کراچی پسماندہ ہی رہ جائے گا
کراچی وہ بد قسمت شہر ہے جس کوگزشتہ 40 برس سے کئی حکومتیں نظر انداز کرتی رہی ہیں۔
عمران خان وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالنے کے بعد ایک دفعہ پھر مختصردورے پر کراچی آئے، انھوں نے تیسری دفعہ بن قاسم پارک کا افتتاح کیا اورکراچی کے لیے 162 ارب روپے کے ترقیاتی پیکیج کا اعلان کیا۔ ان کے اس پیکیج میں کراچی کے لیے جدید ٹرانسپورٹ اورفوری طور پر پانی کی فراہمی جیسے بہت سارے فیصلے شامل تھے، وفاقی حکومت کے عہدے داروں نے اس پیکیج کے اعلان سے قبل سندھ کی حکومت کو اعتماد میں نہیں لیا۔
وزیر اعظم نے مراد علی شاہ کو اس پیکیج کے اعلان کی تقریب میں شامل نہیں کیا ۔ جب ذرایع ابلا غ میں یہ بات چلی کہ بن قاسم پارک کا پہلے بھی دو دفعہ افتتاح ہوچکا ہے تو گورنر سندھ عمران اسماعیل نے اس بات کی وضاحت کی کہ وزیراعظم عمران خان نے اس پارک کا افتتاح نہیں کیا بلکہ صرف پودا لگایا۔
انھوں نے کہا کہ وزیر اعلیٰ کو پروٹوکول کے تقاضوںکے تحت وزیراعظم کی شہر میں مصروفیات کے بارے میں اطلاع فراہم کی جاتی ہے انھیں خود اس تقریب میں آنا چاہیے تھا ۔میاں نواز شریف کی حکومت نے کراچی کے ترقیاتی منصوبے کے لیے 200 ارب روپے کے پیکیج کا اعلان کیا تھا، میاں نواز شریف جب کراچی تشریف لائے تھے تو انھوں نے سرجانی ٹاؤن سے گرومندرکے راستے تک تعمیر ہونے والی گرین لائن بس کا سنگ بنیاد رکھا تھا ۔ یہ منصوبہ چار سال گزرنے کے باوجود مکمل ہوتا نظر نہیں آتا۔
کراچی وہ بد قسمت شہر ہے جس کوگزشتہ 40 برس سے کئی حکومتیں نظر انداز کرتی رہی ہیں۔ پورے ملک اور غیر ممالک سے لاکھوں لوگ کراچی آکر آباد ہوتے رہے ہیں۔ سابق صدر مشرف کے دور میں نچلی سطح تک اختیارات کا بلدیاتی نظام قائم ہوا ۔ جماعت اسلامی کے نعمت اللہ ناظمِ اعلیٰ کراچی منتخب ہوئے ۔یہ وہ وقت تھا جب صدر پرویز مشرف کراچی کی ترقی میں خصوصی دلچسپی لے رہے تھے ۔نعمت اللہ کے دور میں کئی اورہیڈ پل تعمیر ہوئے ،تعلیم و صحت کے نئے منصوبے شروع ہوئے۔ نعمت اللہ نے کراچی میں پبلک ٹرانسپورٹ کا مسئلہ حل کرنے کے لیے پرائیوٹ سیکٹر پر انحصارکیا، اس وقت کے وزیر خزانہ شوکت عزیز کی اقتصادی پالیسی کے تحت بینکوں نے بڑی بسوں کی خریداری کے لیے قرضے دیے۔ شہر میں بڑی ایئرکنڈیشن بسوں کی بہار آگئی۔
ان میں مختلف آٹومیٹک دروازے والی بسیں بھی تھیں اور بغیر ایئرکنڈیشن والی بسیں بھی اس میں شامل تھیں، ملیر کینٹ، ملیر اور شاہ فیصل کالونی سے میٹرو بس چلنے لگی ان بسوں میں مسافر صرف نشستوں پر بیٹھ کر سفر کر سکتے تھے مگر نعمت اللہ کی ناظمِ اعلیٰ کی میعاد جیسے ہی ختم ہوئی یہ بسیں سڑکوں سے غائب ہوگئیں۔ اخبارات میں شایع ہونے والی خبروں سے پتا چلا کہ ان میں سے کچھ بسیں مختلف وجوہات کی بنا پر پنجاب منتقل ہوگئیں اورکچھ بسوں کے مالکان نے بینکوں کی قسطیں ادا کرنا گوارہ نہ کیا ، یوں بینکوں کی recovery ٹیموں نے چھاپے مارے اور سڑکوں پر بسیں نظر نہیں آئیں۔
متحدہ قومی موومنٹ نے بلدیاتی اداروں کے انتخابات میں کامیابی حاصل کی امریکا میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے مصطفیٰ کمال میئر کراچی منتخب ہوئے، سابق صدرپرویز مشرف مصطفیٰ کمال کے سرپرست تھے۔ مصطفی کمال شہرکی ترقی کے لیے نئے ویژن کے دعویٰ کے ساتھ منتخب ہوئے ۔انھوں نے کراچی میں نئی سڑکوں کا جال بچھایا اور اورہیڈ بریج تعمیر ہوئے، مصطفیٰ کمال سنگل فری سڑک کا نعرہ لے کر آئے، انھوں نے کراچی شہر کا نقشہ بدل دیا، سہراب گوٹھ سے کلفٹن تک کا سفر آسان ہوا ۔گلستانِ جوہر ، نارتھ ناظم آباد ، لیاقت آباد میں تعمیر ہونے والی سڑکوں سے اسلام آباد کا نقشہ ابھرنے لگا مگر اس سب کے پیچھے پسِ پردہ کچھ حقائق تھے۔
یہ ساری ترقی شہر کے متوسط اور امراء کے علاقوں میں ہوئی ۔لیاری میں کوئی اورہیڈ بریج تعمیر نہیں ہوا ملیرکے قدیم گوٹھوں کو منسلک کرنے والی سڑکیں ٹوٹی پھوٹی رہیں ۔ غریب خاص طور پر عورتوں، بوڑھوں اور بچوں کے لیے سڑکوں کو پارکرنا، جنت میں جانے کا راستہ بن گیا ۔اب سڑک کو پار کرنے کے لیے لوہے کے اوور ہیڈ برج تعمیر ہوئے۔ ان پر چڑھنا آسان کام نہ تھا اس دوران ون وے اور سگنل توڑنے کی روایت مضبوط ہوئی ۔ بسوں ،کار والوں اور بائیک والوں نے طویل سفر یو ٹرن استعمال کرنے کے بجائے ون وے توڑنے کا آسان طریقہ سیکھ لیا ، یوں حادثات کی شرح بڑھ گئی ۔مصطفیٰ کمال کو اپنے آخری دور میں گرین بسیں چلانے کا خیال آیا۔بلدیہ کراچی نے بسیں چلائیں مگر یہ بسیں صرف لانڈھی سے سہراب گوٹھ تک ہی چل پائیں۔ آہستہ آہستہ یہ بسیں بلدیہ کے گیراجوں کی زینت بن گئیں ۔
سابق وزیر خزانہ شوکت عزیز کی پالیسی پر بینکوں نے لیز کی آسان پالیسی نافذ کرائی جس کی بناء پر لاکھوں کاریں سڑکوں پر دوڑنے لگیں اس صورتحال ہونے کی بنا پرٹریفک جام ہونے کا معاملہ گھمبیر ہوگیا۔ مصطفی کمال کے اقتدار کے جدید دور میں ٹرانسپورٹ کی جدید سہولتوں کی فراہمی کے لیے مکمل منصوبہ شروع نہیں ہوا ۔مصطفی کمال اور سابق گورنرعشرت العبادنے دعوے کیے مگر سرکلر ریلوے سٹی اسٹیشن سے چنیسر ہالٹ تک چل پائی،اور چند ماہ بعد بند ہوگئی ۔انڈرگراؤنڈ ریل، بڑی بسوں اور ٹرام کے منصوبے شاید صرف فائلوں تک محدود رہے۔ شہر میں امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال کا براہ راست نقصان بسوں اور منی بسوں کو ہوا ، ان بسوں کے مالکان نے سرمایہ کاری چھوڑ دی، منی بسیں سڑکوں سے غائب ہوگئیں۔
