میری دستک پر اُس نے جیسے ہی دروازہ کھولا میں اس پر چلّاتے ہوئے کُود گیا

بس کہتے جاتے مجھ سیاہ کار کو آپ نے اپنایا، احسان ہے احسان، کرم ہے بس کرم


بس کہتے جاتے مجھ سیاہ کار کو آپ نے اپنایا، احسان ہے احسان، کرم ہے بس کرم۔ فوٹو؛ فائل

قسط نمبر38

جاڑا اپنے عروج پر تھا اور جیون اپنی راہ پر۔ روکے نہیں رکتی ناں یہ زندگی، معلوم یہ بھی نہیں کہ یہ جو جینا ہے، واقعی جینا ہے بھی کہ بس سراب ہے جسے ہم زندگی سمجھ بیٹھے ہیں، رکیے ہم کسی اور سمت میں نکل کھڑے ہوئے ہیں۔ مرضی کی ہو، نہ ہو، زندگی تو بہ ہر حال رواں رہتی ہے۔

ایک دن میں نے بابا سے کہا سب کی کہانیاں سناتے رہتے ہیں آپ، کبھی اپنی بھی تو سنائیے۔ مسکرائے اور کہا: پہلے ہی فرمائش کردیتے تو کب کی سُن بھی چکے ہوتے۔ تو اب سنائیے میں نے کہا۔ تو تم میری کہانی سننا چاہتے ہو تو سنو: '' میں بہت چھوٹا تھا کہ گھر سے نکلنا پڑا اور وہ اس لیے کہ گھر کے رِیت رواج کے مطابق میں چلا نہیں اور نہ ہی انہیں تسلیم کیا، جس کام سے منع کیا گیا، وہی کِیا اور اس لیے کہ اسے دُرست سمجھا تو اس کا انجام تو یہ ہونا ہی تھا ناں۔ میں تھا بھی بہت شرارتی، قرار ہی نہیں تھا مجھے، ایک پل بھی نہیں کہ بے چین روح تھا میں، بس ہر جگہ گھومتا پھرتا تھا، کھیتوں اور کھلیانوں میں، میدانوں قبرستانوں میں، مرگھٹ اور ویرانوں میں، اور پھر میں لوگوں کو خوف زدہ بھی تو کرتا رہتا تھا، کبھی جن بُھوت بن کر، کبھی سَرکٹا بن کر اور کبھی چُڑیل بن کر، رات کو درخت پر چڑھ جاتا اور راہ گیروں کو ڈراتا تھا اور جب وہ خوف زدہ ہوکر چیختے چلاتے سرپٹ دوڑتے تو میں درخت سے اتر آتا اور انہیں کہتا آپ تو بہت بہادر بنتے تھے اور نہ جانے کیا کیا دعوے کرتے تھے، اور حقیقت آپ کی یہ ہے۔

برسات کی راتوں میں جب سب لوگ اپنے گھروں میں بیٹھے گپ شپ کر رہے ہوتے تو میں ان کے دروازے کٹھکھٹاتا اور عجیب خوف زدہ کردینے والی آوازیں نکالتا اور لوگ دبک کر بیٹھے رہتے۔ وہ برسات کی رات تھی جب میں نے محلے کے ایک گھر کے دروازے پر دستک دی، اس کا مکین تھا تو بہت اچھا لیکن کہتا یہ تھا کہ کوئی جن وِن اگر میرے سامنے آگیا تو اسے وہ سبق سکھائوں گا کہ اس کی تو نسلیں یاد رکھیں گی تو بس میری دستک پر اس نے جیسے ہی دروازہ کھولا میں اس پر چلاتے ہوئے کود گیا کہ ہُوںںںں تو تم ہو ہمیں سبق سکھانے والے، اس کی چیخوں سے پورا محلہ باہر نکل آیا اور جب سب کو حقیقت معلوم ہوئی تو مت پوچھو کہ اس کا کتنا مذاق اڑایا گیا۔ یہ اچھی بات تو نہیں تھی لیکن بالک اگر شرارتی نہ ہو تو بھلا پھر کون ہو، میں بچپن سے ہی اپنے محلے میں نڈر اور پُراسرار سمجھا جاتا تھا۔ ایک مرتبہ تو میں ایک شخص کو جو جنوں سرکٹوں کو مارنے پیٹنے کے دعوے کرتا پھرتا تھا ایسا سبق سکھایا تھا کہ وہ کئی دن تک نہیں سنبھلا اور۔۔۔''

