مقدمات کی تفتیش میں شفافیت
جب تک ٹھوس ثبوت نہ ہوں ،کارروائی نہیں کرنی چاہیے ورنہ عوامی ردعمل وہی ہوگا جو آگا سراج درانی کے گھر پر چھاپے سے ہوا۔
قومی احتساب بیوروکا ادارہ 16نومبر1999ء میں وجود میں لایا گیا، یہ ایک آزاد ادارہ ہے جو ایسے چیئرمین کے ماتحت کام کرتا ہے جو حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے پارلیمانی قائدین کے صلاہ ومشورے سے منتخب ہوتا ہے۔ ہمارے موجودہ چیئرمین سابق سینئر جج سپریم کورٹ جاوید اقبال ہیں جنکی شہرت بھی شاندار ہے وہ اس ادارے کے9 اکتوبر2017ء کو چیئرمین منتخب ہوئے اور ا س ادارے کے اٹارنی جنرل انور منصور ہیں ۔ اس وقت اس ادارے کے پاس 500 مقدمات کی شکایات موصول ہوئی ہیں جس میں 256 مقدمات کی تفتیش جاری ہے۔
133مقدمات کی تفتیش مکمل ہونے کو ہے،326 مقدمات زیر سماعت ہیں سب سے زیادہ میگاکرپشن کے مقدمات کا تعلق سندھ اور پنجاب سے ہے۔ہمیں حیرت ہے کہ پاکستان میں نیب کے علاوہ اینٹی کرپشن کا ادارہ بھی ہے اور ہماری خفیہ ایجنسیوں نے بھی ان لوگوں پر نظرکیوں نہیں رکھی۔آج بھی اگر پاکستان میں ایک مستقل جے آئی ٹی تشکیل کر دی جائے جو براہ راست وزیر اعظم کی نگرانی میں ہو۔
اس میں مختلف انٹلیجنس ایجنسیاں مثلاً آئی ایس آئی ،آئی بی، سی ٹی ڈی اور ایف آئی اے کے علاوہ ایف بی آر،اسٹیٹ بینک کے اداروں کے ایسے ماہرین شامل ہوں جو مالی معاملات کی چھان بین میں بہترین معاونت کرسکیں اور بدعنوانوں اور منی لانڈرنگ کرنیوالوں کے خلاف ڈاکیومنٹری ثبوت مہیا کرسکیں پھر یہ رپورٹ وزیر اعظم کو دی جائے اور وزیراعظم فیصلہ کریں کہ معاملات نیب کو دینے ہیں یا اینٹی کرپشن کو یا ریفرنس بناکر براہ راست عدالت میں بھیجنے ہیں لیکن شواہد اور ڈاکیومنٹ بہت مضبوط ہوں تاکہ ان کے خلاف بننے والا مقدمہ حقیقی معنوں میں اپنے منطقی انجام کو پہنچے۔
آج کل نیب کے ادارے پر بہت بوجھ ہے اس لیے اس ادارے میں مقدمات کو کم کرنے کے لیے سب سے پہلے میگا کرپشن کے معاملات پر توجہ دی جائے اور معمولی نوعیت کے مقدمات اینٹی کرپشن اور ایف آئی اے کے حوالے کردیں، نیب کو یہ اجازت ہوکہ وہ آئی ایس پی آرکی طرح اپنا بھی ایک کوالیفائد نمایندہ رکھیں جو کم سے کم بیرسٹر سطح کا ہو جو نیب پر اٹھنے والے سوالات کی بریفنگ دے۔ نیب کے تمام اسٹاف کو ان تنخواہ اور مراعات کے علاوہ نیب کے ذریعے واپس رقم میں انھیں کمیشن دیا جائے۔
نیب وکیل یا پراسیکوٹرز ان کی جان کی حفاظت اور انھیں اتنی مراعات ہوں کہ وہ پوری توجہ اپنی تحقیق اور تفتیش پر دیں۔ نیب وہ محکمہ ہے جو کبھی خسارے میں نہیں جاسکتا کیونکہ نیب میں پلی بارگیننگ کا بہترین طریقہ کار اس طرحDEAD MONEYکا 70فیصد تک واپس آجاتا ہے اگر اس میں سے10فیصد نیب کے ادارے پر خرچ ہو تو کوئی نقصان نہیں ہے نیب کو یہ اختیار ہو کہ وہ جب چاہے ڈاکیومنٹس عوام کو دکھائیں کیونکہ جن سیاسی لوگوں پر مقدمہ بنتا ہے یاتفتیش کے مرحلے میں وہ لائے جاتے ہیں یا گرفتار ہوتے ہیں تو وہ اپنی سیاسی قوت کا مظاہرہ کرتے ہیں جو نیب کے خلاف یکطرفہ ہوتا ہے اس لیے نیب بھی ان کے جواب میں ناقابل تردید ثبوت میڈیا کے ذریعے دکھائے لیکن نیب کوشش کرے کہ اس وقت تک کسی کو گرفتار نہ کرے جب تک اس کے خلاف اطمینان بخش ثبوت و شواہد جمع نہ ہو جائیں بلکہ گرفتاری ریفرنس کے بعد ڈالی جائے۔
اس وقت سندھ میں صوبائی حکومت جو پہلے ہی مایوس کن کارکردگی دکھا رہی ہے جب سے وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کا نام آیا، آصف زداری کا نام آیا فریال تالپورکا نام آیا، سراج درانی اور ڈاکٹر عاصم، شرجیل میمن ، منظور وسان کا نام آیا وزیراعلیٰ بحیثیت وزیراعلیٰ کے فرائض میں بے پرواہ ہو گئے اور سندھ میں دوبارہ قتل عام شروع ہوگیا، محکمہ صحت اور تعلیم سب بد سے بدتر ہوتا جا رہا ہے کیونکہ حکومت سندھ عوامی مسائل پر توجہ دینے کے بجائے اپنی پی پی پی کے ان لوگوں کے مسائل پر توجہ دے رہی ہے جنکے نام نیب کی تفتیشی ٹیم کے پاس ہیں، یہ عجب نہیں کہ اسی بنیاد پر گورنر راج لگا دیا جائے کیونکہ جس طرح سراج درانی کے معاملے پر سندھ حکومت نے ردعمل دکھایا ہے اور سراج درانی نے براہ راست نیب کو دھمکیاں دی ہیں یہ سب حالات کو اس طرف لے جارہے ہیں جہاں گورنر راج کا راستہ صاف ہو رہا ہے۔
ہمیں افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ذوالفقارعلی بھٹو سے لے کر بینظیر بھٹو تک اس پارٹی پرکبھی کرپشن کا الزام نہیں آیا کیونکہ دونوں چیئرمین اور چیئرپرسن خود کرپشن کے خلاف ایک مضبوط دیوار تھے ان کی توجہ پاکستان، اس کی قوم کی فلاح اور بہبود پر تھی جب کہ موجودہ قیادت اور ان کے کچھ حواریوں کی توجہ زیادہ سے زیادہ مال و زر اوراختیارات حاصل کرنے کی ہے، اگر ان سب کے ہاتھ صاف ہیں تو عدالت پر بھروسہ کریں کیونکہ اتنے بااثر لوگوں کو انصاف مل ہی جاتا ہے پھر ان لوگوں کا بھی سوچیں جو غیر معروف ہیں مگر نیب ، ایف آئی اے ، سی آئی اے ، آئی بی جیسے اداروں کے شکنجے میں آئے تو ان کو بھی تو انھی اصول اور روایت اور طریقہ تفتیش سے گزرنا پڑا ، ان کے چاہنے والوں کوکتنی اذیت ہوئی کسی نے کبھی ان کے لیے آواز نہیں اٹھائی، جب پی پی پی اور مسلم لیگ نواز گزشتہ عشرے سے حکمراں رہے ، یہ نیب تھی اور ایف آئی اے بھی، سی آئی اے بھی تھی اور آئی بی کا ادارہ بھی تھا اور یہ لوگوں کو پکڑتے بھی تھے تو اس وقت ان حکمرانوں نے کیوں نہ سوچا کہ نیب کے ایف آئی اے کے طریقہ کار میں ایسی تبدیلی لائی جائے جو خاص اور عام سب کے لیے یکساں ہو۔ آپکے سامنے میاں نواز شریف جو سزایافتہ ہیں۔
ان کے جیل میں رہنے پرکتنے سوالات اٹھ رہے ہیں کیا وہ واحد قیدی ہیں جو بیمار ہیں، موجودہ حکومت اگر کسی کو رعایت دے تو سب کو برابر دے یا پھر اعلانیہ دو قانون بنا دیں ایک خواص کے لیے ایک عوام کے لیے تاکہ عوام کو اطمینان ہو وہ صبرکرلیں کہ ہم خواص میں نہیں اس لیے ہم پر تکلیف و ستم زیادہ ہوگا یہ خواص ہیں ان پر کم۔ نیب اس بات پر زیادہ توجہ دے کہ بدعنوان لوگوں، منی لانڈرنگ کے ذریعے، رشوت کے ذریعے، کک بیک کے ذریعے ناجائز حاصل کی ہوئی دولت کو قومی خزانے میں واپس لائے چاہے، اس کے لیے ان ملزموں کو قید سے رہا بھی کر دیا جائے مگر ان پر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے سیاست کرنے اور ان کے اہل خانہ کو بھی سیاست کرنے سے دور کردیا جائے ۔
ان کو سزا یافتہ تصورکیا جائے ، عوام اور ملک کو اس وقت لوٹی ہوئی دولت کی واپسی کی فکر ہے ان کی قید وبند کی صعوبتوں سے کسی کو دلچسپی نہیں ہے اور نیب جیسے ادارے کو اپنی کریڈیبلٹی کو قائم کرنا ہوگا،بوگس معلومات پرکوئی کارروائی نہ کریں خاص طور پر اہم شخصیات کے خلاف کیونکہ جب تفتیش کا مرحلہ ناکام ہوتا ہے تو اس کا فائدہ ملزم کو پہلے سے زیادہ ہوتا ہے اور ادارہ نیب پر عوام کا اعتماد ختم ہوجاتا ہے جیسا کہ حال میں سندھ اسپیکر سراج درانی کے ساتھ ہوا انھیں اسلام آباد میں بے وقت گرفتار کیا ۔ ان کے خلاف ثبوت بھی نہیں ہے جس کو بنیاد بناکرگرفتارکیا پھر ان ثبوتوں کے لیے ان کے گھر پر جو چھاپہ مارا وہ بھی بھونڈا تھا۔ سندھ کی روایت میں خواتین جو چادر اور چار دیواری میں رہتی ہیں ان کی عزت کا خیال رکھنا چاہیے تھا۔
اس طرح کے بغیر تیاری کے گرفتاری کا سب سے بڑا نقصان نیب کے ادارے کو ہوگا اور بڑی مچھلیوں کے خلاف کارروائی میں کوئی عوامی پذیرائی نہیں ہوگی کیونکہ وہائٹ کالرکرائمز میں جب تک ٹھوس ثبوت نہ ہوں ،کارروائی نہیں کرنی چاہیے ورنہ عوامی ردعمل وہی ہوگا جو آگا سراج درانی کے گھر پر چھاپے سے ہوا جو ایک آئینی ادارہ کے سربراہ اور معزز شخصیت ہے، اس لیے بڑی احتیاط سے قدم اٹھائیں۔ اسلامی شریعت کونسل نے گزشتہ روز جو سفارشات کی ہیں وہ چشم کشا ہیں، نیب کو ان پر ضرور سوچنا چاہیے۔
133مقدمات کی تفتیش مکمل ہونے کو ہے،326 مقدمات زیر سماعت ہیں سب سے زیادہ میگاکرپشن کے مقدمات کا تعلق سندھ اور پنجاب سے ہے۔ہمیں حیرت ہے کہ پاکستان میں نیب کے علاوہ اینٹی کرپشن کا ادارہ بھی ہے اور ہماری خفیہ ایجنسیوں نے بھی ان لوگوں پر نظرکیوں نہیں رکھی۔آج بھی اگر پاکستان میں ایک مستقل جے آئی ٹی تشکیل کر دی جائے جو براہ راست وزیر اعظم کی نگرانی میں ہو۔
اس میں مختلف انٹلیجنس ایجنسیاں مثلاً آئی ایس آئی ،آئی بی، سی ٹی ڈی اور ایف آئی اے کے علاوہ ایف بی آر،اسٹیٹ بینک کے اداروں کے ایسے ماہرین شامل ہوں جو مالی معاملات کی چھان بین میں بہترین معاونت کرسکیں اور بدعنوانوں اور منی لانڈرنگ کرنیوالوں کے خلاف ڈاکیومنٹری ثبوت مہیا کرسکیں پھر یہ رپورٹ وزیر اعظم کو دی جائے اور وزیراعظم فیصلہ کریں کہ معاملات نیب کو دینے ہیں یا اینٹی کرپشن کو یا ریفرنس بناکر براہ راست عدالت میں بھیجنے ہیں لیکن شواہد اور ڈاکیومنٹ بہت مضبوط ہوں تاکہ ان کے خلاف بننے والا مقدمہ حقیقی معنوں میں اپنے منطقی انجام کو پہنچے۔
آج کل نیب کے ادارے پر بہت بوجھ ہے اس لیے اس ادارے میں مقدمات کو کم کرنے کے لیے سب سے پہلے میگا کرپشن کے معاملات پر توجہ دی جائے اور معمولی نوعیت کے مقدمات اینٹی کرپشن اور ایف آئی اے کے حوالے کردیں، نیب کو یہ اجازت ہوکہ وہ آئی ایس پی آرکی طرح اپنا بھی ایک کوالیفائد نمایندہ رکھیں جو کم سے کم بیرسٹر سطح کا ہو جو نیب پر اٹھنے والے سوالات کی بریفنگ دے۔ نیب کے تمام اسٹاف کو ان تنخواہ اور مراعات کے علاوہ نیب کے ذریعے واپس رقم میں انھیں کمیشن دیا جائے۔
نیب وکیل یا پراسیکوٹرز ان کی جان کی حفاظت اور انھیں اتنی مراعات ہوں کہ وہ پوری توجہ اپنی تحقیق اور تفتیش پر دیں۔ نیب وہ محکمہ ہے جو کبھی خسارے میں نہیں جاسکتا کیونکہ نیب میں پلی بارگیننگ کا بہترین طریقہ کار اس طرحDEAD MONEYکا 70فیصد تک واپس آجاتا ہے اگر اس میں سے10فیصد نیب کے ادارے پر خرچ ہو تو کوئی نقصان نہیں ہے نیب کو یہ اختیار ہو کہ وہ جب چاہے ڈاکیومنٹس عوام کو دکھائیں کیونکہ جن سیاسی لوگوں پر مقدمہ بنتا ہے یاتفتیش کے مرحلے میں وہ لائے جاتے ہیں یا گرفتار ہوتے ہیں تو وہ اپنی سیاسی قوت کا مظاہرہ کرتے ہیں جو نیب کے خلاف یکطرفہ ہوتا ہے اس لیے نیب بھی ان کے جواب میں ناقابل تردید ثبوت میڈیا کے ذریعے دکھائے لیکن نیب کوشش کرے کہ اس وقت تک کسی کو گرفتار نہ کرے جب تک اس کے خلاف اطمینان بخش ثبوت و شواہد جمع نہ ہو جائیں بلکہ گرفتاری ریفرنس کے بعد ڈالی جائے۔
اس وقت سندھ میں صوبائی حکومت جو پہلے ہی مایوس کن کارکردگی دکھا رہی ہے جب سے وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کا نام آیا، آصف زداری کا نام آیا فریال تالپورکا نام آیا، سراج درانی اور ڈاکٹر عاصم، شرجیل میمن ، منظور وسان کا نام آیا وزیراعلیٰ بحیثیت وزیراعلیٰ کے فرائض میں بے پرواہ ہو گئے اور سندھ میں دوبارہ قتل عام شروع ہوگیا، محکمہ صحت اور تعلیم سب بد سے بدتر ہوتا جا رہا ہے کیونکہ حکومت سندھ عوامی مسائل پر توجہ دینے کے بجائے اپنی پی پی پی کے ان لوگوں کے مسائل پر توجہ دے رہی ہے جنکے نام نیب کی تفتیشی ٹیم کے پاس ہیں، یہ عجب نہیں کہ اسی بنیاد پر گورنر راج لگا دیا جائے کیونکہ جس طرح سراج درانی کے معاملے پر سندھ حکومت نے ردعمل دکھایا ہے اور سراج درانی نے براہ راست نیب کو دھمکیاں دی ہیں یہ سب حالات کو اس طرف لے جارہے ہیں جہاں گورنر راج کا راستہ صاف ہو رہا ہے۔
ہمیں افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ذوالفقارعلی بھٹو سے لے کر بینظیر بھٹو تک اس پارٹی پرکبھی کرپشن کا الزام نہیں آیا کیونکہ دونوں چیئرمین اور چیئرپرسن خود کرپشن کے خلاف ایک مضبوط دیوار تھے ان کی توجہ پاکستان، اس کی قوم کی فلاح اور بہبود پر تھی جب کہ موجودہ قیادت اور ان کے کچھ حواریوں کی توجہ زیادہ سے زیادہ مال و زر اوراختیارات حاصل کرنے کی ہے، اگر ان سب کے ہاتھ صاف ہیں تو عدالت پر بھروسہ کریں کیونکہ اتنے بااثر لوگوں کو انصاف مل ہی جاتا ہے پھر ان لوگوں کا بھی سوچیں جو غیر معروف ہیں مگر نیب ، ایف آئی اے ، سی آئی اے ، آئی بی جیسے اداروں کے شکنجے میں آئے تو ان کو بھی تو انھی اصول اور روایت اور طریقہ تفتیش سے گزرنا پڑا ، ان کے چاہنے والوں کوکتنی اذیت ہوئی کسی نے کبھی ان کے لیے آواز نہیں اٹھائی، جب پی پی پی اور مسلم لیگ نواز گزشتہ عشرے سے حکمراں رہے ، یہ نیب تھی اور ایف آئی اے بھی، سی آئی اے بھی تھی اور آئی بی کا ادارہ بھی تھا اور یہ لوگوں کو پکڑتے بھی تھے تو اس وقت ان حکمرانوں نے کیوں نہ سوچا کہ نیب کے ایف آئی اے کے طریقہ کار میں ایسی تبدیلی لائی جائے جو خاص اور عام سب کے لیے یکساں ہو۔ آپکے سامنے میاں نواز شریف جو سزایافتہ ہیں۔
ان کے جیل میں رہنے پرکتنے سوالات اٹھ رہے ہیں کیا وہ واحد قیدی ہیں جو بیمار ہیں، موجودہ حکومت اگر کسی کو رعایت دے تو سب کو برابر دے یا پھر اعلانیہ دو قانون بنا دیں ایک خواص کے لیے ایک عوام کے لیے تاکہ عوام کو اطمینان ہو وہ صبرکرلیں کہ ہم خواص میں نہیں اس لیے ہم پر تکلیف و ستم زیادہ ہوگا یہ خواص ہیں ان پر کم۔ نیب اس بات پر زیادہ توجہ دے کہ بدعنوان لوگوں، منی لانڈرنگ کے ذریعے، رشوت کے ذریعے، کک بیک کے ذریعے ناجائز حاصل کی ہوئی دولت کو قومی خزانے میں واپس لائے چاہے، اس کے لیے ان ملزموں کو قید سے رہا بھی کر دیا جائے مگر ان پر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے سیاست کرنے اور ان کے اہل خانہ کو بھی سیاست کرنے سے دور کردیا جائے ۔
ان کو سزا یافتہ تصورکیا جائے ، عوام اور ملک کو اس وقت لوٹی ہوئی دولت کی واپسی کی فکر ہے ان کی قید وبند کی صعوبتوں سے کسی کو دلچسپی نہیں ہے اور نیب جیسے ادارے کو اپنی کریڈیبلٹی کو قائم کرنا ہوگا،بوگس معلومات پرکوئی کارروائی نہ کریں خاص طور پر اہم شخصیات کے خلاف کیونکہ جب تفتیش کا مرحلہ ناکام ہوتا ہے تو اس کا فائدہ ملزم کو پہلے سے زیادہ ہوتا ہے اور ادارہ نیب پر عوام کا اعتماد ختم ہوجاتا ہے جیسا کہ حال میں سندھ اسپیکر سراج درانی کے ساتھ ہوا انھیں اسلام آباد میں بے وقت گرفتار کیا ۔ ان کے خلاف ثبوت بھی نہیں ہے جس کو بنیاد بناکرگرفتارکیا پھر ان ثبوتوں کے لیے ان کے گھر پر جو چھاپہ مارا وہ بھی بھونڈا تھا۔ سندھ کی روایت میں خواتین جو چادر اور چار دیواری میں رہتی ہیں ان کی عزت کا خیال رکھنا چاہیے تھا۔
اس طرح کے بغیر تیاری کے گرفتاری کا سب سے بڑا نقصان نیب کے ادارے کو ہوگا اور بڑی مچھلیوں کے خلاف کارروائی میں کوئی عوامی پذیرائی نہیں ہوگی کیونکہ وہائٹ کالرکرائمز میں جب تک ٹھوس ثبوت نہ ہوں ،کارروائی نہیں کرنی چاہیے ورنہ عوامی ردعمل وہی ہوگا جو آگا سراج درانی کے گھر پر چھاپے سے ہوا جو ایک آئینی ادارہ کے سربراہ اور معزز شخصیت ہے، اس لیے بڑی احتیاط سے قدم اٹھائیں۔ اسلامی شریعت کونسل نے گزشتہ روز جو سفارشات کی ہیں وہ چشم کشا ہیں، نیب کو ان پر ضرور سوچنا چاہیے۔