افغان صورتحال… توقعات وخدشات

الزام تراشی اور بہتان طرازی سے افغان حکام گریز کریں، خطے میں امن فوری ڈائیلاگ سے ممکن ہے۔

الزام تراشی اور بہتان طرازی سے افغان حکام گریز کریں، خطے میں امن فوری ڈائیلاگ سے ممکن ہے۔ فوٹو : فائل

افغان مفاہمتی عمل کے لیے امریکا کے خصوصی نمایندہ زلمے خلیل زاد نے جمعہ کے روز اسلام آباد میں وزارت خارجہ آمد، سیکریٹری خارجہ کے ساتھ وفود کی سطح پر مذاکرات کیے۔ انھوں نے پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے بھی ملاقات کی، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ پاکستان افغانستان میں سیاسی مصالحت کے لیے نیک نیتی سے تعاون جاری رکھے گا۔ امریکا کے خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد نے جی ایچ کیو راولپنڈی میں پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ سے بھی ملاقات کی۔

افغان مفاہمتی عمل کے لیے امریکا کے خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد افغان مفاہمتی عمل میں اب تک پانچ دور مکمل کر چکے ہیں، افغان گھمبیرتا کے خاتمہ کے لیے دوحہ (قطر) میں تفصیلی اور جامع مذاکرات بھی ہوچکے ہیں جس میں طالبان اور امریکا کے مابین اہم امور اور مسائل پر نتیجہ خیز گفتگو اور کسی قدر مثبت پیش رفت بھی ہوئی۔

افغان امور پر گہری نظر رکھنے والے مبصرین کے مطابق افغان معمہ اپنی معروضی اور تزویراتی پیچیدگی کے باعث امریکا اور خطے کے دیگر کرداروں کے لیے بھی اہمیت اختیار کر گیا ہے لیکن جس چیز نے بات چیت کو بریک تھرو سے دور رکھا ہے وہ طالبان کی افغان حکومت سے براہ راست بات چیت سے گریزپائی ہے، مذاکراتی عمل کے آغاز سے یہ عنصر موجود ہے، اس میں کیا حکمت ہے اور امریکی ایلچی برائے مفاہمت اس کا کیا جواز پیش کرتے ہیں ابھی اس تھیلی سے امن و مفاہمت کی بلی باہر آنے کو تیار نہیں اور معاملات پوشیدہ ہی ہیں تاہم بعض سٹرٹیجک ماہرین کا کہنا ہے کہ جب تک افغان حکومت سے بات چیت کا میکنزم طے نہیں پائے گا مذاکرات شٹل ڈپلومیسی سے ملنے والے امکانات اور توقعات سے آگے نہیں جا سکیں گے۔

اگلے روز اسلام آباد میں وزارت خارجہ میں وفود کی سطح پر مذاکرات میں پاکستانی وفد کی قیادت سیکریٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ اور امریکی وفد کی قیادت زلمے خلیل زاد نے کی، مذاکرات میں افغان مفاہمتی عمل میں ہونے والی پیش رفت سمیت اہم امور پر تبادلہ خیال کیا گیا جس کے بعد امریکی ایلچی زلمے خلیل زاد نے وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی سے ملاقات کی اور افغان مفاہمتی عمل میں ہونے والی پیش رفت سمیت باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کیا۔

پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے انٹرا افغان مذاکرات کے حوالے سے پیش رفت کو سراہا اور کہا کہ افغانیوں کے مابین مذاکرات کا انعقاد افغان مفاہمتی عمل کا اہم جزو ہے، پاکستان افغانستان میں سیاسی مصالحت کے لیے نیک نیتی سے اپنا تعاون جاری رکھے گا۔

پاکستان دیر پا تعمیر و ترقی کے ایجنڈے پر گامزن ہے، افغانستان میں امن و استحکام پاکستان سمیت پورے خطے کے بہترین مفاد میں ہے، آئی ایس پی آر کے مطابق آرمی چیف اور زلمے خلیل زاد کی ملاقات میں علاقائی سلامتی کی مجموعی صورتحال خاص کر جاری افغان مصالحتی عمل پر بات چیت کی گئی، امریکی نمایندہ خصوصی زلمے خلیل زاد نے امن عمل کے لیے پاکستان کی کوششوں کو سراہا۔


افغان مفاہمتی عمل سے قریبی حلقوں نے اس اندیشہ کا اظہار بھی کیا ہے کہ امریکا نے افغان آپشن کھلا نہ رکھا اور طالبان کی افغانستان مین جارحانہ حکمت عملی، حکومتی فورسز پر شدید حملوں میں کوئی کمی نہ آئی تو خانہ جنگی کا بھی خطرہ ہے، اگر ایسا ہوا تو مفاہمتی عمل کوسوں دور چلا جائے گا۔ ادھر قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہونے والے مذاکرات میں ابتدائی اطلاعات کے مطابق دور رس فیصلے ہوئے ہیں ، لیکن مسئلہ یہ ہے طالبان، پاکستان اور افغان صدر اشرف غنی کو صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر کامل اعتبار بھی نہیں، وہ تو شام اور افغانستان سے نکلنے کا وعدہ کرکے بھی گیند کسی کورٹ میں جانے نہیں دیتے۔

ایک سانس میں افغانستان میں انھیں اسٹریٹجک اثاثے محفوظ رکھنے کی بے تابی بھی ہے پھر وہ پاکستان کو اہم اور کلیدی حلیف اور اتحادی سمجھتے ہوئے طعن و تشنیع کا نشانہ بھی بناتے ہیں، ان کی اگست 2017 کی تقریر پاکستان کے خلاف چارج شیٹ سے کم نہ تھی، اس طرح نہیں ہوتا اس طرح کے کاموں میں۔ امریکا کی اسی مبہم پالیسی کی وجہ سے افغانستان میں قیام امن کی کوششیں تاحال نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو سکیں۔

اگر افغان بحران حل کرنا ہے تو امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو آؤٹ آف باکس فیصلہ کے لیے فرنٹ لائن پر آنا ہوگا، انھیں طالبان پر ڈباؤ ڈالنا ہوگا کہ وہ امن و مفاہمت کے لیے حملے بند کریں، بات چیت کا ماحول بحال رکھیں۔ پھر افغان حکومت کو بھی مفاہمت اور بات چیت کے عمل مین شمولیت کی راہ ہموار کرنے کے لے زلمے خلیل زاد کو ایکٹیو کریں۔ افغانستان میں بھارت کے عمل دخل کو بھی کنٹرول کریں کیونکہ بھارت بھی معاملات کو خراب کرنے کا سبب بن رہا ہے۔

افغان معاشرہ جنگوں سے تباہ ہو چکا ہے، افغانستان کی معیشت بھی تباہ ہے ، خود کابل غیر محفوظ ہے، صوبے بادغیس میں طالبان اور فوج کے درمیان لڑائی میں 36 افغان فوجی اور 30 عسکریت پسند مارے گئے ہیں، افغان صوبے بادغیس کے ضلع بالا مرغاب میں ایک فوجی اڈے پر قبضے کے لیے طالبان عسکریت پسندوں اور ملکی فوج کے درمیان ابھی بھی شدید لڑائی جاری ہے، 2 روز سے جاری اس لڑائی کی ضلعی گورنر عبدالوارث شیرزاد نے تصدیق کر دی ہے، انتظامی اہلکار نے بتایا ہے کہ اس لڑائی میں 36 افغان فوجی مارے جا چکے ہیں اور عسکریت پسندوں نے کئی چیک پوسٹوں پر قبضہ بھی کر لیا ہے، ادھر امریکا اور نیٹو فوج بھی طالبان کے خلاف آپریشن کرتی رہتی ہے ، یوں افغانستان میں جنگ مسلسل جاری ہے اور فریقین ایک دوسرے پر زیادہ سے زیادہ دباؤ بڑھانے کے لیے جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں۔

دوسری طرف افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی نے تجویز دی ہے کہ ایک قومی مذاکراتی ٹیم تشکیل دی جائے جو امن عمل کے لیے طالبان اور افغان حکومت کو مذاکرات کی میز پر لانے میں مدد دے، افغان حکومت کو یہ کام آیندہ اتوار تک کر دینا چاہیے، ایک امریکی نشریاتی ادارے کو انٹرویو میں سابق افغان صدر نے کہا کہ امریکا کے نمایندہ خصوصی برائے افغان مفاہمت زلمے خلیل زاد اور افغان سیاست دانوں کی ملاقاتوں کے نتائج سامنے آنے چاہئیں، حامد کرزئی نے افغانستان میں عام انتخابات کے لیے عبوری حکومت تشکیل دینے کی بھی سخت مخالفت کی اور پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان کے اس بارے میں بیان کو افغانستان کے داخلی امور میں مداخلت قرار دیا۔

بہرحال افغانستان میں قیام امن کے جو بھی راہ نکلتی ہے، اسے نکالنا چاہیے۔ افغانستان کا امن سارے خطے کی ترقی کے لیے ضروری ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ الزام تراشی اور بہتان طرازی سے افغان حکام گریز کریں، خطے میں امن فوری ڈائیلاگ سے ممکن ہے اور مکالمہ کے لیے سفارت کاری کی مسلمہ اقدار کی پاسداری ناگزیر ہے۔ الزام تراشی مناسب نہیں۔

 
Load Next Story