ابھی بابا یہیں تک پہنچے تھے، میں بہ غور ان کی کہانی سن رہا تھا، پھر اچانک ہی مجھ پر انکشاف ہوا کہ بابا اپنی نہیں میری کہانی مجھے ہی سنا رہے ہیں تو میں چیخا رک جائیے بابا! یہ تو آپ میری کہانی مجھے سنا رہے ہیں، میں نے تو آپ سے اپنی کہانی سنانے کا کہا تھا۔

اوہو اچھا! تو میں اپنے بہ جائے تمہاری کہانی تمہیں ہی سنانے بیٹھ گیا، اب تمہاری کہانی ہے بھی تو ایسی ناں کہ کیا کِیا جائے۔ چلو چھوڑو کوئی اور بات کرتے ہیں۔ بابا مسکرائے، نہیں مجھے آپ کی بپتا سننا ہے، سنائیے بابا۔ میرا اشتیاق بڑھ گیا تھا اور موقع بھی اچھا تھا تو میں بہ ضد رہا۔ تمہاری ضد بھی کمال ہے، جب کسی کام کی ٹھان لی تو بس اب کرنا ہی کرنا ہے، چاہے کچھ ہوجائے، کتنا بھی نقصان ہو، تم کچھ دیکھتے ہی نہیں، چل سو چل، لیکن اس میں تمہارا دوش تو ہے ہی لیکن تمہارے قبیلے کا اثر بھی تو ہے ناں، پٹھان اور وہ بھی اصیل اور اپنی بات سے ٹل جائے، ممکن نہیں ہے، تو چلو جی سنو میری کہانی اور میری بھی کیا کہانی۔ بیٹا تمہیں تمہاری بے باکی، بے خوفی اور بغاوت نے گھر سے نکال باہر کیا اور مجھے میری خاموشی اور سر جھکائے رکھنے کے باوجود گھر سے بے دخل کردیا گیا، لیکن جو کچھ بھی ہوا بالکل ٹھیک ہی ہوا کہ ہم جیسوں کا نصیبا یہی ہے، لیکن سچ ہے ناں کہ ہم پر ایک در بند ہوا تو ہزار وا ہوگئے، یہی تو ہے زندگی کا اسرار۔ میرے دادا بہت امیر کبیر آدمی تھے، میں نے انہیں دیکھا تو نہیں لیکن جو ان کی امارت کے بارے میں سنا ہے اور پھر جو کچھ اس کے مظاہر دیکھے ہیں، اس سے معلوم ہوا کہ ہاں وہ بہت امیر کبیر تھے۔

میرے والد اور میرے تایا بس دو ہی بھائی تھے، ان کی کوئی بہن نہیں تھی، اور وہ مشترکہ حویلی میں رہتے تھے۔ میں نے تو اپنی ماں کو بھی نہیں دیکھا کہ جب میں پیدا ہوا تو وہ انتقال کر چکی تھیں، تو ایسے سمجھو کہ وہ دیالو ماں مجھے اپنا جیون دان کرگئیں۔ میں نے جب ہوش سنبھالا تو میرے ساتھ ایک آیا تھیں انہوں نے ہی مجھے پالا پوسا تھا۔ میرے تایا کے چار بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں اور میری تائی اماں بہت سخت گیر تھیں، میرے لیے تو ان کا رویہ یہی تھا لیکن اپنے بچوں کے لیے وہ بہت اچھی تھیں۔ میرے والد اپنے بڑے بھائی کی بہت قدر کرتے تھے، ایسے جیسے وہ بھائی نہیں ان کے والد ہوں۔ وہ صبح کام پر چلے جاتے اور میں اتنے بڑے گھر میں اپنی آیا کے ساتھ رہ جاتا، میں نے بہت کوشش کی کہ اپنے تایا زاد بھائیوں اور بہنوں کے ساتھ جو عمر میں مجھ سے خاصے بڑے بھی تھے، کے ساتھ کھیل کود سکوں، بات کرسکوں لیکن وہ سب مجھ سے دور بھاگتے تھے اور جب میں اپنی تائی کے پاس جاتا تو ان کی ڈانٹ سنتا اور اکثر تو تھپّڑ بھی کھاتا تھا، مجھے کچھ سمجھ نہیں آتا تھا کہ آخر ان کا ایسا رویہ کیوں ہے لیکن میں نے کبھی اپنے والد سے پوچھا نہیں۔ ہاں ایک مرتبہ میں نے انہیں جب یہ ساری صورت حال بتائی تھی تو انہوں نے مجھے یہ سمجھایا کہ وہ گھر کی بڑی ہیں تو تمہاری اچھائی کے لیے یہ سب کر رہی ہیں۔

ہمارا کھانا ہماری آیا بنایا کرتی تھیں۔ مجھے یہ بھی سمجھ نہیں آتا تھا کہ آخر تایا کے ساتھ رہتے ہوئے بھی ہم تنہا کیوں ہیں، ایک جگہ رہتے ہوئے بھی ہمارا میل جول نہیں ہے، ان کا رہن سہن اور کھانا پینا تک ہم سے مختلف کیوں ہے۔ خیر میں تمہاری طرح نہیں تھا کہ سوال پر سوال پوچھتا، سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی خاموشی اختیار کی، اب قصے کو کیا طول دینا بیٹا! وہ دن تو میرے لیے قیامت بن کر آیا جب میرے والد کی میت گھر لائی گئی، صبح تو وہ بالکل تن درست کام پر تایا کے ساتھ ہی گئے تھے، مجھے بس اتنا بتایا گیا کہ ان کی طبیعت خراب ہوگئی تھی اور پھر ان کا انتقال ہوگیا۔

اس سے زیادہ میں نہیں جان پایا تھا، والد کے انتقال کے کچھ دن بعد گھر میں وہی چہل پہل تھی، ایسا لگتا ہی نہیں تھا کہ اس گھر میں کچھ دن پہلے ہی میّت ہوئی ہے، مجھے ان حالات نے وقت سے پہلے ہی بڑا بنا دیا تھا، اور پھر ابا کے چالیسویں پر میری شفیق، ہم درد اور غم گسار آیا کو بھی فارغ کردیا گیا، جب وہ گھر سے جارہی تھیں وہ وقت تو مجھ پر اپنے والد کے انتقال سے بھی زیادہ اذیت ناک تھا، اس لیے کہ میں نے اپنی ماں کو تو کبھی دیکھا نہیں تھا، وہی میری ماں تھیں کہ انہوں نے ہی مجھے پالا پوسا تھا، میں ان سے ساری باتیں کرتا تو وہ بھی خاموش رہتیں اور مجھے بھی خاموش رہنے کو کہا کرتیں۔

خیر جب وہ بھی گھر میں نہ رہیں تو میں اور بھی تنہا رہ گیا اور ایسے میں زندگی ایک نیا موڑ مڑگئی۔ پہلے تو مجھے تائی اماں ہی مارتی پیٹتی تھیں اب ان کے بچے بھی اس کارِخیر میں شامل ہوگئے۔ میری عمر دس برس ہوگئی تھی، میرے والد کے چالیسویں کو بس چند دن ہی گزرے تھے اور پھر دن بھی آ ہی گیا جسے میں کبھی نہیں بُھول پائوں گا جب ایک سرد رات میں مجھے میرے تایا ابّو اور تائی اماں نے دھکے دے کر گھر سے نکال دیا۔ میں نے رو رو کر پوچھا کہ آخر میرا قصور کیا ہے، اور میں کہاں جائوں؟ لیکن اس کا جواب مار پٹائی سے دیا گیا، آخر میں گھر سے بے دخل کردیا گیا۔

اب کالی رات اور سرد بھی اور ایک دس سال کا ایسا بچہ جس کا کوئی والی وارث نہیں، اور میں والی وارث اس لیے کہہ رہا ہوں کہ میں نے تو اپنے ننھیال میں سے بھی کسی کو نہیں دیکھا اور ددھیال میں جو کچھ میرے ساتھ ہوا وہ تو میں تمہیں بتا ہی چکا ہوں۔ پھر رات تو روتے دھوتے گزاری اور صبح اپنی آیا کو ڈھونڈنا شروع کیا جسے گھر سے نکال دیا گیا تھا اس لیے کہ وہی تو میری ماں تھیں، ہم درد و غم گسار تھیں، اور شروع بھی کیا تو قبرستان سے، ہوا یوں کہ میں اپنے والد کی قبر پر گیا اور ان سے لپٹ کر رونے لگا، میری چیخیں قبرستان کا سینہ چیر رہی تھیں، انسان بھی کتنا روئے آخر خاموش ہوجاتا ہے، میں بھی رو رو کر ہلکان ہوگیا تھا، تو سوچا کہ اب اپنی آیا کو تلاش کرتا ہوں اور پھر تم اسے ایک معجزہ ہی کہو کہ میں اپنے والد کی قبر سے اٹھ کر باہر جانے کے لیے نکلا ہی تھا کہ میری آیا مجھے مل گئیں، پہلے تو مجھے اپنے ساتھ لپٹا کر بہت روئیں اور کہنے لگیں میں تو تمہاری تلاش میں نکلی تھی تو تم مجھے مل گئے۔

میں نے پوچھا آپ کیوں میری تلاش میں تھیں تو انہوں نے بتایا کہ تمہارے بغیر تو میں ویسے بھی کیسے جی پاتی کہ اب دنیا میں تمہارے سوا رہا ہی کون ہے، کوئی آگے نہ پیچھے، چھوٹی سی تھی کہ تمہارے دادا کے گھر پہنچی تھی، شادی کی نہیں، ماں باپ مرگئے اور پھر یہیں کی ہورہی، جب تم پیدا ہوئے تو تمہاری ماں چل بسی تو بس خود کو تمہارے لیے وقف کردیا اور پھر جب تمہارے ابا مرگئے تو مجھے بھی مار ہی دیا گیا کہ گھر سے نکال دیا، میری جان تو تم میں اٹکی ہوئی ہے تم ہی تو میرا سب کچھ ہو، جب سے گھر سے نکالا ایک پل بھی چین نہیں ملا، کل مجھے معلوم ہوا کہ تمہیں بھی گھر سے نکال دیا گیا ہے تو بس اس وقت سے تمہیں تلاش کر رہی تھی اور شُکر خدا کا کہ تم مل گئے، اب تم ذرا سی بھی فکر مت کرنا میں ہوں ناں اب تو سب ٹھیک ہوجائے گا۔

میں نے ان سے پوچھا کہ وہ کہاں رہتی ہیں تو وہ مسکرا کر کہنے لگیں، چلو میں دکھاتی ہوں تمہیں۔ وہ میرا ہاتھ پکڑے قبرستان کے ساتھ چلتی رہیں، پھر کھیت شروع ہوگئے اور اس کے بعد ویرانے میں ایک اجاڑ حویلی نظر آئی، بالکل خستہ سی، در سلامت نہ دیوار بس آثار، وہ مجھے لے کر ایک کمرے میں داخل ہوئیں تو اس کمرے کی آدھی چھت ہی نہیں تھی۔ میں نے ان سے پوچھا اس جگہ آپ رہتی ہیں اور کس کی ہے یہ، تو انہوں نے بتایا ہاں جب سے نکلی تو اس جگہ ہی رہتی ہوں، یہ تو مجھے معلوم نہیں کہ یہ کس کی ہے، لیکن اس ویرانے اور خاص کر اس حویلی میں کوئی نہیں آتا، اس کے متعلق عجیب طرح کے قصے مشہور ہیں کہ یہ آسیب زدہ ہے، اور عجیب عجیب مخلوق کو یہاں دیکھا گیا ہے، لیکن بیٹا مجھے تو یہاں خاصے دن ہوگئے ہیں مجھے تو یہاں کوئی نظر نہیں آیا، تم بھی مت ڈرنا کچھ نہیں ہے یہاں پر۔ وہ یہ کہہ کر خاموش ہوگئیں تو میں نے پوچھا آپ کھاتی پیتی کہاں سے ہیں ؟ تو انہوں نے بتایا کہ جس دن مجھے نکالا گیا تو میں یہیں آگئی تھی، جب یہاں اندھیرا چھا گیا تو میں نے دیکھا ایک ملنگ بابا آئے اور انہوں نے مجھے کھانا دیتے ہوئے کہا کہ میں کوئی فکر نہ کروں اب وہ کھانا لے کر آئیں گے تو بس وہی لے آتے ہیں، یہ دیکھو کتنے مزے کا کھانا ہے لو تم بھی کھالو اور پریشان بالکل مت ہونا، سب ٹھیک ہوجائے گا۔ گھی میں ترتراتے پراٹھے تھے۔

