
نوکنڈی ضلع چاغی بلوچستان کا ایک قصبہ نما شہر ہے، جس کی ٹوٹل آبادی حالیہ مردم شماری کے مطابق پندرہ ہزار ہے۔ نوکنڈی کے لوگ شریف الطبع، مخلص، حق گو، خوش مزاج، حلیم و مہمان نواز اور سادگی پسند ہیں۔ تحصیل نوکنڈی کا شمار چاغی سمیت دیگر پسماندہ ترین علاقوں میں ہوتا ہے مگر نوکنڈی کے مکینوں کو بنیادی سہولیات سے آراستہ تابناک مستقبل جلد نصیب ہوگا اور یہ شہر مرکز نگاہ ہوگا۔
نوکنڈی نے نہ صرف دیگر شعبوں میں کام کرنے والے ذہین و فطین افراد پیدا کیے بلکہ پاکستان کے آٹھواں چیئرمین سینیٹ حاجی محمدصادق خان سنجرانی کا تعلق بھی نوکنڈی سے ہے۔
چونکہ ماضی میں نوکنڈی میں عوام کی فلاح وبہبود کےلیے کام نہیں کیے گئے، بلکہ یوں کہا جائے تو بھی بے جا نہ ہوگا کہ نوکنڈی کو مکمل طور پر نظرانداز کردیا گیا تھا۔ جس کے باعث نوکنڈی میں احساس محرومی کے گہرے بادل منڈلاتے رہے۔ نوکنڈی کی تاریخ میں اب ان دو سال میں عوام کی فلاح وبہبود کے کچھ ایسے کام کیے گئے ہیں جن کی ماضی کے ادوار میں نظیر نہیں ملتی۔ مذکورہ ترقیاتی منصوبے ابھی تک تکمیل کے مراحل میں ہیں۔
موجودہ چیئرمین سینیٹ آف پاکستان نے چیئرمین شپ کا عہدہ سنبھالنے سے چند سال قبل اپنے دادا خان محمدعمر خان سنجرانی انٹرکالج کی منظوری لی۔ تاکہ شہر کے وہ غریب طلباء جو دیگر شہروں میں میٹرک کے بعد تعلیم جاری رکھنے کے لیے اخراجات برداشت کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے، ان کے لیے اپنے شہر میں کالج کا قیام عمل میں لایا جائے مذکورہ کالج ابھی زیر تعمیر ہے۔ دوسرا پروجیکٹ چیئرمین سینیٹ کے چھوٹے بھائی ایم ڈی سیندک پروجیکٹ حاجی رازق خان سنجرانی کا ہے۔ جنہوں نے سیندک پروجیکٹ کے سوشل سیکٹر کے 38 کروڑ سے نوکنڈی کو 70 کلومیٹر دور گھٹ سٹ لانڈی کے مقام سے شہر کو پانی کی فراہمی کے لیے فنڈز منظور کروایا، جس سے عوام کو درپیش دیرینہ مسئلہ حل ہوگا۔
علاوہ ازیں نوکنڈی کو واپڈا پاور ہاؤس کے جنریٹروں کے زریعے بجلی کی فراہمی ہورہی ہے اور جنریٹروں کی خستہ حالی سے ہر وقت شہر میں بجلی کی بحران کا سامنا رہتا تھا۔ اس بات کو مدنظر رکھ کر حاجی رازق خان نے دو سال قبل نوکنڈی واپڈا پاور ہاؤس کے لیے سیندک پروجیکٹ کے سوشل سیکٹر فنڈز سے دو پانچ سو KVکے جنریٹرز منظور کرائے۔ ساتھ ہی انہوں نے نوکنڈی کی خوبصورتی اور رات کے اوقات میں شہر کو تاریکی میں ڈوبتے دیکھ کر سیندک پروجیکٹ کے سوشل سیکٹر فنڈز سے 4 کروڈ روپے کی لاگت سے شہر کی مساجد کے علاوہ اسکولوں اور قومی آرسی ڈی شاہراہ کے دونوں اطراف مجموعی طور پر 200 سولر اسٹریٹ لائٹس لگوائیں، جس سے رات کے وقت پورا شہر جگمگانے لگتا ہے اور یوں نوکنڈی بڑے شہروں کی طرح سیاحوں سمیت دیگر علاقوں کو جانے والے مسافروں کے لیے مرکز نگاہ بنا ہوا ہے۔
تیسری شخصیت بھی چیئرمین سینیٹ کے چھوٹے بھائی نوجوان لیڈر میر اعجاز خان سنجرانی کی ہے، جو اپنی زہانت اور قابلیت کے بل بوتے پر سال 2017 میں وزیراعلیٰ بلوچستان میر ثناء اللہ زہری کے کوارڈینیٹر برائے ریونیو اتھارٹی اور بعد ازاں وزیراعلیٰ عبدالقدو س بزنجو کی جانب سے بہترین کارکردگی کی بنیاد پر کوارڈینیٹر ریونیو اتھارٹی کے ساتھ صوبائی مشیر بہبودآبادی بھی مقرر ہوئے۔ میر اعجاز خان نے قلیل مدت میں ایک چھوٹے عہدے پر فائز ہونے کے باوجود بہترین کام کرکے دکھائے۔ انہوں نے کوارڈینیٹر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد ضلع چاغی کے تمام تر علاقوں کا دورہ کیا۔ اس دوران اسکولوں و دیگر سرکاری اداروں کو فرنیچر کی فراہمی میں حتی الوسع تعاون کیا۔ بیروزگاری جیسے اہم مسئلے کو مدنظر رکھتے ہوئے نوکنڈی میں غلام جیلانی ٹیکنیکل ٹریننگ سینٹر کا قیام عمل میں لایا گیا۔ جہاں تعلیم یافتہ بے روزگار نوجوانوں کو بجلی کے کام سکھانے کے علاوہ دور جدید کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے کمپیوٹر کی تعلیم و تربیت دی جاتی ہے۔
2018 سے قبل نوکنڈی میں ایف اے، ایف ایس سی کا امتحانی مرکز نہ ہونے سے نوکنڈی، تفتان اور سیندک سے تعلق رکھنے والے طلبا کو امتحانات کے لیے مجبوراً دالبندین جانا پڑتا تھا، جہاں طلبا قیام و طعام کے لیے مختلف مصائب سے گزرتے تھی۔ اسی مجبوری کو مدنظر رکھتے ہوئے میراعجازخان سنجرانی نے زاتی کاوشوں سے متعلقہ حکام سے ادائیگی کے بعد ایف اے، ایف ایس سی کے امتحانی مرکز کو نوکنڈی منتقل کرکے لائق تحسین کام کیا۔
نوکنڈی شہر کو حالیہ دنوں پاور ہاوس کے جنریٹروں کے ذریعے یومیہ 8 گھنٹے بجلی کی فراہمی ہورہی ہے۔ کبھی کبھار وافر مقدار میں ڈیزل کی عدم فراہمی کی صورت میں ایک سے دو دن اور کبھی کبھار ہفتوں تک بجلی کے طویل بریک ڈاون کا سلسلہ جاری رہتا ہے، جس سے عوام ازیت سے گزرتے ہیں۔ نوکنڈی کو طویل عرصے سے مذکورہ درپیش مسئلے سے چھٹکارا دلانے کے لیے میر اعجازخان سنجرانی نے 28 کروڈ روپے سیندک پروجیکٹ کے سوشل سیکٹر فنڈز سے منظور کرا کے نوکنڈی کو ضلع چاغی کے صدر مقام دالبندین کے نیشنل قومی گرڈ سے منسلک کرنے کے لیے کام کا آغاز کردیا ہے۔ منصوبے پر بجلی کے کھمبوں کی تنصیب کے بعد تار بچھانے کا کام انتہائی تیزی سے جاری ہے۔ رواں ماہ کے آخر تک یہ منصوبہ تکمیل تک پہنچنے کے قوی امکانات ہیں۔
ان ترقیاتی بنیادی کاموں کے علاوہ نوکنڈی رورل ہیلتھ سینٹر کو ادویات کی فراہمی اور معذور افراد میں وہیل چیئرز سمیت دیگر کاموں کا سہرا انہی برادران کے سر ہے۔ یوں نوکنڈی کی قسمت جگمگا اٹھی ہے۔ نوکنڈی میں مسائل حل اور ترقیاتی کام شروع ہونے کے باعث احساس محرومی کے منڈلاتے بادل ختم ہونے والے ہیں اور عنقریب علاقے میں خوشحالی کا سورج طلوع ہوگا۔ نوکنڈی کی تاریخ میں یہ بات لکھی جائے گی کہ اس شہر کے وارثوں نے وہ قرض بھی اتارے جو ان پر واجب نہ تھے۔ عوامی حلقوں کی دعا ہے کہ ایسی شخصیات نوکنڈی ضلع چاغی کے علاوہ ملک کے ہر گلی کوچے سے نکلیں، جو ملک میں ترقی و خوشحالی لانے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
تبصرے
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