ملکی سیاست میں غیر معمولی ارتعاش

سیاسی دوراندیشی اور معروضی صورتحال کا تقاضہ ہے کہ سیاسی قائدین جوش سے نہیں ہوش سے کام لیں۔


Editorial April 06, 2019
سیاسی دوراندیشی اور معروضی صورتحال کا تقاضہ ہے کہ سیاسی قائدین جوش سے نہیں ہوش سے کام لیں۔ فوٹو: سوشل میڈیا

ملک کی دوبڑی سیاسی جماعتوں پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان پیپلز پارٹی کے جلسوں نے دو الگ الگ پیغام دیے۔ پیپلز پارٹی کے گڑھی خدابخش میں ذوالفقار علی بھٹو کی برسی کے موقع پر منعقدہ جلسے کی گونج سیاسی ارتعاش کی حامل تھی، پی پی قائدین نے تند و تیز خطاب کیا، حکومت کو للکارا، آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو نے اعلان کیا کہ ہر حال میں حکومت کا خاتمہ کرکے رہیں گے۔اس جلسہ کے فال آؤٹ پر دیگر سیاسی جماعتوں نے بھی اپنا رد عمل ظاہر کیا ہے۔

سیاسی رہنماؤں نے اپنی تقاریر میں سیاسی صورتحال کے جاری منظرنامہ کا حوالہ دیتے ہوئے خیالات کا اظہار اور سیاسی اور معاشی بحران پر اپنے آیندہ کے لائحہ عمل کا ذکر کیااور 18 ویں ترمیم کے تحفظ کے لیے جدوجہد جاری رکھنے کا یقین دلایا۔

مبصرین نے وزیراعظم عمران خان ، آصف زرداری اور بلاول بھٹو کی تقاریر پر تبصرے بھی کیے ،بعض کا انداز نظر ملکی سایسی صورتحال کے گہرے ادراک سے جڑا ہوا تھا، ان حلقوں کا کہنا تھا کہ ضرورت سیاسی تدبر ، روادارانہ سیاسی کلچر کے فروغ اور ملکی معاشی مسائل کے حل کے لیے ٹوٹل شوڈاؤن اور تصادم کی سیاسی روش کے بجائے مصالحت ، جمہوری اسپرٹ، اسپورٹس مین شپ اور کثیر جہتی سیاسی مکالمہ سے قوم کو درپیش چیلنجز کا حل ڈھونڈنے کی ہے ، معرکہ آرائی کا تسلسل جمہوریت کے لیے نیک شگون نہیں ہے،اس سے سیاسی اور جمہوری عمل کو بھی شدید خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔

سیاست دان پوائنٹ آف نو ریٹرن تک جانے سے اجتناب کریں، عوام ان سے اس لیے سیاسی بصیرت کی توقع رکھتے ہیں کہ ملک داخلی اور خارجی مسائل اور چیلنجوں کے گرداب میں پھنسا ہوا ہے ۔سیاست دان ملک پر رحم کریں۔

حقیقت یہ ہے کہ گڑھی خدا بخش اور اسلام آباد میں حیدرآباد یونیورسٹی کا سنگ بنیاد رکھنے کی منعقدہ تقریب کے تناظر میں سیاسی طنز کے کافی تیر برسائے گئے ، موجودہ سیاسی نظام میں مضمر خرابیوں سمیت معاشی بحران اور مہنگائی کے سیاق وسباق میں ناقدین سیاست نے ایک دوسرے کو آڑے ہاتھوں لیا ، شعلہ بیانی پیپلز پارٹی کے جلسہ میں نمایاں نظر آئی جب کہ وزیراعظم عمران خان نے حیدرآباد یونیورسٹی کا سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب میں ایم کیو ایم کے نظریات کی پذیرائی کرتے ہوئے کہا کہ متحدہ سے اختلاف عسکریت پسندی پر تھا، لیکن اب اندازہ ہوا کہ ان میں شائستہ اور نفیس لوگ بھی موجود ہیں۔ کہتے ہیں سیاست میں دوستی اور دشمنی مستقل نہیں ہوتی، سیاسی پنڈتوں نے وزیراعظم کے خطاب کو سندھ کی سیاست میں ایک پیراڈائم شفٹ سے تعبیر کیا ہے۔

بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ مستقبل میں پی ٹی آئی اور متحدہ کی سیاسی قربتیں پیپلز پارٹی کی پیدا کردہ سیاسی صورتحال کا مزاحمتی رخ متعین کریں گی ، سندھ کی سیاسی تپش دگنی ہوگی، مزید برآں عمران کا یہ اعلان کہ تحریک انصاف اور ایم کیو ایم کے نظریات ایک جیسے ہیں ،اگلا الیکشن مل کر لڑیں گے ایک بم شیل ہے۔وزیراعظم عمران خان نے بلاول کے انگریزی میں تقریر پر سوال اٹھایا۔

حیدرآباد یونیورسٹی کا سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہاکہ حیدرآباد یونیورسٹی کا سنگ بنیاد رکھنے پر بہت خوشی ہو رہی ہے، پہلے سڑکوں کا افتتاح ہوتا تھا آج ہم یونیورسٹی کا سنگ بنیاد رکھ رہے ہیں، حیران ہوں حیدرآباد یونیورسٹی کے قیام کی مخالفت کیوں کی جا رہی ہے، ہم نے نوجوانوںکو بے راہ روی سے بچانے کے لیے میانوالی میں یونیورسٹی قائم کی، نمل یونیورسٹی کے 92فیصدگریجویٹس کو نوکریاں مل گئیں، انشاء اللہ حیدرآباد یونیورسٹی کو تکنیکی بنیادوں پرقائم کرنا ہے ۔

