آسمانوں پر بنا جوڑا
بالآخر 65 سال کے طویل انتظار کے بعد اس محبت نے شادی کی منزل پالی۔
مصر کے ایک معمر صاحب اور بزرگ خاتون پینسٹھ سال ایک دوسرے سے محبت کرنے کے بعد آخرکار شادی کے بندھن میں بندھ گئے۔ یہ ہیں 85 سالہ حسین قدری اور 81 سالہ عصمت صادق۔
حُسین اور عصمت ایک دوسرے کے خالہ زاد ہیں، حسین کے مطابق انہیں عصمت سے محبت 4 سال کی عمر میں ہوئی، جب وہ شیر خوار تھیں، اور ان کی خالہ نے عصمت کو ان کی گود میں رکھ کر کہا میں کھانا بنالوں جب تک تم اسے اپنی گود میں رکھو، لیکن اسے کھلونا مت سمجھنا۔ حسین کا کہنا ہے کہ اسی وقت سے میں نے تہیہ کرلیا کہ اب آخری دم تک عصمت کو اپنی زندگی کا ساتھی بنانے کی کوشش کروں گا۔ پھر یہ یک طرفہ محبت دوطرفہ ہوئی اور 1952 میں دونوں کی منگنی بھی ہوگئی۔
تاہم منگنی کے چند ماہ بعد عصمت کے والد نے اپنا فیصلہ تبدیل کرتے ہوئے ان کی شادی اپنے بھتیجے سے کردی، اور وہاں سے دونوں کے راستے جدا ہوگئے۔ اس دوران دونوں کی ایک سے زائد بار شادیاں بھی ہوئیں، مگر دونوں ایک دوسرے کی محبت ہی میں گرفتار رہے، بالآخر 65 سال کے طویل انتظار کے بعد اس محبت نے شادی کی منزل پالی۔
ہم تو کہیں گے کہ ان دونوں بزرگوں نے بے صبری کا مظاہرہ کیا، کچھ دن اور انتظار کرلیتے تو ان کا جوڑا آسمانوں پر بن جاتا۔ ویسے جوڑے آسمانوں پر بننے والی کہاوت کا یقین بعض جوڑوں کو دیکھ کر آجاتا ہے۔ صاف لگتا ہے کہ یہ آسمانوں پر بنے ہی نہیں بنے بھی آسمانوں کے لیے تھے، اس لیے زمین پر فِٹ نہیں بیٹھ رہے۔ یہ کہاوت حسین صاحب اور عصمت صاحبہ جیسے جوڑوں ہی کے لیے وضع کی گئی ہے، جن کی شادی لاکھ مشکلات کے باوجود ہوکے رہتی ہے۔
ہم حیران ہیں کہ اس جوڑے نے پینسٹھ سال محبت کی اور پھر شادی کرلی۔ ممکن ہے انھوں نے سوچا ہو کہ جتنی محبت کرنا ہے شادی سے پہلے کرلو، شادی کے بعد تو پیار ''پی آر'' بن کے رہ جاتا ہے۔ اور آخری عمر میں شادی کرنے مقصد یہ ہے کہ ایک دوسرے کو الزام اور طعنے دینے کے بہ جائے باقی کا وقت دوائیں دینے میں گزر جائے۔
اس ''ڈیجیٹل عہد'' کے نوجوان حیرت زدہ ہوں گے کہ کوئی جوڑا پینسٹھ سال تک محبت کر سکتا ہے؟ ان کا تعجب بجا ہے۔ بات یہ ہے کہ جس زمانے میں مذکورہ جوڑے نے محبت کی اُس وقت ڈھنگ سے اظہار کرنے میں بھی کئی کئی سال لگ جاتے تھے، اب خط میں آدمی کتنا دل کا حال لکھے گا! اور رہا ٹیلی فون، تو پتا نہیں ہوتا تھا کہ دوسری طرف سے محبوبہ کی سُریلی آواز آئے گی یا اس کا باپ ہیلو کہہ کر دل ہلادے گا۔ ملنا تو بس اتنا ہی ہوتا تھا جتنی غریب کو خوشی ملتی ہے۔ محبوب کو ایک بار دیکھ کر ہی عاشق عمر بھر ''وہ ترا کوٹھے پہ ننگے پاؤں آنا یاد ہے'' کا ورد کرتا رہتا تھا۔ واضح کردیں کہ یہاں ''کوٹھے'' سے مُراد چھت ہے، جو کوٹھا آپ سمجھے وہاں تو آدمی دل ٹوٹنے کے بعد جاتا اور پوری طرح لُٹ جانے اور پیسے ختم ہونے پر ہاتھ پیر تُڑوا کر ہی نکلتا ہے۔
اب زمانہ بدل گیا ہے۔ موبائل کے پیکیجز کی وجہ سے اظہارمحبت کا سارا ذخیرہ چند راتوں میں ختم ہوجاتا ہے، محبت ڈیٹ پر لیٹ ہوجانے پر ہی انجام کو پہنچ جاتی ہے، ملاقاتیں اتنی ہوتی ہیں کہ پہلے۔۔۔تقریب کچھ تو بہرِملاقات چاہیے ۔۔۔ہوتی ہے، پھر کسی تقریب کا بہانہ کرکے ملاقات منسوخ کردی جاتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ جب ہم نے ایک نوجوان کو اس بزرگ جوڑے کی داستان محبت سُنائی تو وہ حیران پریشان ہوکر بولا،''ارے۔۔۔پینسٹھ سال تک ایک دوسرے سے محبت کرتے رہے!۔۔۔ دونوں کا فیس بُک اکاؤنٹ نہیں تھا کیا؟''
