دولت کی ہوس کا علاج

سرمایہ داری نظام کے حامی ممالک نے مذہب کو کمیونزم کے خلاف بطور آلہ کار استعمال کیا۔

jabbar01@gmail.com

لاہور:
ایک گاؤں میں بڑی تعداد میں بندر موجود تھے، ایک تجارتی کمپنی نے سروے کے ذریعے بندروں کے اعداد وشمار معلوم کیے تو یہ بات سامنے آئی کہ گاؤں میں تقریباً بارہ ہزار سے زائد بندر موجود ہیں ، یہ بات معلوم ہونے کے بعد تجارتی کمپنی نے وہاں اپنا ایک دفتر قائم کیا اور یہ اعلان کیا کہ جو شخص بھی ایک بندر پکڑکرکمپنی کے ہاتھوں فروخت کرے گا ،کمپنی اسے چار سو روپے ادا کرے گی۔

گاؤں کے لوگوں نے بندر پکڑ کر کمپنی کے ہاتھوں فروخت کرنا شروع کردیے۔ جب کمپنی کو دس ہزار سے زائد بندر حاصل ہوگئے اور گاؤں کے لوگوں کے لیے بندر پکڑنا مشکل ہوگیا توکمپنی نے اعلان کیا کہ اب کمپنی ایک بندر آٹھ سو روپے میں خریدے گی اور اس کے ساتھ ہی گاؤں میں رازداری یعنی خفیہ طور پر ایک شخص کو اپنا ایجنٹ مقررکردیا ایجنٹ نے گاؤں والوں کو بتایا کہ اس کے پاس بڑی تعداد میں بندر ہیں جو وہ چھ سو روپے کے حساب سے فروخت کرے گا گاؤں کے لوگوں نے دو سو روپے نفع کی لالچ میں اس ایجنٹ سے بندر خریدنے شروع کردیے ،کمپنی نے جب یہ دیکھا کہ خریدے گئے تمام بندر فروخت ہوگئے تو وہ لاکھوں روپے کماکر گاؤں سے فرار ہوگئی۔

آپ اس واقعے کو پڑھ کر اسے ایک کہانی قرار دیں گے لیکن آپ یقین کریں کہ عالمی سیاست اور معیشت کے بھی کچھ ایسے ہی رنگ ہیں ۔ مثلاً عالمی سیاست کے تحت کسی ملک میں داخلی حوالے سے ایسی تنظیموں کو فنڈنگ کے ذریعے پروان چڑھایا جاتا ہے جو ملک میں دہشت بد امنی اور انتشار پیدا کردیتی ہیں پھر اس ملک کی اہم تنصیبات اور حساس مقامات کے تحفظ کے نام پر اجرتی افواج فراہم کردی جاتی ہے یہ افواج غریب علاقوں کے بے روزگار افراد پر مشتمل ہوتی ہے جن کو بہت کم اجرت پر بھرتی کیا جاتا ہے اس طرح لاکھوں ڈالر لگا کرکروڑوں ڈالر کمائے جاتے ہیں۔

اعداد و شمارکے مطابق اس کاروبار کا حجم سو ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔اسی طرح خارجی حوالے سے مختلف ممالک کے درمیان تنازعات کو حل کرنے کے بجائے اسے ہوا دی جاتی ہے تاکہ جنگی سازوسامان کی خرید وفروخت کا سلسلہ جاری رہے اور جنگی سازوسامان تیار کرنے والے اداروں کو استحکام حاصل رہے۔ یہ سب کچھ قومی مفادات کے نام پر کیا جاتا ہے۔


سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہے؟ اس کی بنیادی وجہ دنیا میں رائج سرمایہ داری نظام ہے۔ دولت کی اندھی ہوس اور سنگ دلانہ خود غرضی کا رویہ سرمایہ داری نظام کی کوکھ سے جنم لیتا ہے۔ سرمایہ داری نظام میں سرمایہ کاروں کی اولین شرط میں یہ بات شامل ہوتی ہے کہ کارکنوں کو دیا گیا ملازمت کا تحفظ ختم کیا جائے تاکہ ملازموں سے زیادہ سے زیادہ کام لے کر اپنے منافع کو بلند ترین سطح تک پہنچا سکیں اور اس کے ساتھ بھی یہ کوشش کی جاتی ہے کہ چھوٹے کاروباریوں کے ہاتھوں سے حصول رزق کے تمام ذرایع چھین کر ان پر اپنی اجارہ داری قائم کی جائے۔ اس طرز عمل کے نتیجے میں دولت چند ہاتھوں میں جمع ہوجاتی ہے جس سے معاشرہ مراعات یافتہ اور غیر مراعات میں تقسیم ہو جاتا ہے۔ وافر خوراک کے ذخیروں کی موجودگی میں فاقہ زدہ انسانوں کا ہجوم اس نظام کی غیر منصفانہ اور غیر انسانی ہونے کی سب سے بڑی دلیل ہے۔

