بھارتی انتخابات میں برہمن ازم کا کردار

ہمارے ہاں بھی الیکشنوں میں برادری ازم چلتا ہے، بھارت میں بھی اِسی کا چلن نظر آ رہا ہے۔


Tanveer Qaisar Shahid April 05, 2019
[email protected]

انڈیا میں لوک سبھا( قومی اسمبلی) کے لیے عام انتخابات کا آغاز گیارہ اپریل سے ہُوا چاہتا ہے ۔تقریباً چھ ہفتے تک مسلسل ووٹ کاسٹ کیے جاتے رہیں گے ۔ مئی کے آخری ہفتے میں انتخابات کے حتمی نتائج سامنے آ سکیں گے۔ اندازہ ہے کہ یہ دُنیا کی سب سے بڑی انتخابی مہم ہو گی ۔ بتایا جارہا ہے کہ90کروڑ بھارتی شہری ان انتخابات میں حقِ رائے دہی استعمال کریں گے اور ان انتخابات پر 10ارب ڈالرز کے بھاری اخراجات اُٹھیں گے ۔ پچھلے امریکی انتخابات ، جن میں ڈونلڈ ٹرمپ فتحیاب ہُوئے تھے، پر 5ارب ڈالرز خرچ ہُوئے تھے ۔

اس حساب سے بھی بھارتی انتخابات کا معاملہ سب سے بڑا ہے۔ شائد اس لیے بھی بھارت کو دُنیا کی ''سب سے بڑی جمہوریت'' کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔ پاکستان سمیت ساری دُنیا کی نظریں اِنہی بھارتی انتخابات پر مرتکز ہیں ۔ہمارے حکمرانوں کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ بھارتی انتخابات کے اختتام پر ہی بھارت سے کسی مکالمے اور معانقے کی راہ کشادہ ہو سکے گی ۔یہ انتخابات کچھ اس لیے بھی پاکستان کے لیے اہمیت رکھتے ہیں۔ نریندر مودی نے پچھلے پانچ سال پاکستان کو جس طرح تنگ کیے رکھا ہے، فطری طور پر ہماری خواہش اور دعا ہو گی کہ یہ صاحب دوبارہ انتخابات نہ جیت سکیں۔

فیصلہ تو مگر بھارتیوں کے ہاتھوں میں ہے۔ مودی جی کو بہر حال انتخابات میں سخت مزاحمتوں کا سامنا ہے۔بھارتی کٹر ہندومذہبی رہنماؤں، بنیاد پرست ہندو پارٹیوں اور بھارتی اسٹیبلشمنٹ کی کوشش ہے کہ نریندر مودی اور بی جے پی جیت جائیں ۔حریف کانگریس اور اُس کی اتحادی جماعتیں بھی سینہ تانے کھڑی ہیں اور گھمسان کی انتخابی جنگ لڑتی نظر آ رہی ہیں ۔ایک طرف مودی صاحب ہیں اور دوسری جانب اندرا گاندھی کا پوتا اور پوتی : راہول گاندھی اور پریانکا گاندھی !! بھارتی مسلمان ووٹروں کے لیے دونوں برابر حیثیت رکھتے ہیں ۔ بھارتی سیاستدانوں اور ووٹروں کا حال بھی تقریباً ہم ایسا ہی ہے ۔

بھارتی سیاستدان بھی ووٹ خریدتے شرم محسوس نہیں کرتے اور بھارتی ووٹر بھی چھوٹے چھوٹے اور وقتی منفعت و مفادات کے لیے اپنا ووٹ فروخت کرنے میں کوئی شرم اور عار نہیں سمجھتے ۔انڈین الیکشن کمیشن اگرچہ سخت کارروائیاں کررہا ہے لیکن داؤ لگانے والے پھر بھی باز نہیں آ رہے ۔ مثال کے طور پر چند دن پہلے انڈین الیکشن کمیشن نے ووٹوں کی خریداری روکنے کی مہم میں سات کروڑ ڈالرزمالیت کے تحائف ضبط کیے تھے۔ضبط کیے جانے والی اشیاء میں 44لاکھ لٹرشراب اور ڈیڑھ ارب روپے کا کیش شامل تھا۔اس کے علاوہ 12 کروڑ روپے مالیت کے تحفوں سے لدے کئی ٹرک بھی قبضے میں لیے گئے ہیں۔

ماضی میں بھارتی سیاستدان انتخابات کے دوران ووٹ خریدنے کے لیے اپنے حلقوں میں موبائل فون، ٹی وی اور الیکٹرانک آلات تقسیم کرتے رہے ہیں۔ بھارتی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا انتخابات میں شریک سیاستدانوں کی ووٹ حاصل کرنے کی جو کہانیاں شایع اور نشر کررہا ہے، سُن اور پڑھ کر شرم آتی ہے۔انڈین الیکشن کمیشن انتہائی طاقتور اور خودمختار ہونے کے باوصف کئی مقامات پر خود کو بے بس پاتا ہے۔ مارکنڈے کاٹجو، اے جی نورانی اور ارُن دھتی رائے ایسے بھارتی دانشور تحریر اور تقریر کی شکل میں مقدور بھر احتجاج تو کررہے ہیں لیکن نقار خانے میں ان طوطیوں کی آواز پر کون کان دھرتا ہے؟

بھارتی انتخابات ہمارے انتخابات سے کچھ بھی مختلف نہیں ہیں۔ ہمارے ہاں بھی الیکشنوں میں برادری ازم چلتا ہے، بھارت میں بھی اِسی کا چلن نظر آ رہا ہے۔ ذرا سا فرق بس یہ نظر آتا ہے کہ بھارتی انتخابات میں ذات پات کا ابھار اور کردار نسبتاً زیادہ نمایاں اور غالب ہے ۔ بھارتی اقلیتوں ( جیسے مسلمان ، سکھ اور عیسائی)اور بھارتی نچلی ذات کے ہندوؤں(جیسا کہ دَلت اور او بی سی) کے اُمیدواروں کو آسانی سے بڑی اور اہم سیاسی جماعتوں کے ٹکٹ نہیں ملتے۔ نام نہاد اونچی ذات کے ہندو انتخابات کے ہر مقام اور مرحلے پر چھائے نظر آ تے ہیں ۔ یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ بھارتی انتخابات میں برہمن ازم مرکزی اور جوہری کردار ادا کرتا ہے۔

برہمنیت اور برہمنی ذہنیت بھارتی پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں (لوک سبھا اور راجیہ سبھا) پر پنجے گاڑے رہتی ہے۔برہمن ازم کی گرفت سے نریندر مودی، راجناتھ سنگھ، امیت شاہ،ارُن جیٹلی اور اجیت ڈوول ایسے بی جے پی کے معروف، مقتدر اور مشہور ہندو رہنماؤں کو بھی مفر نہیں ہے۔ مثال کے طور پر:پچھلے دنوں عوامی مقبولیت اور ووٹروں کی توجہ حاصل کرنے کے لیے نریندر مودی نے یوں کہا : '' مَیں تو بھارت اور بھارتیوں کا چوکیدار ہُوں ۔ اُن کا سیوک اور خدمت گزار ہُوں۔'' مودی جی کی دیکھا دیکھی بی جے پی اور آر ایس ایس کے مذکورہ بالا طاقتور سیاسی لیڈروں نے بھی یہی راگ الاپنا شروع کردیا: ''ہم تو بھارت کے چوکیدار اور سیوک ہیں۔'' لیکن سبرا مینین سوامی ایسے بھارتی برہمن سیاستکار اکڑ گئے۔ انھوں نے برہمنیت کے زعم اور غرور میں مودی جی کے خلاف بھی عَلمِ بغاوت بلند کر دیا۔

سبرا مینین سوامی بی جے پی یعنی بھارتیہ جنتا پارٹی کے مرکزی اور مشہور لیڈر ہیں ۔ بھارت کے جانے مانے دانشور بھی ہیں اور کٹر بنیاد پرست ہندو بھی۔ اُن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ صاحب ہمیشہ پسلی سے بولتے ہیں۔ چوکیدار کا نعرہ بلند ہُوا تو سبرا مینین سوامی جی نے ایک تمل ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہُوئے متکبرانہ لہجے میں کہا: ''مودی جی بھارت اور بھارتیوں کے چوکیدار بننا چاہیں تو شوق سے بنتے رہیں لیکن مَیں چوکیدار نہیں بن سکتا ، اس لیے کہ مَیں برہمن ہُوں۔ برہمن چوکیدار ہو ہی نہیں سکتے۔ برہمن تو چوکیداروں کا تقرر کرتے ہیں اور انھیں حکم دیتے ہیں۔

برہمن حکم لیتے نہیں، دیتے ہیں۔ اور چوکیداروں کا کام بھی بس یہی ہے کہ وہ برہمنوں کے دیے گئے احکامات کی تعمیل کریں ۔'' یہ اشتعال انگیز انٹرویو بھارتی نجی چینلز ، ٹوئٹر اور فیس بک کے توسط سے خوب وائرل ہُوا ہے۔ سبرا مینین سوامی پر بڑی لعنت ملامت بھی کی گئی ہے اور بی جے پی کی طرف سے بھی کہا گیا ہے کہ انھیں الیکشنوں کے ان حساس ایام میں یہ متکبرانہ بیان نہیں دینا چاہیے تھا لیکن سبرامینین سوامی برہمنی احساس کی چوہدراہٹ تلے کسی کی پروا نہیں کر رہے۔ بی جے پی اور آر ایس ایس کی حریف سیاسی جماعت، کانگریس، نے تنک کر کہا ہے کہ نریندر مودی وغیرہ بھارت اور بھارتیوں کے چوکیدار نہیں بلکہ بھارت کے چور اور ٹھگ ہیں۔

بھارت میں دَلتوں اور اوبی سی ( یعنی نچلی ذات کے ہندوؤں)کا انتخابات میں جارحانہ کردار سے برہمنوں کا اثرو رسوخ قدرے کم ہُوا ہے لیکن سماج اور ووٹ بینک پر برہمن ازم کی گرفت ڈھیلی نہیں پڑی ہے ۔ ووٹ کھینچنے کی سیاست میں برہمن ازم ایک بڑا ہتھیار اور ہتھکنڈا ہے۔ مثال کے طور پر جب پچھلے دنوں بی جے پی نے کانگریس کے راہول گاندھی کے خلاف منفی پروپیگنڈہ کرتے ہُوئے یہ کہا کہ راہول نے ایک ''نان ہندو'' کی حیثیت میں گجرات کے سومنات مندر میں قدم رکھا تھا تو کانگریس کے ترجمان، رندیپ سورج والا، نے تڑپ کر کہا:''راہول جی تو جنیو دھری ہندوہیں۔کانگریس ہی میں تو برہمن ازم کا اصل ڈی این اے پایا جاتا ہے کیونکہ ہمارے پاس راہول گاندھی ہیں۔''( واضح رہے جنیو دھری ہندو اُسے کہتے ہیںجو ہر وقت اپنے گلے میں برہمنوں کے لیے مخصوص 'مقدس دھاگہ' پہنے رہتا ہو)راجستھان اسمبلی کے اسپیکر، سی پی جوشی، نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ انتخابات میں ہندو ووٹوں کے حقدار صرف برہمن ذات کے حامل اُمیدوار ہیں۔

اس شخص نے دو نامور بھارتی خاتون سیاستدانوں، اوما بھارتی اور سدھوی ریتا، کو برہمن نہ ہونے اور نچلی ذات سے تعلق رکھنے کے ناتے تحقیر کا ہدف بنایا تو موصوف سخت گالیوں کی باڑ پر رکھے گئے لیکن معذرت کرنے سے صاف انکار کر دیا۔ اُتر پردیش کے کٹر ہندو وزیر اعلیٰ یوگی ادتیہ ناتھ (جو ذات کے ٹھاکر ہیں) نے نچلی ذات کے دَلت ہندوؤں کے ووٹ بٹورنے کے چکر میں جب یہ کہا کہ ''ہنو مان دیوتا دَلت تھے'' تو انھیں بھارتی برہمنوں کی تنظیم (ایس بی ایم) نے عدالتوں تک گھسیٹا ہے، اس دعوے کے ساتھ کہ ادتیہ ناتھ نے برہمنوں کی توہین کی ہے۔ ذات پات کے مارے اور برہمنیت زدہ ایسے بھارتی معاشرے میں بھلا جمہوریت کیسے فروغ پا سکتی ہے؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں