’’کراچی کہیں جسے‘‘
جہاں دلیل اور محبت کا مقام آئے بات کا رُخ فوراً کسی اور طرف موڑ دیا جاتا ہے۔
ISLAMABAD:
کراچی کے ساتھ یادوں کا سلسلہ اس قدر طویل ہے کہ اب اس کا ابتدائی زمانہ یاد کرنے میں بھی دِقت ہوتی ہے۔ میری عمر اس وقت کوئی نو یا دس برس کی ہو گی۔ میرے بڑے ماموں محمد اسلم نیشنل ٹائر بنانے والی کمپنی میں ملازمت کرتے تھے اور اُن دنوں ان کی پوسٹنگ کراچی میں تھی۔ ان کے پاس ایک دو کمروں کا کوارٹر نما سا گھر تھا اور گلی کے کنارے پر ایک چائے خانہ کا ہوٹل تھا جس کی مالکن اور مینیجر ایک بہت شفیق خاتون تھی جسے سب لوگ خالہ ہوٹل والی کہہ کر پکارتے تھے۔ اس علاقے کا نام غالباً پیر الٰہی بخش کالونی تھا۔
دوسری یاد رہ جانے والی یہ ہے کہ وہاں دُور دُور تک سبزے کا نام و نشان نہیں تھا کوئی پندرہ بیس برس بعد دوبارہ جانا ہوا تو نہ صرف شہر بہت بڑا ہو چکا تھا بلکہ اب کہیں کہیں سبزہ بھی آنے لگا تھا اور وہاں ایک ایسا کلچر جنم لے چکا تھا جس میں پاکستان کے ہر علاقے کی نمائندگی ہو رہی تھی اور لوگوں کا عمومی مزاج بہت دوستانہ ہونے کے ساتھ ساتھ ہر طرح کے تعصب سے پاک تھا۔
رزق کے مواقع کی فراوانی کے باعث ہر طرف سے لوگ آ آکر یہاں آباد ہو رہے تھے اور محنت کر کے اپنے اپنے حصے کا رزق کھا رہے تھے اور رات کے دو بجے بھی شہر آباد اور محفوظ نظر آتا تھا۔ تب سے اب تک اس کی آبادی سبزے اور جغرافیائی حدود میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے لیکن دلوں کی کشادگی بوجوہ پہلے سے کم ہوتی جا رہی تھی۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ گزشتہ کچھ عرصے سے نہ صرف اس کے امن و امان کی صورتِ حال بہتر ہوئی ہے بلکہ روّیوں میں بھی ایک مثبت تبدیلی دیکھنے میں آ رہی ہے۔
کچھ دن قبل مجھے ایک سندھی ٹوپی میلے میں وہاں کی نوجوان نسل نے دی اور بالخصوص سندھی نوجوانوں سے ملنے کا موقع ملا اور میں وہاں سے بہت خوشگوار تاثر کے ساتھ واپس آیا کہ مجھے ایک بار پھر سے اس کشادہ قلب، وسیع نظر، غریب پرور اور انصاف پسندکراچی کی جھلک نظر آئی جو گزشتہ تقریباً تین دہائیوں سے اپنی تہذیبی شناخت سے دور ہوتا جا رہا تھا۔ گزشتہ ہفتے کی رات الخدمت فائونڈیشن پاکستان کی کراچی شاخ کے ایک فنڈ ریزر میں اس خوشگوار تبدیلی کی مہک تو ایسی تھی جس سے اب تک جسم و جان مہکے ہوئے ہیں۔
ایک گھنٹے سے بھی کم وقت میں کراچی کے انسان دوست شہریوں نے اللہ کی خوشنودی اور انسانوں کی خدمت کے لیے کھڑے کھڑے سات کروڑ سے زیادہ کے عطیات بہم کر دیئے۔ افتخار عارف، ڈاکٹرپیرزادہ قاسم اور مجھے اس پروگرام میں کلام سنانے کے لیے مدعو کیا گیا۔ پروگرام کے آغاز سے قبل الخدمت پاکستان کے صدر برادرم میاں عبدالشکور میرے کمرے میں تشریف لائے تو باتوں باتوں میں میں نے اپنے بارے میں ڈاکٹر سید تقی عابدی کی لکھی ہوئی کتاب ''امجد فہمی'' کا ایک نسخہ ان کو پیش کیا کہ اسے پروگرام میں میری طرف سے نیلامی کے لیے رکھ دیجیے گا اور جو رقم اس سے حاصل ہو اُسے میری طرف سے عطیہ سمجھ کر قبول کر لیجیے گا۔
میں اپنے دستخطوں سے یہ کتاب خریدنے والے کا نام لکھ کر انھیں پیش کر دوں گا۔ میرا اندازہ تھا کہ اس طرح پچاس ہزار سے لے کر ایک لاکھ تک کی آفر آ جائے گی لیکن حیرت اور خوشی کی بات یہ ہوئی کہ پہلی بولی ہی ایک لاکھ کی لگی ایک اور صاحب نے ایک لاکھ ایکاون ہزار کی آواز لگائی جب کہ آخری بولی دو لاکھ تک پہنچ گئی۔
لطف کی بات یہ ہے کہ عملی طور پر تو کتاب صرف آخری بولی والے محترم کو ہی ملی لیکن بقیہ دونوں حضرات نے اعلان کر دیا کہ وہ کتاب نہ ملنے کے باوجود بھی اپنی اعلان کردہ رقم اس کے حواے سے بطور عطیہ پیش کر رہے ہیں۔ اگرچہ میں نے بعد میں برادرم اجمل سراج کی معرفت ان کو بھی کتابیں بھجوا دیں مگر ان کی اس جذبہ محبت نے نہ صرف میرا دل جیت لیا بلکہ میرے اس ایمان کو بھی تقویت دی کہ ہمارے معاشرے میں اچھے لوگوں کی کمی نہ پہلے تھی اور نہ اب ہے ۔
اگلے روز صبح مجھے Getz Pharma والوں نے ایک ایسی خصوصی تقریب میں مدعو کر رکھا تھا جس میں صرف مجھے اپنی شاعری سنانا تھی۔ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ فارماسیوٹیکل انڈسٹری سے متعلق کمپنیاں ڈاکٹر حضرات سے اپنے تعلقات کو وسیع اور مضبوط کرنے کے لیے ڈانسرز، ڈانس گانے کی پارٹیاں یا غیر ملکی تفریحی دوروں کا اہتمام کرتی ہیں اور شعر وا دب، فنونِ لطیفہ یا تہذیب، اخلاقیات اور جمالیات سے اُن کا تعلق نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے لیکن فارم ایوو کے بعد گیٹز فارما والوں نے اس روائت کی ابتدا کرکے ایک ایسا احسن قدم اٹھایا ہے جس کی جتنی بھی تعریف کی جائے وہ کم ہے کہ اس وقت نئی اور پرانی نسل کے درمیان پُل تعمیر کرنے کی اشد ضرورت ہے اور بلاشبہ شعر و ادب کی بنیاد پر تعمیر کیا جا نے والا پُل وقت کے اس دریا کے دونوں کناروں کو ملانے کے لیے بروقت بھی ہے اور بہترین بھی۔
محفل کے حاضرین اور منتظمین سب کے سب کا بنیادی تعلق میڈیکل سائنس سے تھا جو انھیں ایک اچھا اور کامیاب پروفیشنل تو بنا سکتی ہے مگر ایک متوازن اور معقول انسان بننے کے لیے شعر و ادب اور سوشل سائنسز کے رول سے بھی انکار ممکن نہیں۔ اس محفل کے حاضرین نے جب توجہ اور محبت سے شاعری سنی اور اپنی پسندیدگی کا اظہار کیا اور یہاں صَرف کیے گئے وقت کو اپنی زندگی کے بہترین کوالٹی ٹائم کا حصہ بنایا وہ بہت ہی خوش کن تجربہ تھا اس سے قطع نظر کہ یہ محفل میرے لیے ترتیب دی گئی تھی اس کی اصل خصوصیت یہ ہے کہ اس کے توسط سے ہمارے معاشرے کے کامیاب اور لائق انسانوں کو اخلاق ، رزق اور رُوح کی تشکیل اور فروغ کا ایک ایسا موقع مہیا کیا گیا جس کا تسلسل ہماری تاریخ اور تہذیب کے اُس اضافی بوجھ کو بہت حد تک کم کر سکتا ہے جسے ہم خواہ مخواہ ہی اُٹھائے پھر رہے ہیں ۔
عرفان اویس سے میری دوستی اور محبت کا دورانیہ تو کوئی بہت زیادہ نہیں مگر اپنی اپنائیت اور باہمی محبت کی شدّت کی وجہ سے وہ میرے نوجوان دوستوں میں سب سے آگے ہے۔ وہ جتنا اچھا سرکاری افسر ہے اتنا ہی اچھا لکھاری اور صاحبِ مطالعہ آدمی ہے۔ اس بار بھی اُس نے رات کے کھانے پر میرے لیے ایک عظیم محفل دوستاں کا اہتمام کر رکھا تھا۔ میں ہوٹل سے برادرم اشرف شاہین کے گھر منتقل ہوگیا تھا کہ اس سے دل کی باتیں کیے اور محفل جمائے بہت عرصہ ہوگیا تھا۔ سو گھر میں گپ شب کے بعد اُس کی پسندیدہ کریک کلب میں کافی دی گئی اور پھر بار بی کیو ٹو نائٹ میں کھانے کے دوران گفتگو کا ایک ایسا سلسلہ چلا جس میں کسی موضوع کو اپنی شکل واضح کرنے کی سہولت نہیں مل سکی۔ تو بے تکلف دوستوں کی محفل کی ایک پہچان یہ بھی ہوتی ہے کہ جہاں دلیل اور محبت کا مقام آئے بات کا رُخ فوراً کسی اور طرف موڑ دیا جاتا ہے۔
چار دنوں میں لاہور، دبئی، کراچی اور کراچی لاہور کے سفر نے تھکایا تو یقیناً مگر تین اچھی تقریبات اور دوستوں سے ملاقات کے لطف نے جسمانی تھکن کو اظہار کا موقع ہی نہیں دیا۔ اس حوالے سے ایک پرانی غزل کا سدا تارہ رہنے والا شعر یاد آ رہا ہے کہ:
نشاطِ وصل کا لمحہ عجیب لمحہ تھا
کہاں رہا ہوں میں اتنے برس، نہیں معلوم!
کراچی کے ساتھ یادوں کا سلسلہ اس قدر طویل ہے کہ اب اس کا ابتدائی زمانہ یاد کرنے میں بھی دِقت ہوتی ہے۔ میری عمر اس وقت کوئی نو یا دس برس کی ہو گی۔ میرے بڑے ماموں محمد اسلم نیشنل ٹائر بنانے والی کمپنی میں ملازمت کرتے تھے اور اُن دنوں ان کی پوسٹنگ کراچی میں تھی۔ ان کے پاس ایک دو کمروں کا کوارٹر نما سا گھر تھا اور گلی کے کنارے پر ایک چائے خانہ کا ہوٹل تھا جس کی مالکن اور مینیجر ایک بہت شفیق خاتون تھی جسے سب لوگ خالہ ہوٹل والی کہہ کر پکارتے تھے۔ اس علاقے کا نام غالباً پیر الٰہی بخش کالونی تھا۔
دوسری یاد رہ جانے والی یہ ہے کہ وہاں دُور دُور تک سبزے کا نام و نشان نہیں تھا کوئی پندرہ بیس برس بعد دوبارہ جانا ہوا تو نہ صرف شہر بہت بڑا ہو چکا تھا بلکہ اب کہیں کہیں سبزہ بھی آنے لگا تھا اور وہاں ایک ایسا کلچر جنم لے چکا تھا جس میں پاکستان کے ہر علاقے کی نمائندگی ہو رہی تھی اور لوگوں کا عمومی مزاج بہت دوستانہ ہونے کے ساتھ ساتھ ہر طرح کے تعصب سے پاک تھا۔
رزق کے مواقع کی فراوانی کے باعث ہر طرف سے لوگ آ آکر یہاں آباد ہو رہے تھے اور محنت کر کے اپنے اپنے حصے کا رزق کھا رہے تھے اور رات کے دو بجے بھی شہر آباد اور محفوظ نظر آتا تھا۔ تب سے اب تک اس کی آبادی سبزے اور جغرافیائی حدود میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے لیکن دلوں کی کشادگی بوجوہ پہلے سے کم ہوتی جا رہی تھی۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ گزشتہ کچھ عرصے سے نہ صرف اس کے امن و امان کی صورتِ حال بہتر ہوئی ہے بلکہ روّیوں میں بھی ایک مثبت تبدیلی دیکھنے میں آ رہی ہے۔
کچھ دن قبل مجھے ایک سندھی ٹوپی میلے میں وہاں کی نوجوان نسل نے دی اور بالخصوص سندھی نوجوانوں سے ملنے کا موقع ملا اور میں وہاں سے بہت خوشگوار تاثر کے ساتھ واپس آیا کہ مجھے ایک بار پھر سے اس کشادہ قلب، وسیع نظر، غریب پرور اور انصاف پسندکراچی کی جھلک نظر آئی جو گزشتہ تقریباً تین دہائیوں سے اپنی تہذیبی شناخت سے دور ہوتا جا رہا تھا۔ گزشتہ ہفتے کی رات الخدمت فائونڈیشن پاکستان کی کراچی شاخ کے ایک فنڈ ریزر میں اس خوشگوار تبدیلی کی مہک تو ایسی تھی جس سے اب تک جسم و جان مہکے ہوئے ہیں۔
ایک گھنٹے سے بھی کم وقت میں کراچی کے انسان دوست شہریوں نے اللہ کی خوشنودی اور انسانوں کی خدمت کے لیے کھڑے کھڑے سات کروڑ سے زیادہ کے عطیات بہم کر دیئے۔ افتخار عارف، ڈاکٹرپیرزادہ قاسم اور مجھے اس پروگرام میں کلام سنانے کے لیے مدعو کیا گیا۔ پروگرام کے آغاز سے قبل الخدمت پاکستان کے صدر برادرم میاں عبدالشکور میرے کمرے میں تشریف لائے تو باتوں باتوں میں میں نے اپنے بارے میں ڈاکٹر سید تقی عابدی کی لکھی ہوئی کتاب ''امجد فہمی'' کا ایک نسخہ ان کو پیش کیا کہ اسے پروگرام میں میری طرف سے نیلامی کے لیے رکھ دیجیے گا اور جو رقم اس سے حاصل ہو اُسے میری طرف سے عطیہ سمجھ کر قبول کر لیجیے گا۔
میں اپنے دستخطوں سے یہ کتاب خریدنے والے کا نام لکھ کر انھیں پیش کر دوں گا۔ میرا اندازہ تھا کہ اس طرح پچاس ہزار سے لے کر ایک لاکھ تک کی آفر آ جائے گی لیکن حیرت اور خوشی کی بات یہ ہوئی کہ پہلی بولی ہی ایک لاکھ کی لگی ایک اور صاحب نے ایک لاکھ ایکاون ہزار کی آواز لگائی جب کہ آخری بولی دو لاکھ تک پہنچ گئی۔
لطف کی بات یہ ہے کہ عملی طور پر تو کتاب صرف آخری بولی والے محترم کو ہی ملی لیکن بقیہ دونوں حضرات نے اعلان کر دیا کہ وہ کتاب نہ ملنے کے باوجود بھی اپنی اعلان کردہ رقم اس کے حواے سے بطور عطیہ پیش کر رہے ہیں۔ اگرچہ میں نے بعد میں برادرم اجمل سراج کی معرفت ان کو بھی کتابیں بھجوا دیں مگر ان کی اس جذبہ محبت نے نہ صرف میرا دل جیت لیا بلکہ میرے اس ایمان کو بھی تقویت دی کہ ہمارے معاشرے میں اچھے لوگوں کی کمی نہ پہلے تھی اور نہ اب ہے ۔
اگلے روز صبح مجھے Getz Pharma والوں نے ایک ایسی خصوصی تقریب میں مدعو کر رکھا تھا جس میں صرف مجھے اپنی شاعری سنانا تھی۔ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ فارماسیوٹیکل انڈسٹری سے متعلق کمپنیاں ڈاکٹر حضرات سے اپنے تعلقات کو وسیع اور مضبوط کرنے کے لیے ڈانسرز، ڈانس گانے کی پارٹیاں یا غیر ملکی تفریحی دوروں کا اہتمام کرتی ہیں اور شعر وا دب، فنونِ لطیفہ یا تہذیب، اخلاقیات اور جمالیات سے اُن کا تعلق نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے لیکن فارم ایوو کے بعد گیٹز فارما والوں نے اس روائت کی ابتدا کرکے ایک ایسا احسن قدم اٹھایا ہے جس کی جتنی بھی تعریف کی جائے وہ کم ہے کہ اس وقت نئی اور پرانی نسل کے درمیان پُل تعمیر کرنے کی اشد ضرورت ہے اور بلاشبہ شعر و ادب کی بنیاد پر تعمیر کیا جا نے والا پُل وقت کے اس دریا کے دونوں کناروں کو ملانے کے لیے بروقت بھی ہے اور بہترین بھی۔
محفل کے حاضرین اور منتظمین سب کے سب کا بنیادی تعلق میڈیکل سائنس سے تھا جو انھیں ایک اچھا اور کامیاب پروفیشنل تو بنا سکتی ہے مگر ایک متوازن اور معقول انسان بننے کے لیے شعر و ادب اور سوشل سائنسز کے رول سے بھی انکار ممکن نہیں۔ اس محفل کے حاضرین نے جب توجہ اور محبت سے شاعری سنی اور اپنی پسندیدگی کا اظہار کیا اور یہاں صَرف کیے گئے وقت کو اپنی زندگی کے بہترین کوالٹی ٹائم کا حصہ بنایا وہ بہت ہی خوش کن تجربہ تھا اس سے قطع نظر کہ یہ محفل میرے لیے ترتیب دی گئی تھی اس کی اصل خصوصیت یہ ہے کہ اس کے توسط سے ہمارے معاشرے کے کامیاب اور لائق انسانوں کو اخلاق ، رزق اور رُوح کی تشکیل اور فروغ کا ایک ایسا موقع مہیا کیا گیا جس کا تسلسل ہماری تاریخ اور تہذیب کے اُس اضافی بوجھ کو بہت حد تک کم کر سکتا ہے جسے ہم خواہ مخواہ ہی اُٹھائے پھر رہے ہیں ۔
عرفان اویس سے میری دوستی اور محبت کا دورانیہ تو کوئی بہت زیادہ نہیں مگر اپنی اپنائیت اور باہمی محبت کی شدّت کی وجہ سے وہ میرے نوجوان دوستوں میں سب سے آگے ہے۔ وہ جتنا اچھا سرکاری افسر ہے اتنا ہی اچھا لکھاری اور صاحبِ مطالعہ آدمی ہے۔ اس بار بھی اُس نے رات کے کھانے پر میرے لیے ایک عظیم محفل دوستاں کا اہتمام کر رکھا تھا۔ میں ہوٹل سے برادرم اشرف شاہین کے گھر منتقل ہوگیا تھا کہ اس سے دل کی باتیں کیے اور محفل جمائے بہت عرصہ ہوگیا تھا۔ سو گھر میں گپ شب کے بعد اُس کی پسندیدہ کریک کلب میں کافی دی گئی اور پھر بار بی کیو ٹو نائٹ میں کھانے کے دوران گفتگو کا ایک ایسا سلسلہ چلا جس میں کسی موضوع کو اپنی شکل واضح کرنے کی سہولت نہیں مل سکی۔ تو بے تکلف دوستوں کی محفل کی ایک پہچان یہ بھی ہوتی ہے کہ جہاں دلیل اور محبت کا مقام آئے بات کا رُخ فوراً کسی اور طرف موڑ دیا جاتا ہے۔
چار دنوں میں لاہور، دبئی، کراچی اور کراچی لاہور کے سفر نے تھکایا تو یقیناً مگر تین اچھی تقریبات اور دوستوں سے ملاقات کے لطف نے جسمانی تھکن کو اظہار کا موقع ہی نہیں دیا۔ اس حوالے سے ایک پرانی غزل کا سدا تارہ رہنے والا شعر یاد آ رہا ہے کہ:
نشاطِ وصل کا لمحہ عجیب لمحہ تھا
کہاں رہا ہوں میں اتنے برس، نہیں معلوم!