صوبے میں مفرور اور اشتہاری ملزمان کی تعداد 89 ہزار ہوگئی
عدالتوں نے مفروریا اشتہاری قراردیامگر پولیس گرفتار کرنے میں ناکام رہی
صوبہ سندھ میں مفرور ملزمان کی تعداد پولیس اہلکاروں کے مساوی ہونے کے قریب ہے، صوبے میں پولیس اہلکاروں کی تعداد ایک لاکھ 20 ہزار ہے جبکہ قتل، اغوا برائے تاوان اوردیگر مقدمات میں ملوث 89 ہزارمفروراور اشتہاری ملزمان ہیں جن میں سے بڑی تعداد کا تعلق کراچی سے ہے۔
ریڈ زون قراردیاجانے والا علاقہ کراچی کے ضلع جنوبی میں آتا ہے یہاں مفروراور اشتہاری قراردیے ملزمان کی تعداد 4901 ہے، ان ملزمان کو 4 سالوں میں مختلف عدالتوں نے مفروریا اشتہاری قراردیا مگر پولیس انھیں گرفتار کرنے میں ناکام رہی ہے، یہ انکشاف سندھ ہائیکورٹ کے ممبرانسپکشن ٹیم کی جانب سے گزشتہ دنوں سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی رپورٹ میں کیا گیا ہے کہ گزشتہ 4 سال کے دوران یکم جنوری 2008 سے نومبر 2012 تک صوبے بھر کی عدالتوں نے قتل،اقدام قتل،اغوا برائے تاوان،پولیس مقابلہ،ڈکیتی، ہنگامہ آرائی اور دیگر مقدمات میں ملوث 88 ہزار 998 ملزمان کو مفرور اور اشتہاری قراردیا ہے مگر پولیس ان ملزمان کو گرفتار نہیں کرسکی۔
سپریم کورٹ میں پیش کی گئی رپورٹ کے مطابق کراچی کی عدالتوں سے مفرور قراردیے گئے، ملزمان کی تعداد22 ہزار 535 جن میںریڈزون اور ہائی سیکیورٹی والے ضلع جنوبی میں 4901، ضلع غربی میں 4900، ضلع شرقی میں5907، ضلع وسطی میں 2698 اور ضلع ملیر میں 4209 ہے، کراچی پولیس کی منظور شدہ اسامیاں35102 ہیں، پراسیکیوٹرجنرل شہادت اعوان نے ایکسپریس کے استفسار پر بتایا کہ اس معاملے کے مختلف پہلو ہیں لیکن کراچی میں اس کی بڑی وجہ اس شہر کا پھیلاؤ ہے، کثیراللسانی و معاشرتی اکائیوں پر مشتمل 2 کروڑ آبادی کے اس شہر میں ملزمان اپنی رہائشگاہ تبدیل کرلیتے ہیں اس لیے کرایہ داری کے معاہدے نادرا سے رجسٹرڈ ہونے چاہئیں۔
اس کے علاوہ رئیل اسٹیٹ کے کاروبار سے تعلق رکھنے والے افراد کی بھی رجسٹریشن ضروری ہے، اس کے ساتھ ساتھ شہر کے داخلی وخارجی راستوں پر بھی نگرانی کا موثر نظام ہونا چاہیے جیسا کہ بعض نجی ٹرانسپورٹ میں ویڈیو مووی بنانا لازمی قرار دیا گیا ہے، سپریم کورٹ نے مفرور اور اشتہاری ملزمان کی اتنی بڑی تعداد پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے آبزروکیا تھا کہ سندھ پولیس کے تفتیشی افسران جدید تقاضوں سے نابلد ہیں اور انھیں تربیت کی ضرورت ہے۔
سندھ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس مشیر عالم نے سندھ بھر کے مفرور ملزمان کی فہرست طلب کی ہے اور پولیس کو ہدایت کی ہے کہ اشتہاری قراردیے گئے ملزمان کے شناختی کارڈزبلاک کیے جائیں اور ان کے فنگر پرنٹس کے ذریعے گرفتاری کیلیے اقدامات کیے جائیں، اس کے علاوہ پولیس سندھ ہائیکورٹ سے ملزمان کے متعلق معلومات کا تبادلہ کرنے سے گریز کررہی ہے، ذرائع کے مطابق سندھ ہائیکورٹ کی ویب سائٹ پر مفرور اور اشتہاری ملزمان کے متعلق معلومات کے کالم ہیں کہ کسی بھی ملزم کی گرفتاری کا ریکارڈ آن لائن دستیاب ہوسکے اور عادی ملزمان کی گرفتاری کے موقع پر ضمانت پر رہائی کے بارے میں متعلقہ عدالت فوری فیصلہ کرسکے لیکن پولیس ملزمان کی گرفتاری کے کوائف فراہم نہیں کررہی۔
اس ضمن میں سندھ ہائیکورٹ نے محکمہ پولیس کو یاد دہانی بھی کرائی ہے مگر محکمہ پولیس کی جانب سے تعان نہیں کیا جارہا، سندھ ہائیکورٹ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر سندھ ہائیکورٹ کی ویب سائٹ پرکسی ملزم کی گرفتاری کی معلومات فراہم کردی جائیں تو پولیس مذکورہ ملزم کی گرفتاری سے انکار نہیں کرسکتی اس لیے ملزمان کی گرفتاری اور دیگر معلومات اپ ڈیٹ نہیں کی جاتیں تاہم سندھ ہائی کورٹ مقدمات سے متعلق مکمل معلومات ویب سائٹ پر فراہم کردیتی ہے۔