حُسین اور عصمت ایک دوسرے کے خالہ زاد ہیں، حسین کے مطابق انہیں عصمت سے محبت 4 سال کی عمر میں ہوئی، جب وہ شیر خوار تھیں، اور ان کی خالہ نے عصمت کو ان کی گود میں رکھ کر کہا میں کھانا بنالوں جب تک تم اسے اپنی گود میں رکھو، لیکن اسے کھلونا مت سمجھنا۔ حسین کا کہنا ہے کہ اسی وقت سے میں نے تہیہ کرلیا کہ اب آخری دم تک عصمت کو اپنی زندگی کا ساتھی بنانے کی کوشش کروں گا۔ پھر یہ یک طرفہ محبت دوطرفہ ہوئی اور 1952 میں دونوں کی منگنی بھی ہوگئی۔
تاہم منگنی کے چند ماہ بعد عصمت کے والد نے اپنا فیصلہ تبدیل کرتے ہوئے ان کی شادی اپنے بھتیجے سے کردی، اور وہاں سے دونوں کے راستے جدا ہوگئے۔ اس دوران دونوں کی ایک سے زائد بار شادیاں بھی ہوئیں، مگر دونوں ایک دوسرے کی محبت ہی میں گرفتار رہے، بالآخر 65 سال کے طویل انتظار کے بعد اس محبت نے شادی کی منزل پالی۔
ہم تو کہیں گے کہ ان دونوں بزرگوں نے بے صبری کا مظاہرہ کیا، کچھ دن اور انتظار کرلیتے تو ان کا جوڑا آسمانوں پر بن جاتا۔ ویسے جوڑے آسمانوں پر بننے والی کہاوت کا یقین بعض جوڑوں کو دیکھ کر آجاتا ہے۔ صاف لگتا ہے کہ یہ آسمانوں پر بنے ہی نہیں بنے بھی آسمانوں کے لیے تھے، اس لیے زمین پر فِٹ نہیں بیٹھ رہے۔ یہ کہاوت حسین صاحب اور عصمت صاحبہ جیسے جوڑوں ہی کے لیے وضع کی گئی ہے، جن کی شادی لاکھ مشکلات کے باوجود ہوکے رہتی ہے۔
ہم حیران ہیں کہ اس جوڑے نے پینسٹھ سال محبت کی اور پھر شادی کرلی۔ ممکن ہے انھوں نے سوچا ہو کہ جتنی محبت کرنا ہے شادی سے پہلے کرلو، شادی کے بعد تو پیار ''پی آر'' بن کے رہ جاتا ہے۔ اور آخری عمر میں شادی کرنے مقصد یہ ہے کہ ایک دوسرے کو الزام اور طعنے دینے کے بہ جائے باقی کا وقت دوائیں دینے میں گزر جائے۔
اس ''ڈیجیٹل عہد'' کے نوجوان حیرت زدہ ہوں گے کہ کوئی جوڑا پینسٹھ سال تک محبت کر سکتا ہے؟ ان کا تعجب بجا ہے۔ بات یہ ہے کہ جس زمانے میں مذکورہ جوڑے نے محبت کی اُس وقت ڈھنگ سے اظہار کرنے میں بھی کئی کئی سال لگ جاتے تھے، اب خط میں آدمی کتنا دل کا حال لکھے گا! اور رہا ٹیلی فون، تو پتا نہیں ہوتا تھا کہ دوسری طرف سے محبوبہ کی سُریلی آواز آئے گی یا اس کا باپ ہیلو کہہ کر دل ہلادے گا۔ ملنا تو بس اتنا ہی ہوتا تھا جتنی غریب کو خوشی ملتی ہے۔ محبوب کو ایک بار دیکھ کر ہی عاشق عمر بھر ''وہ ترا کوٹھے پہ ننگے پاؤں آنا یاد ہے'' کا ورد کرتا رہتا تھا۔ واضح کردیں کہ یہاں ''کوٹھے'' سے مُراد چھت ہے، جو کوٹھا آپ سمجھے وہاں تو آدمی دل ٹوٹنے کے بعد جاتا اور پوری طرح لُٹ جانے اور پیسے ختم ہونے پر ہاتھ پیر تُڑوا کر ہی نکلتا ہے۔
اب زمانہ بدل گیا ہے۔ موبائل کے پیکیجز کی وجہ سے اظہارمحبت کا سارا ذخیرہ چند راتوں میں ختم ہوجاتا ہے، محبت ڈیٹ پر لیٹ ہوجانے پر ہی انجام کو پہنچ جاتی ہے، ملاقاتیں اتنی ہوتی ہیں کہ پہلے۔۔۔تقریب کچھ تو بہرِملاقات چاہیے ۔۔۔ہوتی ہے، پھر کسی تقریب کا بہانہ کرکے ملاقات منسوخ کردی جاتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ جب ہم نے ایک نوجوان کو اس بزرگ جوڑے کی داستان محبت سُنائی تو وہ حیران پریشان ہوکر بولا،''ارے۔۔۔پینسٹھ سال تک ایک دوسرے سے محبت کرتے رہے!۔۔۔ دونوں کا فیس بُک اکاؤنٹ نہیں تھا کیا؟''