بھولی ہوئی کہانیاں
اب عربی سے بے اعتنائی برتی جا رہی ہے اور عربی کی ابتدائی صرف و نحو سیکھنے کی بھی زحمت گوارا نہیں کی جاتی۔
ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خاں علی گڑھ یونیورسٹی میں پڑھتے تھے، عثمانیہ ہوٹل میں رہتے تھے ۔ ہوٹل میں ان کے خاص احباب میں حیدرآباد دکن کے ایک طالب علم، منظور الامین تھے۔ ان سے غلام مصطفی خاں کی بڑی دوستی تھی۔ منظورالامین بہت پڑھتے تھے کیونکہ ''کم بخت کتابیں'' مشکل سے یاد ہوتی تھیں ۔ ان کی شادی ہوچکی تھی اور بیگم وطن میں تھیں۔ ایک دن انھوں نے غلام مصطفی خاں سے کہا کہ میری بیوی مجھ سے ناراض ہے۔ اس سے میری سفارش کردو۔ چنانچہ انھوں نے ان کی بیوی کو ایک منظوم خط اس عنوان سے لکھ دیا:
دوست میرے جو ہیں منظور الامین
خود کو ظاہر کرتے ہیں وہ اندوگیں
فراقِ یار میں گھل گھل کر ہوگئے ہاتھی
ہزار گزکی قبا پاؤں تک نہیں آتی
معلوم نہیں اس خط کے پہنچنے پر بھائی منظور پر کیا ڈانٹ پڑی ۔ وہ عرصے تک خاموش رہے اور ان کے دوست انھیں چھیڑتے رہے۔ بعد میں غلام مصطفی حیدرآباد ان کے گھر بھی گئے۔
ڈاکٹر غلام مصطفی خاں نے اپنی کتاب ''بھولی ہوئی کہانیاں'' میں اپنے علی گڑھ کے زمانہ طالبعلمی کی دلچسپ باتیں لکھی ہیں۔ اپنے دوستوں کو، استادوں کو یاد کیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب ایک علمی اور ادبی شخصیت ہی نہیں ایک روحانی شخصیت بھی تھے۔ راشد اشرف جنھوں نے ان کی یہ کتاب تلاش کرکے زندہ کتابوں کے سلسلے میں شایع کی ہے کہتے ہیں کہ ڈاکٹر غلام مصطفی خاں بلند پائے کے انسان تھے، حضور حق دعا کے لیے ہاتھ اٹھاتے تھے تو سائل کی مراد پوری ہوجاتی تھی۔
ڈاکٹر صاحب کا تعلق سینٹرل انڈیا میں جبل پور سے تھا۔ یہ بڑی خوبصورت جگہ تھی۔
ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں '' تمام پہاڑ اور میدان سرسبز تھے۔ سیرگاہیں بہت تھیں ۔ بکثرت تالاب، چشمے اور ندیاں تھیں۔ بہترین گیہوں اور چاول پیدا ہوتا تھا، درخت خود رو تھے، طرح طرح کے جانور اور پرندے شکار کے لیے کثرت سے تھے۔
ڈاکٹر غلام مصطفی کی تعلیم جبل پور میں شروع ہوئی، نویں جماعت پاس کرکے علی گڑھ بھیج دیے گئے وہاں یونیورسٹی اسکول میں میٹرک میں داخل ہوئے اور بتدریج آگے بڑھتے ہوئے انٹرکیا، بی اے کیا اور ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ میٹرک کی کلاس منٹو سرکل میں ہوتی تھیں۔ وہاں ان کے اساتذہ شمس الہدیٰ، شیخ علی جواد، سعید الزماں، صبیح الدین حیدر تھے۔ یونیورسٹی میں انھیں مولانا ابوبکر شیث، مولانا سلیمان اشرف ، ڈاکٹر ہادی حسن، ضیا احمد صدیقی جیسے یگانۂ روزگار استاد ملے۔
ہوسٹل کی زندگی کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر غلام مصطفی خاں لکھتے ہیں ''ہوسٹل میں بسکٹ اور حلوہ فروخت کرنے والے وینڈر (Vendor)آتے تھے۔ ایک صوفی صاحب عمدہ بسکٹ بلکہ گھر کی بنی مٹھائیاں وغیرہ بھی ہم لوگوں کے لیے لاتے تھے۔ اس زمانے میں ایک ممتاز فرنی والا بھی تھا۔ بہت بوڑھا، دبلا پتلا، شیروانی اور سفید پگڑی۔ اس کے ساتھ ایک لڑکا بھی ہوتا تھا جس کے سر پر ایک تھال میں تین قسم کی فرنی کے پیالے ہوتے تھے، ایک قسم کا نام انٹرمجیٹ، دوسری کا بی اے اور تیسری کا ایم اے۔ طلبا میں پڑھنے کا شوق تھا۔ سالانہ مشاعرے، مباحثے وغیرہ دلچسپ مشغلے تھے۔ یونین کے انتخابات جوش و گہما گہمی سے ہوتے تھے۔''
اسی زمانے کے ایک واقعے کا ذکر کرتے ہیں ''مئی 1936میں وائسرائے ہند لارڈ ولنگٹن علی گڑھ آرہا تھا۔ اس کی حفاظت کے لیے بڑا اہتمام تھا۔ مجھے بھی یونیورسٹی پولیس میں شامل کیا گیا۔ اعلیٰ حضرت میر عثمان علی خاں، نظام دکن ہماری یونیورسٹی کے چانسلر تھے۔ وہ پہلے تشریف لائے اور پھر میزبان کی حیثیت سے وائسرائے کو لینے کے لیے اسٹیشن گئے۔ لال ڈگی کی طرف جو پہلا دروازہ یونیورسٹی میں داخل ہونے کے لیے ہے وہاں میری ڈیوٹی تھی۔ میر عثمان علی خاں جب اپنی کار میں وائسرائے کو لا رہے تھے تو میں نے اس دروازے پر کار کو روک لیا اور کہا "Pass, Pleas!" اس پر وائسرائے نے زور کا قہقہہ لگایا۔ پھر میں نے ان کو اندر آنے کی اجازت دی۔ اس مذاق سے یونیورسٹی کے ارباب حل و عقد بہت خوش ہوئے کیونکہ اس سے یونیورسٹی کے حفاظتی انتظامات کی تعریف ہوئی اور مجھے ایک سرٹیفکیٹ دیا گیا۔''
علی گڑھ سے فارغ ہوکر غلام مصطفی خاں اپنے گھر جبل پور پہنچے۔ کئی ماہ بے کار رہے پھر ایڈورڈ کالج امراتی (برار) میں اردو کے استاد ہوگئے۔ یہاں انھوں نے پی ایچ ڈی کے لیے کام شروع کیا۔ ڈاکٹریٹ کی ڈگری ملی پھر اللہ کے فضل سے تین کتابوں پر ڈی لٹ کی ڈگری بھی حاصل ہوئی۔
امراتی کالج اور ناگپور یونیورسٹی کے دوسرے ملحقہ کالجوں میں گیارہ سال گزارنے کے بعد ڈاکٹر غلام مصطفی جنوری 1948 میں کراچی آگئے۔ اسی سال اسلامیہ کالج قائم ہوا تھا ، دو سال وہاں پڑھایا اور پھر مولوی عبدالحق نے اردو کالج میں بلالیا اور یہ وہاں شعبۂ اردو کے صدر ہوگئے۔ اس وقت اردو کالج میں سید ولی محمد، ڈاکٹر معین الحق، ڈاکٹر غلام سرور اور مولانا منتخب الحق جیسے قابل استاد پڑھاتے تھے اور ابن انشا، ڈاکٹر ایوب قادری، ڈاکٹر اسلم فرخی، ڈاکٹر ابوالخیر کشفی، ڈاکٹر فرمان فتحپوری یہیں سے ایم اے کرکے نکلے۔ 1956 میں سندھ یونیورسٹی والوں نے ڈاکٹر غلام مصطفی خاں کو اپنے ہاں بلالیا اور وہ کراچی سے حیدرآباد منتقل ہوگئے۔ڈاکٹر صاحب کی کتاب میں ان کی ڈائری کے چند اوراق اور کچھ شخصی خاکے بھی شامل ہیں۔
ڈائری کے اوراق میں جنوری 1971 کے ایک سفر کا احوال ہے جو بغداد سے شروع ہوا ۔ ڈاکٹر صاحب بغداد سے جدہ پہنچے، پھر مدینہ منورہ اور مکہ معظمہ۔ حرم شریف میں حاضری ہوئی۔ فریضۂ حج ادا کرکے اسی طرح واپسی ہوئی۔ وہ لکھتے ہیں ''بغداد میں بیس گھنٹے قیام تھا۔ پہلے حضرت عبدالقادر جیلانیؒ کی خدمت میں پہنچے، پھر امام ابو حنیفہؒ کے ہاں حاضری دی۔ پھر امام موسیٰ کاظم، امام تقی اور اسی احاطے میں امام ابو یوسف کے ہاں حاضری دی۔'' ڈاکٹر صاحب امام حسینؓ کی خدمت میں بھی حاضر ہوئے، حضرت عباسؓ کے مزار پر اور نجف اشرف بھی گئے جہاں حضرت علیؓ کا مزار کہا جاتا ہے۔ اوراق ڈائری میں 1969 میں کابل کے ایک سفر کا بھی ذکر ہے۔
ڈاکٹر غلام مصطفی خاں نے شخصی خاکوں میں ڈاکٹر ابواللیث صدیقی، پروفیسر منظور حسین شور، سید سخی احمد ہاشمی، بھائی احسان اللہ عباسی اور بھائی ابراہیم علی خاں کو یاد کیا ہے۔ ڈاکٹر ابواللیث سے تعلق علی گڑھ میں شروع ہوا پھر کراچی میں قائم رہا۔ شور صاحب سے غلام مصطفی خاں کا دیرینہ تعلق تھا۔ ناگپور یونیورسٹی کے دنوں میں بہت ساتھ رہا۔ ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں ''شور صاحب بہت نازک مزاج اور نازک انداز تھے۔ ذرا میں خوش، ذرا میں ناراض ہوجاتے۔ انھوں نے بچپن ہی میں شاعری (بلکہ عاشقی) شروع کردی تھی۔ موسیقی بھی سیکھی تھی۔ خوب لکھتے تھے، خوب پڑھتے تھے۔ میں نے دیکھا ہے بعض مشاعروں میں کئی کئی گھنٹے اپنا کلام زبانی سناتے تھے۔'' شور صاحب کی وہ غزل بہت مشہور ہے جس کا مطلع ہے:
دیدہ و دانستہ دھوکہ کھا گئے
ہم فریبِ زندگی میں آگئے
سید سخی احمد ہاشمی کے بارے میں لکھتے ہیں ''وہ میرے عزیز ترین شاگردوں میں سے تھے۔ افسوس کہ آج وہ ہم میں نہیں لیکن مکۂ معظمہ کی جنت العلیٰ میں بے شمار رحمتوں اور نعمتوں کی آغوش میں ابدی نیند سو رہے ہیں۔ ان کو میں نے بہت قریب سے دیکھا ہے ۔ اسی لیے کیوں نہ کہوں کہ ان کی زندگی اور موت دونوں میرے لیے قابل رشک ہیں۔ کاش آخرت میں مجھے ان کی معیت نصیب ہو۔''
ڈاکٹر غلام مصطفی خاں کی ایک دوسری کتاب ''ہفت محفل'' جو راشد اشرف نے تلاش کرکے ''بھولی ہوئی کہانیاں'' کے ساتھ ایک ہی جلد میں شایع کی ہے اس میں ان کے کچھ ایسے علمی اور تجرباتی مضامین ہیں جن میں ان کا قلم آزادی سے رواں دواں ہے۔ ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں '' میری زندگی جن مراحل سے گزری ہے ان کا اندازہ ان مضامین سے ہوسکتا ہے۔''
معاشرے اور زبان کے باہمی تعلق پر اپنے مضمون میں ڈاکٹر غلام مصطفی خاں لکھتے ہیں ''ایک مسلم معاشرے کو عربی کے بغیر چارہ نہیں۔ مسلمان کا اٹھنا بیٹھنا، سونا جاگنا، چلنا پھرنا، کھانا پینا، رہنا سہنا بلکہ مرنا جینا سب عربی کا مرہون منت ہے۔'' برصغیر میں جب مسلمانوں کا قیام شروع ہوا تو ظاہر ہے کہ انھیں عربی سے اپنے دین کی وجہ سے خصوصی تعلق رہا۔ اسی لیے انھوں نے بکثرت عربی الفاظ اپنے معاشرے میں استعمال کرنا شروع کیے اور مختلف مقامات کے لوگوں کے اختلاط و ارتباط سے عربی میں تغیر و تبدل بھی ہوا۔''
