آئی ایم ایف شوق کے ساتھ مجبوری
اب یہ باتیں گردش کررہی ہیں کہ آئی ایم ایف نے مطالبہ کیا ہے کہ پاکستان روپے کی قدر کنٹرول کرنے کی پالیسی ترک کرے۔
حکومت سنبھالنے سے پہلے اور فوری بعد جب موجودہ حکومت نے اعلان کیا تھا کہ وہ آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائے گی یا اُن کی ترجیحات میں یہ شامل نہیں تو ایسا لگا کہ پی ٹی آئی حکومت کے پاس کوئی متبادل پروگرام موجود ہے۔ ادھر جب دوست ممالک سے پاکستان کو فوری طور پرخاطر خواہ مالی مدد حاصل نہ ہوئی توآئی ایم ایف نے بھی پہلے سے زائد کڑی شرائط رکھ دیں۔ اسی دوران امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان نے جلتی پر تیل کا کام کیا کہ آئی ایم ایف پاکستان کو قرضہ دینے میں احتیاط سے کام لے۔
لہٰذاآئی ایم ایف نے قرض دینے سے پہلے ہی اپنی شرائط پر عملدرآمد کا فیصلہ کرلیا۔ حکومت ان شرائط کو تسلیم بھی کرتی رہی اور لاگو بھی کرتی رہی جن میں بجلی ،سوئی گیس اور پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ سے لے کر مختلف سبسڈیز کے خاتمے تک کی شرائط شامل ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ڈالر کی قدر میں بھی اضافہ بھی دیکھنے میں آیا۔ عوامی اور سنجیدہ حلقوں کو حیرت اس بات پر ہوئی کہ اس کے باوجود بھی قرض نہیں ملا ۔ اب یہ باتیں گردش کررہی ہیں کہ آئی ایم ایف نے مطالبہ کیا ہے کہ پاکستان روپے کی قدر کنٹرول کرنے کی پالیسی ترک کرے، ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قیمت کا تعین مارکیٹ خود کرے اور حکومت نئی ایکسچینج ریٹ پالیسی کا باقاعدہ اعلان بھی کرے تاکہ مارکیٹ میں ابہام ختم ہو۔ اس کا نتیجہ ظاہر ہے کہ ڈالر کی قیمت مزید بڑھے گی۔
اب موجودہ حکومت کے برعکس سابقہ حکومتوں کو فوری قرضہ ملنے کی دوہی وجوہات رہ جاتی ہیں کہ یا تو سابقہ حکومتیں فوری طور پر آئی ایم ایف کے سامنے سرخم تسلیم کرتی تھیں یا اُن کا مکمل دارومدار ہی آئی ایم ایف پر ہوتا تھا۔جب کہ موجودہ حکومت آئی ایم ایف کی کڑی شرائط میں نرمی بھی چاہتی ہے اور ساتھ دوست ممالک سے بھی رابطے میں ہے(جو آئی ایم ایف کو بالکل پسند نہیں)۔ وجوہات کچھ بھی ہوں مگر عمران خان کی حکومت ہر حوالے سے سخت دباؤ کا شکار ہے اور میرے خیال میں اسے صحیح طرح سے یہ واضع کرنے میں بھی دشواری ہورہی ہے کہ موجودہ حالات کے اصل ذمے دار وہ نہیں بلکہ سابقہ حکومتیں ہیں جو اپنے دور حکومت میں ایک ایک نہیں بلکہ 3،3بیل آؤٹ پیکیج لیا کرتی تھیں۔قارئین کو یاد ہوگا کہ پی پی دور حکومت میں2008میں آئی ایم ایف سے معاملات طے کیے گئے ، آئی ایم ایف کی مکمل شرائط تسلیم کرکے 5ارب ڈالر وصول کیے گئے۔
اس کے بعد 2013کے انتخابات جیتنے کے بعد اسحاق ڈار بھی مختصر عرصے میں 4جولائی 2013کو 6.4 ارب ڈالرکا بیل آوٹ پیکیج لینے میں ''کامیاب'' رہے۔ کامیاب اس حوالے سے کہ انھوں نے بھی قرض لیتے وقت آئی ایم ایف کی شرائط کے سامنے چوں چراں سے کام نہ لیا اور وکٹری کا نشان بنا کر آئی ایم ایف کے آفس سے باہر نکلے۔
ویسے بھی بین الاقوامی قوانین کے مطابق آئی ایم ایف ان ممالک کو قرضہ دینے کا پابند ہے جو اس کے پلیٹ فارم پر آتے ہیں۔ اس مالیاتی ادارے کی تاریخ کچھ یوں ہے کہ 1930 کے معاشی مسائل اور اس کے بعد دوسری جنگ عظیم نے یورپی ممالک کی معیشت کو سخت نقصان پہنچایا۔ خصوصاً جنگ کے اخراجات کی وجہ سے ان کا ادائیگیوں کا توازن بہت بگڑ گیا۔ جس کے بعد بینک بریٹن ووڈز کا معاہدہ جو 1945 میں ہوا، اس کے مطابق ایک ایسے ادارہ کی ضرورت تھی جو دنیا کے لیے ایک نیا اور پراعتماد مالیاتی نظام تشکیل دے۔ان ممالک کی مدد کرے جو توازنِ ادائیگی کے مسائل کا شکار ہیں۔ارکان ممالک کی زر مبادلہ کی شرح کا درست تعین کرنا اور اس کے لیے ایک نظام وضع کرے۔چنانچہ دسمبر 1945 میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (IMF)کا قیام عمل میں آیا۔ اس کے بعد ورلڈ بینک بھی بنایا گیا مگر ورلڈ بینک ہمیشہ کسی پراجیکٹ پر پیسہ لگانے کے لیے قرض فراہم کرتا ہے۔ آج اس کے ممبر ممالک کی تعداد 186کے قریب ہے۔
خیر پاکستان اور عالمی مالیاتی فنڈ کے درمیان تعلق کوئی نئی بات نہیں، دونوں ایک دوسرے سے سال 1958 سے جڑے ہیں، اس دوران دونوں کے مابین 21 بار قرضوں کے لین دین کے معاہدے ہوئے۔پاکستان 1980 کی دہائی کے اواخر سے اب تک کئی بار آئی ایم ایف سے قرضے لے چکا ہے۔پاکستان نے برسہا برس آئی ایم ایف سے قرض لیا اورہر آنے والی حکومت نے اس قرض کا مزہ چکھا ہے، سوائے جنرل ضیا الحق کے دور حکومت کے، کیوں کہ اس زمانے میں افغان جنگ کی وجہ سے ملک میں ڈالر کی اتنی ریل پیل تھی کہ انھیں قرض لینے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔
آخری مرتبہ یہ قرضے سال 2018ء میں لیے گئے تھے۔1958 سے 1977 تک چند لاکھ ڈالر قرضہ لیا گیا۔ 1980 میں 1.3ارب ڈالر، 1981میں 1ارب ڈالر، 1988میں 70کروڑ ڈالر، 1993 میں 30کروڑ ڈالر، 1994میں1.2ارب ڈالر، 1995 میں 60کروڑ ڈالر، 1997 میں 1.1ارب ڈالر، 2000 میں 50کروڑ ڈالر، 2001 میں 1ارب ڈالر، 2008ء 8ارب ڈالر جب کہ 2013سے2018 تک 17ارب ڈالر کا قرضہ لیا گیا۔ آئی ایم ایف سے لیے گئے قرضوں کی واپسی کے لیے ساڑھے تین سے پانچ سال کا ہدف مقرر کیا جاتا ہے، جب کہ قرضے کی فراہمی کے لیے تین سال کی مدت دی جاتی ہے، تاہم 12 سے 18 ماہ میں ہی قرضہ فراہم کردیا جاتا ہے۔
بہرکیف پاکستان کو سابقہ حکمرانوں نے ایسے عالمی مالیاتی چنگل میں پھنسا دیا ہے جہاں سے اُس کا نکلنا ناممکن نظر آتا ہے، اسے پاکستان کا شوق سمجھ لیں یا مجبوری لیکن جس ملک میں آئی ایم ایف کا پروگرام جاری ہو وہاں انویسٹر بھی آتے ہیں کیوں کہ وہ آئی ایم ایف کو ''گارنٹی'' سمجھتے ہیں۔ لیکن آج حقیقت یہ ہے کہ مذکورہ مالیاتی ادارہ ہمارے گلے کی ہڈی بن چکا ہے۔
اور یہ دنیا کا اصول ہے کہ شرائط صرف اوپر والے ہاتھ کی ہوتی ہیں نیچے والا ہاتھ تو حالات سے مجبور ہوتا ہے اور مجبور کی کوئی شرط نہیں ہوتی ۔ اس کھینچا تانی میں شرائط تو آئی ایم یف ہی کی تھیں اور حکومت ان شرائط کو نرم کرانے کے لیے کوشاں رہی ہے جو میں سمجھتا ہوں کہ موجودہ حکومت کی اہم ترین کاوش بھی ہے۔ کیوں کہ پاکستان کی ماضی میں ریت رسم تو یہ تھی کہ قرض کی ایک اور قسط سے ماضی کے قرض کی قسطیں ادا کی جاتی تھیں۔ اس طرح ملک قرض در قرض کے گھن چکر کا شکار تھا۔ قرض کے پیسوں سے بڑے بڑے منصوبے لگ رہے تھے، عیاشیاں اور اللے تللے جار ی تھے۔ آئی ایم ایف بھی ہماری ان حرکتوں سے تنگ آچکا تھا۔ رہی سہی کسر سی پیک نے پوری کر دی تھی۔ مغربی ممالک کی آنکھوں میں یہ منصوبہ خار کی طرح کھٹک رہا ہے ، اس لیے ہمیں ہر طرف دیکھ کر چلنا ہوگا، عالمی لابنگ کا بھی حصہ بنناپڑے گایعنی بقول شاعر۔
صدا ایک ہی رخ نہیں ناؤ چلتی
چلو تم ادھر کو ہوا ہو جدھر کی
گویا نئے مالیاتی پیکیج ملنے کے بعد مہنگائی کا ایک اور جن مئی جون میں عوام کو دبوچنے کو تیار بیٹھا ہے۔ آئی ایم ایف کی اس قسط سے قومی معیشت کو ایک اور نشہ آور انجکشن لگ جائے گا۔ وقتی طور پر مریض کو قرار بھی آجائے گا مگر مرض اپنی جگہ موجود رہے گا۔ حکومت یقین کے ساتھ باربار اسے آخری بیل آؤٹ پیکیج قرار دے رہی ہے مگر اس دعوے اور عملی حقیقت میں صدیوں کا فاصلہ ہے۔ برآمدات بڑھائے اور درآمدات کم کیے بغیر اور ٹیکس دہندگان کا دائرہ وسیع کیے بغیر یہ دعویٰ عملی شکل میں ڈھلتا نظر نہیں آتا۔اس لیے فی الحال آئی ایم ایف پیکیج شوق سے زیادہ زیادہ مجبوری بن چکا ہے جس کے بغیر شاید گزارہ بھی نہیں!