ادھر سابق صدر آصف زرداری اور چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ہم ہر حال میں حکومت کا خاتمہ کر کے رہیں گے۔ ذوالفقار بھٹو کی برسی کے موقع پر یہاں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے آصف زرداری نے کہا کہ کارکن تیاری کر لیں اب ان لوگوں کو اقتدار سے نکالنے کا وقت آگیا، ملک کی بہتری کے لیے اس حکومت کا خاتمہ ضروری ہے، جب سے پی ٹی آئی کی حکومت آئی ہے مہنگائی کا طوفان امڈ آیا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری نے خبردار کیا کہ اگر اٹھارویں ترمیم کو چھیڑا گیا اور ون یونٹ قائم کرنے کی کوشش کی گئی تو ایک لات مار کر حکومت ختم کر دیں گے ، بتایا جائے آئین دینے والا غدار تھا یا توڑنے والا غدار ہے، کیا بھٹو کو ملک کو ایٹمی قوت بنانے کی سزا دی گئی ؟ ہم اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔

فیصلہ تاریخ اور عوام کریں گے، بلاول نے کہا کہ میں نہیں کہتا کہ احتساب مت کرو لیکن انتقام مت لو سیاسی انجینئرنگ مت کرو، پیپلز پارٹی نے جب انصاف کی امید رکھی عدالتوں سے رکھی، ہمارے نظام عدل کو اپنے اندر جھانکنا ہوگا، اصلاح کرنا ہوگی، شہید بے نظیر بھٹو کا پیغام گلی گلی پہنچانے کی ضرورت ہے ۔ وفاقی وزیراطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے کہا ہے کہ بھٹو زندہ ہوتے توموجودہ پیپلزپارٹی کے خلاف مارچ کرتے، بانی پیپلزپارٹی کی برسی کے موقع پرگڑھی خدا بخش میں رہنماؤں کی تقاریر پر ردعمل کا اظہارکرتے ہوئے وفاقی وزیر نے کہاکہ پیپلز پارٹی اگر عدالتوںکا احترام کرتی ہے تو پھر احتجاج کس کے خلاف اورکیوںکرنے کا اعلان کرتی ہے ۔

پشتون خوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے کہا ہے کہ ملک میں جمہوری اداروں کو کمزور کرنے کے لیے سازشیں کی جارہی ہے وفاق 18ویں ترمیم سے دیوالیہ نہیں ہوئی حکومت کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے دیوالیہ ہوگئی ، کسی بھی قیمت پر جمہوریت کے خلاف سازشوں کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے ، نیشنل پارٹی کے مرکزی صدر سابق وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کے مطابق نیشنل پارٹی نے پارلیمنٹ کی بالادستی پر سمجھوتہ کرنے کے بجائے الیکشن ہارنے کو ترجیح دی ہمیں اسمبلی میں نہ ہونے پر کوئی ندامت نہیں 18ویں ترمیم کو کسی صورت رول بیک کرنے نہیں دیا جائے گا ۔

واضح رہے سیاسی لہر کی دھمک سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون وانصاف میں بھی سنی گئی جس میں وزیرقانون فروغ نسیم کی عدم موجودگی پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے احتجاجاً اجلاس ملتوی کردیا گیا ، سینیٹر میاں رضا ربانی نے کہا کہ آج سب سے کمزور ادارہ پارلیمان کا ہے، نہ قانون سازی یہاں ہوتی ہے اور نہ عوام کے مسائل اٹھائے جاتے ہیں، پارلیمان کو کچھ ہوا تو وفاق بچ نہیں سکے گا، پیپلز پارٹی وسطی پنجاب کے صدر قمر زمان کائرہ نے کہا ہے کہ عمران خان جمہوریت کو نہیں مانتے، حکومت کو اپنا قبلہ درست کرنے کی ضرورت ہے۔

گڑھی خدا بخش میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا معیشت لڑکھڑا رہی ہے، حکومت کو گرانے کی ضرورت نہیں یہ خود بھاگنے پر مجبور ہونگے، پی پی رہنما خورشید شاہ نے سوال کیا کہ عمران خان مودی کے ساتھ بیٹھ سکتے ہیں،اپوزیشن کے ساتھ کیوں نہیں، جب کہ گورنر سندھ عمران اسماعیل نے اس خبر کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ سندھ میں ان ہاؤس تبدیلی کی باتوں میں کوئی صداقت نہیں، پیپلز پارٹی 18 ویں ترمیم کو سیاسی اسٹنٹ کے طور پر اس کا استعمال کررہی ہے۔

بہر کیف پیدا شدہ سیاسی بھونچال ایک ویک اپ کال ہے۔ سیاسی دوراندیشی اور معروضی صورتحال کا تقاضہ ہے کہ سیاسی قائدین جوش سے نہیں ہوش سے کام لیں۔آج ملک کسی ایڈونچرازم کا متحمل نہیں ہوسکتا اور مسائل ومطالبات کا واحد حل جمہوری مکالمہ میں ہی مضمر ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں