افسر شاہانہ اور تاج گدایانہ

سیدھی سادی بات تو ہم سمجھ لیتے ہیں لیکن جب ایک ہی منہ سے ’’دو مونہی‘‘ بات نکلتی ہے۔


Saad Ulllah Jaan Baraq April 05, 2019
[email protected]

ویسے بھی ہم ذہنی لحاظ سے کچھ زیادہ ''رسا'' نہیں ہیں، ہوتے تو اب تک کہیں نہ کہیں ''رسائی'' حاصل کر کے پہنچ چکے ہوتے بلکہ پہنچے ہوئے ہوتے لیکن خاص طور پر یہ ''ٹوان ون'' یعنی ذومعنی اور دو مونہے قسم کے الفاظ اور جملے ہماری سمجھ دانی کے اوپر سے گزر جاتے ہیں۔ مثلاً ''روکو مت جانے دو''۔ ٹھہرو مت چلتے رہو۔ کھاؤ مت دیکھتے رہو۔ رکو مت آو۔ وغیرہ۔ اس بات پر اکثر لوگ ہمیں ''وہ'' بھی بنا دیتے ہیں جو ہم نہیں ہیں۔ مثلاً ایک مرتبہ ایک ہندی چینل پر ایک شریمان پروچن (وعظ) دے رہے تھے۔ بولے، ایک شخص جو ''رام'' کا منکر تھا جب اسے چوٹ لگی یا بیمار ہوا یا مرنے لگا۔ تو اس کے منہ سے ''مرا مرا مرا'' کی آواز نکلی۔ جو دارصل ''رام رام رام'' کی آواز تھی۔۔

مطلب ہمارا کہنے کا یہ ہے کہ سیدھی سادی بات تو ہم سمجھ لیتے ہیں لیکن جب ایک ہی منہ سے ''دو مونہی'' بات نکلتی ہے تو ہم اس ''منہ'' کو دیکھتے رہ جاتے ہیں اور آج جس دو مونہی بات بلکہ ''شعر'' نے ہمیں پریشان کیا ہوا ہے اس کا تو منہ بھی نہیں جو ہم دیکھیں کیونکہ وہ منہ بہت پہلے بمقام رنگون۔ یہ کہہ کر دی اینڈ ہو چکا ہے کہ

کتنا ہے بدنصیب ظفرؔ دفن کے لیے

دو گز زمیں بھی نہ ملی کوئے یار میں

اگرچہ اس میں بھی ''دو مونہاپن'' ذو معنویت اور ٹو ان ون ہے کہ حضرت نے ''کوئے یار'' کہاں کے لیے کہا ہے۔ وطن کے لیے یا کسی اور ''کوچہ یار'' کے لیے۔ کیونکہ شاعر ہونے کے ناطے وہ عاشق بھی تھے کیونکہ شاعری کی پی ایچ ڈی ڈگری تب تک نہیں ملتی جب تک کسی نے عشق کا ''ایم فل'' نہیں کیا ہوتا۔ بہرحال جس دو مونہے شعر نے ہمیں پریشان کیا ہوا ہے، وہ یہ ہے کہ

یا مجھے افسر شاہانہ بنایا ہوتا

یا مرا تاج گدایانہ بنایا ہوتا

اب سمجھ میں یہ نہیں آ رہا ہے کہ یہاں شاہانہ۔ ہے یا شاہا سنہ ہے اور دوسرے حصے میں ''گدایانہ'' ہے۔ یا گدایا۔ نہ، نے ہمیں گھما کر رکھا ہوا ہے۔ اور یہ تو ہم پہلے بتا چکے ہیں کہ ہم ''ذہن رسا'' نہیں رکھتے اور ہمارا ٹٹوئے تحقیق تو بالکل ''ذہن رسا'' نہیں رکھتا البتہ ''ذہن خطا'' اس کے پاس بہت بڑا ہے۔ شعر تو اور بھی بہت سارے ہیں لیکن اس شعر میں یہ جو گدا، گدایا اور گدایانہ یا گدایا۔نہ ہے اس نے سارا پرابلم کری ایٹ کیا ہوا ہے۔ کیونکہ یہ تحقیق بھی لازم ہے کہ بہادر شاہ ظفر کا تاج کس قسم کا تھا۔ اگر وہ فلموں میں دکھایا جانے والا تاج تھا۔

جس کے اندر کشکول کی ساری نشانیاں پائی جاتی تھیں تو ٹھیک ہے وہ تاج شاہانہ بھی تھا اور گدایانہ بھی۔ لیکن آج کل تاج کے نام پر ایک معمولی سا سونے کا منقش حلقہ ہوتا ہے جو صرف سامنے سے دکھائی دیتا ہے اور پیچھے سے کچھ نہیں ہوتا۔ یہ تاج تو ابن انشاء کی جھولی ہوتا ہے کہ اس میں کچھ بھی نہ ڈالا جا سکتا ہے نہ لیا جا سکتا ہے اور نہ رکھا جا سکتا ہے۔ لیکن شعر کے سیاق و سباق اور اندورنی شہادت سے قیاس کیا جا سکتا ہے کہ یہ وہی کشکول نما تاج ہی ہو گا یا دوسرے معنی میں ایسا ''کشکول'' جسے منقش اور مبلس کیا جائے اور ہمارے اس قیاس سے ہمارا ''ٹٹوئے تحقیق'' بھی متفق ہے۔

