لیوپس ایک جان لیوا بیماری
لیوپس لاعلاج ہے اور صرف بروقت تشخیص ہی سے اس بیماری کو شکست دی جاسکتی ہے
سیلینا گومیز ایک مشہور امریکی گلوکارہ، اداکارہ، اور پروڈیوسر ہیں۔ بچوں کی ایک ٹیلی ویژن سیریز ''بارنی اینڈ فرینڈز'' سے آغاز کیا لیکن اصل شہرت ''وزرڈز آف ویورلی پیلس'' نامی پروگرام سے ملی جو چار سیزنز پر مشتمل تھا اور 2007 سے 2012 تک ڈزنی چینل سے نشرہوا۔ اس کے بعد میوزک میں بریک ''سیلینا گومیزاینڈ دی سین'' نامی بینڈ سے ملا۔ اور اس کے بعد سیلینا گومیز سولو سنگر کے طور پر شہرت کی بلندیوں تک پہنچ گئیں۔ لیکن پھر 2013 آیا، جب سیلینا کو پتا چلا کہ وہ لیوپس نامی بیماری میں مبتلا ہیں۔ اس بیماری سے وہ اب تک جنگ لڑ رہی ہیں۔
اپنے ایک انٹرویو میں انہوں نے اعتراف کیا کہ جب انہیں پتا چلا کہ وہ لاعلاج بیماری لیوپس میں مبتلا ہیں تو وہ ڈپریشن اور ذہنی اذیت میں مبتلا رہیں۔ اس بیماری کے نتیجے میں ان کے دونوں گردے ناکارہ ہوگئے، اور انہیں گردہ ٹرانسپلانٹ کی فوری ضرورت تھی۔ وہ شدید ذہنی اذیت میں مبتلا ہوگئیں جب انہیں معلوم ہوا کہ ان کا گردہ ان کے کسی فیملی ممبر سے میچ ہی نہیں ہوا۔ ''اس وقت میں اپنی زندگی کے مشکل ترین اور نا امیدی کے دور سے گزری؛ اور مجھے اپنے سامنے صرف موت ہی دِکھ رہی تھی،'' سیلینا گومیز نے بتایا۔
لیکن خوش قسمتی سے ان کی سب سے اچھی دوست فرینسیا رائیسا کا گردہ معجزاتی طور پر میچ ہوگیا، جس کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں؛ اور 2017 میں کامیاب سرجری بھی ہوئی۔ اب ان کی زندگی نارمل ضرور ہے، لیکن اس بیماری سے ہر روز لڑتے ہوئے گزر رہی ہے۔
مائیکل جیکسن مشہور امریکی پاپ سنگر، سانگ رائٹر، اور ڈانسر تھا۔ کنگ آف پاپ کے طور پر مشہور تھا۔ وہ اپنی جیکسن فیملی میں آٹھویں نمبر میں تھا۔ غربت کا انتہائی مشکل وقت دیکھا۔ مائیکل جیکسن نے گانے کا آغاز اپنے بڑے بھائیوں کے ساتھ ''جیکسن فائیو'' سے کیا۔ 1971 میں سولو سنگر کے طور پر اپنے نئے کیریئر کا آغاز کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے 1980 تک کامیاب ترین گلوکاروں کی فہرست میں شامل ہوگیا۔ مائیکل جیکسن کے نام پوری زندگی تھرڈ بیسٹ سیلنگ میوزک کا اعزاز رہا، اور ایک اندازے کے مطابق پوری دنیا میں ٹوٹل میوزک کی فروخت 350 ملین ہے۔ ''تھرلر'' نامی میوزک البم بیسٹ سیلر رہا، جس کی ایک اندازے کے مطابق 66 ملین کاپیز پوری دنیا میں فروخت ہوئیں۔ مائیکل جیکسن نے گنیز ورلڈ ریکارڈ، 15 گریمی ایوارڈز، 26 امریکن میوزک ایوارڈز، 13 نمبر ون یو ایس سنگل اپنے نام کیے۔ مائیکل جیکسن میں لیوپس کی تشخیص 1986 میں ہوئی۔ اس کے بعد وہ اس بیماری کی جنگ 25 جون 2009 کو ہار گیا۔
اس کی موت کی وجوہ میں ایک متنازعہ دوا کا زیادہ استعمال بھی سامنے آیا جس بارے میں اس کے ڈاکٹر پر الزام تھا کہ اس نے اوور ڈوز دی؛ اور اس پر مذکورہ ڈاکٹر کونراڈ میورے کو دو سال کی سزا بھی ہوئی۔ لیکن لیوپس کی وجہ سے ہی وہ خاصی ادویات استعمال کرتا رہا تھا۔
سیلینا گومیز اور مائیکل جیکسن کے علاوہ بھی بہت سے مشہور نام اس بیماری کا شکار رہے جن میں لیڈی گاگا، ٹونی بریکسٹن، نِک کینن، کریسٹن جوہنسٹن، ٹرِک ڈیڈی وغیرہ شامل ہیں۔
خلیہ (cell) کسی بھی جاندار کا بنیادی، ساختی، حیاتیاتی، اور فعال یونٹ ہے۔ خلیے کو ہم اپنی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتے، اس کےلیے خردبین (مائیکرو اسکوپ) کا استعمال کیا جاتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق، بالغ انسانی جسم 100 ٹریلین (ایک ہزار کھرب) خلیات اور 78 مختلف اقسام کے اعضاء پر مشتمل ہوتا ہے۔ اللہ تعالی نے ہمیں مدافعتی نظام (امیون سسٹم) سے نوازا ہے جس کا مقصد جسم کو مختلف انفیکشنز اور زہریلے مادوں کے خلاف مزاحمت فراہم کرنا ہے۔ ہمارے مدافعتی خلیات ہمارے جسم کے ہر ایک خلیے کو پہچانتے ہیں۔ اس لیے جب بھی کوئی بیکٹیریا، وائرس، یا فنگس (پھپھوندی) جسم میں داخل ہوتا ہے تو ہمارا مدافعتی نظام فوری طور پر اسے پہچان لیتا ہے، اور اس کے خلاف مخصوص مرکبات یعنی ''اینٹی باڈیز'' بناکر اسے ختم کردیتا ہے؛ جس کی وجہ سے ہم تندرست رہتے ہیں۔
لیوپس ہمارے مدافعتی نظام کی ایک بیماری ہے جس میں مدافعتی نظام کے خلیات بہت زیادہ فعال ہوجاتے ہیں، جس کے نتیجے میں یہ ہمارے اپنے جسم کے نارمل اور صحت مند سیلز ہی کو ختم کرنا شروع کر دیتا ہے۔ یہ ایک دائمی مرض ہے، جس کا اب تک کوئی بھی علاج دریافت نہیں ہوسکا۔
لیوپس لاطینی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے ''بھیڑیا'' کیونکہ اس بیماری میں چہرے پر سرخ نشان پڑنے لگتے ہیں جو بھیڑیئے کے چہرے پر موجود نشانات سے مشابہ ہوتے ہیں۔ اندازہ ہے کہ صرف امریکا میں دو لاکھ سے پندرہ لاکھ تک لوگ لیوپس کا شکار ہیں جبکہ پوری دنیا میں یہ تعداد 50 لاکھ یا اس سے بھی زیادہ ہوسکتی ہے۔
شروع میں اس بیماری میں جلد، گردے، ہڈیاں، خون کے خلیے، دل، اور پھیپھڑے متاثر ہوتے ہیں۔ اس میں سب سے عام اور خطرناک ''سیسٹیمک لیوپس'' ہے جس کی علامات میں جوڑوں کا درد، منہ کا السر، تھکاوٹ، بخار کا ہونا، بالوں کا گرنا وغیرہ شامل ہیں۔ یہ بیماری زیادہ تر 15 سے 44 سال کی عمر میں ہوتی ہے لیکن زیادہ تر یہ بیماری چھوٹی عمر میں ہوجاتی ہے؛ اور مردوں کے مقابلے میں عورتوں میں زیادہ پائی جاتی ہے۔
پاکستان میں کی گئی ایک تحقیق ایک تحقیق کے مطابق، سیسٹیمک لیوپس اریتھماٹوسس (Systemic Lupus Erythematosus) یا ایس ایل ای (SLE) گزشتہ تیس سال کے دوران پاکستانی خواتین میں زیادہ دیکھا گیا ہے جو چائنا، عرب ممالک، کیریبین بلیک اور ہسپانیہ وغیرہ سے ملنے والے اعداد و شمار سے مطابقت رکھتا ہے۔ پاکستان میں ایس ایل ای سے متعلق ڈیٹا بہت کم یاب ہے جو جنوب مشرقی ایشیا کے علاقے میں کوئی غیرمعمولی بات نہیں؛ اور اسی بناء پر پاکستان سے لیوپس کے بارے میں عالمی تحقیقی نوعیت کا مواد بھی تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے۔ ہمارے ہاں اس مرض کی علامات اورتشخیص کی مدت ان ممالک کی نسبت بہت کم ہے اس لیے اس بیماری کی بروقت اور درست تشخیص بہت ضروری ہے۔
یہ ایک جینیاتی بیماری ہے۔ یہ کیوں ہوتی ہے؟ اس سوال کا جواب فی الحال میڈیکل سائنس کے پاس بھی نہیں۔ اس بیماری کا اب تک کوئی مستقل علاج بھی دریافت نہیں ہوسکا لیکن کچھ ادویہ ضرور موجود ہیں جن کے استعمال سے اس بیماری کے بڑھنے کی رفتار کو کم کیا جاسکتا ہے۔ ان دواؤں کو ''مدافعتی نظام کنٹرول کرنے والی ادویہ'' کہا جاتا ہے۔
اس بیماری کی بروقت تشخیص سے ہی مریض کو اس بیماری کے خطرناک اثرات سے کسی حد تک بچایا جا سکتا ہے۔ وہ مریض جن میں اس بیماری کی تشخیص بہت دیر میں ہوتی ہے، ان کی شرح اموات سب سے زیادہ ہے، جو 50 فیصد ہے۔ یہ اموات لیوپس کی وجہ سے ہونے والی تکلیف کے باعث ہوتی ہیں۔ اوپر بیان کی گئی علامات میں سے اگر 4 ایک ساتھ موجود ہوں تو لیوپس کی تشخیص کےلیے ٹیسٹ ضرور کروائیے۔ لیوپس کی تشخیص کےلیے یہ ٹیسٹ کروائے جاسکتے ہیں: اینٹی نیوکلیئر اینٹی باڈی، چیسٹ ایکس رے، سیرم کریٹی نین، یورین ٹیسٹ، اور سی بی سی ڈفرینشیل ٹیسٹ۔
یا رہے کہ لیوپس لاعلاج ہے اور صرف بروقت تشخیص سے ہی اس بیماری کو شکست دی جا سکتی ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اپنے ایک انٹرویو میں انہوں نے اعتراف کیا کہ جب انہیں پتا چلا کہ وہ لاعلاج بیماری لیوپس میں مبتلا ہیں تو وہ ڈپریشن اور ذہنی اذیت میں مبتلا رہیں۔ اس بیماری کے نتیجے میں ان کے دونوں گردے ناکارہ ہوگئے، اور انہیں گردہ ٹرانسپلانٹ کی فوری ضرورت تھی۔ وہ شدید ذہنی اذیت میں مبتلا ہوگئیں جب انہیں معلوم ہوا کہ ان کا گردہ ان کے کسی فیملی ممبر سے میچ ہی نہیں ہوا۔ ''اس وقت میں اپنی زندگی کے مشکل ترین اور نا امیدی کے دور سے گزری؛ اور مجھے اپنے سامنے صرف موت ہی دِکھ رہی تھی،'' سیلینا گومیز نے بتایا۔
لیکن خوش قسمتی سے ان کی سب سے اچھی دوست فرینسیا رائیسا کا گردہ معجزاتی طور پر میچ ہوگیا، جس کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں؛ اور 2017 میں کامیاب سرجری بھی ہوئی۔ اب ان کی زندگی نارمل ضرور ہے، لیکن اس بیماری سے ہر روز لڑتے ہوئے گزر رہی ہے۔
مائیکل جیکسن مشہور امریکی پاپ سنگر، سانگ رائٹر، اور ڈانسر تھا۔ کنگ آف پاپ کے طور پر مشہور تھا۔ وہ اپنی جیکسن فیملی میں آٹھویں نمبر میں تھا۔ غربت کا انتہائی مشکل وقت دیکھا۔ مائیکل جیکسن نے گانے کا آغاز اپنے بڑے بھائیوں کے ساتھ ''جیکسن فائیو'' سے کیا۔ 1971 میں سولو سنگر کے طور پر اپنے نئے کیریئر کا آغاز کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے 1980 تک کامیاب ترین گلوکاروں کی فہرست میں شامل ہوگیا۔ مائیکل جیکسن کے نام پوری زندگی تھرڈ بیسٹ سیلنگ میوزک کا اعزاز رہا، اور ایک اندازے کے مطابق پوری دنیا میں ٹوٹل میوزک کی فروخت 350 ملین ہے۔ ''تھرلر'' نامی میوزک البم بیسٹ سیلر رہا، جس کی ایک اندازے کے مطابق 66 ملین کاپیز پوری دنیا میں فروخت ہوئیں۔ مائیکل جیکسن نے گنیز ورلڈ ریکارڈ، 15 گریمی ایوارڈز، 26 امریکن میوزک ایوارڈز، 13 نمبر ون یو ایس سنگل اپنے نام کیے۔ مائیکل جیکسن میں لیوپس کی تشخیص 1986 میں ہوئی۔ اس کے بعد وہ اس بیماری کی جنگ 25 جون 2009 کو ہار گیا۔
اس کی موت کی وجوہ میں ایک متنازعہ دوا کا زیادہ استعمال بھی سامنے آیا جس بارے میں اس کے ڈاکٹر پر الزام تھا کہ اس نے اوور ڈوز دی؛ اور اس پر مذکورہ ڈاکٹر کونراڈ میورے کو دو سال کی سزا بھی ہوئی۔ لیکن لیوپس کی وجہ سے ہی وہ خاصی ادویات استعمال کرتا رہا تھا۔
سیلینا گومیز اور مائیکل جیکسن کے علاوہ بھی بہت سے مشہور نام اس بیماری کا شکار رہے جن میں لیڈی گاگا، ٹونی بریکسٹن، نِک کینن، کریسٹن جوہنسٹن، ٹرِک ڈیڈی وغیرہ شامل ہیں۔
خلیہ (cell) کسی بھی جاندار کا بنیادی، ساختی، حیاتیاتی، اور فعال یونٹ ہے۔ خلیے کو ہم اپنی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتے، اس کےلیے خردبین (مائیکرو اسکوپ) کا استعمال کیا جاتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق، بالغ انسانی جسم 100 ٹریلین (ایک ہزار کھرب) خلیات اور 78 مختلف اقسام کے اعضاء پر مشتمل ہوتا ہے۔ اللہ تعالی نے ہمیں مدافعتی نظام (امیون سسٹم) سے نوازا ہے جس کا مقصد جسم کو مختلف انفیکشنز اور زہریلے مادوں کے خلاف مزاحمت فراہم کرنا ہے۔ ہمارے مدافعتی خلیات ہمارے جسم کے ہر ایک خلیے کو پہچانتے ہیں۔ اس لیے جب بھی کوئی بیکٹیریا، وائرس، یا فنگس (پھپھوندی) جسم میں داخل ہوتا ہے تو ہمارا مدافعتی نظام فوری طور پر اسے پہچان لیتا ہے، اور اس کے خلاف مخصوص مرکبات یعنی ''اینٹی باڈیز'' بناکر اسے ختم کردیتا ہے؛ جس کی وجہ سے ہم تندرست رہتے ہیں۔
لیوپس ہمارے مدافعتی نظام کی ایک بیماری ہے جس میں مدافعتی نظام کے خلیات بہت زیادہ فعال ہوجاتے ہیں، جس کے نتیجے میں یہ ہمارے اپنے جسم کے نارمل اور صحت مند سیلز ہی کو ختم کرنا شروع کر دیتا ہے۔ یہ ایک دائمی مرض ہے، جس کا اب تک کوئی بھی علاج دریافت نہیں ہوسکا۔
لیوپس لاطینی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے ''بھیڑیا'' کیونکہ اس بیماری میں چہرے پر سرخ نشان پڑنے لگتے ہیں جو بھیڑیئے کے چہرے پر موجود نشانات سے مشابہ ہوتے ہیں۔ اندازہ ہے کہ صرف امریکا میں دو لاکھ سے پندرہ لاکھ تک لوگ لیوپس کا شکار ہیں جبکہ پوری دنیا میں یہ تعداد 50 لاکھ یا اس سے بھی زیادہ ہوسکتی ہے۔
شروع میں اس بیماری میں جلد، گردے، ہڈیاں، خون کے خلیے، دل، اور پھیپھڑے متاثر ہوتے ہیں۔ اس میں سب سے عام اور خطرناک ''سیسٹیمک لیوپس'' ہے جس کی علامات میں جوڑوں کا درد، منہ کا السر، تھکاوٹ، بخار کا ہونا، بالوں کا گرنا وغیرہ شامل ہیں۔ یہ بیماری زیادہ تر 15 سے 44 سال کی عمر میں ہوتی ہے لیکن زیادہ تر یہ بیماری چھوٹی عمر میں ہوجاتی ہے؛ اور مردوں کے مقابلے میں عورتوں میں زیادہ پائی جاتی ہے۔
پاکستان میں کی گئی ایک تحقیق ایک تحقیق کے مطابق، سیسٹیمک لیوپس اریتھماٹوسس (Systemic Lupus Erythematosus) یا ایس ایل ای (SLE) گزشتہ تیس سال کے دوران پاکستانی خواتین میں زیادہ دیکھا گیا ہے جو چائنا، عرب ممالک، کیریبین بلیک اور ہسپانیہ وغیرہ سے ملنے والے اعداد و شمار سے مطابقت رکھتا ہے۔ پاکستان میں ایس ایل ای سے متعلق ڈیٹا بہت کم یاب ہے جو جنوب مشرقی ایشیا کے علاقے میں کوئی غیرمعمولی بات نہیں؛ اور اسی بناء پر پاکستان سے لیوپس کے بارے میں عالمی تحقیقی نوعیت کا مواد بھی تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے۔ ہمارے ہاں اس مرض کی علامات اورتشخیص کی مدت ان ممالک کی نسبت بہت کم ہے اس لیے اس بیماری کی بروقت اور درست تشخیص بہت ضروری ہے۔
یہ ایک جینیاتی بیماری ہے۔ یہ کیوں ہوتی ہے؟ اس سوال کا جواب فی الحال میڈیکل سائنس کے پاس بھی نہیں۔ اس بیماری کا اب تک کوئی مستقل علاج بھی دریافت نہیں ہوسکا لیکن کچھ ادویہ ضرور موجود ہیں جن کے استعمال سے اس بیماری کے بڑھنے کی رفتار کو کم کیا جاسکتا ہے۔ ان دواؤں کو ''مدافعتی نظام کنٹرول کرنے والی ادویہ'' کہا جاتا ہے۔
اس بیماری کی بروقت تشخیص سے ہی مریض کو اس بیماری کے خطرناک اثرات سے کسی حد تک بچایا جا سکتا ہے۔ وہ مریض جن میں اس بیماری کی تشخیص بہت دیر میں ہوتی ہے، ان کی شرح اموات سب سے زیادہ ہے، جو 50 فیصد ہے۔ یہ اموات لیوپس کی وجہ سے ہونے والی تکلیف کے باعث ہوتی ہیں۔ اوپر بیان کی گئی علامات میں سے اگر 4 ایک ساتھ موجود ہوں تو لیوپس کی تشخیص کےلیے ٹیسٹ ضرور کروائیے۔ لیوپس کی تشخیص کےلیے یہ ٹیسٹ کروائے جاسکتے ہیں: اینٹی نیوکلیئر اینٹی باڈی، چیسٹ ایکس رے، سیرم کریٹی نین، یورین ٹیسٹ، اور سی بی سی ڈفرینشیل ٹیسٹ۔
یا رہے کہ لیوپس لاعلاج ہے اور صرف بروقت تشخیص سے ہی اس بیماری کو شکست دی جا سکتی ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