ریڈ زون قراردیاجانے والا علاقہ کراچی کے ضلع جنوبی میں آتا ہے یہاں مفروراور اشتہاری قراردیے ملزمان کی تعداد 4901 ہے، ان ملزمان کو 4 سالوں میں مختلف عدالتوں نے مفروریا اشتہاری قراردیا مگر پولیس انھیں گرفتار کرنے میں ناکام رہی ہے، یہ انکشاف سندھ ہائیکورٹ کے ممبرانسپکشن ٹیم کی جانب سے گزشتہ دنوں سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی رپورٹ میں کیا گیا ہے کہ گزشتہ 4 سال کے دوران یکم جنوری 2008 سے نومبر 2012 تک صوبے بھر کی عدالتوں نے قتل،اقدام قتل،اغوا برائے تاوان،پولیس مقابلہ،ڈکیتی، ہنگامہ آرائی اور دیگر مقدمات میں ملوث 88 ہزار 998 ملزمان کو مفرور اور اشتہاری قراردیا ہے مگر پولیس ان ملزمان کو گرفتار نہیں کرسکی۔
سپریم کورٹ میں پیش کی گئی رپورٹ کے مطابق کراچی کی عدالتوں سے مفرور قراردیے گئے، ملزمان کی تعداد22 ہزار 535 جن میںریڈزون اور ہائی سیکیورٹی والے ضلع جنوبی میں 4901، ضلع غربی میں 4900، ضلع شرقی میں5907، ضلع وسطی میں 2698 اور ضلع ملیر میں 4209 ہے، کراچی پولیس کی منظور شدہ اسامیاں35102 ہیں، پراسیکیوٹرجنرل شہادت اعوان نے ایکسپریس کے استفسار پر بتایا کہ اس معاملے کے مختلف پہلو ہیں لیکن کراچی میں اس کی بڑی وجہ اس شہر کا پھیلاؤ ہے، کثیراللسانی و معاشرتی اکائیوں پر مشتمل 2 کروڑ آبادی کے اس شہر میں ملزمان اپنی رہائشگاہ تبدیل کرلیتے ہیں اس لیے کرایہ داری کے معاہدے نادرا سے رجسٹرڈ ہونے چاہئیں۔
اس کے علاوہ رئیل اسٹیٹ کے کاروبار سے تعلق رکھنے والے افراد کی بھی رجسٹریشن ضروری ہے، اس کے ساتھ ساتھ شہر کے داخلی وخارجی راستوں پر بھی نگرانی کا موثر نظام ہونا چاہیے جیسا کہ بعض نجی ٹرانسپورٹ میں ویڈیو مووی بنانا لازمی قرار دیا گیا ہے، سپریم کورٹ نے مفرور اور اشتہاری ملزمان کی اتنی بڑی تعداد پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے آبزروکیا تھا کہ سندھ پولیس کے تفتیشی افسران جدید تقاضوں سے نابلد ہیں اور انھیں تربیت کی ضرورت ہے۔
سندھ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس مشیر عالم نے سندھ بھر کے مفرور ملزمان کی فہرست طلب کی ہے اور پولیس کو ہدایت کی ہے کہ اشتہاری قراردیے گئے ملزمان کے شناختی کارڈزبلاک کیے جائیں اور ان کے فنگر پرنٹس کے ذریعے گرفتاری کیلیے اقدامات کیے جائیں، اس کے علاوہ پولیس سندھ ہائیکورٹ سے ملزمان کے متعلق معلومات کا تبادلہ کرنے سے گریز کررہی ہے، ذرائع کے مطابق سندھ ہائیکورٹ کی ویب سائٹ پر مفرور اور اشتہاری ملزمان کے متعلق معلومات کے کالم ہیں کہ کسی بھی ملزم کی گرفتاری کا ریکارڈ آن لائن دستیاب ہوسکے اور عادی ملزمان کی گرفتاری کے موقع پر ضمانت پر رہائی کے بارے میں متعلقہ عدالت فوری فیصلہ کرسکے لیکن پولیس ملزمان کی گرفتاری کے کوائف فراہم نہیں کررہی۔
اس ضمن میں سندھ ہائیکورٹ نے محکمہ پولیس کو یاد دہانی بھی کرائی ہے مگر محکمہ پولیس کی جانب سے تعان نہیں کیا جارہا، سندھ ہائیکورٹ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر سندھ ہائیکورٹ کی ویب سائٹ پرکسی ملزم کی گرفتاری کی معلومات فراہم کردی جائیں تو پولیس مذکورہ ملزم کی گرفتاری سے انکار نہیں کرسکتی اس لیے ملزمان کی گرفتاری اور دیگر معلومات اپ ڈیٹ نہیں کی جاتیں تاہم سندھ ہائی کورٹ مقدمات سے متعلق مکمل معلومات ویب سائٹ پر فراہم کردیتی ہے۔