شہد تھا، سالن تھا اور بھی بہت کچھ تو میں نے سیر ہوکر کھانا کھایا، میں رات بھر کا جاگا ہوا تھا تو مجھے نیند آگئی۔ جب میری آنکھ کھلی تو میں نے اپنی آیا سے پوچھا، وہ ملنگ بابا رہتے کہاں ہیں؟ تو انہوں نے میری طرف دیکھا اور کہا، بیٹا میں کیا جانوں وہ کہاں رہتے ہیں، بس اﷲ نے اپنے ایک نیک بندے کو ہمارے لیے رحمت بنا کر بھیج دیا ہے تو بس یہی کافی ہے، اس کے کام وہی جانے۔ پھر میں اس وقت کا انتظار کرنے لگا جب وہ ملنگ بابا کھانا لے کر آتے تھے، اور قصہ مختصر وہ آئے اور میری ان سے بات بھی ہوئی، اور حیرت اس بات پر تھی کہ وہ اس دن آیا کے ساتھ میرا کھانا بھی لائے تھے۔ تو بس دن گزرتے چلے گئے اور میں مزے میں رہنے لگا، ہمیں سب کچھ میّسر تھا، کھانا پینا ہی نہیں کپڑے بھی۔ تین سال سے زیادہ ہوگئے تھے لیکن بیٹا وقت پَر لگا کر اڑتا ہے ناں، پھر آیا کی طبیعت خراب رہنے لگی، یہ بڑھاپا بھی تو کسی موذی مرض سے کم تھوڑی ہوتا ہے، میں نے ان کی اپنی سگی ماں کی طرح خدمت کی لیکن وقت مقرر کو کون ٹال سکا ہے۔

کوئی بھی نہیں تو ایک دن وہ مجھے چھوڑ کر اصل جہاں میں چلی گئیں، ہاں تم سوچ رہو کہ ان کی تجہیز و تکفین کیسے ہوئی تو وہ ایسے کہ وہی ملنگ بابا آئے ان کے ساتھ کچھ لوگ بھی تھے اور کچھ خواتین بھی، انہوں نے ہی سارے انتظامات کیے تھے، میری آیا کی نماز جنازہ بھی اسی ملنگ بابا نے پڑھائی تھی اور مجھ سے وہ یہ کہتے ہوئے رخصت ہوگئے کہ اب وہ نہیں آئیں گے، یعنی برکت اپنے ساتھ اپنی برکات بھی لے گئیں اور میں پھر سے بے بس و لاچار اور تنہا رہ گیا اور پھر سے جیون سے نبرد آزما ہونے کے لیے نکل کھڑا ہوا۔ اور ہاں وہ بھی ایسی ہی ایک سرد اور کالی رات تھی جس میں تم اپنے مکان سے نکالے گئے تھے اور پھر تمہیں وہ سیاہ چادر والی عظیم خاتون مل گئی تھیں، تم بڑے نصیب کے دھنی ہو بیٹا کہ جیسے ہی مکان سے نکلے تو انہوں نے تمہیں گود لے لیا، لیکن یہ راز میں جانتا ہوں، تم نہیں کہ تمہارے پیچھے کون تھا، ہے اور رہے گا تو بس انہوں نے مجھ جیسے سیاہ کار کو بھی اپنی سیاہ چادر عنایت کرتے ہوئے کرم نوازی فرمائی اور مجھ جیسا بھی اس راہ کا مسافر بنا، اب طویل ہوجائے گی بات تو بس اتنا سمجھ لو کہ جن عظیم اور رازِ کائنات کو پائے ہوئے خدا کے منتخب بندوں سے ہوتے ہوئے تم مجھ جیسے سیاہ کار تک پہنچے ہو، میں بھی اسی راہ سے ہوتے ہوئے یہاں تک پہنچ گیا ہوں، میں سیاہ کار و سیاہ دل اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بابا بس اتنا ہی بہ مشکل کہہ پائے اور پھر ان کی بینا آنکھوں سے آنسوئوں کی جھڑی رواں ہوگئی۔ بہت ہی مشکل سے اور بہت دنوں بعد وہ سنبھل پائے، بس کہتے جاتے مجھ سیاہ کار کو آپ نے اپنایا، احسان ہے احسان، کرم ہے بس کرم، بس اپنی سیاہ چادر کے سائے تلے رکھیے گا، مجھ سیاہ کار کی تقصیر معاف کی جاتی رہے، آپ کی عنایات جاری رہیں۔ وہ ان سیاہ چادر والی عظیم خاتون کو اپنا نذرانۂ عقیدت پیش کرتے رہتے۔

جی میں نے ان کی پوری کتھا ان سے سنی ہے، بہت عجیب، عجلت سے باہر آئیے اور شانت رہیے، چلیں گے آگے بھی، رہے نام اﷲ کا۔

لیجیے یہ ندیم بھابھ اس وقت کہاں سے وارد ہوئے، صدقے، واری، قربان

ابھی تو کھال اُدھڑنی ہے اس تماشے میں

ابھی دھمال میں جوگی نے سانس ہارا ہے

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