جیسنڈا فیکٹر

جیسنڈا فیکٹر لیڈرشپ کی انسانی انسپریشن اور نئے معیار رہبری سے مستعار ہے۔

ملکی سیاست ہارڈ کور دہشتگردی کے عذاب سے تو نجات پاچکی، دہشتگردوں کے ماسٹر مائنڈز تتر بتر ہوگئے اور ان کے خفیہ ٹھکانے نیست و نابود ۔ بھارت کے جنگی جنون اور بھارتی وزیر اعظم نریندرمودی کے مسلم دشمن ڈاکٹرائن '' مودیتوا '' کے سامنے پاک فوج دیوار چین کی طرح کھڑی ہے، مشرقی سرحدوں پر جارحیت یا انتخابات سے قبل پاکستان کے خلاف احمقانہ مہم جوئی کی سزا دینے کے لیے مسلح افواج چاک وچوبند ہیں ۔ بھارت کے فہمیدہ حلقے مودی کو خبردارکر رہے ہیں کہ غلطی مت کرنا، پاک فوج سے منہ توڑ جواب ملے گا ۔

یہی لیوریج ملکی سیاسی قیادت کے لیے ایک طاقتور اور منظم عسکری قوت کی طرف سے عوام کو ڈیلیور کرنے کے لیے صاف اور کھلا میدان مہیا کرتا ہے جس میں حکومت داخلی سیکیورٹی سے بلاخوف وخطر اپنے منشور اور پروگراموں کی دانشمندی کے ساتھ چاہے تو تکمیل کرسکتی ہے، کشیدگی کم کی جاسکتی ہے، اس کے لیے کسی کو جولیس سیزر بننے کی ضرورت نہیں ۔ حکومت جائز جمہوری فیئر پلے کے ذریعے تاریخ ساز تبدیلی کے خواب کو شرمندہ تعبیرکرسکتی ہے اور اسے اب تک اس سمت میں معنی خیز اور صائب پیش رفت کر ہی لینی چاہیے تھی ۔ اپوزیشن کو رات دن رگڑا لگانے کے عمل میں سسٹم کے رنگ پسٹن بیٹھنے کے خطرات سے خبردار رہنا چاہیے۔

ملک میں وار آن اپوزیشن خطرناک اعصابی جنگ ہے، بادی النظر میں حکمران اپنے دعوؤں اور وعدوں کے برعکس کافی ''مہنگی حکومت'' ثابت ہو رہے ہیں، قوم کا مرکزی اعصابی نظام سیاسی نظام کے دباؤ سے مضمحل ہے، اس لیے کوشش ہونی چاہیے کہ باہمی کشیدگی، ممکنہ تصادم اور اشتعال انگیز بیان بازی سے عوام مزید بدظن نہ ہوں، مگر حیرت ہے سیاسی و جمہوری پیش رفت فری اسٹائل ریسلنگ کے مقابلوں میں ڈھلنے لگی ہے، ہر طرف غیر آسمانی بلاؤں میں معرکہ آرائی ہے، شعلہ بیان سیاست دانوں کو میدان میں اتاراگیا ہے، حکومت اور اپوزیشن آمنے سامنے ہیں، میڈیا جوکچھ بلا کم وکاست دکھا رہا ہے وہ ٹوٹل شو ڈاؤن ہے ، ناظرین ذہنی دباؤ میں ہیں ، وزیراعظم عمران خان کہتے ہیں کہ '' نواز ، زرداری پیسے واپس کریں ورنہ نہیں چھوڑوں گا۔'' پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کا کہنا ہے کہ بینظیر پروگرام کا نام بدلنا سازش ہے، حکومت پروگرام بند کردے گی، 18 ویں ترمیم ختم کرکے ون یونٹ بنانا چاہتی ہے۔

ن لیگ نے مصرعہ طرح دیا ہے کہ حکومتی نا اہلی سے ملک میں مہنگائی کا طوفان آرہا ہے، وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کے وجدان کے مطابق '' نواز ، زرداری دولت کے عاشق ہیں، مرجائیں گے پیسے واپس نہیں کریں گے'' وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی وارن کر رہے ہیں کہ بلاول ریڈ لائن کا خیال رکھیں۔ ادھر جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے سرگودھا میں ملین مارچ کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے الٹی میٹم دیا ہے کہ اسلام آباد جام کردیں گے۔ اسی شارٹ بریک میں سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار منظر عام پر آئے اور انھوں نے عمران خان کو مشورہ دیا کہ حکومت ٹویٹ پر نہیں چلتی ۔ ان کا کہنا ہے کہ ملکی مسائل کا خاکہ وزیراعظم کے پاس نہیں ، پارلیمنٹ میں گالم گلوچ چل رہی ہے۔ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کہتے ہیں کہ ملک کا ہر سیاسی اور معاشی مسئلہ عدالتوں میں حل ہوتا ہے۔ عوام اس ہنگامۂ دار وگیر میں اس کے سوا اور کیا کہہ سکتے ہیں کہ

یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے؟

حقیقت میں ماجرا کچھ نہیں ، یہ جمہوریت کی خوش نصیبی اور سیاست دانوں کی کم نصیبی ہے کہ تلواریں دونوں طرف کی بے نیام ہیں ، پلوں کے نیچے سے بہت سارا پانی بہہ چکا، کوئی تاریخ تو درکنار اپنی لغزشوں سے سبق نہیں سیکھ رہا ، سوال یہ ہے کہ اگر پارلیمنٹ بے بس ہے ، میڈیا پورا سچ دکھا رہا ہے، حکومت کرپٹ سیاستدانوں کو جیل میں ڈالنا چاہتی ہے اور اپوزیشن جواب دینے کے لیے تیار ہے ، 22 کروڑ پاکستانیوں کے ملک میں نا ختم ہونے والاسیاسی کہرام برپا ہے جس کی روک تھام کرنے والے کہیں نظر نہیں آتے تو بتائیے سیکیورٹی سطح پر اس نعمت غیر مترقبہ ''فیئر فیلڈ'' کا کیا فائدہ جو حکومت کو حاصل ہے، ادارے بھی ایک پیج پر ہیں۔

پی ٹی آئی اپنے ایجنڈے کی تکمیل کے بجائے داخلی اختلافات سے کیوں ایک بند گلی میں داخل ہو رہی ہے۔کئی تجزیہ کار ایک بڑے بحران کا اندیشہ ظاہرکرتے ہیں، لیکن کوئی اس سچ کو نہیں اگلتا کہ ملکی سیاست میں رنجشیں ، دشمنیاں پاور پالیٹکس کے اس بدنام زمانہ قالین کا قصہ ہیں، جس کے نیچے 71 سال کا سیاسی گند (بعض لوگ اسے اعمال نامہ بھی کہتے ہیں) چھپا ہوا تھا وہ اب امڈ پڑا ہے، سیاست دان اپنی بدن بولی سے جمہوریت کی قدروں کی پامالی پرکمربستہ ہیں۔


بندہ مزدورکے اوقات تلخ تر ہیں، قوم نے جو تلخ و شیریں سیاسی سفر دیکھا اور بھگتا ہے اس کی غالباً ری ایمرجنس ہوئی ہے، کیا حزب اقتدار،کیا اپوزیشن دونوں میں ٹھنی ہوئی ہے،کیا الزامات اورکردارکشی سے جمہوری ثمرات عوام تک پہنچ سکیں گے، کیا واقعی پی ٹی آئی ملک کی تقدیرجارحانہ سیاسی اننگز سے بدل دے گی۔ ایسا نظر نہیں آتا ، سیاسی تقسیم اور افراط وتفریط نے داخلی اور عالمی صورتحال میں قومی سیاست کی رگوں میں آگ سی بھر دی ہے۔ معاشی صورتحال کی ابتری بہتری کی طرف کب گامزن ہوگی، اس کے لیے قوم کو ''جیسنڈا فیکٹر'' سے رجوع کرنا ہوگا۔

جیسنڈا فیکٹر لیڈرشپ کی انسانی انسپریشن اور نئے معیار رہبری سے مستعار ہے۔ اخبار ''اسٹار'' نے لکھا ہے کہ ایف بی آئی نے کرائسٹ چرچ میں دہشتگردی کے فروغ کے تین عناصرکا ذکرکیا ہے ، انٹرنیٹ ، سوشل میڈیا اور مقامی پر تشدد انتہا پسند گروپس۔ نیوزی لینڈ کی مسجد میں 50 مسلمانوں کی شہادت میں ان تین ذرایع کا وجود پایا گیا، حملہ آور آسٹریلیا سے آیا تھا، دہشتگردی کی تعریف مشکل ضرور ہے مگر اس کا مقصد ایک ہے ، عوام میں خوف و ہراس پھیلانا ۔ اخبار کے مطابق نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جیسنڈا آرڈرن نے دو عملی نہیں دکھائی۔

اس نے موقع پر سفید فام تفاخرکو حقارت سے ٹھکرا نے میں کوئی لمحہ ضایع نہیں کیا، اس نے غم زدہ مسلم کمیونٹی کی اجتماعی اور دل فگار انداز میں تالیف قلوب کی ، ان کا غم شیئرکیا، متاثرین کے گھر جاکر ان سے تعزیت کی، ریڈیو ٹی وی پر اذان نشر کروا دی۔

مسلم علما ومشائخ کی تکریم کی، گفتگوکا آغاز السلام وعلیکم سے کیا ۔ مسلم کمیونٹی اور اپنے ہم وطنوں پر واضح کیا اور ان کو یقین دلایا کہ وہ ہم میں سے ہیں، ان تین الفاظ they are us میں جیسنڈا نے ملکی سیاستدانوں کے معیار سیاست کا تعین کر دیا۔اس نے دہشتگردی سانحہ کے حوالہ سے جتنے احکامات جاری و نافذ کیے ان میں مسلمان برادری کو اعتماد میں لیا ، وہ صبروتحمل اور ہمدردی کا پیکر تھیں۔

جیسنڈا نے ترقی پسندی کی قدروں کی پاسداری کرتے ہوئے بارک اوباما اور جسٹین ٹروڈیوکی پیروی کی اور ان ہمعصر سیاستدانوں کے برعکس نئے عزم کے ساتھ ابھریں جو دہشتگردوں سے انتقام اور دیگرکارروائی کی روایتی وکالت کرتے ہیں۔اس پورے عمل میں اس سے کوئی لغزش نہیں ہوئی، اس نے حجاب لیا، سر پرکالا دوپٹہ سرکا نہیں، یک جہتی کے اظہار میں اس کا خلوص مثالی نظر آیا۔ جیسنڈا نے بتایا کہ ایسے غمناک موقع پر مخصوص الفاظ کافی نہیں ہوتے اور نہ طرز عمل روایتی و حاکمانہ ہونا چاہیے۔اس خاتون وزیراعظم کی فیصلہ سازی کی قوت بے مثال تھی، فوجی طرزکے ہتھیاروں کی بندش یا تحقیقات کے لیے شاہی کمیشن کی تشکیل کا اعلان اس سوال کے ساتھ کیا کہ کیا اس سانحہ سے بچا بھی جاسکتا تھا۔ جیسنڈا کو ادراک واحساس تھا کہ عوام جواب مانگتے ہیں۔

عوام اس بات کا یقین چاہتے ہیں کہ دہشت گردی کی واردات ، جس میں ملوث ملزم کا وہ نام تک نہیں لینا چاہتیں، کے حوالہ سے حکام کو پیشگی معلومات ہونا چاہیے تھیں۔جیسنڈا نے ایک پیغام صدر ٹرمپ کو بھی بھیجا کہ نیوزی لینڈ کی کیا مدد کرسکتے ہیں، تاہم ان کا مسلمانوں کے لیے ہمدردی اورغمگساری کا والہانہ اظہار دنیا بھر میں دیکھا گیا، عالم اسلام کے دل اس نے جیت لیے، ترقی پسند ملکوں کے سیاسی اکابرین نے خواہش ظاہر کی کہ کاش! ان کے رہنما جیسنڈا جیسے ہوتے۔یاد رہے دو سال قبل کینیڈا میں 6 مسلمانوں کو اسلامک سینٹرکیوبک سٹی میں قتل کیا گیا تھا، مجرم الیگزینڈر بسونیٹ کو چالیس برس کی سزا ہوئی، مگر حیرت انگیز بات یہ تھی کہ قدامت پسند پارٹی کے رہنما اینڈریو شیئر نے ابتدائی بیان میں یہ نہیں کہا کہ چھ مسلمان ہلاک ہوئے بلکہ اسے نفرت انگیز قتل کہا مگر ٹروڈیو اور جگمیت سنگھ نے اسلاموفوبیا کی سخت مذمت کی ۔جیسنڈا نے آسٹریلین سینیٹر کی مذمت بھی کی، اس کے بیان کو شرم ناک قرار دیا ۔

یہی چشم کشا جیسنڈا فیکٹر ہے۔ ہمارے سیاسی تھیٹر آف ابسرڈ اور جیسنڈا کی سیاسی دور اندیشی میں فاصلہ جتنا بھی ہے مگر انسان دوستی اور مسلم کمیونٹی کے دکھ کو محسوس کرنے والی اس '' چھوٹی سی دیہاتی وزیراعظم لڑکی '' نے ہمارے مولاجٹوں کو روشنی کی ایک کرن دکھائی ہے ۔
Load Next Story