عدلیہ کوملک چلانے یا پالیسیاں بنانے سے گریزکرنا چاہیے بھارتی چیف جسٹس

ججوں کوان آئینی اصولوں پرکابندرہناچاہیے جوعدلیہ،مقننہ اورانتظامیہ کے اختیارات کا تعین کرتے ہیں

ججوں کوان آئینی اصولوں پرکابندرہنا چاہیے جوعدلیہ، مقننہ اورانتظامیہ کے اختیارات کا تعین کرتے ہیں

KARACHI:
بھارت کے چیف جسٹس ایس ایچ کپاڈیہ نے کہا ہے کہ جج صاحبان کو ملک چلانے یا پالیسیاں بنانے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے کیونکہ اگرانتظامیہ عدلیہ کی ہدایات پر عملدرآمد کرنے سے انکار کردے تو پھرکیا ہوگا؟۔

دہلی کے انٹرنیشنل سینٹر میں '' آئینی ڈھانچے کا اصول قانون'' کے موضوع پر لیکچردیتے ہوئے انھوں نے تقریب میں موجود ججوں سے سوال کیا کہ '' کیا آپ سرکاری حکام کو عدالتی احکامات پرعملدرآمد نہ کرنے پر توہین عدالت کی کارروائی شروع کردیں گے؟، انھوں نے بھارتی سپریم کورٹ کے اس حالیہ فیصلے سے عدم اتفاق کیا جس میں '' نیند کے حق'' کوبھی بنیادی حق تسلیم کیا گیا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ججوں کو حکمرانی نہیں کرنی چاہیے، ہمیں سختی سے اصول کے تحت چلنے کی ضرورت ہے۔


جہاں کہیں کسی قانون کے نفاذ کا معاملہ درپیش ہو وہاں ججوں کوگورننس کی مداخلت سے دور رہنا چاہیے کیونکہ ہم عوام کو جوابدہ نہیں ہوتے۔ مقصدیت کو یقیناً آئین کے بنیادی اصولوں کو اہمیت دینے سے منسلک کیا جانا چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ ججوں کو آئین کے ان اصولوں پر سختی سے کابند رہنا چاہیے جو واضح طور پر عدلیہ، مقننہ اور انتظامیہ کے اختیارات کا تعین کرتے ہیں۔ جج کو یہ سوالات پوچھنے چاہیئں کہ کیا کوئی زیرنظر معاملہ نافذالعمل ہو بھی سکتا ہے کہ نہیں؟۔ ججوں کو نافذالعمل ہونے کے ٹیسٹ کا لازماً اطلاق کرنا چاہیے۔

آج اگرکوئی جج کسی پالیسی معاملے کا مشورہ دے اور حکومت کہتی ہے کہ ہم اس پر عمل نہیں کریں گے تو کیا آپ اپنے فیصلے کے اطلاق کے لیے توہین عدالت کا سہارا لیں گے؟۔جسٹس ایس ایچ کپاڈیہ نے حالیہ اسکینڈلوں کا حوالہ دیتے ہوئے یہ بھی کہا کہ ججوں کو مرکز-ریاست تعلقات اور وفاقی پالیسی وغیرہ کے معاملات میں آئینی اصولوں پرسختی سے کاربند رہنا چاہیے تاہم انھوں نے واضح کیا کہ ان کا اشارہ ''کولگیٹ اسکینڈل'' کی طرف نہیں۔
Load Next Story