مہنگائی اور معاشی جمود

مہنگائی اور معاشی جمود اس حکومت کی سب سے بڑی اپوزیشن ہے۔

msuherwardy@gmail.com

حکومت کو اس وقت کوئی چیلنج نہیں ہے۔ حکومت کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ (ن) حکومت گرانے اور کسی بھی قسم کے سیاسی عدم استحکام کا حصہ بننے کے لیے تیار نہیں ہے۔ن لیگ کی سیاست یہی لگ رہی ہے کہ وہ بھی اس حکومت کو مکمل وقت دینا چاہتی ہے ۔

ن لیگ نے پی پی پی اور مولانا فضل الرحمٰن کی احتجاجی سیاست کا حصہ نہ بننے کا فیصلہ کیا ہے۔ اپوزیشن کی باقی جماعتوں کے ساتھ تعاون صرف اور صرف پارلیمنٹ تک محدود رہے گا۔ پارلیمنٹ سے باہر کوئی تعاون نہیں کیا جائے گا۔ سول ملٹری تعلقات بھی بہترین ہیں۔لیکن مضبوط سیاسی پوزیشن میں ہونے کے باوجود حکومت کمزور لگ رہی ہے۔ اس کے پاؤں زمین پر لگتے نظر نہیں آرہے۔ آخر اس کی کیا وجہ ہے؟

کہیں نہ کہیں یہ حکومت عوامی حمایت سے محروم ہوتی جا رہی ہے۔ حکومت کو سمجھنا ہوگا کہ آمریت کو بھی ایک محدود عوامی حمایت کی ضرورت ہوتی ہے۔ عوام پر اتنا بوجھ جا سکتا ہے جتنا وہ سہہ سکیں۔ آپ گزشتہ حکومتوں کو برا بھلا کہہ کر سیاسی برتری تو حاصل کر سکتے ہیں لیکن عوام کو تکلیف دے کر سیاسی طاقت حاصل نہیں کر سکتے۔

یہ احساس کہ عوام اس حکومت سے ناراض ہوتے جا رہے ہیں، اس حکومت کی سیاسی طاقت میں دن بدن کمی کرتا جا رہا ہے۔ عوام ناراض ہوں تو گیم چل نہیں سکے گی۔ پہلے حکمران چور ہونے کے باوجود عوام کو تکلیف نہ دینے کی پالیسی پر عمل پیرا تھے۔ لیکن اب عوام کو ہر روز ایک نئی تکلیف دی جارہی ہے۔ ایسی پالیسی سے سیاسی و جمہوری حکومت مقبولیت کھو بیٹھتی ہے۔ عوام کی خاموش ناراضی بھی کمزوری پیدا کرتی ہے۔

حکمران کہہ رہے ہیں کہ ملک میں کرپشن کا کینسر پھیل چکا ہے۔ اس لیے کیمو تھیراپی کی جا رہی ہے۔ کیموتھیراپی تکلیف دہ ہوتی ہے۔ اس لیے تکلیف ہو رہی ہے۔ لیکن کوئی یہ بتانے کو تیار نہیں کہ کیمو تھیراپی کے کتنے انجکشن دینے ہیں۔ کیمو تھیراپی کی زیادتی مریض کی جان لے سکتی ہے۔ لیکن حکومت سات ماہ سے انجکشن دے رہی ہے۔

مہنگائی اور معاشی جمود اس حکومت کی سب سے بڑی اپوزیشن بن گیا ہے۔ حکومت کو اندازہ نہیں ہو رہا کہ ملک کی مڈل کلاس کے لیے زندگی گزارنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔ بجلی گیس کے نرخوں میں ہوش ربا اضافے نے گھروں کے بجٹ تباہ کر دیے ہیں۔ سردیوں میں گیس کے بلوں نے جان نکال دی۔ حکومت نے جعلی انکوائریوں کے اعلانات اور چند افسروں کی تبدیلی سے معاملے پر مٹی ڈالنے کی کوشش کی لیکن عوام کا درد کم نہیں ہوا۔ حکومت کو مڈل کلاس کی مشکلات کا احساس کرنا ہوگا۔


اب گرمیوں کے آغاز سے بجلی کے بلوں نے بھوت بن کر ڈرانا شروع کر دیا ہے۔ ہر گھر میں ایک ہی بحث ہے کہ بجلی کے بل کیسے دیے جائیں گے۔ اب بجلی کا ریٹ کیا ہوگیا ہے۔ لوڈ شیڈنگ کی خبروں نے بھی پیپلز پارٹی کے دور کی یاد ستانی شروع کر دی ہے۔ بجلی چوری بند نہیں ہورہی ہے۔ گزشتہ کرپٹ حکومتوں کی طرح اب بھی بجلی چوری کا بوجھ ان قانون پسند شہریوں پر ڈالا جارہا ہے جو پابندی سے بل ادا کر رہے ہیں۔ موجودہ اور گزشتہ حکومتوں میں کیا فرق ہے۔ آپ بھی کے پی، فاٹا، سندھ، بلوچستان سے بجلی کے بل وصول کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

آپ کے پاس بھی سرکلر ڈیٹ کو کم کرنے اور کنٹرول کرنے کی کوئی حکمت عملی نہیں ہے۔ ہم مان لیتے ہیں کہ گزشتہ حکومت آپ کے لیے سرکلر ڈیٹ چھوڑ کر گئی ہے۔ لیکن سوال یہ بھی ہے کہ آپ کے دور میں اس میں اضافہ کیوں ہو رہا ہے۔ کیا ہی اچھا ہوکہ آپ ملک میں بجلی چوری روکنے کے لیے فوج کی مدد سے آپریشن شروع کر دیں۔ اس کی ماضی میں مثال موجود ہے۔ صرف فوج ہی بجلی چوروں کر پکڑنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اس حکومت میں یہ جان نہیں ہے۔ ایک طرف حکومت غریب کی فلاح کے لیے اقدامات کا اعلان کر رہی ہے۔

اعلانات کیے جا رہے ہیں کہ غریبوں کی مدد کی جائے گی لیکن دوسری طرف مڈل کلاس کا گلا گھونٹا جا رہا ہے۔ نوکریوں میں اضافہ کرنے کے بجائے بے روزگاری میں اضافہ ہوا ہے۔ آپ مانیں یا نہ مانیں لیکن پاکستان کے بڑے اداروں نے ڈاؤن سائزنگ کی ہے۔ تنخواہوں میں کمی کی گئی ہے۔ لیکن حکومت کو کوئی احساس ہی نہیں ہے، سفید پوش طبقے کے لیے سفید پوشی کا بھرم رکھنا مشکل ہوگیا ہے۔

روپے کی قدر میں کمی نے بھی مہنگائی کے طوفان میں جلتی پر تیل کا کام کیا ہے۔ سب کچھ گزشتہ ادوار پر ڈال کر کب تک کام چلایا جاسکتا ہے۔ آخر حالات کو سنبھالنے اور ملک کو چلانے کے لیے کچھ تو کرنا پڑے گا۔ اگر آپ نے بھی وہی کرنا ہے جو گزشتہ حکومتیں کرتی رہی ہیں تو پھرآپ میں اور ان میں کیا فرق ہے۔ کیا یہ دلیل قابل قبول ہے کہ گزشتہ ادوار میں بھی پٹرولیم کی قیمتیں مہنگی رہی ہیں۔ اس لیے ہمیں بھی پٹرولیم قیمتیں مہنگی کرنے کا اختیارہے۔ کیا یہ دلیل قابل قبول ہے کہ اسحاق ڈار بھی ایسے کرتے تھے اس لیے ہمیں بھی ایسا کرنے کا اختیار ہے۔

کیا یہ تسلیم کیا جا سکتا ہے کہ گزشتہ دور میں جو کچھ ہوتا رہا ہے وہ ہمیں بھی کرنے کا اختیار ہے۔ جب ن لیگ ایمنسٹی اسکیم لاتی تھی تو آپ کہتے تھے کہ چوروں کو تحفظ دیا جا رہا ہے۔ کالا دھن سفید کرنے کے لیے لانڈری لگا دی گئی ہے۔ چور چوروں کو تحفظ دے رہے ہیں۔ ٹیکس چوروں کو سزا دینے کے بجائے عام معافی دے دی گئی ہے۔ کیا کوئی سوال کر سکتا ہے کہ آج آپ ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کیوں لا رہے ہیں۔ آپ کریں تو حلال وہ کریں تو حرام۔ وہ کریں تو ملک دشمن آپ کریں تو محب وطن۔

آپ بتاتے تھے کہ حکمران چور ہیں اس لیے لوگ ٹیکس نہیں دیتے۔ عوام کو ڈر ہے کہ ان کا ٹیکس چوری ہوجائے گا۔ اس لیے وہ چور حکمرانوں کو ٹیکس نہیں دیتے۔ لیکن آج آپ تو چور حکمرانوں جتنا ٹیکس بھی اکٹھا نہیں کر سکے۔

مہنگائی اور معاشی جمود اس حکومت کی سب سے بڑی اپوزیشن ہے۔ عوام کی ناراضی اس حکومت کی بڑی اپوزیشن بن گئی ہے۔ عوام کا خاموش احتجاج اس حکومت کے خلاف سب سے بڑی احتجاجی تحریک ہے۔ آپ محسوس کریں یا نہ کریں لیکن گھر گھر مہنگائی اور معاشی جمودکی وجہ پریشانی چھائی ہوئی ہے۔ لوگوں میں ناراضی اور غصہ نظر آرہا ہے۔تبدیلی ایک نعرہ سے طعنہ بنتی جا رہی ہے۔ لوگوں نے تبدیلی سے اظہار ناراضی کرنا شروع کر دیا ہے۔ یوٹرن پالیسی کو پذیرائی نہیں مل رہی۔ تحریک انصاف کا ووٹ بینک پڑھے لکھے نوجوان ہیں۔ وہ ناراض اور نا امید ہو رہے ہیں۔یہی حکومت کے لیے اصل پریشانی ہے مگر شاید کوئی سمجھنے کو تیار نہیں ہے۔
Load Next Story