کراچی پیکیج
حکومت کو اس نازک وقت میں خود کو مستحکم رکھنا اور ملکی معاملات کو چوکس رکھنا بہت ضروری ہے۔
وزیر اعظم عمران خان کا کراچی والوں کے ساتھ کیا یہ کم احسان ہے کہ انھوں نے اس شہرکے مسائل کو حل کرنے کا بیڑہ اٹھا لیا ہے ، پھر اسی شہر سے وزیر خزانہ کا انتخاب کرنا بھی کراچی والوں کی ذہانت اور دانش مندی کو سراہنے سے کم نہیں ہے۔
اسد عمر ایک اچھے معاشی ماہر ہیں وہ الیکشن سے قبل ملک کی معیشت کے بارے میں جو جائزے پیش کر رہے تھے وہ لوگوں کے دلوں کو چھو رہے تھے۔ خاص طور پر پی ٹی آئی کے کارکنان سے لے کر اعلیٰ عہدیداران تک ان کے معاشی جائزوں اور رپورٹوں کی تعریف کرتے نہیں تھکتے تھے مگر اب وزیر خزانہ کا عہدہ سنبھالنے کے بعد دوسرے الفاظ میں اونٹ کے پہاڑ کے نیچے آنے کے بعد انھیں اصل صورتحال کا پتا چلا ہے کہ ملک کی معیشت کو ایک ذمے دار وزیر خزانہ کی حیثیت سے چلانا اور بات ہے اور حکومت سے باہر بیٹھ کر اس پر تبصرے اور تذکرے کرنا اور بات ہے۔
وہ کیا ان کی پوری پارٹی اسحاق ڈار کو ایک ناکام اورکرپٹ وزیر خزانہ کا خطاب دیا کرتے تھے مگر اب قوم سوچ رہی ہے کہ ملک کی معیشت شاید پہلے ہی ٹھیک ٹریک پر تھی کہ اس وقت پٹرول چونسٹھ روپے فی لیٹر تھا اور ڈالر ایک سو پانچ روپے میں مل جاتا تھا اب تو ہر چیزکو پر لگ گئے ہیں۔ ابھی ڈالر ایک سو چالیس روپے کا ہے مگر کہا جا رہا ہے کہ آئی ایم ایف کی شرائط کو پورا کرنے کے لیے اسے ہر سال دس روپے بڑھایا جائے گا اور اس طرح پانچ سال میں ڈالرکو ایک سو پچھتر روپے تک پہنچا دیا جائے گا۔ اگر ڈالر اسی طرح آگے بڑھتا رہا تو غریبوں کا کیا بنے گا؟ بے روزگاری اور مہنگائی نے تو پہلے ہی عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔
ادھر ملکی معیشت کا یہ حال ہے کہ ملک چلانے اور قرضوں کی ادائیگی کے لیے ادھر ادھر سے پیسے مانگے جارہے ہیں۔ ایک طرف آئی ایم ایف اپنی سخت شرائط کو منوانے پر بضد ہے تو دوسری جانب FATF کی بلیک لسٹ ہونے کی تلوار سر پر لٹک رہی ہے۔ اب ایسے ماحول میں وزیراعظم عمران خان نے کراچی والوں کو 162 ارب روپے کے کراچی پیکیج دینے کی خوشخبری سنا دی ہے۔ یہ اعلان اتنا پرکشش ثابت ہوا ہے کہ کئی مقامی سیاسی رہنما اس کی تعریفیں کرتے نہیں تھک رہے ہیں۔
ایم کیو ایم کے سبھی رہنما اس پیکیج کو کراچی کے مسائل کے حل کے لیے تازہ ہوا کا جھونکا قرار دے رہے ہیں۔ میئرکراچی وسیم اختر نے کراچی پیکیج کو سب سے زیادہ سراہا ہے۔ انھوں نے تو یہاں تک کہا ہے کہ وہ لوگ جو اسے مشکوک نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں وہ سراسر غلطی پر ہیں۔ ادھر خالد مقبول صدیقی نے بھی اس پیکیج کو سراہا ہے اور اسے کراچی کے عوام کے مسائل کے حل کے لیے وفاقی حکومت کا ایک پرکشش تحفہ قرار دیا ہے۔ پی ٹی آئی کی جانب سے بھی اسے کراچی کے مختلف مسائل کے حل کی کنجی قرار دیا جا رہا ہے۔
وزیر اعظم کے اس پیکیج میں کراچی کے اٹھارہ منصوبے شامل ہیں جن میں پبلک ٹرانسپورٹ کے دس اور واٹر اینڈ سیوریج کے سات بڑے منصوبے شامل ہیں۔ شہر میں گرین لائن بس منصوبہ فعال کرنے کے لیے آٹھ ارب روپے جاری کیے جائیں گے۔ کراچی کے ٹرانسپورٹرز کے لیے نئی ٹرانسپورٹ اسکیم متعارف کرائی جائے گی۔ اس کے تحت پانچ سو ٹرانسپورٹرز کو پانچ سو نئی بسیں خریدنے کے لیے قرضے دیے جائیں گے جو چھ سال میں واجب الادا ہوں گے اور ان پر سود خود وفاق ادا کرے گا۔
لیاری ایکسپریس وے کو ہیوی ٹریفک کے لیے موزوں بنانے، شہر میں دو سو آر او پلانٹ لگانے اور کورنگی میں ٹریٹ منٹ پلانٹ کے لیے بھی فنڈز جاری کیے جائیں گے، ساتھ ہی سرکلر ریلوے کو بحال کرنے کے لیے بھی اقدامات کیے جائیں گے۔ وزیر اعظم کے ان مسائل کو حل کرنے کے اعلان کے علاوہ بھی توکراچی کے اورکئی بڑے مسائل ہیں سب سے سنگین پانی کا مسئلہ ہے جس کے لیے صوبائی حکومت K-4 منصوبہ شروع کرنا چاہتی ہے، مگر وفاق کی جانب سے فنڈز کی عدم دستیابی اس کے آڑے آ رہی ہے۔ اب اعلان کیا گیا ہے کہ اس منصوبے کے لیے بھی وفاق پچاس فیصد رقم مہیا کرے گا۔
وزیر اعظم نے کراچی پیکیج کا اعلان گورنر ہائوس میں کیا مگر اس اہم موقعے پر وزیر اعلیٰ سندھ کی غیر موجودگی معنی خیز تھی۔ تجزیہ کاروں کے مطابق صوبائی حکومت کو کراچی پیکیج سے دور نہیں رکھا جاسکتا کیونکہ اس کی شرکت کے بغیر اعلان کردہ منصوبے مکمل نہیں کیے جاسکتے۔
اس سلسلے میں میئر کراچی وسیم اختر نے بھی سندھ حکومت کو آن بورڈ نہ لینے کا گلہ کیا ہے۔ اس وقت پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی کے درمیان زرداری خاندان سے کرپشن کے سلسلے میں جو محاذ آرائی چل رہی ہے لگتا ہے وزیر اعلیٰ سندھ کو اس اہم میٹنگ میں نہ بلانے یا ان کے خود نہ آنے کی وجہ یہی کشمکش رہی ہو، کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ حکومت سندھ کو کراچی پیکیج سے دور رکھنے کی وجہ صاف ہے کہ اس کا میگا پروجیکٹ کے سلسلے میں ریکارڈ مشکوک بتایا گیا ہے۔
گزشتہ دنوں ایک ڈیم کی تعمیر کے سلسلے میں لیت و لعل برتنے اور اس کے لیے مختص رقم کے خردبرد ہونے پر ایک عدالت وزیر اعلیٰ پرکافی برہمی دکھا چکی ہے، تاہم پھر بھی سندھ حکومت کو اندرون سندھ یا کراچی میں ترقیاتی منصوبوں کے شروع کرنے کے لیے کسی طرح بھی الگ تھلگ نہیں کیا جاسکتا۔ اس طرح تو پھر سندھ میں گورنر کے ذریعے منصوبوں کو مکمل کرانے کو مستقبل میں سندھ میں گورنر راج لاگو کرنے کی منصوبہ بندی کا حصہ قرار دیا جاسکتا ہے۔
پی ٹی آئی حکومت شاید اپنی حلیف ایم کیو ایم کو خوش رکھنے کے لیے اس پیکیج کو اپنے اور اس کے درمیان ہی رکھنا چاہتی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ اس پیکیج کے لیے ساری بھاگ دوڑ ایم کیو ایم نے کی ہے وہ اس پیکیج کے لیے پی ٹی آئی حکومت پر کافی عرصے سے زور ڈال رہی تھی۔ کراچی کے مسائل کے حل کے سلسلے میں پی ٹی آئی حکومت کی ذمے داریاں اس لیے بھی بڑھ گئی ہیں کہ انھوں نے حالیہ الیکشن میں کراچی سے کئی سیٹیں جیتی ہیں اور کراچی کے کئی کامیاب امیدواروں کو وفاق میں وزارتیں دی گئی ہیں ۔
ایم کیو ایم کی کراچی کے مسائل میں دلچسپی کی سب سے بڑی وجہ کراچی کی میئر شپ کا ان کے پاس ہونا ہے۔ کراچی کے شہری میئر کی کارکردگی سے پہلے سے ہی ناخوش ہیں کیونکہ وہ عوامی مسائل حل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ کراچی آج بھی کچرا کنڈی کا منظر پیش کر رہا ہے۔ میئرکراچی اکثر حکومت سندھ کے مالی عدم تعاون اور اختیارات میں کمی کی شکایت کرتے رہتے ہیں کراچی کے عوام ان کی اس شکایت کو ان کی نااہلی سے تعبیر کرتے ہیں۔
کراچی کے سابق میئر مصطفیٰ کمال کا دور مثالی رہا ہے ان کی بہترین کارکردگی آج بھی عوام کے دلوں پر نقش ہے ان کی پارٹی پی ایس پی آیندہ بلدیاتی الیکشن جیتنے کے لیے پرعزم نظر آتی ہے انھوں نے ایک بیان میں کہا ہے کہ کراچی پیکیج صرف دکھاوا ہے۔ اس کا ایک پیسہ بھی کراچی والوں کو نہیں ملے گا۔ اگر وفاق کراچی کے ساتھ مخلص ہوتا تو پانی کا منصوبہ K-4 کبھی کا شروع ہوچکا ہوتا۔ کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی کو جان بوجھ کر ایک پیچیدہ مسئلہ بنا دیا گیا ہے۔
وفاق اگر سنجیدہ ہوتا تو سی پیک کے ذریعے بھی یہ مسئلہ حل کیا جاسکتا تھا۔ ان کیمطابق کراچی کے مسائل ہرگز اس وقت تک حل نہیں ہوں گے جب تک اس شہر کی ایمانداری سے مردم شماری نہیں کرائی جاتی۔ مسلم لیگ(ن) کے رہنما محمد زبیر کا کہنا ہے کہ حکومت ترقیاتی منصوبوں کا اعلان تو ضرورکر رہی ہے۔ مگر اس کے پاس پیسے کہاں ہیں جو ان منصوبوں کے لیے دے گی ملک کی معاشی حالت روز بروز خراب ہوتی جا رہی ہے، دراصل مہنگائی اور بے روزگاری سے عوام کی توجہ ہٹانے کے لیے وہ ایسے اعلانات کر رہی ہے۔
کراچی کے ساحل کے قریب سے تیل اور گیس کے ذخائر کے نکلنے کی وزیر اعظم کی جانب سے قبل ازوقت عوام کو خوشخبری دینا بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ اب پٹرول اور گیس کی قیمتوں میں مزید بھاری بھرکم اضافہ کردیا گیا ہے جس نے عوام کی مشکلات میں مزید اضافہ کردیا ہے۔ اس وقت جب کہ ملک حالت جنگ میں ہے حکومت کے اندر انتشار کی خبر نہایت افسوس ناک اور خطرناک ہے کیونکہ مودی نے ایک بار پھر کہا ہے کہ اس کے لیے الیکشن سے بھی زیادہ اہم پاکستان سے نمٹنا ہے۔ چنانچہ حکومت کو اس نازک وقت میں خود کو مستحکم رکھنا اور ملکی معاملات کو چوکس رکھنا بہت ضروری ہے تاکہ دشمن کے مذموم عزائم کو خاک میں ملایا جاسکے۔
