سائنس دانوں نے بلیک ہول ’’دیکھ‘‘ لیا ہے کیا واقعی
ای ایچ ٹی سے وابستہ ماہرین نے ہماری کہکشاں کے مرکز میں موجود بلیک ہول کے واقعاتی افق کی مفصل اور کامیاب منظر کشی کرلی
عالمی میڈیا میں خبر گرم ہے کہ ماہرینِ فلکیات کی ایک عالمی ٹیم نے بلیک ہولز کی ''اوّلین تصویر'' حاصل کرلی ہے جسے وہ 10 اپریل کے روز ایک بین الاقوامی پریس کانفرنس میں دنیا کے سامنے پیش کریں گے۔ یہی خبر اس انداز میں بھی پیش کی جارہی ہے کہ ماہرینِ فلکیات نے پہلی بار بلیک ہول ''دیکھ'' لیا ہے۔ یہ دونوں خبریں اتنی مبہم ہیں کہ انہیں غلط قرار دیا جاسکتا ہے، کیونکہ حقیقت کچھ اور ہے۔
بلیک ہولز (Black Holes) وہ مردہ ستارے ہوتے ہیں جن کی کمیت ہمارے سورج کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہوتی ہے، جبکہ ان کی کششِ ثقل (Gravity) اتنی شدید ہوتی ہے کہ وہاں سے کوئی چیز بھی فرار نہیں ہوسکتی... روشنی بھی نہیں۔
آئن اسٹائن کا نظریہ اضافیت یہ کہتا ہے کہ کائنات میں کوئی بھی شئے، روشنی سے زیادہ رفتار پر حرکت نہیں کرسکتی (اور روشنی کی رفتار 300,000 کلومیٹر فی سیکنڈ ہے)۔ یعنی اگر کسی بلیک ہول سے روشنی فرار نہیں ہوسکتی، تو پھر کوئی دوسری چیز بھی فرار نہیں ہوسکتی۔ اب چونکہ کسی بھی چیز کو ''دیکھنے'' کا انحصار، اس سے ہم تک پہنچنے والی ''روشنی'' پر ہوتا ہے؛ اور بلیک ہول سے کسی قسم کی کوئی روشنی تک خارج نہیں ہوسکتی، تو اصولی طور پر ہم بلیک ہول کو ''دیکھ'' نہیں سکتے۔
امید ہے کہ یہ نکتہ واضح ہوگیا ہوگا۔
البتہ، بلیک ہول کی شدید کششِ ثقل کے یہ اثرات اس کے ارد گرد ایک مخصوص علاقے تک محدود ہوتے ہیں جسے ''واقعاتی افق'' (Event Horizon) کہا جاتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو شاید صرف ایک بلیک ہول ہی کائنات میں موجود ہر چیز کو ''ہڑپ'' کرجاتا۔ واقعاتی افق سے دور جاتے ہوئے، بلیک ہول کی کششِ ثقل بتدریج کم ہوتی چلی جاتی ہے؛ اس لیے کسی بلیک ہول سے دور دراز مقامات پر موجود اجسام پر اس کشش کے اثرات بھی اتنے معمولی ہوتے ہیں کہ انہیں بہ مشکل ہی محسوس کیا جاسکتا ہے۔
یعنی ہم واقعاتی افق کو بلیک ہول کی ''سرحد'' سمجھ سکتے ہیں۔
لیکن بلیک ہول کی اسی ''سرحد'' پر بہت کچھ ہورہا ہوتا ہے۔ وہ اجسام (مثلاً گرد اور گیس کے وسیع و عریض بادل وغیرہ) جو کسی بلیک ہول کی طرف بڑھ رہے ہوتے ہیں، وہ جیسے جیسے واقعاتی افق کے قریب پہنچتے ہیں، ان کی رفتار بڑھنا شروع ہوجاتی ہے اور وہ بلیک ہول کے گرد ''مرغولہ نما'' (Spiral) راستے پر چکر لگاتے ہوئے، واقعاتی افق سے قریب تر ہونے لگتے ہیں۔ ہر چکر میں ان کی رفتار مزید بڑھ جاتی ہے، یہاں تک کہ وہ عین واقعاتی افق پر پہنچ جاتے ہیں۔
زبردست رفتار کی وجہ سے ان اجسام کی اپنی توانائی بھی بہت زیادہ ہوجاتی ہے اور ان سے (روشنی سمیت) مختلف اقسام کی شعاعیں (ریڈی ایشن) خارج ہونے لگتی ہیں... اور جیسے ہی وہ واقعاتی افق سے بلیک ہول کے اندر گرنے لگتے ہیں ٹھیک اسی وقت، زبردست ایکسریز خارج کرتے ہوئے، وہ بلیک ہول میں ہمیشہ کےلیے گم ہوجاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ماہرینِ فلکیات ان ایکسریز کو ''بلیک ہول میں گرتے ہوئے مادّے کی آخری چیخ'' بھی کہتے ہیں۔
اگر ''سائنس کے باخبر ذرائع'' کی بات کریں، تو قوی امکان ہے کہ 10 اپریل 2019 کی پریس کانفرنس میں ماہرین فلکیات کی بین الاقوامی ٹیم یہ اعلان کرے گی کہ انہوں نے بلیک ہول میں گرتے ہوئے مادّے سے خارج ہونے والی شعاعوں کی مدد سے ''واقعاتی اُفق'' کی نہایت مفصل اور واضح عکاسی کرلی ہے۔
اسی حوالے سے دوسری بات یہ بھی کہی جارہی ہے کہ مذکورہ دریافت کا تعلق ہماری اپنی ''ملکی وے کہکشاں'' کے مرکز میں موجود ایک بہت ہی بڑے یعنی ''فوق ضخیم'' (Supermassive) بلیک ہول سے ہے۔ اندازہ ہے کہ اس بلیک ہول کی کمیت، ہمارے سورج کے مقابلے میں تقریباً 45 لاکھ گنا زیادہ ہے جبکہ (زمین سے دیکھنے پر) یہ ''برجِ قوس'' میں نظر آتا ہے۔ اس لیے اس کا نام بھی ''قوس الف نجمہ'' (Sagittarius A-Star) رکھا گیا ہے جو ظاہر کرتا ہے کہ دراصل یہ ریڈیو شعاعوں کا ایک منبع (source) ہے۔
بلیک ہول پر تحقیق کی غرض سے جاری عالمی منصوبے ''ایونٹ ہورائزن ٹیلی اسکوپ'' (EHT) میں دنیا بھر سے 12 طاقتور فلکیاتی دوربینیں، ایک ساتھ مربوط انداز سے، شریک ہیں۔ خیال ہے کہ ای ایچ ٹی سے وابستہ ماہرین نے ہماری ملکی وے کہکشاں کے مرکز میں موجود بلیک ہول کے ''واقعاتی افق'' کی مفصل اور کامیاب منظر کشی کرلی ہے۔ کچھ خبروں سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ شاید اس واقعاتی افق کی ساخت کسی ڈونٹ (Doughnut) یا چھید والی باقر خانی جیسی ہوتی ہے۔
یہ قیاس آرائیاں کتنی صحیح ہیں اور کتنی غلط؟ اس بارے میں حتمی طور پر ہمیں 10 اپریل کے روز ہی معلوم ہوگا۔
تب تک کےلیے صرف اتنا اطمینان رکھیے کہ سائنس دانوں نے بلیک ہول کی کوئی ''تصویر'' حاصل نہیں کی ہے، بلکہ وہ بلیک ہول سے وابستہ ''واقعاتی افق'' کا مفصل ترین مشاہدہ کرکے اس کی باریک ترین جزئیات معلوم کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔
بلیک ہولز (Black Holes) وہ مردہ ستارے ہوتے ہیں جن کی کمیت ہمارے سورج کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہوتی ہے، جبکہ ان کی کششِ ثقل (Gravity) اتنی شدید ہوتی ہے کہ وہاں سے کوئی چیز بھی فرار نہیں ہوسکتی... روشنی بھی نہیں۔
آئن اسٹائن کا نظریہ اضافیت یہ کہتا ہے کہ کائنات میں کوئی بھی شئے، روشنی سے زیادہ رفتار پر حرکت نہیں کرسکتی (اور روشنی کی رفتار 300,000 کلومیٹر فی سیکنڈ ہے)۔ یعنی اگر کسی بلیک ہول سے روشنی فرار نہیں ہوسکتی، تو پھر کوئی دوسری چیز بھی فرار نہیں ہوسکتی۔ اب چونکہ کسی بھی چیز کو ''دیکھنے'' کا انحصار، اس سے ہم تک پہنچنے والی ''روشنی'' پر ہوتا ہے؛ اور بلیک ہول سے کسی قسم کی کوئی روشنی تک خارج نہیں ہوسکتی، تو اصولی طور پر ہم بلیک ہول کو ''دیکھ'' نہیں سکتے۔
امید ہے کہ یہ نکتہ واضح ہوگیا ہوگا۔
البتہ، بلیک ہول کی شدید کششِ ثقل کے یہ اثرات اس کے ارد گرد ایک مخصوص علاقے تک محدود ہوتے ہیں جسے ''واقعاتی افق'' (Event Horizon) کہا جاتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو شاید صرف ایک بلیک ہول ہی کائنات میں موجود ہر چیز کو ''ہڑپ'' کرجاتا۔ واقعاتی افق سے دور جاتے ہوئے، بلیک ہول کی کششِ ثقل بتدریج کم ہوتی چلی جاتی ہے؛ اس لیے کسی بلیک ہول سے دور دراز مقامات پر موجود اجسام پر اس کشش کے اثرات بھی اتنے معمولی ہوتے ہیں کہ انہیں بہ مشکل ہی محسوس کیا جاسکتا ہے۔
یعنی ہم واقعاتی افق کو بلیک ہول کی ''سرحد'' سمجھ سکتے ہیں۔
لیکن بلیک ہول کی اسی ''سرحد'' پر بہت کچھ ہورہا ہوتا ہے۔ وہ اجسام (مثلاً گرد اور گیس کے وسیع و عریض بادل وغیرہ) جو کسی بلیک ہول کی طرف بڑھ رہے ہوتے ہیں، وہ جیسے جیسے واقعاتی افق کے قریب پہنچتے ہیں، ان کی رفتار بڑھنا شروع ہوجاتی ہے اور وہ بلیک ہول کے گرد ''مرغولہ نما'' (Spiral) راستے پر چکر لگاتے ہوئے، واقعاتی افق سے قریب تر ہونے لگتے ہیں۔ ہر چکر میں ان کی رفتار مزید بڑھ جاتی ہے، یہاں تک کہ وہ عین واقعاتی افق پر پہنچ جاتے ہیں۔
زبردست رفتار کی وجہ سے ان اجسام کی اپنی توانائی بھی بہت زیادہ ہوجاتی ہے اور ان سے (روشنی سمیت) مختلف اقسام کی شعاعیں (ریڈی ایشن) خارج ہونے لگتی ہیں... اور جیسے ہی وہ واقعاتی افق سے بلیک ہول کے اندر گرنے لگتے ہیں ٹھیک اسی وقت، زبردست ایکسریز خارج کرتے ہوئے، وہ بلیک ہول میں ہمیشہ کےلیے گم ہوجاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ماہرینِ فلکیات ان ایکسریز کو ''بلیک ہول میں گرتے ہوئے مادّے کی آخری چیخ'' بھی کہتے ہیں۔
اگر ''سائنس کے باخبر ذرائع'' کی بات کریں، تو قوی امکان ہے کہ 10 اپریل 2019 کی پریس کانفرنس میں ماہرین فلکیات کی بین الاقوامی ٹیم یہ اعلان کرے گی کہ انہوں نے بلیک ہول میں گرتے ہوئے مادّے سے خارج ہونے والی شعاعوں کی مدد سے ''واقعاتی اُفق'' کی نہایت مفصل اور واضح عکاسی کرلی ہے۔
اسی حوالے سے دوسری بات یہ بھی کہی جارہی ہے کہ مذکورہ دریافت کا تعلق ہماری اپنی ''ملکی وے کہکشاں'' کے مرکز میں موجود ایک بہت ہی بڑے یعنی ''فوق ضخیم'' (Supermassive) بلیک ہول سے ہے۔ اندازہ ہے کہ اس بلیک ہول کی کمیت، ہمارے سورج کے مقابلے میں تقریباً 45 لاکھ گنا زیادہ ہے جبکہ (زمین سے دیکھنے پر) یہ ''برجِ قوس'' میں نظر آتا ہے۔ اس لیے اس کا نام بھی ''قوس الف نجمہ'' (Sagittarius A-Star) رکھا گیا ہے جو ظاہر کرتا ہے کہ دراصل یہ ریڈیو شعاعوں کا ایک منبع (source) ہے۔
بلیک ہول پر تحقیق کی غرض سے جاری عالمی منصوبے ''ایونٹ ہورائزن ٹیلی اسکوپ'' (EHT) میں دنیا بھر سے 12 طاقتور فلکیاتی دوربینیں، ایک ساتھ مربوط انداز سے، شریک ہیں۔ خیال ہے کہ ای ایچ ٹی سے وابستہ ماہرین نے ہماری ملکی وے کہکشاں کے مرکز میں موجود بلیک ہول کے ''واقعاتی افق'' کی مفصل اور کامیاب منظر کشی کرلی ہے۔ کچھ خبروں سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ شاید اس واقعاتی افق کی ساخت کسی ڈونٹ (Doughnut) یا چھید والی باقر خانی جیسی ہوتی ہے۔
یہ قیاس آرائیاں کتنی صحیح ہیں اور کتنی غلط؟ اس بارے میں حتمی طور پر ہمیں 10 اپریل کے روز ہی معلوم ہوگا۔
تب تک کےلیے صرف اتنا اطمینان رکھیے کہ سائنس دانوں نے بلیک ہول کی کوئی ''تصویر'' حاصل نہیں کی ہے، بلکہ وہ بلیک ہول سے وابستہ ''واقعاتی افق'' کا مفصل ترین مشاہدہ کرکے اس کی باریک ترین جزئیات معلوم کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