مطلب حضرت شاہ ظفر کا یہ معلوم ہوتا ہے کہ یا تو مجھے ''افسرشاہانہ'' بنایا ہوتا۔ کہ کچھ فکر ہی نہیں ہوتی کہ کچھ کہاں سے آتا ہے اور کہاں جاتا ہے۔ اور اگر ''افسر شاہانہ'' بنایا، تو پھر یہ میرا کم بخت ''تاج'' ''گدایانہ'' ہونا چاہیے تا کہ میں اس میں یہاں وہاں جہاں تہاں اور نہ جانے کہاں کہاں سے ''گدا'' کر کے شاہانہ خرچ کرتا۔ اور یا مجھے افسرشاہا۔ نہ بنایا ہوتا تو ٹھیک تھا نہ ہوتا بانس اور نہ ہوتی بانسری۔ پھر مرا تاج گدایا، نہ بھی ہوتا تو ٹھیک تھا۔ لیکن تم نے مجھے ''افسرشاہا'' بھی بنایا اور میرا تاج ''گدایا'' بھی بنا کر ہاتھ میں دے دیا۔ اس تحقیق سے اور کچھ ثابت ہو نہ ہو لیکن یہ بات پکی پکی ثابت ہو جاتی ہے کہ یہ شاہا اور گدایا۔ یا شاہانہ اور گدایانہ کا پرابلم آج کا نہیں ہے بلکہ پرانے زمانے سے یہ چکر چل رہا ہے۔

کہ ایک طرف شاہا اور دوسری طرف گدایا۔ بلکہ بڑا ہی ''ٹوان ون'' معاملہ ہے اسی لیے تو ہم اور ہمارا ٹٹوئے تحقیق اتنے پریشان ہیں کہ اگر واقعی یہ ''شاہانہ'' اور گدایانہ پرابلم ہمارا جدی پشتی ہے تو پھر اس کا کچھ بھی نہیں ہو سکتا اور ہمیں اپنے دل و دماغ سے یہ بات بالکل نکال دینی چاہیے کہ ہماری یہ شاہانہ اور گدایانہ حالت بدل بھی سکتی ہے علاج عارضی کا ہو سکتا ہے خاندانی جدی پشتی اور پیچیدہ امراض کا نہیں ہو سکتا، گویا۔

ہم تو عاشق ہیں ترے پرانے

میاں تو جانے یا نہ جانے

اور اب وہ بات بھی ہماری سمجھ میں آہستہ آہستہ آرہی ہے۔کہ:

مریض عشق پر رحمت خدا کی

مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی

اور جس کا نتیجہ بھی معلوم ہے کہ،

الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا

دیکھا اس بیماریئے دل نے آخر کام تمام کیا

ویسے ہمارے یہاں آنے والی بننے والی برپا ہونے والی اور نازل ہونے والی حکومتوں کے لیے ایک بہت ہی ٹھوس ''جواز'' پیدا ہو گیا ہے وہ کہہ سکتی ہیں کہ ہم کیا کریں یہ افسر شاہانہ اور تاج گدایانہ تو ہمیں ورثے میں ملے ہیں ایسا ہی کچھ اب بھی کہتی ہیں لیکن اس میں صرف ''پچھلی حکومت'' پر سارا الزام دھرا جاتا ہے۔ جو درست نہیں بلکہ انصاف نہیں۔

اس کی مثال ہم ''برص'' کے مرض کی دے سکتے ہیں جس میں جسم کے کچھ حصے یا سارا جسم ''سرخ سفید'' ہو جاتا ہے اس مرض کی بنیاد کہیں دور کسی ''پشت'' میں ہوتی ہے اب کسی کے پاس کوئی ٹائم مشین تو ہے نہیں کہ اگلے زمانے میں جا کر مریض کے ''اجداد'' کا علاج کرے تب ہی اس کا علاج ہو گا۔ گویا فی الوقت ہم اس ''شاہانہ گدایانہ'' نام کے مرض کے لیے یہی نسخہ لکھ سکتے ہیں کہ ''ھواشافی'' ٹائم مشین بنا کر اس میں معالج کو بٹھایا جائے جو جا کر بہادر شاہ ظفر کے سر سے ''تاج گدایانہ' چھین کر کہیں دور پھینک دے۔ اور اس کے افسر شاہانہ کو کان سے پکڑ لائے اور آئی ایم ایف اور سرکاری محکموں میں تقسیم کر دے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں