امریکا اور افغانوں کا کاندھا بھارت کی بندوق
بھارت کو امن مذاکرات سے دور رکھا گیا ہے کیوں کہ اس کے خود غرضانہ عزائم اب دوسروں پر بھی واضح ہوچکے ہیں۔
ہائبرڈ سے مراد ایسی جنگ ہے جو روایتی اور غیرروایتی، حرکی و غیر حرکی تمام صورتوں میں دشمن کے خلاف لڑی جاتی ہے۔ اس کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ دشمن کو خفیہ وار سے کم زور کرنے کی حکمت عملی کے لیے ہندوستان میں ارتھ شاستر صدیوں پرانا ماخذ ہے۔ اکیسویں صدی میں ٹیکنالوجی کی ترقی نے پرانے اصولوں پر ترتیب دیے گئے ان حربوں کو بھی جدت دی ہے۔ ہائبرڈ وارفیئر کے دو یا زائد اجزا ہیں۔
اس میں بیک وقت طاقت کے مختلف ذرایع کو اس طرح ترتیب دیا جاتا ہے کہ ان کی مدد سے سماجی کمزوریوں پر وار کیا جائے اور معاشرتی تانے بانے کو زد پہنچے۔ اس حکمت عملی کی ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ اس کے تحت استعمال ہونے والے ہتھکنڈوں کی نشان دہی اور تشخیص آسانی سے ممکن نہیں ہوتی۔ اس حکمت عملی کا تمام انحصار پوری رفتار، پھیلاؤ اور قوت سے ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے استعمال پر ہے، جس نے معلومات کے اس عہد کو صورت گری کی ہے۔ اس کی ایک اور پیچیدگی یہ ہے کہ اس میں حملے کے ماخذ یا حملہ آور کی نشاندہی بہ آسانی ممکن نہیں۔
1947کے بعد بھارت کی افغانستان میں جو حکمت عملی رہی اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کس طرح اس نے ان تاریخی ماخذ سے استفادہ کیا۔ تقسیم ہند کے ساتھ ہی بھارت نے پاکستان کو اپنا دشمن تسلیم کرلیا تھا۔ یہ ملک اپنے قیام کے ساتھ ہی بھارت کی آنکھوں میں کھٹک رہا ہے۔ زیر سطح ہمیشہ پاکستان کو کمزور کرنے اور شکست دینے کے ہدف پر بھارت کام کرتا رہتا ہے اور اکثر یہ کوششیں سامنے نہیں آتیں۔ دوسری جانب پاکستان بھی اپنی کوششیں جاری رکھے ہوئے لیکن بھارت کے ہاتھ میں صفائی زیادہ ہے اور ہماری کامیابیاں بھی کم رہی ہیں۔
دشمن کی جانب سے غیر حرکی یا نان کائنٹک حربوں کے استعمال سے ہمیں یہ بھی یہ جواز ملتا ہے کہ اپنے دفاع کے لیے ہم ان ذرایع کا استعمال کریں۔ حکمت عملی کی اس سطح پر ہمارے ادارے پاکستان کو دشمنوں سے محفوظ کرنے میں کام یاب نہیں رہے ہیں، ہم صرف نان کائنٹک ذرایع میں برابری کا جواب دے سکے ہیں۔ بھارت کبھی اس میدان میں ہمارا سامنا نہیں کرسکا۔ ہمیں اصلاح اور بہتری کی ضرورت ہے۔
ڈیورنڈ لائن کی وجہ سے افغانستان اور پاکستان کے مابین تعلقات ابتدا ہی سے ناخوشگوار رہے۔ انیسویں صدی میں وجود میں آنے والا یہ نوآبادیاتی ورثہ 1947میں پاکستان کی سرحد بنا۔ افغانستان اسے باقاعدہ سرحد تسلیم کرنے سے انکاری ہے۔ بھارت نے اس موقعے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے(دشمن کا دشمن دوست کی چانکیائی پالیسی اپنائی) اور پاکستان کے گرد دونوں جانب سے گھیرا ڈالنے کی پالیسی اپنائی۔ 1950میں بھارت اور افغانستان کے مابین پانچ سالہ دوستی کا معاہدہ ہوا جس میں ''دونوں حکومتوں کے مابین دائمی امن اور دوستی'' پر رضامندی کا اظہار کیا گیا اور ایک دوسرے کے ممالک میں سفارتی اور قونصلر پوسٹ بنائی گئیں۔ افغانستان پر سوویت قبضے کے دوران بھارت نے روس کی بھرپور حمایت کی، براہ راست اس تنازعے میں پڑنے سے گریز کیا لیکن افغان نوجوانوں کے اسٹڈی ایکسچیج پروگرام جاری رکھے۔ ایسا کب ہوتا ہے کہ کوئی آپ کے فائدے کے لیے اپنا جان و مال قربان کرے؟
نوگیارہ کے بعد افغانستان میں طالبان حکومت پر امریکی حملے سے ایک نئے مرحلے کا آغاز ہوا۔ امریکا نے اس ملک کی قیادت سنبھال لی اور کم و بیش اس کا معاشی بوجھ بھی اٹھایا۔ اگرچہ زیادہ جانی نقصان افغانوں کا ہوا لیکن امریکا اس سے محفوظ نہیں رہ سکا۔ یہاں بھارت سے چوک ہوئی۔ اس نے ''دہشتگردی کے خلاف جنگ'' میں شمولیت اختیار نہیں کی لیکن پاکستان سے متعلق امریکا کے شبہات بڑھانے میں توانائیاں صرف کیے رکھیں۔ امریکا لوٹنے والے فوجیوں کے تابوت پاکستان کے خلاف امریکا کے غیظ و غضب کو ہوا دیتے رہے۔
پچھلے تیس برسوں میں جس نے پاکستان کی مخالفت کی بھارت نے اس کی پیٹھ ٹھوکی۔ طالبان کے خلاف شمالی اتحاد کا ساتھ صرف اس لیے دیا کہ ان کا رہنما احمد شاہ مسعود پاکستان مخالف جذبات رکھتا تھا۔ بھارت نے سوویت یونین کے جانے کے بعد مختصر مدت کے لیے قائم ہونے والی شمالی اتحاد کی حکومت کی بھی معاونت کی۔ دوسرا یہ کہ بھارت طالبان سے خائف تھا، جنھیں پاکستان اور جہادی نظریات کی پیداوار تصور کیا جاسکتا تھا اور بھارت کو خدشہ تھا کہ یہ گروپ کشمیر میں ان کے لیے مسائل پیدا کرسکتا ہے۔ جب ابتدائی طور پر امریکا نے افغانستان میں شمالی اتحاد کی حکومت تشکیل دی تو بھارت نے بالخصوص(اور کم ازکم ابتدائی طور پر) شمالی اتحاد کے ساتھ اپنے پرانے تعلقات بحال کیے۔ بھارت نے جنگی محاذ پر امریکا اور آئی ایس اے ایف کو مصروف رہنے دیا اور خود افغان انٹیلی جینس انفرااسٹرکچر سے روابط پیدا کیے، 'ادارتی تعاون'' کی آڑ میں افغان بیوروکریسی میں سرمایہ کاری کی جس کا موازنہ امریکیوں کے کیے گئے اخراجات سے کیا جاسکتا ہے۔
اداروں کی تعمیر کے پردے میں بھارتی 'را' نے افغان انٹیلی جینس ادارے خاد کو اپنے قابو میں کر لیا۔ یہ پاکستان مخالف پالیسی کو فروغ دینے کا بہترین موقع تھا۔ اس کے نتیجے میں 1)پاکستان کے خلاف جعلی انٹیلی جینس رپورٹ پھیلائی گئیں2) ٹی ٹی پی کے کارندوں کو پناہ دی گئی 3) جب پاکستان نے ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا تو ٹی ٹی پی کو ہتھیار، سرمایہ اور بارود فراہم کیا گیا وغیرہ وغیرہ۔ مزید یہ کہ کراچی اور پشاور میں ہونے والے حملوں میں بھارت پوری طرح ٹی ٹی پی کے ساتھ ملوث رہا۔ یہ نوے کی دہائی میں کراچی میں خاد اور را کی مشترکہ سازش سے ہونے والے دھماکوں کا تسلسل ہی تھا۔ اس افراتفری میں جو فوائد افغان طالبان کو حاصل ہوسکتے تھے وہ افغان طالبان یا ٹی ٹی پی تک منتقل ہونے لگے۔
پشاور میں اسکول اور کراچی میں مہران بیس حملے اس کی بڑی مثالیں ہیں اور ان دونوں کارروائیوں کے ڈانڈے افغانستان سے ملتے ہیں۔ بھارتی وزیر دفاع منوہر پاریکر نے ہائبرڈ وار کے ان ہتھکنڈوں کو سادہ لفظوں میں یہ کہہ کر بیان کردیا تھا کہ یہ ''کانٹے سے کانٹا نکالنا'' ہے۔ جس کا مفہوم تھا دہشتگردوں کے خاتمے کے لیے دہشتگردوں کا استعمال۔ اس سلسلے میں غیر معمولی واقعہ اس وقت پیش آیا جب ٹی ٹی پی کے سربراہ حکیم اللہ کے نائب لطیف اللہ آفریدی کو افغان انٹیلی جینس کے ساتھ صدر کرزئی سے ملاقات کے لیے جاتے ہوئے امریکی اسپیشل فورس نے گرفتار کیا۔ ٹی ٹی پی کا یہ اہم لیڈر پاکستان کے ساتھ کیوں لڑ رہا تھا، اس کا کرزئی سے بات کرنا ضروری کیوں تھا؟ پھر لیفٹننٹ کمانڈر کلبھوشن یادیو کو پاکستان میں دہشتگردی کروانے کے لیے افغانستان میں آزادانہ نقل و حرکت کی اجازت کس نے دے رکھی تھی؟
افغانستان میں جنگ کے دوران ہزاروں افغان، سیکڑوں امریکی اور مغربی ممالک کے فوجی جان سے گئے، اس کے علاوہ غیر معمولی معاشی بوجھ بھی اٹھانا پڑا۔ بھارت نے اس صورت حال میں جنگ سے علیحدہ رہتے ہوئے اپنے مقاصد کے لیے ان حالات کا بھرپور فائدہ اٹھایا جب کہ سب سے زیادہ افغانوں اور امریکیوں کا خون بہا۔ مزید برآں بھارت طالبان کے ساتھ کشمیری مزاحمت کو بھی دہشتگردی کے ایک ہی دائرے میں دکھانے میں کامیاب ہوا، اس سے بھارتی فوج کے کشمیر میں جاری مظالم کو چھپانے کی کوشش کی گئی اور دہشتگردی کا الزام بھی پاکستان کے سر منڈھ دیا۔ یہ ہائبرڈ وار فیئر کی بڑی واضح مثال ہے، اس کے دوران دہائیوں تک کائنٹک اور نان کائنٹک ذرایع سے بالواسطہ اور بلاواسطہ مداخلت کے ذریعے اثر و رسوخ کا دائرہ بھی وسیع کیا گیا اور کوئی نقصان بھی نہیں اٹھانا پڑا۔
بھارت کے اچھے دن ختم ہونے والے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے انتخاب کے بعد امریکا کی پالیسی میں آنے والی تبدیلی اور افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے حالیہ فیصلے کے بعد پورا منظر نامہ تبدیل ہونے جارہا ہے۔ افغان طالبان کے ساتھ امریکا کے براہ راست امن مذاکرات نے یکسر نئی صورت حال پیدا کردی اور بھارت کی افغان پالیسی دھری کی دھری رہ گئی۔ بھارت دنیا کا واحد ملک ہے جسے افغانستان کے امن سے کوئی دل چسپی نہیں، اس کے برعکس وہ وہاں کشیدگی کا تسلسل چاہتا ہے کیوں کہ ان مذاکرات کے نتیجے میں قائم ہونے والے امن کے بعد پاکستان پر دباؤ بڑھانے کا موقع نہیں ملے گا اور افغانستان میں طالبان بڑی سیاسی قوت تسلیم کرلیے جائیں گے۔
افغانستان میں اپنے کردار پر اصرار کرنے کی روس کی تبدیل شدہ پالیسی بھارت کی نظر میں ایک اور بڑا خطرہ ہے کیوں کہ روس اب خطے میں امریکی رسوخ محدود کرنے کی ٹھان چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان اور روس کی قربت بڑھی اور روس نے افواج کے انخلا کے لیے امریکا اور طالبان کے مابین ہونے والے مذاکرات کی بھرپور حمایت کی۔ اس تبدیلی نے افغانستان میں بھارتی عزائم کو بری طرح ناکام بنا دیا۔ اور اگر کہانی کو انجام تک پہنچانا ہوتو یہ تذکرہ کرنا پڑے گا کہ ایران بھی اپنی پالیسی میں تبدیلی لے کر آیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ افغانستان کی سرزمین پر حالات ڈرامائی انداز میں تبدیل ہوں گے۔
بھارت کو امن مذاکرات سے دور رکھا گیا ہے کیوں کہ اس کے خود غرضانہ عزائم اب دوسروں پر بھی واضح ہوچکے ہیں۔ اس میں ایک اور اہم نقطہ قابل غور ہے کہ امریکی انخلا کے بعد قائم ہونے والی حکومت کو یہ ضمانت دینا ہوگی کہ افغانستان کی سرزمین کسی بھی ملک کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اس کا براہ راست اثر بھارت کی افغان پالیسی پر ہوگا۔
ان تبدیلیوں کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ خطے میں ہائبرڈ جنگ کا خاتمہ ہونے جارہا ہے۔ اس لیے پاکستان کو مستقبل میں بھارتی اقدامات کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ سلامتی کے لیے روایتی اقدامات کے ساتھ ساتھ عالمی تبدیلیوں اور خطے میں طاقت کے توازن میں ہونے والے تغیرات کو مد نظر رکھتے ہوئے جدید تصورات اور خطوط پر مبنی خارجہ پالیسی تشکیل دی جائے۔ اس کے ساتھ یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ عالم گیریت کی ڈور میں بندھی اور جوہری ہتھیاروں سے لیس دنیا میں ، چاہے علاقائی ہو یا عالمی، کسی بھی تنازعے کا حل آخرکار سیاست ہی سے نکلتا ہے۔
(فاضل کالم نگار سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں)