیے ہیں۔ سو اگر ہم ماتم کی ''پُھوڑی بچھانے کے بجائے ان موتیوں کو چُننے کی کوشش کریں جو گرد و غبار میں گم ہوتے چلے جا رہے ہیں اور انھیں کسی ترتیب میں لا کر اپنے گلے کا ہار بنانے کی کوشش کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ آئندہ آنے والے زمانوں میں اہلِ جہاں آزادی کے تحفظ اور اقدار کے فروغ کے حوالے سے پاکستان کا نام بھی امریکا اور چین کے ساتھ نہ لیں۔ اُس بدلے ہوئے روشن پاکستان کے خواب کی نذر ''تبدیلی'' کی خوشبو کی نامہ بَریہ ایک مختصر سی نظم :
بدلے گا جب نظام تو پھر اس کے ساتھ ساتھ
بدلے گا یہ سماج
پھیلے گی اپنے چار سُو خوابوں کی روشنی
بدلیں گے سب رواج
گائوں کے رنگ ڈھنگ بھی اور شہر کا مزاج
............
بدلے گا اپنی سوچ کا محور کچھ اس طرح
بستی میں لوٹ آئے گا موسم بہار کا
اپنی زمیں پہ اپنے ہی لوگوں کا ہو گا راج
............
اک دائرے کی مثل جو چلتے تھے رات دن
ان کو ملے گا اک نیا مرکز کہ جس میں ہو
آذاد اُن کی زندگی، محفوظ اُن کی لاج
بدلے گا جب نظام تو پھر اس کے ساتھ ساتھ
بدلے گا یہ سماج!
''پاکستان ہم نے بنایا ٹھیک تھا، چلایا ٹھیک نہیں''
اب یہ مسئلہ ایسا ہے جس پر بہت کچھ لکھا اور کہا جا چکا ہے اور 1980ء تک زیادہ تر اہلِ فکر و نظر اس معاملے کو اسی نظر سے دیکھتے تھے لیکن اس کے بعد سے افغان جہاد، دہشت گردی، فرقہ پرستی، لوٹ مار، بیڈ گورننس اور آخر میں آ کر الیکٹرانک میڈیا کی وسعت اور دبائو کے پیش نظر صورتِ حال کچھ ایسی بدلی ہے کہ اب بزرگ، درمیانی اور نوجوان تینوں نسلوں کے سامنے چیزیں نہ صرف دھندلی ہو رہی ہیں بلکہ ایک دوسرے میں مد غم بھی ہوتی چلی جا رہی ہیں جس کے نتیجے میں اردگرد کا کنفیوژن بڑھتا جا رہا ہے یہاں تک کہ لوگ 14 اگست کو ایک نئے اور روشن سفر کا پہلا سنگِ میل سمجھنے کے بجائے اس بات پر بھی بحث کرتے نظر آ رہے ہیں کہ کیا اس دن کو ''یوم آزادی'' کہنا چاہیے یا ''یومِ قیامِ پاکستان'' اب یہ ایک ایسی بحث ہے جس پر اس طرح کے شعر آسانی سے منطبق کیے جا سکتے ہیں کہ
بات وہ کرتے رہے ہم جس کا مطلب کچھ نہیں
اس کا مطلب یہ ہُوا کہ اس کا مطلب کچھ نہیں
بلاشبہ اس وقت وطن عزیز ہمارے اپنے، اغیار کے اور تاریخ کے پیدا کردہ بے شمار مسائل کی زد میں طوفان میں گِھری کسی کشتی کی طرح ہچکولے کھا رہا ہے مگر یہ اس کہانی کا ایک موڑ ہے، انجام نہیں۔ فارسی میں کہتے ہیں کہ ''مَن کر دم شمار حذر بکنسیر'' یعنی میں نے احتیاط نہیں کی مگر تم ضرور بچ کے رہنا یعنی جن غلطیوں کا ارتکاب پہلی اور دوسری نسل نے کیا ہے اگر تیسری نسل ان سے بچ کر چلے اور اس کے ساتھ ساتھ اپنے بزرگوں کی غلطیوں کو درست کرنے کی کوشش بھی کرتی رہے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہماری اگلی نسلوں کے لیے پاکستان ایک ایسا ملک بن جائے جو بنا بھی ٹھیک تھا اور جو چل بھی ٹھیک طرح سے رہا ہے۔
تاریخ ''اصلاحِ احوال'' کی ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے جب کسی ایک موڑ پر کسی رہنما یا اندرونی اصلاحی عمل کی وساطت سے ایک بے سمت اور شوریدہ سر ہجوم کی طرح چلتی ہوئی قومیں ایک ایسے قافلے اور کاروان کی شکل میں ڈھل گئیں جس کو نہ صرف اپنے رستے اور منزل کی خبر تھی اور اس کے لیے نہ صرف اہلِ سفر ہر طرح کی قربانی دینے کو بھی تیار تھے بلکہ ان کے حُدی خوان بھی مسلسل انھیں جگاتے اور برسرِ عمل رہنے کے لیے تیار اور خبردار کر رہے تھے۔ دُور کیوں جایئے امریکا اور چین کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد سے امریکا کی لیڈر شپ کیا کر رہی ہے اسے ایک منٹ کے لیے ایک طرف رکھ کر جارج واشنگٹن سے ابراہام لِنکن تک کے زمانے کو دیکھیئے تو واقعی عقل دنگ رہ جاتی ہے اور انسان کی عظمت پر یقین مزید پختہ ہوجاتا ہے۔ کم و بیش ایسی ہی صورتِ حال مائوذے تنگ اور چو این لائی اور اُن کے بعد ڈین ژیاوپنگ اور اُن کے جانشینوں کے چین میں بھی دیکھی جاسکتی ہے کہ کس طرح ایک افیم زدہ معاشرہ دیکھتے ہی دیکھتے سپر پاور بن گیا ہے۔
پاکستان جغرافیائی طور پر امریکا، اسرائیل اور بھارت کی تخریبی کاروائیوں کا ہدف سہی، مذہبی طور پر بھی ہمارے بعض مسلمان ہمسایوں اور بھائیوں کی پراکسی وار نے اسے فرقوں اور مسلکوں کی آگ کا ایندھن بنا رکھا ہے اندرونی طور پر دہشت گردی اور حکمرانوں کی نا اہلی اور لوٹ مار بھی بر حق لیکن دیکھنے والی بات یہ ہے کہ اب بھی اس ملک میں اچھے اور امن پسند لوگ بہت بھاری اور واضح اکثریت میں ہیں اور متذکرہ بالا تمام جھمیلوں اور مسائل کے ہوتے ہوئے بھی زندگی کے کئی شعبوں میں انفرادی سطح پر ہمارے لوگوں نے شاندار کارنامے انجام دیے ہیں۔ سو اگر ہم ماتم کی ''پُھوڑی بچھانے کے بجائے ان موتیوں کو چُننے کی کوشش کریں جو گرد و غبار میں گم ہوتے چلے جا رہے ہیں اور انھیں کسی ترتیب میں لا کر اپنے گلے کا ہار بنانے کی کوشش کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ آئندہ آنے والے زمانوں میں اہلِ جہاں آزادی کے تحفظ اور اقدار کے فروغ کے حوالے سے پاکستان کا نام بھی امریکا اور چین کے ساتھ نہ لیں۔ اُس بدلے ہوئے روشن پاکستان کے خواب کی نذر ''تبدیلی'' کی خوشبو کی نامہ بَریہ ایک مختصر سی نظم :
بدلے گا جب نظام تو پھر اس کے ساتھ ساتھ
بدلے گا یہ سماج
پھیلے گی اپنے چار سُو خوابوں کی روشنی
بدلیں گے سب رواج
گائوں کے رنگ ڈھنگ بھی اور شہر کا مزاج
............
بدلے گا اپنی سوچ کا محور کچھ اس طرح
بستی میں لوٹ آئے گا موسم بہار کا
اپنی زمیں پہ اپنے ہی لوگوں کا ہو گا راج
............
اک دائرے کی مثل جو چلتے تھے رات دن
ان کو ملے گا اک نیا مرکز کہ جس میں ہو
آذاد اُن کی زندگی، محفوظ اُن کی لاج
بدلے گا جب نظام تو پھر اس کے ساتھ ساتھ
بدلے گا یہ سماج!