گفت گو کا فن نہیں جانتا فقط طبلہ بجانا آتا ہے عرفان حیدر
ابھرتے ہوئے طبلہ نواز عرفان حیدر کی کہانی
طبلے کی تھاپ۔ ایک زندہ شے۔ جیسے دھڑکتا دل۔ مگر یہ ساز تب ہی اپنا جادو جگاتا ہے، جب اسے سچے کلاکار نے سنبھال رکھا ہو۔ خوش قسمتی سے عرفان حیدر یہ فسوں گری جانتے ہیں!
عرفان کا شمار نئی نسل کے باصلاحیت طبلہ نوازوں میں ہوتا ہے۔ شناخت کا مرحلہ طے کرنے کے بعد اب وہ شہرت کے زینے پر قدم رکھ چکے ہیں۔ گذشتہ تین عشروں کے دوران اُنھوں نے استاد فتح علی خان، فریدہ خانم، مہناز، ٹینا ثانی اور گل بہار سمیت کئی گلوکاروں کے ساتھ پرفارم کیا۔ سازوں کی بھی محفل جمائی۔ استاد رئیس خان جیسے نام وَر ستار نواز کی سنگت کی۔ استاد بڑے امداد صاحب کے پہلو میں بیٹھے۔ استاد فدا حسین خان کے سپوت، ساجد حسین کا ساتھ دیا۔ یہی نہیں، عرفان تو بین الاقوامی فن کاروں کے ساتھ بھی پرفارم کرچکے ہیں۔
قصّہ کچھ یوں ہے کہ فروری 2007 میں برٹش کونسل اور گوئٹے انسٹی ٹیوٹ کے تحت "Dialogue Through Music" کے زیرعنوان ایک جاز کنسرٹ منعقد ہوا تھا، جس میں چار فن کاروں نے اپنا جادو جگایا۔ اس کنسرٹ میں برطانوی ڈرمر، اسٹیفن کلارک، جرمن فن کار، Dieter Ilg اور فرانسیسی موسیقار، نیگین لی نے شرکت کی۔ پروگرام میں شریک چوتھے فن کار، عرفان حیدر تھے۔ بین الاقوامی دنیا میں منفرد مقام کے حامل ان فن کاروں کے ساتھ عرفان نے کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں پرفارم کیا، اور خوب داد بٹوری۔
اگست 2008 میں اِس کنسرٹ کا پھر انعقاد ہوا۔ اس بار انھوں نے جرمنی سے تعلق رکھنے والے کرستوف لییُر، فرانسیسی فن کار، پیٹرک ہیرل اور ہندوستانی سنتور نواز، پنڈت الہاس باپت کے سُروں سے سُر ملائے۔ کراچی اور اسلام آباد کے ساتھ اُس برس ممبئی میں بھی پرفارم کرنے کا موقع ملا۔ سولو بھی پرفارم کیا، سنگت بھی کی۔ یہ تجربہ یادگار رہا۔ کہتے ہیں،''بین الاقوامی فن کاروں کے ساتھ پرفارم کرنا ناقابل فراموش تجربہ تھا۔ اُسے بیان نہیں کیا جاسکتا۔ نام وَر آرٹسٹوں کے درمیان میں نے پاکستان کی نمایندگی کی۔ کنسرٹ کے شرکا کے علاوہ منتظمین نے بھی میری بہت تعریف کی۔''
دوران گفت گو جب طبلے کی تاریخ کا موضوع نکلا، تو حضرت امیر خسروؒ کا ذکر آیا، جنھیں اِس کا موجد قرار دیا جاتا ہے۔ کہتے ہیں،''پہلے یہ ڈھول نما تھا، پھر اِسے کاٹ کر طبلے کی شکل دی گئی۔'' طبلے میں اُن کے مطابق مختلف تالیں ہوتی ہیں، جن کی فہرست طویل ہے۔ البتہ چند ایسی ہیں، جو زیادہ برتی جاتی ہیں۔ بہ قول اُن کے، طبلہ زبان رکھتا ہے، بات چیت کرتا ہے، اور سُننے والے اس کی سمجھ رکھتے ہیں۔
عرفان کا تعلق جے پور کے سینیا گھرانے سے ہے، جس کے ہونہار سپوتوں نے جہاں گائیکی کے میدان میں جھنڈے گاڑے، وہیں ستار، سارنگی اور طبلے کو بھی بڑی خوبی سے برتا۔ راجستھان اِس گھرانے کا مسکن رہا۔ اُن کے دادا، جمال خان اپنے زمانے کے مشہور طبلہ نواز تھے۔ والد، منظور احمد جے پوری نے گائیکی کے میدان میں سکہ جمایا۔ غزل اور گیت گائیکی ان کا میدان تھا۔ بٹورے کے بعد خاندان نے پاکستان کا رخ کیا۔ ابتداً ڈیرا نواب کو مسکن بنایا، پھر ملک کے مختلف حصوں میں پھیل گیا۔ اب سے چھتیس برس قبل جب عرفان حیدر نے آنکھ کھولی، یہ گھرانہ میاں چنوں، ضلع خانیوال میں مقیم تھا۔
تین بہنوں، چھے بھائیوں میں عرفان کا نمبر دوسرا ہے۔ شرارتوں اور کھیلوں سے وہ دُور ہی رہے۔ جو ماحول میسر آیا، اُس میں موسیقی رچی بسی تھی۔ طبلے سے جلد ہی دوستی ہوگئی، جس نے تعلیمی سفر خاصا متاثر کیا۔ فقط مڈل تک پڑھ سکے۔ پھر گھریلو ذمے داریاں بھی آن پڑی تھیں۔ طبلے میں اُنھوں نے دادا کی شاگردی اختیار کی، اُن سے بہتر استاد بھلا کون ہوسکتا تھا۔ اُس زمانے میں بارہ بارہ گھنٹے ریاض کیا کرتے تھے۔ کہتے ہیں،''ریاض کرنے بیٹھ گئے، تو بس بیٹھے رہے۔ کھانا پینا سب بھول گئے۔'' دادا کے انتقال تک اُن سے فیض حاصل کیا۔ بعد میں کچھ عرصہ استاد حمید خان کے شاگرد رہے۔
پہلی پرفارمینس گیارہ برس کی عمر میں دی۔ یہ لاہور کا واقعہ ہے۔ دراصل ان کے والد ایک تقریب میں مدعو تھے۔ جب وہ خانیوال سے روانہ ہوئے، تو عرفان بھی ساتھ ہولیے۔ تقریب میں طبلہ تو کسی اور کو سنبھالنا تھا، مگر اسٹیج پر جاتے ہوئے، نہ جانے کیا سوچ کر، وہ اپنے بیٹے کو ساتھ لے گئے۔ اُنھوں نے بھی حاضرین کو مایوس نہیں کیا۔ دادا سے جو کچھ سیکھا تھا، اُس کا جم کر مظاہرہ کیا۔
پھر خاندان کراچی چلا آیا۔ کورنگی کے علاقے میں ڈیرا ڈالا۔ معاشی مسائل سے نبرد آزما ہوتے ہوئے وہ آگے بڑھتے رہے۔ یہاں ستار نواز، استاد ساجد حسین کی سرپرستی میسر آئی، جنھوں نے اِس فن کا حقیقی حسن آشکار کیا۔ اُن کی سنگت کی۔ محافل میں پرفارم کیا۔ دھیرے دھیرے اُنھیں پہچانا جانے لگا۔ دیگر بڑے گویوں کے ساتھ بھی پرفارم کرنے کے مواقع ہاتھ آئے۔ تقاریب میں لگاتار پانچ پانچ گھنٹے بھی پرفارم کیا۔ یوں تو کئی کنسرٹ کیے، بڑے بڑے فن کاروں کی سنگت کی، مگر استاد رئیس خان کے ساتھ پرفارم کرنا یادگار رہا۔ اُس تقریب میں استاد طافو بھی موجود تھے۔
اُسی زمانے میں وہ موسیقی کی ترویج کے لیے کام کرنے والے ایک گروپ کے رابطے میں آگئے، جو ''سمپورنا'' نامی ایک ادارے سے منسلک تھا۔ صفیہ بیگ اُس ادارے کی سربراہ تھیں۔ وہ بھی اُس کا حصہ بن گئے، اور ''سمپورنا'' کے تحت ہونے والے پروگرامز میں پرفارم کرنے لگے۔ اسی کے پلیٹ فورم نے "Dialogue Through Music" تک رسائی کی راہ ہم وار کی۔
عرفان فن کار تو کمال کے ہیں، مگر بہ قول اُن کے، وہ گفت گو کرنے کا فن قطعی نہیں جانتے، اُنھیں فقط طبلہ بجانا آتا ہے۔ یہ فن ہی ہے، جو ابلاغ کرتا ہے، جس کے طفیل وہ خود کو ہر ماحول میں ڈھال لیتے ہیں۔ ''بندہ کہیں کا بھی ہو، اگر وہ فن جانتا ہے، تو دنیا کے کسی بھی کونے میں خود کو منوالے گا۔'' یوں تو اپنے فن پر خوب گرفت ہے، مگر عرفان کے بہ قول، اسٹیج پرفارمینس کی بابت کچھ بھی حتمی طور پر نہیں کہا جاسکتا، کبھی کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ غلطی کے امکان کو نظرانداز نہیں کیاجاسکتا۔
گرانی کے اِس دور میں فقط طبلہ نوازی سے گزارہ ہوجاتا ہے؟ اِس سوال کا جواب وہ اثبات میں دیتے ہیں۔ کہنا ہے، اگر فن کار سنجیدہ ہو، وقت اور مواقع میسر ہوں، تو گزارہ ہوسکتا ہے، البتہ مجموعی صورت حال کو وہ اطمینان بخش قرار نہیں دیتے۔
شکایت عام ہے کہ موسیقی کے گھرانے دیگر فن کاروں کو تسلیم کرنے میں پس و پیش سے کام لیتے ہیں، اُنھیں اتائی قرار دیتے ہیں۔ عرفان کا تعلق بھی ایک گھرانے سے ہے، مگر وہ نئے آنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں، اور اِس ضمن میں کام کرنے والے اداروں کو سودمند قرار دیتے ہیں۔ پیدایشی صلاحیت کے وہ قائل ہیں، مگر ساتھ ہی یقین رکھتے ہیں کہ اِسے سیکھا بھی جاسکتا ہے۔
طبلہ سازی کا موضوع نکلا، تو کہنے لگے؛ یوں تو لاہور میں اچھے طبلے تیار ہوتے ہیں، مگر ہندوستان میں یہ صنعت بہت آگے ہے۔ عام طور پر چار پانچ ہزار میں معیاری طبلہ مل جاتا ہے۔ اِس ساز کی زندگی کے بارے میں، اُن کے مطابق، حتمی طور پر کچھ کہنا مشکل ہے۔ ''کبھی تو طبلہ برسوں چلتا ہے، کبھی پہلی ہی پرفارمینس میں جواب دے جاتا ہے۔'' وہ بھی اِس مشکل تجربے سے گزرے، مگر فن پر اچھی گرفت ہے، حاضرین کو احساس نہیں ہونے دیا۔
عام طور سے وہ کرتا شلوار پہنتے ہیں۔ کھانے میں کوئی خاص پسند نہیں۔ سردی کے موسم سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ مہدی حسن اور میڈم نورجہاں کے مداح ہیں۔ والد کا انتقال زندگی کا سب سے دُکھ بھرا لمحہ تھا۔ طبلہ نوازی میں وہ استاد طافو، تاری اور بشیر خان کے مداح ہیں۔ اُن کے مانند اپنا نام بنانا چاہتے ہیں۔ ہندوستان میں وہ ذاکر حسین کو سراہتے ہیں۔ طبلے کے علاوہ ستار اُنھیں بہت پسند ہے۔ پرانی فلمیں اچھی لگتی ہیں۔ مغل اعظم بہت پسند آئی۔
عرفان کا شمار نئی نسل کے باصلاحیت طبلہ نوازوں میں ہوتا ہے۔ شناخت کا مرحلہ طے کرنے کے بعد اب وہ شہرت کے زینے پر قدم رکھ چکے ہیں۔ گذشتہ تین عشروں کے دوران اُنھوں نے استاد فتح علی خان، فریدہ خانم، مہناز، ٹینا ثانی اور گل بہار سمیت کئی گلوکاروں کے ساتھ پرفارم کیا۔ سازوں کی بھی محفل جمائی۔ استاد رئیس خان جیسے نام وَر ستار نواز کی سنگت کی۔ استاد بڑے امداد صاحب کے پہلو میں بیٹھے۔ استاد فدا حسین خان کے سپوت، ساجد حسین کا ساتھ دیا۔ یہی نہیں، عرفان تو بین الاقوامی فن کاروں کے ساتھ بھی پرفارم کرچکے ہیں۔
قصّہ کچھ یوں ہے کہ فروری 2007 میں برٹش کونسل اور گوئٹے انسٹی ٹیوٹ کے تحت "Dialogue Through Music" کے زیرعنوان ایک جاز کنسرٹ منعقد ہوا تھا، جس میں چار فن کاروں نے اپنا جادو جگایا۔ اس کنسرٹ میں برطانوی ڈرمر، اسٹیفن کلارک، جرمن فن کار، Dieter Ilg اور فرانسیسی موسیقار، نیگین لی نے شرکت کی۔ پروگرام میں شریک چوتھے فن کار، عرفان حیدر تھے۔ بین الاقوامی دنیا میں منفرد مقام کے حامل ان فن کاروں کے ساتھ عرفان نے کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں پرفارم کیا، اور خوب داد بٹوری۔
اگست 2008 میں اِس کنسرٹ کا پھر انعقاد ہوا۔ اس بار انھوں نے جرمنی سے تعلق رکھنے والے کرستوف لییُر، فرانسیسی فن کار، پیٹرک ہیرل اور ہندوستانی سنتور نواز، پنڈت الہاس باپت کے سُروں سے سُر ملائے۔ کراچی اور اسلام آباد کے ساتھ اُس برس ممبئی میں بھی پرفارم کرنے کا موقع ملا۔ سولو بھی پرفارم کیا، سنگت بھی کی۔ یہ تجربہ یادگار رہا۔ کہتے ہیں،''بین الاقوامی فن کاروں کے ساتھ پرفارم کرنا ناقابل فراموش تجربہ تھا۔ اُسے بیان نہیں کیا جاسکتا۔ نام وَر آرٹسٹوں کے درمیان میں نے پاکستان کی نمایندگی کی۔ کنسرٹ کے شرکا کے علاوہ منتظمین نے بھی میری بہت تعریف کی۔''
دوران گفت گو جب طبلے کی تاریخ کا موضوع نکلا، تو حضرت امیر خسروؒ کا ذکر آیا، جنھیں اِس کا موجد قرار دیا جاتا ہے۔ کہتے ہیں،''پہلے یہ ڈھول نما تھا، پھر اِسے کاٹ کر طبلے کی شکل دی گئی۔'' طبلے میں اُن کے مطابق مختلف تالیں ہوتی ہیں، جن کی فہرست طویل ہے۔ البتہ چند ایسی ہیں، جو زیادہ برتی جاتی ہیں۔ بہ قول اُن کے، طبلہ زبان رکھتا ہے، بات چیت کرتا ہے، اور سُننے والے اس کی سمجھ رکھتے ہیں۔
عرفان کا تعلق جے پور کے سینیا گھرانے سے ہے، جس کے ہونہار سپوتوں نے جہاں گائیکی کے میدان میں جھنڈے گاڑے، وہیں ستار، سارنگی اور طبلے کو بھی بڑی خوبی سے برتا۔ راجستھان اِس گھرانے کا مسکن رہا۔ اُن کے دادا، جمال خان اپنے زمانے کے مشہور طبلہ نواز تھے۔ والد، منظور احمد جے پوری نے گائیکی کے میدان میں سکہ جمایا۔ غزل اور گیت گائیکی ان کا میدان تھا۔ بٹورے کے بعد خاندان نے پاکستان کا رخ کیا۔ ابتداً ڈیرا نواب کو مسکن بنایا، پھر ملک کے مختلف حصوں میں پھیل گیا۔ اب سے چھتیس برس قبل جب عرفان حیدر نے آنکھ کھولی، یہ گھرانہ میاں چنوں، ضلع خانیوال میں مقیم تھا۔
تین بہنوں، چھے بھائیوں میں عرفان کا نمبر دوسرا ہے۔ شرارتوں اور کھیلوں سے وہ دُور ہی رہے۔ جو ماحول میسر آیا، اُس میں موسیقی رچی بسی تھی۔ طبلے سے جلد ہی دوستی ہوگئی، جس نے تعلیمی سفر خاصا متاثر کیا۔ فقط مڈل تک پڑھ سکے۔ پھر گھریلو ذمے داریاں بھی آن پڑی تھیں۔ طبلے میں اُنھوں نے دادا کی شاگردی اختیار کی، اُن سے بہتر استاد بھلا کون ہوسکتا تھا۔ اُس زمانے میں بارہ بارہ گھنٹے ریاض کیا کرتے تھے۔ کہتے ہیں،''ریاض کرنے بیٹھ گئے، تو بس بیٹھے رہے۔ کھانا پینا سب بھول گئے۔'' دادا کے انتقال تک اُن سے فیض حاصل کیا۔ بعد میں کچھ عرصہ استاد حمید خان کے شاگرد رہے۔
پہلی پرفارمینس گیارہ برس کی عمر میں دی۔ یہ لاہور کا واقعہ ہے۔ دراصل ان کے والد ایک تقریب میں مدعو تھے۔ جب وہ خانیوال سے روانہ ہوئے، تو عرفان بھی ساتھ ہولیے۔ تقریب میں طبلہ تو کسی اور کو سنبھالنا تھا، مگر اسٹیج پر جاتے ہوئے، نہ جانے کیا سوچ کر، وہ اپنے بیٹے کو ساتھ لے گئے۔ اُنھوں نے بھی حاضرین کو مایوس نہیں کیا۔ دادا سے جو کچھ سیکھا تھا، اُس کا جم کر مظاہرہ کیا۔
پھر خاندان کراچی چلا آیا۔ کورنگی کے علاقے میں ڈیرا ڈالا۔ معاشی مسائل سے نبرد آزما ہوتے ہوئے وہ آگے بڑھتے رہے۔ یہاں ستار نواز، استاد ساجد حسین کی سرپرستی میسر آئی، جنھوں نے اِس فن کا حقیقی حسن آشکار کیا۔ اُن کی سنگت کی۔ محافل میں پرفارم کیا۔ دھیرے دھیرے اُنھیں پہچانا جانے لگا۔ دیگر بڑے گویوں کے ساتھ بھی پرفارم کرنے کے مواقع ہاتھ آئے۔ تقاریب میں لگاتار پانچ پانچ گھنٹے بھی پرفارم کیا۔ یوں تو کئی کنسرٹ کیے، بڑے بڑے فن کاروں کی سنگت کی، مگر استاد رئیس خان کے ساتھ پرفارم کرنا یادگار رہا۔ اُس تقریب میں استاد طافو بھی موجود تھے۔
اُسی زمانے میں وہ موسیقی کی ترویج کے لیے کام کرنے والے ایک گروپ کے رابطے میں آگئے، جو ''سمپورنا'' نامی ایک ادارے سے منسلک تھا۔ صفیہ بیگ اُس ادارے کی سربراہ تھیں۔ وہ بھی اُس کا حصہ بن گئے، اور ''سمپورنا'' کے تحت ہونے والے پروگرامز میں پرفارم کرنے لگے۔ اسی کے پلیٹ فورم نے "Dialogue Through Music" تک رسائی کی راہ ہم وار کی۔
عرفان فن کار تو کمال کے ہیں، مگر بہ قول اُن کے، وہ گفت گو کرنے کا فن قطعی نہیں جانتے، اُنھیں فقط طبلہ بجانا آتا ہے۔ یہ فن ہی ہے، جو ابلاغ کرتا ہے، جس کے طفیل وہ خود کو ہر ماحول میں ڈھال لیتے ہیں۔ ''بندہ کہیں کا بھی ہو، اگر وہ فن جانتا ہے، تو دنیا کے کسی بھی کونے میں خود کو منوالے گا۔'' یوں تو اپنے فن پر خوب گرفت ہے، مگر عرفان کے بہ قول، اسٹیج پرفارمینس کی بابت کچھ بھی حتمی طور پر نہیں کہا جاسکتا، کبھی کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ غلطی کے امکان کو نظرانداز نہیں کیاجاسکتا۔
گرانی کے اِس دور میں فقط طبلہ نوازی سے گزارہ ہوجاتا ہے؟ اِس سوال کا جواب وہ اثبات میں دیتے ہیں۔ کہنا ہے، اگر فن کار سنجیدہ ہو، وقت اور مواقع میسر ہوں، تو گزارہ ہوسکتا ہے، البتہ مجموعی صورت حال کو وہ اطمینان بخش قرار نہیں دیتے۔
شکایت عام ہے کہ موسیقی کے گھرانے دیگر فن کاروں کو تسلیم کرنے میں پس و پیش سے کام لیتے ہیں، اُنھیں اتائی قرار دیتے ہیں۔ عرفان کا تعلق بھی ایک گھرانے سے ہے، مگر وہ نئے آنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں، اور اِس ضمن میں کام کرنے والے اداروں کو سودمند قرار دیتے ہیں۔ پیدایشی صلاحیت کے وہ قائل ہیں، مگر ساتھ ہی یقین رکھتے ہیں کہ اِسے سیکھا بھی جاسکتا ہے۔
طبلہ سازی کا موضوع نکلا، تو کہنے لگے؛ یوں تو لاہور میں اچھے طبلے تیار ہوتے ہیں، مگر ہندوستان میں یہ صنعت بہت آگے ہے۔ عام طور پر چار پانچ ہزار میں معیاری طبلہ مل جاتا ہے۔ اِس ساز کی زندگی کے بارے میں، اُن کے مطابق، حتمی طور پر کچھ کہنا مشکل ہے۔ ''کبھی تو طبلہ برسوں چلتا ہے، کبھی پہلی ہی پرفارمینس میں جواب دے جاتا ہے۔'' وہ بھی اِس مشکل تجربے سے گزرے، مگر فن پر اچھی گرفت ہے، حاضرین کو احساس نہیں ہونے دیا۔
عام طور سے وہ کرتا شلوار پہنتے ہیں۔ کھانے میں کوئی خاص پسند نہیں۔ سردی کے موسم سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ مہدی حسن اور میڈم نورجہاں کے مداح ہیں۔ والد کا انتقال زندگی کا سب سے دُکھ بھرا لمحہ تھا۔ طبلہ نوازی میں وہ استاد طافو، تاری اور بشیر خان کے مداح ہیں۔ اُن کے مانند اپنا نام بنانا چاہتے ہیں۔ ہندوستان میں وہ ذاکر حسین کو سراہتے ہیں۔ طبلے کے علاوہ ستار اُنھیں بہت پسند ہے۔ پرانی فلمیں اچھی لگتی ہیں۔ مغل اعظم بہت پسند آئی۔