2008میں پی پی پی نے وفاق اور سندھ میں حکومت قائم کی، پہلے تین سال پی پی پی اور ایم کیو ایم اتحادی بنے ۔ پی پی پی حکومت بلدیاتی انتخابات کے حق میں نہیں تھی یہی وجہ تھی کہ اس کے دور میں بلدیاتی نظام مفلوج ہوا۔ پی پی پی حکومت کے دور میں کراچی شہر کوڑے کے ڈھیر میں تبدیل ہوا ، سڑکوں سے بسیں لاپتہ ہوئیں ، ایم کیو ایم والوں نے چینی ساختہ چنگ چی رکشے سڑکوں پر لانے کی اجازت دے دی ۔ چینیوں نے یہ سواری مال برداری کے لیے تیارکی تھی مگرکراچی والوں کے لیے بسوں کا متبادل بن گئی۔ یوں چوری کی موٹر سائیکلوں کی آسانی سے کھپت ہونے لگی۔ سابق صدر آصف علی زرداری نے اپنی جلاوطنی کے دن برطانیہ، امریکا اور دبئی میں گزارے۔ وہ صدر بننے کے بعد متعدد بار چین کے دورے پر گئے مگر صدر زرداری کوکراچی میں ٹرانسپورٹ کے جدید نظام کے قیام کے لیے چین کی مدد کا بھی خیال نہ آیا ۔
تحریکِ انصاف کے اراکینِ اسمبلی کے بیانات سے محسوس ہوتا ہے کہ وفاقی حکومت براہ راست ان منصوبوں پر عمل درآمد کروائے گی ۔یہ قانونی طور پر ممکن نہیں اور کراچی کے شہریوں کو یہ شک ہو رہا ہے کہ اس منصوبے پر عمل نہیں ہوسکے گا کیونکہ ان منصوبوں کے لیے خاص طور پر ٹرانسپورٹ کے منصوبے ہوں یا پانی کی فراہمی کے یہ انھیں صوبائی حکومت ہی فراہم کر سکتی ہے ۔ ان منصوبوں کی تعمیرات کے لیے تجاوزات کا خاتمہ بھی صوبائی حکومت کی مدد کے بغیر ممکن نہیں۔
دوسری طرف عمران خان یہ اعلان کررہے ہیں کہ 18ویں ترمیم کے بعد وفاق کا خزانہ خالی ہے، وفاقی حکومت معیشت کو متحرک کروانے میں ناکام رہی ہے۔ وزیر خزانہ آئی ایم ایف سے مزید قرضوں کے لیے حتمی مذاکرات کے لیے واشنگٹن جانے والے ہیں اس سے پہلے کراچی سرکلر ریلوے کو سی پیک میں شامل کرنے کے اعلانات ہوئے تھے، اب وزیراعظم عمران خان کہتے ہیں کہ اس منصوبے کے لیے جاپان سے مدد لی جائے گی۔جاپان کی حکومت ایک عرصے تک اس منصوبے میں دلچسپی لیتی رہی مگر بیوروکریسی اور حکومتوں کے عدم تعاون کی وجہ سے کچھ کام نہ ہوا اور آخرایک دن جاپان والوں کو منع کردیا۔
اب اگروزیراعظم عمران خان اپنے اس پیکیج پر عملدرآمد کرنا چاہتے ہیں تو انھیں سب سے پہلے صوبائی حکومت کو اس منصوبے میں شریک کرناچاہیے اوراس طرح کے حقیقی اقدامات کرنے چاہیے کہ اس پیکیج پرواقعی عملدرآمد ہو، دوسری صورت ایسا نہ ہو کہ یہ پیکیج اخبارات کی فائلوں میں کھو جائے اور کراچی ایسے ہی پسماندہ رہ جائے۔