نقل کا ناسور
ماضی کی گولڈن ہینڈ شیک اسکیم کی طرز پر موجود اساتذہ کو ریٹائرڈ ہونے کا موقع دیا جائے۔
THE HAGUE:
'' اے محمد ؐ ، پڑھ اپنے رب کے نام سے '' ، خدا کی طرف سے اسلامی انقلاب برپا کرنے کے لیے آنیوالا یہ پہلا پیغام ہے ۔ جس سے واضح ہوتا ہے کہ علم ہی وہ پہلی سیڑھی ہے جس پر چڑھ کر ہی شعور و آگہی کے ساتھ زینہ بہ زینہ ترقی کی منازل کی بلندیاں حاصل ہوسکتی ہیں ۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو جس قوم نے تعلیم کی رسی کو مضبوطی سے پکڑلیا ، اُس نے نہ صرف اِس دنیا کو تسخیر کرلیا بلکہ وہ قوم ستاروں پر کمند ڈالنے میں بھی کامیاب رہی ۔جب کہ اُس کے برعکس دنیا بھر میں عرصہ دراز سے یہ بھی مشہور ہے کہ ''کسی بھی قوم کو تباہ کرنا ہو تو اس سے تعلیم چھین لو''۔
یہ بات سندھ کی موجودہ صورتحال پر سولہ آنے سچ ثابت ہوتی ہے ۔ وہ سندھ جہاں استاد حاتم علی گھر کی چار دیواری میں ایک طالب علم کو صرف 2گھنٹے کی تعلیم دیتے تھے تو وہ طالب علم ایک مدبر و صالح سیاسی رہنما اور65کتابوں کا مصنف اور بانیان ِ پاکستان کی صف ِ اول کا رُکن جی ایم سید بن کر اُبھرتا ہے ۔وہ سندھ جہاں ایسے اسکول تھے جہاں سے پڑھنے والے طلبہ قائد اعظم ، قائد عوام ، حفیظ پیرزادہ ، ابراہیم جویو ، سوبھو گیانچندانی ، رسول بخش پلیجو اور محمد میاں سومرو بن کر دنیا میں نئی جہتوں اور نئی راہوں کے معمار کے طور پر سامنے آتے رہے۔
آج اس سندھ کے اسکولوں سے پڑھنے والے بچوں کی یہ حالت ہے کہ اپنی ڈگری حاصل کرنے کے لیے اکثر طالب علم اپنا تھیسز بھی دوسروں سے بنواکر جمع کراتے نظر آتے ہیں ، یہاں تک کہ ملازمت حاصل کرنے کے بعد اپنی تنخواہوں کی پے سلپ بھی نہیں پُرکرسکتے ۔۔!اس کی وجوہات جاننے کے لیے ہر ذی شعور فرد کوششوں میں مصروف ہے ۔
اس دنیا میں فطرت نے ہر خطے کو الگ الگ خصوصیات فراہم کی ہیں ۔ کہیں برف کے تہہ ہیں تو کہیں گرم پانیوں کے راستے ، کہیں سرسبز میدانی وسعتیں ہیں تو کہیں آسمان کو چُھوتے پہاڑی سلسلے ہیں ۔ لیکن یہ سب صرف ظاہری ارضیاتی خصوصیات ہیں ،مگر انسانی خصوصیات میں فطرت نے بر صغیر بالخصوص وادی ِ سندھ (موجودہ پورے پاکستان ) کو دیگر دنیا سے جو منفرد خصوصیت بخشی ہے تووہ ہے علم و آگہی ۔ جس کی بناء پریہ وادی ''تہذیبوں کی ماں تہذیب'' کا درجہ رکھتی تھی ۔وہ سندھ جو صدیوں سے اس علم کے ہتھیار کے بل پر اپنے وجود کو زندہ اوراپنی بقا کومحفوظ رکھتی آئی ہے ۔
کبھی چندر گپت موریا ، جے درتھ (مہابھارت کا ایک ناقابل ِ تسخیرسندھی رہنما )اور کنگ پریسٹ (دنیا میں پہلے پہیے wheel- کے موجد موہن جو دڑو کے مُکھی یا راجا )سے شاہ عبداللطیف بھٹائی اور سچل سرمست بن کر تو کبھی قائد اعظم سے قائد عوام تک مختلف صورتوں میں دنیا کی رہنمائی کرتی رہی ہے ۔ لیکن اُسی سندھ نے جب سے علم کو وقت گذاری اور ملازمت حاصل کرنے کے لیے سَندحاصل کرنے تک محدود کرلیا ، تب سے سندھ پستی کی گہرائیوں کی جانب بڑھتا ہی جارہا ہے ۔
کبھی علم و تدریس کی یہ صورتحال تھی کہ صرف ٹھٹہ شہر میں 500کے قریب مدارس تھے ،جہاںسے ایک طرف ہاشم ٹھٹوی ، معین ٹھٹوی ، ابوالقاسم نقشبندی و شاہ مراد شیرازی جیسے جید عالم پید اہوئے تو دوسری طرف جام نظام الدین سموں جیسے زاہد ، سخی و عادل حکمران پیدا ہوئے ،اور تو اور سوشلزم کا اولین موجد شاہ عنایت شہید بھی یہیں سے پیدا ہوا ۔
ماضی قریب پر نظر ڈالنے سے پتا چلتا ہے کہ قیام ِ پاکستان کے وقت پانچوں صوبوں کے پاس بھی اپنی اپنی خصوصیات تھیں ۔ پنجاب کے پاس فوجی افرادی قوت تھی ، کے پی کے کے پاس محنت کش افرادی قوت تھی ، بلوچستان کے پاس جنگجو فطرت کے باغیور قبائل تھے، تو سندھ و بنگال (موجودہ بنگلادیش) اپنے علم اور ہنر و تجارتی مہارتوں کی بناء پر رہنمائی کا عَلم تھامے ہوئے تھے ۔ لیکن بعد کے حالات نے پاکستان میں ایک مقامی سام راجی سوچ کو جنم دیا ، جس نے اپنے گروہی مفادات کے لیے پاکستان کی ان خصوصیات کا شیرازہ بکھیر دیا ۔
سندھ کو تباہ و برباد کرنے کے لیے کثیر الجہتی کام کیے گئے ۔ جن میں یہاں کی تعلیم کو تباہ کرنے کی سازش بھی شامل ہے ۔ اس تباہی کی بنیاد 70کے عشرے میں نقل کے کلچر کو فروغ دینے سے رکھی گئی ، پھر تعلیمی اداروں میں سیاسی و مذہبی تنظیموں اور قانون نافذ کرنیوالے اداروں کی موجودگی کو بڑھاوا دیا گیا ، اساتذہ و ملازمین کی یونین بنانے کی تو آزادی رکھی گئی مگر طلبہ یونین پر پابندی عائد کی گئی ۔ اس کا نتیجہ ہے کہ آج سندھ کے معیار ِ تعلیم کی شرح بلوچستان جیسے پس ماندہ صوبہ سے بھی کم ہو کر رہ گئی ہے ۔
امتحانات نوٹس بنانے کے مقابلے کا منظر پیش کرتے ہیں تو امتحانی مراکزمیں گھمسان ایسا کہ مچھی مارکیٹ محسوس ہوتے ہیں ۔ بورڈ سے سینٹر لگوانے کے لیے رشوت دینے سے شروع ہونے والا یہ گھناؤنا کام دوران ِ امتحان مختلف جگہوں پر پیپر حل مراکز قائم کرنے تک جاتا ہے ۔ جہاں ماہرین کی موجودگی میں طلبہ کے والدین و دیگر کرائے کے افراد Answerکاپیاں لکھتے ہیں اور پرچہ حل ہوجانے کے بعد وہ Answerکاپی سینٹر میں موجود بچوں کی کاپیوں سے تبدیل کرکے Invegilatorکے پاس جمع کرائی جاتی ہے ۔
اس سارے مرحلے کو بزنس کا درجہ دیکر نرخ طے کیے جاتے ہیں ۔ اس بزنس کا پہیہ سینٹر لگوانے ، سینٹر میں من پسند اساتذہ کا ڈیوٹی کے لیے انتخاب ، سے گھومنا شروع کرتا ہے تومختلف مراحل سے ہوتا ہوا نتیجہ ظاہر ہونے تک گھومتا ہی رہتا ہے۔
جن میں کچھ اہم مراحل یہ ہیں: نقل یعنی کاپی (Cheating) کی اجازت دینے والے انٹرنل اور ایکسٹرنل عملے کی تقرری ، باہر سے نوٹس لاکر کھڑکیوں سے طلباء کو فراہم کرنے والے رضاکاروں کی دستیابی ، پیپر حل کرنے والے ماہرین ِ مضمون اور جگہ کا انتظام کرنا ، Answerکاپیوں کی اضافی تعداد میں دستیابی ،دفعہ 144نافذ ہونے کے باوجود فوٹو اسٹیٹ کھلا رکھنے کی یقین دہانی یا پھر متبادل مقامات (جن میں سرکاری دفاتر کی فوٹو اسٹیٹ مشین بھی استعمال ہوتی ہیں ) کا بندوبست کرنا ، سوالنامہ پیپرآؤٹ کراکے وقت سے پہلے میسر کرنے کا ذمے ، Answerکاپیاں تبدیل کرنے کی گارنٹی ، امیدواران کی جگہ دوسرے افراد کو بٹھانے کا بندوبست ، چھاپہ مار ٹیموں کی پہلے سے اطلاع دینا اور پھر اس سے بچاؤ کی تدابیر کرنا ، پھر پیپر چیک کرنے والے اساتذہ تک رسائی اور مارکس دلوانے کا ذمے ،حتی ٰ کہ بورڈکے حتمی فہرستوں میں تبدیلی وغیرہ وغیرہ ۔ ان سب سے بڑی رقوم بٹورنے والے لوگوں نے اسے منافع بخش کاروبار بنالیا ہے اور اُسے چلانے والے ،بلڈر مافیا اور منشیات مافیا کی طرح ایک نقل مافیا کا روپ دھار چکے ہیں۔ حالانکہ صوبائی وزیر تعلیم اور سیکریٹری تعلیم نے دوران ِ امتحانات اچانک دوروں اور چھاپوں کا سلسلہ جاری رکھا ۔ جن کے دوران حیدرآباد و سکھر بورڈز کے کنٹرولرز کو معطل کیا گیا ۔300سے زائد کاپی کیس اور 25کے قریب متبادل امیدواران پکڑنے کے دعوے کیے گئے لیکن اس کے باوجود یہ سب بے سود ثابت ہوا ، کیونکہ امتحانی مراکز میں بڑے پیمانے پر موبائل فون کے استعمال ، گائیڈ و کُتب اور نوٹس کے ذریعے نقل کرنے اور کرانے کی رپورٹس یہاں کے تعلیمی نظام کی پست حالی کا واشگاف اظہار ہے ۔
تعلیم کو ایک منافع بخش کاروبار بنانے اور سمجھنے کی اس سوچ نے ملکی تعلیمی نظام کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیا ہے ۔ اب اس سازش کے خالق سام راج کو کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ یہ کام اب یہاں کے ماحول میں رچ بس گیا ہے ۔ جسے ختم کرنے کے لیے بہت ہی طویل و سخت حکمت ِ عملی کی ضرورت ہوگی، اب یہ معمول کے احتیاطی اقدامات سے قابو پانے جیسا کام نہیں رہا ۔ جہاں تعلیم کی تباہی کی تمام سابقہ حکومتیں ذمے دار ہیں، وہاں موجودہ صوبائی حکومت نے تو تعلیم کے شعبے میں ایمرجنسی لاگو کرنے کے اعلان کے بعد کوئی عمومی سطح کی کارروائی بھی بجا طور پر نہ کرکے تعلیم کا مذاق بنا کر رکھ دیا ہے ۔
ایک طرف تعلیم کے وزیر صوبہ میں تعلیم کو بہتر بنانے اور مادری زبان میں تعلیم کی فراہمی کے لیے سرگرم ہیں تو دوسری طرف اُس کے اپنے ہی محکمہ کے ملازمین بجٹ ہڑپ کرنے اور گھوسٹ اساتذہ سے ماہانہ رشوت لے کر تعلیم کو تباہی کی طرف تیزی سے دھکیلنے میں مصروف ہیں ۔ اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ بڑی باتیں کرنے کے بجائے عملی طور پر موجود قوانین کو سختی سے نافذ کیا جائے اور ان پر سب کو کاربند کیا جائے ۔
اس سال میٹرک کے امتحانات دو مرتبہ مؤخر ہوئے ، جس کی وجہ اساتذہ کی جانب سے ہڑتال اور سرکاری سطح پر نقل کو روکنے کے لیے مؤثر انتظامات کرنا بتایا گیا لیکن یکم اپریل سے امتحانات شروع ہوتے ہی دفعہ 144اور نقل کی روک تھام کے حکومتی دعووں کی قلعی کھل گئی تو اساتذہ کی ہڑتال و احتجاجی لاقانونیتکی پول بھی کھل کر سامنے آگئی ہے ۔ نجی اسکولوں میں 10ہزار تنخواہ پر کام کرنیوالے اساتذہ بڑی جفا کشی کے ساتھ کلاس لینے ، نوٹس بنانے ، کاپیاں چیک کرنے سے لے کر یومیہ ، ہفتہ وار اور ماہانہ رپورٹس بھی بناتے ہیں تو اسکول کی تدریسی و غیر تدریسی سرگرمیوں ، امتحانات کے انعقاد اور دیگر انتظامی اُمور کے فرائض بھی سرانجام دیتے نظر آتے ہیں، لیکن سرکاری اسکولوں کے اساتذہ 80ہزارسے لاکھ روپے جیسی بھاری تنخواہ لے کر بھی صرف کلاس بھی درست طریقے سے نہیں لیتے ۔
یہ اساتذہ سرکار کی معرفت عوام کے پیسوں سے ہی تنخواہ لیتے ہیں لیکن عوام کے بچوں کو پڑھانے کے لیے مقررہ اوقات کا تناسب تنخواہ کے مقابلے میں پورا نہیں رکھتے ۔ پھر عین امتحانات کے وقت اپنے ناجائز مطالبات کی آڑ میں احتجاج و امتحانات کے بائیکاٹ سے تمام معاشرے کو بلیک میل کرتے ہیں۔
میٹرک کے امتحانات طلباء کے کیریئر میں انتہائی اہمیت کا مرحلہ ہوتا ہے کیونکہ یہ ان کے مستقبل کا تعین کرتا ہے ۔ لیکن میٹرک میں حالیہ نقل کے کلچر کا عروج دیکھ کرمحسوس ہوا کہ نقل مافیا کس قدر مضبوط ہے ۔ نقل مافیا محنتی طلبہ کے حق پر ڈاکہ ڈال کر پیسے کی بنیاد پر نااہل افرادکو معاشرے کی باگ ڈور دینے میں پہلا زینہ پار کراتا ہے اورپھر انٹر میڈیٹ سے ہوکر ڈگری کے حصول اور ملازمت حاصل کرنے تک حق تلفی کا یہ سلسلہ جاری و ساری رہتا ہے ۔
نقل کی روک تھام کے لیے بالائی سطح پر حکومتی اقدامات ، وزیر اعلیٰ اور وزیر تعلیم کا اظہار برہمی اور کارروائیاں نیک نیتی پر مبنی ہونے کے باوجود کوئی مثبت بہتری نہ لاسکے ہیں تو اس کی وجہ محکمے میں موجود بڑے افسران سے لے کر زیریں سطح تک موجود بدعنوانی کا ماہر وہ عملہ ہے جو نقل مافیا ، گھوسٹ اساتذہ اور نجی اسکول مافیا کا سرپرست و سانجھی بنا ہوا ہے ۔ یہ عملداران محض چند روپوں کے لیے اپنا ایمان اور قوم کا مستقبل دونوں ہی بیچ دیتے ہیں ۔
نجی اسکول و نقل مافیا اور محکمہ تعلیم کی نااہلی کے باعث پیدا ہونیوالے اس نظام ِ تعلیم میں غریب کے بچوں کی اکثریت لکھ پڑھ کر کسی مقام پر پہنچنے سے قاصر رہتی ہے اور سماج میں معیاری تعلیم اور بہتر مواقع پر حق صرف اُن کا رہ جاتا ہے جن کے پاس قانونی یا غیر قانونی وسائل و دولت کے انبار ہوتے ہیں ۔تعلیم کی اس تباہی کو روکنے کے لیے ضروری ہے کہ صوبہ کے تعلیمی نظام میں غیر معمولی تبدیلیاں لائی جائیں ۔ سرکاری نظام ِ تعلیم کو ہنگامی بنیادوں پر بحال و فعال کرکے اُسے جدید دور کی تقاضاؤں کے مطابق کیا جائے ۔
جب کہ ماضی کی گولڈن ہینڈ شیک اسکیم کی طرز پر موجود اساتذہ کو ریٹائرڈ ہونے کا موقع دیا جائے اور پھر باقی رہ جانے والے تمام اساتذہ کے لیے مسابقتی ٹیسٹ پاس کرنا لازمی ٹھہرایا جائے اور اُس ٹیسٹ میں کامیاب ہونے والے اساتذہ کی پیشہ وارانہ ٹریننگ کا بھی وقتاً فوقتاً بندوبست کیا جائے ۔ جب کہ ناکام ہونیوالے اساتذہ کو جبری ریٹائرڈ کردینا چاہیے ۔ اور نئے اساتذہ کی بھرتی کے لیے IBAطرز کے سخت مسابقتی ٹیسٹ کو عائدکیا جانا چاہیے ۔ ساتھ ہی موجودہ نجی اسکولوں کو بھی معیار ِ تعلیم کے لیے مقرر کردہ تعلیمی ماحول و سہولیات سے ہم آہنگ کرنے کو یقینی بنانے والے قانونی دائرہ کار میں لانا چاہیے۔
ظاہر ہے ان اقدامات کی بناء پر صوبہ میں سرکاری اساتذہ اور نجی اسکولوں کی انتظامیہ کی طرف سے اعتراضات و شور برپا ہوگا ۔ لیکن یہ حکومت ِ وقت کی استعداد اور اہلیت پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ ان سے کیسے نبرد ِ آزما ہوتی ہے کیونکہ حقیقی تعلیمی ایمرجنسی کا یہی مطلب ہوتا ہے کہ مسائل ہر حال میں حل کرکے معیار کو بہتر بنانے کے لیے انتہائی سخت انتظامات کرنے پڑتے ہیں اور ایسے عارضی بھونچال و شور اور پریشر سے نپٹنا ہی پڑتا ہے ۔ ویسے بھی یہیں سے حکومتی تدبر ، حکمت عملی اور رٹ کا پتا چلتا ہے ، ورنہ اگر حکومت یونہی مافیاؤں کے سامنے جھکتی رہے تو وہ عوام کے مفادات کی نگران عوامی جمہوری طاقت سے قائم حکومت نہیں رہتی بلکہ پتلی تماشہ کے دھاگوں سے بندھے کپڑے کے گڈوں کا مجموعہ ہوتی ہے ۔