دنیا کا سب سے تیز بدلتا ہوا شہر

دبئی کی بڑھتی ہوئی ٹریفک اور اس سے متعلقہ مسائل کا کچھ نہ کچھ تجربہ اور اندازہ تو تھا۔

Amjadislam@gmail.com

مجھے پہلی بار 1981 میں دبئی جانے کا موقع ملا تھا اس وقت یہ شہر ابھی اپنی اٹھان یعنی ''ٹیک آف'' کے مرحلے میں تھا اور وہاں کی قدیم تہذیب اور ماحول کے اثرات ابھی فضا میں محسوس کیے جاسکتے تھے۔ مجھے یاد ہے چھوٹے سے ایئرپورٹ سے نکلتے ہی چند سیڑھیاں تھیں جو سیدھی ایک پر رونق بازار میں اترتی تھیں ان دنوں یہ بہت سستا، غریب پرور اور پھیلتا ہوا شہر تھا۔ غیر ممالک سے آنے والے زیادہ تر لوگوں کا تعلق مزدور طبقے سے تھا، ہمارا قیام الجواہر نامی ایک ہوٹل میں تھا جس کے اردگرد کی عمارتیں ایک دوسرے سے کافی فاصلے پر تھیں۔

گزشتہ 38 برس میں تقریباً 20 مرتبہ اس علاقے کا چکر لگا ہے اور ہر بار یہ شہر پہلے سے بڑا اور نیا نیا لگا ہے اس بار 28 مارچ کو برادرم میاں منیر ہانس کی دعوت پر وہاں پہنچا تو گلوبل ولیج سمیت اس کے کچھ ایسے علاقے دیکھنے کا موقع ملا جنھیں اس سے قبل نہ دیکھنے کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ یہ گزشتہ وزٹ کے دنوں میں یا تو زیرتعمیر تھے یا ابھی سرے سے ان کی پلاننگ ہی نہیں ہوئی تھی۔ احمد ندیم قاسمی صاحب کا یہ شعر لکھا تو کسی اور حوالے سے گیا تھا مگر یہ دبئی شہر پر بھی آسانی سے چسپاں کیا جا سکتا ہے کہ

جب بھی دیکھا ہے تجھے عالم نو دیکھا ہے

مرحلہ طے نہ ہوا تیری شناسائی کا

حالیہ سفر کی بنیادی غایت میاں منیر ہانس کے نئے نئے قائم شدہ ادارے ہانس گلوبل کے زیر اہتمام یوم پاکستان کے حوالے سے ترتیب دیے گئے ایک مشاعرے میں شرکت تھی جس کے لیے وہ چند ماہ قبل ہی مجھ سے وعدہ لے چکے تھے۔

کسی نہ کسی وجہ سے چار میں سے دو مدعو کردہ شاعر یعنی ڈاکٹر صغرا صدف اور فرحت عباس شاہ شامل نہ ہو سکے، سو منتظمین کو شہزاد نیر اور میرے ساتھ ہی گزارا کرنا پڑا جو بقول ان کے ''گزارے''سے کہیں بہتر ہوگیا۔ میری فلائٹ کو 28 مارچ کی صبح 5.50 پر لینڈ کرنا تھا نہ صرف وہ 20 منٹ قبل پہنچ گئی بلکہ امیگریشن پر بھی خلاف توقع بہت کم وقت لگا۔ مجھے عرفان صاحب نے لینے آنا تھا جنہوں نے فون پر مجھے بتایا تھا کہ میں میجر شہزاد نیر کی معرفت چند برس قبل گوجرانوالہ کے نواح میں واقعہ گوندلا والا کے جس مشاعرے میں آیا تھا وہ انھی کے ڈیرے پر ہوا تھا اس لیے وہ مجھے اچھی طرح سے جانتے اور پہچانتے ہیں۔

اب ہوا یوں کہ واٹس ایپ پر اپنا فون نمبر انھوں نے مجھے بھیجا تھا جو راستے میں انٹرنیٹ کی عدم دستیابی کے باعث بروقت نہ پہنچ سکا اور اگلے بیس پچیس منٹ میں میرے پاس پریشان ہونے، سلام دعا کرنے والے احباب سے بات کرنے کے علاوہ کوئی کام نہ تھا، ایک مقامی رہائشی ادب دوست ہمسفر کے موبائل سے میاں برادر منیر کو نیند سے جگایا گیا لیکن اسی دوران میں عزیز عرفان بھی پہنچ گیا اور یوں یہ ٹینشن بڑھنے سے پہلے ہی ختم ہو گئی۔


فی الوقت ہمیں'' رش ان '' نامی ہوٹل میں جانا تھا جس کے مینجر برادرم سید فراست علی ہمارے منتظر تھے۔ مجھے یاد آیا کہ چند برس قبل بھی میں کسی مشاعرے کے حوالے سے اس ہوٹل میں دو دن رکا تھا ان دنوں دبئی میں روسی خواتین جتھوں کی صورت میں آیا کرتی تھیں اور ان کے یہاں کثرت سے مقیم ہونے کے سبب اس ہوٹل کا نام رشین ان پڑ گیا تھا۔ فراست بھائی سے خوب گپ شپ رہی مشاعرہ شیرٹن فور سیزنز نامی ہوٹل میں تھا جہاں اس سے قبل بھی کئی تقریبات میں جانا ہو چکا تھا، معلوم ہوا کہ رش ان میں مقام کا دورانیہ چند گھنٹوں ہی کا تھا کہ میرے اور شہزاد نیر کے لیے مشاعرہ گاہ سے قریب ایک اپارٹمنٹ ہاؤس میں بکنگ کروائی جا چکی تھی اس دوران میں برادرم عابد ملک، امجد اقبال امجد، بابر بھٹی، فرخ مراد ، تابش زیدی اور دیگر کئی احباب سے رابطہ ہو چکا تھا البتہ تین بہت عزیز دوستوں افتخار احمد بٹ، نورالحسن تنویر اور محمد افتخار بٹ کی کمی بہت شدت سے محسوس ہوئی۔

کالج کے دنوں کا دوست افتخار احمد بٹ تو چند ماہ قبل اس علاقے کا رہائشی ہو چکا ہے جہاں ہم سب نے اپنی اپنی باری پر جانا ہے جب کہ نورالحسن تنویر پاکستان کی قومی اسمبلی کا ممبر ہونے کی وجہ سے ان دنوں پاکستان میں تھے اور اپنے شاد باغ لاہور اور دمام سعودی عرب والا پیارا دوست محمد افتخار بٹ جو گزشتہ کئی برسوں سے دبئی میں مقیم ہے امریکا کے اسپتال میں زیر علاج ہے، دعا ہے کہ رب کریم اس کو صحت کاملہ عاجلہ عطا فرمائے اس کے بغیر دبئی شہر کی رونق کم از کم ہم دوستوں کے لیے آدھی رہ جاتی ہے۔

مشاعرے کی نظامت پہلے برادرم سید فراست شاہ نے اور پھر سلیم جعفری مرحوم کے زمانے کے پرانے دوست اور عمدہ ناظم اسلم بھٹی نے کی اور دونوں نے پروگرام کو بہت ہی خوش اسلوبی سے آگے بڑھایا سامعین میں غالب تعداد میاں منیر ہانس کی بزنس کمیونٹی کے دوستوں کی تھی مگر شعر فہمی اور بروقت اور صحیح داد دینے کے ضمن میں وہ کسی سے بھی پیچھے نہیں تھے۔ بحرین میں سابق سفیر پاکستان برادرم جاوید ملک (جو میڈیا کے حوالے سے بھی ایک بہت مقبول اور جانی پہچانی شخصیت ہیں) اور پاکستان کی پہلی خلا نورد اور قطبین گرد خاتون نمیرہ سلیم سے بھی ملاقات رہی۔ تمام شاعروں کو یوں تو بہت محبت اور توجہ سے سنا گیا لیکن ہم دونوں پاکستان سے آئے ہوئے مہمانوں کو انھوں نے صحیح معنوں میں سر آنکھوں پر بٹھا کر رکھا اور خوب کھل کر داد دی۔

اگلے دن سہہ پہرکو یارعزیزفرخ مراد کے گھر پر چائے کے دوران برادرم ریحان احمد اور تابش زیدی سے بھی ملاقات ہو گئی اور طے پایا کہ سیاستدانوں کے جھگڑوں سے علیحدہ رہتے ہوئے متحدہ عرب امارات کی حد تک پاکستانی اور بھارتی ادبی تنظیمیں مل جل کر کام کریں اور پوری کوشش سے اس شعر کی روح کو آگے بڑھائیں کہ

ان کا جو کام ہے وہ اہل سیاست جانیں

میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے

برادرم بابر بھٹی کی تجویز پر رات کا کھانا اور ملاقات گلوبل ویلج میں رکھے گئے جہاں سو سے زیادہ ممالک کے مخصوص اور مستقل علاقے ہیں جو اپنے اپنے ملک کے کلچر اور مصنوعات کی نمایندگی کرتے ہیں مگر یہ سال میں صرف چھ مہینے یعنی اکتوبر سے اپریل تک آباد ہوتا ہے روشنیوں اور لوگوں کا ہجوم ہراعتبار سے دیدنی تھا مگر وہاں تک پہنچنے اور پارکنگ اور بعد از پارکنگ کے مراحل کسی ہفت خواں کو طے کرنے سے کم نہ تھے۔

دبئی کی بڑھتی ہوئی ٹریفک اور اس سے متعلقہ مسائل کا کچھ نہ کچھ تجربہ اور اندازہ تو تھا مگر یہ کبھی نہیں سوچا تھا کہ پارکنگ ایریا سے صرف آدھا کلو میٹر دور مین روڈ پر پہنچنے میں ڈیڑھ گھنٹہ بھی لگ سکتا ہے۔ امجد اقبال امجد کی ماہرانہ ڈرائیونگ اور میاں منیر کی دلچسپ باتوں میں یہ وقت گزر تو گیا مگر اس کی تھکن ابھی تک باقی ہے واپسی کی فلائٹ براستہ شارجہ تھی جس کا ایئرپورٹ تو چھوٹا ہے مگر وہاں کے سیکیورٹی کے مراحل ایسے ہیں جن سے گزرنا اپنی جگہ پر کسی امتحان سے کم نہیں وہاں سے مجھے دو مختلف تقریبات میں شمولیت کے لیے کراچی جانا تھا جن کی تفصیل انشاء اللہ اگلے کالم میں بیان ہوگی۔
Load Next Story