اسد عمر ایک اچھے معاشی ماہر ہیں وہ الیکشن سے قبل ملک کی معیشت کے بارے میں جو جائزے پیش کر رہے تھے وہ لوگوں کے دلوں کو چھو رہے تھے۔ خاص طور پر پی ٹی آئی کے کارکنان سے لے کر اعلیٰ عہدیداران تک ان کے معاشی جائزوں اور رپورٹوں کی تعریف کرتے نہیں تھکتے تھے مگر اب وزیر خزانہ کا عہدہ سنبھالنے کے بعد دوسرے الفاظ میں اونٹ کے پہاڑ کے نیچے آنے کے بعد انھیں اصل صورتحال کا پتا چلا ہے کہ ملک کی معیشت کو ایک ذمے دار وزیر خزانہ کی حیثیت سے چلانا اور بات ہے اور حکومت سے باہر بیٹھ کر اس پر تبصرے اور تذکرے کرنا اور بات ہے۔
وہ کیا ان کی پوری پارٹی اسحاق ڈار کو ایک ناکام اورکرپٹ وزیر خزانہ کا خطاب دیا کرتے تھے مگر اب قوم سوچ رہی ہے کہ ملک کی معیشت شاید پہلے ہی ٹھیک ٹریک پر تھی کہ اس وقت پٹرول چونسٹھ روپے فی لیٹر تھا اور ڈالر ایک سو پانچ روپے میں مل جاتا تھا اب تو ہر چیزکو پر لگ گئے ہیں۔ ابھی ڈالر ایک سو چالیس روپے کا ہے مگر کہا جا رہا ہے کہ آئی ایم ایف کی شرائط کو پورا کرنے کے لیے اسے ہر سال دس روپے بڑھایا جائے گا اور اس طرح پانچ سال میں ڈالرکو ایک سو پچھتر روپے تک پہنچا دیا جائے گا۔ اگر ڈالر اسی طرح آگے بڑھتا رہا تو غریبوں کا کیا بنے گا؟ بے روزگاری اور مہنگائی نے تو پہلے ہی عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔
ادھر ملکی معیشت کا یہ حال ہے کہ ملک چلانے اور قرضوں کی ادائیگی کے لیے ادھر ادھر سے پیسے مانگے جارہے ہیں۔ ایک طرف آئی ایم ایف اپنی سخت شرائط کو منوانے پر بضد ہے تو دوسری جانب FATF کی بلیک لسٹ ہونے کی تلوار سر پر لٹک رہی ہے۔ اب ایسے ماحول میں وزیراعظم عمران خان نے کراچی والوں کو 162 ارب روپے کے کراچی پیکیج دینے کی خوشخبری سنا دی ہے۔ یہ اعلان اتنا پرکشش ثابت ہوا ہے کہ کئی مقامی سیاسی رہنما اس کی تعریفیں کرتے نہیں تھک رہے ہیں۔
ایم کیو ایم کے سبھی رہنما اس پیکیج کو کراچی کے مسائل کے حل کے لیے تازہ ہوا کا جھونکا قرار دے رہے ہیں۔ میئرکراچی وسیم اختر نے کراچی پیکیج کو سب سے زیادہ سراہا ہے۔ انھوں نے تو یہاں تک کہا ہے کہ وہ لوگ جو اسے مشکوک نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں وہ سراسر غلطی پر ہیں۔ ادھر خالد مقبول صدیقی نے بھی اس پیکیج کو سراہا ہے اور اسے کراچی کے عوام کے مسائل کے حل کے لیے وفاقی حکومت کا ایک پرکشش تحفہ قرار دیا ہے۔ پی ٹی آئی کی جانب سے بھی اسے کراچی کے مختلف مسائل کے حل کی کنجی قرار دیا جا رہا ہے۔
وزیر اعظم کے اس پیکیج میں کراچی کے اٹھارہ منصوبے شامل ہیں جن میں پبلک ٹرانسپورٹ کے دس اور واٹر اینڈ سیوریج کے سات بڑے منصوبے شامل ہیں۔ شہر میں گرین لائن بس منصوبہ فعال کرنے کے لیے آٹھ ارب روپے جاری کیے جائیں گے۔ کراچی کے ٹرانسپورٹرز کے لیے نئی ٹرانسپورٹ اسکیم متعارف کرائی جائے گی۔ اس کے تحت پانچ سو ٹرانسپورٹرز کو پانچ سو نئی بسیں خریدنے کے لیے قرضے دیے جائیں گے جو چھ سال میں واجب الادا ہوں گے اور ان پر سود خود وفاق ادا کرے گا۔
لیاری ایکسپریس وے کو ہیوی ٹریفک کے لیے موزوں بنانے، شہر میں دو سو آر او پلانٹ لگانے اور کورنگی میں ٹریٹ منٹ پلانٹ کے لیے بھی فنڈز جاری کیے جائیں گے، ساتھ ہی سرکلر ریلوے کو بحال کرنے کے لیے بھی اقدامات کیے جائیں گے۔ وزیر اعظم کے ان مسائل کو حل کرنے کے اعلان کے علاوہ بھی توکراچی کے اورکئی بڑے مسائل ہیں سب سے سنگین پانی کا مسئلہ ہے جس کے لیے صوبائی حکومت K-4 منصوبہ شروع کرنا چاہتی ہے، مگر وفاق کی جانب سے فنڈز کی عدم دستیابی اس کے آڑے آ رہی ہے۔ اب اعلان کیا گیا ہے کہ اس منصوبے کے لیے بھی وفاق پچاس فیصد رقم مہیا کرے گا۔
وزیر اعظم نے کراچی پیکیج کا اعلان گورنر ہائوس میں کیا مگر اس اہم موقعے پر وزیر اعلیٰ سندھ کی غیر موجودگی معنی خیز تھی۔ تجزیہ کاروں کے مطابق صوبائی حکومت کو کراچی پیکیج سے دور نہیں رکھا جاسکتا کیونکہ اس کی شرکت کے بغیر اعلان کردہ منصوبے مکمل نہیں کیے جاسکتے۔
اس سلسلے میں میئر کراچی وسیم اختر نے بھی سندھ حکومت کو آن بورڈ نہ لینے کا گلہ کیا ہے۔ اس وقت پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی کے درمیان زرداری خاندان سے کرپشن کے سلسلے میں جو محاذ آرائی چل رہی ہے لگتا ہے وزیر اعلیٰ سندھ کو اس اہم میٹنگ میں نہ بلانے یا ان کے خود نہ آنے کی وجہ یہی کشمکش رہی ہو، کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ حکومت سندھ کو کراچی پیکیج سے دور رکھنے کی وجہ صاف ہے کہ اس کا میگا پروجیکٹ کے سلسلے میں ریکارڈ مشکوک بتایا گیا ہے۔
گزشتہ دنوں ایک ڈیم کی تعمیر کے سلسلے میں لیت و لعل برتنے اور اس کے لیے مختص رقم کے خردبرد ہونے پر ایک عدالت وزیر اعلیٰ پرکافی برہمی دکھا چکی ہے، تاہم پھر بھی سندھ حکومت کو اندرون سندھ یا کراچی میں ترقیاتی منصوبوں کے شروع کرنے کے لیے کسی طرح بھی الگ تھلگ نہیں کیا جاسکتا۔ اس طرح تو پھر سندھ میں گورنر کے ذریعے منصوبوں کو مکمل کرانے کو مستقبل میں سندھ میں گورنر راج لاگو کرنے کی منصوبہ بندی کا حصہ قرار دیا جاسکتا ہے۔
پی ٹی آئی حکومت شاید اپنی حلیف ایم کیو ایم کو خوش رکھنے کے لیے اس پیکیج کو اپنے اور اس کے درمیان ہی رکھنا چاہتی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ اس پیکیج کے لیے ساری بھاگ دوڑ ایم کیو ایم نے کی ہے وہ اس پیکیج کے لیے پی ٹی آئی حکومت پر کافی عرصے سے زور ڈال رہی تھی۔ کراچی کے مسائل کے حل کے سلسلے میں پی ٹی آئی حکومت کی ذمے داریاں اس لیے بھی بڑھ گئی ہیں کہ انھوں نے حالیہ الیکشن میں کراچی سے کئی سیٹیں جیتی ہیں اور کراچی کے کئی کامیاب امیدواروں کو وفاق میں وزارتیں دی گئی ہیں ۔
ایم کیو ایم کی کراچی کے مسائل میں دلچسپی کی سب سے بڑی وجہ کراچی کی میئر شپ کا ان کے پاس ہونا ہے۔ کراچی کے شہری میئر کی کارکردگی سے پہلے سے ہی ناخوش ہیں کیونکہ وہ عوامی مسائل حل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ کراچی آج بھی کچرا کنڈی کا منظر پیش کر رہا ہے۔ میئرکراچی اکثر حکومت سندھ کے مالی عدم تعاون اور اختیارات میں کمی کی شکایت کرتے رہتے ہیں کراچی کے عوام ان کی اس شکایت کو ان کی نااہلی سے تعبیر کرتے ہیں۔
کراچی کے سابق میئر مصطفیٰ کمال کا دور مثالی رہا ہے ان کی بہترین کارکردگی آج بھی عوام کے دلوں پر نقش ہے ان کی پارٹی پی ایس پی آیندہ بلدیاتی الیکشن جیتنے کے لیے پرعزم نظر آتی ہے انھوں نے ایک بیان میں کہا ہے کہ کراچی پیکیج صرف دکھاوا ہے۔ اس کا ایک پیسہ بھی کراچی والوں کو نہیں ملے گا۔ اگر وفاق کراچی کے ساتھ مخلص ہوتا تو پانی کا منصوبہ K-4 کبھی کا شروع ہوچکا ہوتا۔ کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی کو جان بوجھ کر ایک پیچیدہ مسئلہ بنا دیا گیا ہے۔
وفاق اگر سنجیدہ ہوتا تو سی پیک کے ذریعے بھی یہ مسئلہ حل کیا جاسکتا تھا۔ ان کیمطابق کراچی کے مسائل ہرگز اس وقت تک حل نہیں ہوں گے جب تک اس شہر کی ایمانداری سے مردم شماری نہیں کرائی جاتی۔ مسلم لیگ(ن) کے رہنما محمد زبیر کا کہنا ہے کہ حکومت ترقیاتی منصوبوں کا اعلان تو ضرورکر رہی ہے۔ مگر اس کے پاس پیسے کہاں ہیں جو ان منصوبوں کے لیے دے گی ملک کی معاشی حالت روز بروز خراب ہوتی جا رہی ہے، دراصل مہنگائی اور بے روزگاری سے عوام کی توجہ ہٹانے کے لیے وہ ایسے اعلانات کر رہی ہے۔
کراچی کے ساحل کے قریب سے تیل اور گیس کے ذخائر کے نکلنے کی وزیر اعظم کی جانب سے قبل ازوقت عوام کو خوشخبری دینا بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ اب پٹرول اور گیس کی قیمتوں میں مزید بھاری بھرکم اضافہ کردیا گیا ہے جس نے عوام کی مشکلات میں مزید اضافہ کردیا ہے۔ اس وقت جب کہ ملک حالت جنگ میں ہے حکومت کے اندر انتشار کی خبر نہایت افسوس ناک اور خطرناک ہے کیونکہ مودی نے ایک بار پھر کہا ہے کہ اس کے لیے الیکشن سے بھی زیادہ اہم پاکستان سے نمٹنا ہے۔ چنانچہ حکومت کو اس نازک وقت میں خود کو مستحکم رکھنا اور ملکی معاملات کو چوکس رکھنا بہت ضروری ہے تاکہ دشمن کے مذموم عزائم کو خاک میں ملایا جاسکے۔