ڈاکٹر صاحب نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا ہے کہ اب عربی سے بے اعتنائی برتی جا رہی ہے اور عربی کی ابتدائی صرف و نحو سیکھنے کی بھی زحمت گوارا نہیں کی جاتی۔کتاب میں شامل دوسرے مضامین میں ''اسلامی تصوف اور مثنوی مولانا روم'' اور مولانا عبدالصمد عاجز کی دو کتابوں ''مثنوی تحفۃ العاشقین'' اور ''تحفۃ العارفین'' کا مطالعاتی جائزہ ہے۔ یہ دونوں مضامین توجہ طلب ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کی ذات گرامی درحقیقت معقول اور منقول کی جامع تھی۔
دوست میرے جو ہیں منظور الامین
خود کو ظاہر کرتے ہیں وہ اندوگیں
فراقِ یار میں گھل گھل کر ہوگئے ہاتھی
ہزار گزکی قبا پاؤں تک نہیں آتی
معلوم نہیں اس خط کے پہنچنے پر بھائی منظور پر کیا ڈانٹ پڑی ۔ وہ عرصے تک خاموش رہے اور ان کے دوست انھیں چھیڑتے رہے۔ بعد میں غلام مصطفی حیدرآباد ان کے گھر بھی گئے۔
ڈاکٹر غلام مصطفی خاں نے اپنی کتاب ''بھولی ہوئی کہانیاں'' میں اپنے علی گڑھ کے زمانہ طالبعلمی کی دلچسپ باتیں لکھی ہیں۔ اپنے دوستوں کو، استادوں کو یاد کیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب ایک علمی اور ادبی شخصیت ہی نہیں ایک روحانی شخصیت بھی تھے۔ راشد اشرف جنھوں نے ان کی یہ کتاب تلاش کرکے زندہ کتابوں کے سلسلے میں شایع کی ہے کہتے ہیں کہ ڈاکٹر غلام مصطفی خاں بلند پائے کے انسان تھے، حضور حق دعا کے لیے ہاتھ اٹھاتے تھے تو سائل کی مراد پوری ہوجاتی تھی۔
ڈاکٹر صاحب کا تعلق سینٹرل انڈیا میں جبل پور سے تھا۔ یہ بڑی خوبصورت جگہ تھی۔
ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں '' تمام پہاڑ اور میدان سرسبز تھے۔ سیرگاہیں بہت تھیں ۔ بکثرت تالاب، چشمے اور ندیاں تھیں۔ بہترین گیہوں اور چاول پیدا ہوتا تھا، درخت خود رو تھے، طرح طرح کے جانور اور پرندے شکار کے لیے کثرت سے تھے۔
ڈاکٹر غلام مصطفی کی تعلیم جبل پور میں شروع ہوئی، نویں جماعت پاس کرکے علی گڑھ بھیج دیے گئے وہاں یونیورسٹی اسکول میں میٹرک میں داخل ہوئے اور بتدریج آگے بڑھتے ہوئے انٹرکیا، بی اے کیا اور ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ میٹرک کی کلاس منٹو سرکل میں ہوتی تھیں۔ وہاں ان کے اساتذہ شمس الہدیٰ، شیخ علی جواد، سعید الزماں، صبیح الدین حیدر تھے۔ یونیورسٹی میں انھیں مولانا ابوبکر شیث، مولانا سلیمان اشرف ، ڈاکٹر ہادی حسن، ضیا احمد صدیقی جیسے یگانۂ روزگار استاد ملے۔
ہوسٹل کی زندگی کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر غلام مصطفی خاں لکھتے ہیں ''ہوسٹل میں بسکٹ اور حلوہ فروخت کرنے والے وینڈر (Vendor)آتے تھے۔ ایک صوفی صاحب عمدہ بسکٹ بلکہ گھر کی بنی مٹھائیاں وغیرہ بھی ہم لوگوں کے لیے لاتے تھے۔ اس زمانے میں ایک ممتاز فرنی والا بھی تھا۔ بہت بوڑھا، دبلا پتلا، شیروانی اور سفید پگڑی۔ اس کے ساتھ ایک لڑکا بھی ہوتا تھا جس کے سر پر ایک تھال میں تین قسم کی فرنی کے پیالے ہوتے تھے، ایک قسم کا نام انٹرمجیٹ، دوسری کا بی اے اور تیسری کا ایم اے۔ طلبا میں پڑھنے کا شوق تھا۔ سالانہ مشاعرے، مباحثے وغیرہ دلچسپ مشغلے تھے۔ یونین کے انتخابات جوش و گہما گہمی سے ہوتے تھے۔''
اسی زمانے کے ایک واقعے کا ذکر کرتے ہیں ''مئی 1936میں وائسرائے ہند لارڈ ولنگٹن علی گڑھ آرہا تھا۔ اس کی حفاظت کے لیے بڑا اہتمام تھا۔ مجھے بھی یونیورسٹی پولیس میں شامل کیا گیا۔ اعلیٰ حضرت میر عثمان علی خاں، نظام دکن ہماری یونیورسٹی کے چانسلر تھے۔ وہ پہلے تشریف لائے اور پھر میزبان کی حیثیت سے وائسرائے کو لینے کے لیے اسٹیشن گئے۔ لال ڈگی کی طرف جو پہلا دروازہ یونیورسٹی میں داخل ہونے کے لیے ہے وہاں میری ڈیوٹی تھی۔ میر عثمان علی خاں جب اپنی کار میں وائسرائے کو لا رہے تھے تو میں نے اس دروازے پر کار کو روک لیا اور کہا "Pass, Pleas!" اس پر وائسرائے نے زور کا قہقہہ لگایا۔ پھر میں نے ان کو اندر آنے کی اجازت دی۔ اس مذاق سے یونیورسٹی کے ارباب حل و عقد بہت خوش ہوئے کیونکہ اس سے یونیورسٹی کے حفاظتی انتظامات کی تعریف ہوئی اور مجھے ایک سرٹیفکیٹ دیا گیا۔''
علی گڑھ سے فارغ ہوکر غلام مصطفی خاں اپنے گھر جبل پور پہنچے۔ کئی ماہ بے کار رہے پھر ایڈورڈ کالج امراتی (برار) میں اردو کے استاد ہوگئے۔ یہاں انھوں نے پی ایچ ڈی کے لیے کام شروع کیا۔ ڈاکٹریٹ کی ڈگری ملی پھر اللہ کے فضل سے تین کتابوں پر ڈی لٹ کی ڈگری بھی حاصل ہوئی۔
امراتی کالج اور ناگپور یونیورسٹی کے دوسرے ملحقہ کالجوں میں گیارہ سال گزارنے کے بعد ڈاکٹر غلام مصطفی جنوری 1948 میں کراچی آگئے۔ اسی سال اسلامیہ کالج قائم ہوا تھا ، دو سال وہاں پڑھایا اور پھر مولوی عبدالحق نے اردو کالج میں بلالیا اور یہ وہاں شعبۂ اردو کے صدر ہوگئے۔ اس وقت اردو کالج میں سید ولی محمد، ڈاکٹر معین الحق، ڈاکٹر غلام سرور اور مولانا منتخب الحق جیسے قابل استاد پڑھاتے تھے اور ابن انشا، ڈاکٹر ایوب قادری، ڈاکٹر اسلم فرخی، ڈاکٹر ابوالخیر کشفی، ڈاکٹر فرمان فتحپوری یہیں سے ایم اے کرکے نکلے۔ 1956 میں سندھ یونیورسٹی والوں نے ڈاکٹر غلام مصطفی خاں کو اپنے ہاں بلالیا اور وہ کراچی سے حیدرآباد منتقل ہوگئے۔ڈاکٹر صاحب کی کتاب میں ان کی ڈائری کے چند اوراق اور کچھ شخصی خاکے بھی شامل ہیں۔
ڈائری کے اوراق میں جنوری 1971 کے ایک سفر کا احوال ہے جو بغداد سے شروع ہوا ۔ ڈاکٹر صاحب بغداد سے جدہ پہنچے، پھر مدینہ منورہ اور مکہ معظمہ۔ حرم شریف میں حاضری ہوئی۔ فریضۂ حج ادا کرکے اسی طرح واپسی ہوئی۔ وہ لکھتے ہیں ''بغداد میں بیس گھنٹے قیام تھا۔ پہلے حضرت عبدالقادر جیلانیؒ کی خدمت میں پہنچے، پھر امام ابو حنیفہؒ کے ہاں حاضری دی۔ پھر امام موسیٰ کاظم، امام تقی اور اسی احاطے میں امام ابو یوسف کے ہاں حاضری دی۔'' ڈاکٹر صاحب امام حسینؓ کی خدمت میں بھی حاضر ہوئے، حضرت عباسؓ کے مزار پر اور نجف اشرف بھی گئے جہاں حضرت علیؓ کا مزار کہا جاتا ہے۔ اوراق ڈائری میں 1969 میں کابل کے ایک سفر کا بھی ذکر ہے۔
ڈاکٹر غلام مصطفی خاں نے شخصی خاکوں میں ڈاکٹر ابواللیث صدیقی، پروفیسر منظور حسین شور، سید سخی احمد ہاشمی، بھائی احسان اللہ عباسی اور بھائی ابراہیم علی خاں کو یاد کیا ہے۔ ڈاکٹر ابواللیث سے تعلق علی گڑھ میں شروع ہوا پھر کراچی میں قائم رہا۔ شور صاحب سے غلام مصطفی خاں کا دیرینہ تعلق تھا۔ ناگپور یونیورسٹی کے دنوں میں بہت ساتھ رہا۔ ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں ''شور صاحب بہت نازک مزاج اور نازک انداز تھے۔ ذرا میں خوش، ذرا میں ناراض ہوجاتے۔ انھوں نے بچپن ہی میں شاعری (بلکہ عاشقی) شروع کردی تھی۔ موسیقی بھی سیکھی تھی۔ خوب لکھتے تھے، خوب پڑھتے تھے۔ میں نے دیکھا ہے بعض مشاعروں میں کئی کئی گھنٹے اپنا کلام زبانی سناتے تھے۔'' شور صاحب کی وہ غزل بہت مشہور ہے جس کا مطلع ہے:
دیدہ و دانستہ دھوکہ کھا گئے
ہم فریبِ زندگی میں آگئے
سید سخی احمد ہاشمی کے بارے میں لکھتے ہیں ''وہ میرے عزیز ترین شاگردوں میں سے تھے۔ افسوس کہ آج وہ ہم میں نہیں لیکن مکۂ معظمہ کی جنت العلیٰ میں بے شمار رحمتوں اور نعمتوں کی آغوش میں ابدی نیند سو رہے ہیں۔ ان کو میں نے بہت قریب سے دیکھا ہے ۔ اسی لیے کیوں نہ کہوں کہ ان کی زندگی اور موت دونوں میرے لیے قابل رشک ہیں۔ کاش آخرت میں مجھے ان کی معیت نصیب ہو۔''
ڈاکٹر غلام مصطفی خاں کی ایک دوسری کتاب ''ہفت محفل'' جو راشد اشرف نے تلاش کرکے ''بھولی ہوئی کہانیاں'' کے ساتھ ایک ہی جلد میں شایع کی ہے اس میں ان کے کچھ ایسے علمی اور تجرباتی مضامین ہیں جن میں ان کا قلم آزادی سے رواں دواں ہے۔ ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں '' میری زندگی جن مراحل سے گزری ہے ان کا اندازہ ان مضامین سے ہوسکتا ہے۔''
معاشرے اور زبان کے باہمی تعلق پر اپنے مضمون میں ڈاکٹر غلام مصطفی خاں لکھتے ہیں ''ایک مسلم معاشرے کو عربی کے بغیر چارہ نہیں۔ مسلمان کا اٹھنا بیٹھنا، سونا جاگنا، چلنا پھرنا، کھانا پینا، رہنا سہنا بلکہ مرنا جینا سب عربی کا مرہون منت ہے۔'' برصغیر میں جب مسلمانوں کا قیام شروع ہوا تو ظاہر ہے کہ انھیں عربی سے اپنے دین کی وجہ سے خصوصی تعلق رہا۔ اسی لیے انھوں نے بکثرت عربی الفاظ اپنے معاشرے میں استعمال کرنا شروع کیے اور مختلف مقامات کے لوگوں کے اختلاط و ارتباط سے عربی میں تغیر و تبدل بھی ہوا۔''
ڈاکٹر صاحب نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا ہے کہ اب عربی سے بے اعتنائی برتی جا رہی ہے اور عربی کی ابتدائی صرف و نحو سیکھنے کی بھی زحمت گوارا نہیں کی جاتی۔کتاب میں شامل دوسرے مضامین میں ''اسلامی تصوف اور مثنوی مولانا روم'' اور مولانا عبدالصمد عاجز کی دو کتابوں ''مثنوی تحفۃ العاشقین'' اور ''تحفۃ العارفین'' کا مطالعاتی جائزہ ہے۔ یہ دونوں مضامین توجہ طلب ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کی ذات گرامی درحقیقت معقول اور منقول کی جامع تھی۔