2013 کے شماریات کے مطابق دنیا کے 85 ارب پتیوں نے اتنی دولت جمع کرلی ہے جو ساڑھے تین ارب آبادی کی دولت کے برابر تھی ۔ بڑی مچھلی چھوٹی مچھلی کو کھا جاتی ہے۔ سرمایہ داری نظام میں بھی ایسا ہوتا ہے۔ مختلف کمپنیوں کا ایک دوسرے میں ضم ہونے کا معاملہ یہ ظاہرکرتا ہے کہ کمزور شراکت دار کاروبار سے خارج ہو رہے ہیں اور مضبوط شراکت دار غالب آرہے ہیں۔ ایک کمپنی کا دوسری کمپنی میں ضم ہونے کا عمل ایک جانب بڑی اجارہ داری کو جنم دیتا ہے دوسری طرف بڑے پیمانے پر بے روزگاری بھی پھیلاتا ہے۔

سرمایہ داری نظام کو اگر ایک جسم قرار دیا جائے تو عالمی بینکنگ سسٹم اس کا نظام دوران خون ہے تو میڈیا اس کا اعصابی نظام ہے سرمایہ داری نظام نے میڈیا کو استعمال کرتے ہوئے لفظ جدیدیت اور ترقی کا اتنا زیادہ پروپیگنڈا کیا ہے کہ جمہوریت اور ترقی انسان کا مقصد حیات بن گیا ہے۔ حالانکہ جدیدیت اور ترقی کا کوئی مفہوم نہیں دراصل سرمایہ داری نظام نے اس لفظ کے ذریعے نئے صارف پیدا کیے ہیں اور اس کے ذریعے اپنے سرمائے میں اضافہ کیا ہے۔ماضی میں اس نظام کے ردعمل میں سوشل ازم وجود میں آیا تھا۔ سوشل ازم کا ظہور بنیادی طور پر سرمایہ داروں کی اندھی ہوس اور سنگ دلانہ خودغرضی کے خلاف بغاوت ہی کا نتیجہ تھا۔ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ جب تک سوویت یونین بلاک رہا عالمی سرمایہ داروں کا رویہ آج کی طرح بے لگام نہیں ہو سکا تھا۔

سرمایہ داری نظام کی بنیاد سود پر ہے سوشل ازم ایک غیر سودی نظام ہے۔ اسلام میں سود حرام ہے اور اسے خدا تعالیٰ سے جنگ کے مترادف قرار دیا گیا ہے۔ اس لیے اصولی طور پر سرمایہ داری اور سوشل ازم کے تصادم میں اسلامی قوتوں اور سوشلسٹ عناصر کو ایک دوسرے کے قریب ہونا چاہیے تھا لیکن ایسا اس لیے نہ ہوسکا کہ سوشل ازم کے حامی و ناصروں نے مذاہب کو افیون قرار دے کر اسے سرمایہ داروں کا حربہ خیال کیا اور بغیرکسی تفریق کے تمام مذاہب کے ساتھ دشمنی کا رویہ اختیار کیا۔ اسلامی قوتوں نے مغرب کے سرمایہ دار بلاک کو سوشل ازم کے مقابلے میں اس بنیاد پر قابل ترجیح سمجھا کہ وہ رسمی طور پر بھی سہی بہرحال خدا اور مذہب کو تسلیم کرنا ہے۔ ایک تاثر یہ بھی ہے کمیونزم ایک نظریاتی تحریک تھی ، نظریاتی تحریک کا مقابلہ نظریاتی تحریک سے ہی کیا جاسکتا تھا۔

اس لیے سرمایہ داری نظام کے حامی ممالک نے مذہب کو کمیونزم کے خلاف بطور آلہ کار استعمال کیا اور مذہبی جماعتوں کی پشت پناہی کرکے اس نظام جو معاشی مساوات کی بات کرتا تھا، اس کا خاتمہ کردیا۔ یہ ایک نقطہ نظر ہے جس سے اختلاف کیا جاسکتا ہے۔موجودہ دور میں سرمایہ داری کا سفاک چہرہ دنیا کے سامنے ہے، ایسے حالات میں اہل علم و دانش پر یہ ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ قوم کی رہنمائی کرتے ہوئے اپنا مثبت کردار ادا کریں میری ذاتی رائے میں اسلام کے رہنما اصول سادگی کو فروغ دے کر نہ صرف سرمایہ داری نظام پر ضرب لگائی جاسکتی ہے بلکہ دولت کی ہوس کا علاج بھی اسی سے ممکن ہے۔
Load Next Story