ہماری بقاء احتساب میں ہے

کل کے حکمرانوں کے فیصلے آج ہو رہے ہیں اور آج کے حکمرانوں کے فیصلے کل ہوں گے۔


Abdul Qadir Hassan April 07, 2019
[email protected]

میرا خیال ہے کہ ہم لوگ اتنے بڑے ہر گز نہیں کہ انسانوں پر حکمرانی جیسے بڑے کام کے اہل ثابت ہو سکیں۔ حکمرانوں میں جس قلبی وسعت ، فیاضی اور خیر خواہی کی ضرورت ہوتی ہے وہ میں نے پاکستان کے کسی حکمران میں نہیں دیکھی یا بہت کم دیکھی ہے۔

ہم میں سے کوئی جب حکمرانی سے سرفراز ہوتا ہے تو وہ ایک بات فی الفور بھول جاتا ہے کہ کسی دن اسے اس منصب سے الگ بھی ہونا پڑے گا۔ جو کوئی بھی آتا ہے وہ تاحیات یا تا وفات حکمران بن کر آتا ہے ۔ شاید اسی لیے وہ اپنے اقتدار کے دور میں وہ سب کچھ روا رکھتا ہے جو کسی حکمران کو تو کیا کسی عام آدمی کو بھی نہیں کرنا چاہیے ۔

پاکستان میں اس کارروائی کا اظہار سب سے پہلے قومی امانتوں میں خیانت سے شروع ہوتا ہے اور جلد از جلد زیادہ سے زیادہ مال و دولت جمع کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کیونکہ دل کے اندر یہ خوف چھپا ہوتا ہے کہ اگرچہ اقتدار دائمی نہیں تو طویل ضرور ہے لیکن پھر بھی کیا پتہ کوئی حادثہ ہو جائے۔ اس لیے اقتدار کی مہلت سے جلد از جلد فائدہ اٹھائو اور مشکل وقت کے لیے کچھ جمع کر لو۔ ہمارے حکمران اپنے مشکل وقت کا اندازہ پہلے ہی کر لیتے ہیں اور اس مشکل وقت کے لیے بیرون ملک ایک خطیر رقم بھی جمع کر لیتے ہیں تا کہ مشکل وقت میں کام آئے ۔

ان کی یہ جمع پونجی اب لاکھوں میں نہیں ہوتی بلکہ کروڑوں میں ہوتی ہے اور وہ کروڑ بھی غیر ملکی کرنسی کی شکل میں ہوتے ہیں کیونکہ زمانہ بدل گیا ہے اور بدلے ہوئے زمانے میں مشکل وقت کے لیے ہمارے بڑے لوگوں کو کروڑوں کی ضرورت پڑتی ہے ۔ انھی کروڑوں کی ضرورتوں کے نتیجے میں ملک دیوالیہ ہو چکا ہے اور ہمارے بڑے لوگوں کی جمع کی گئی یہ دولت ان کے لیے سانپ بن گئی ہے جو ان کو ڈس رہا ہے اور وہ اپنے ہی ملک میں اپنے ووٹروں کے سامنے احتساب کے شکنجے میں جکڑے جا رہے ہیں ۔ عام پاکستانی کی زندگی بدتر ہو چکی ہے اور وہ اس جینے کے ہاتھوں مرتا چلا جا رہا ہے۔

کسی دانا نے کہا تھا کہ عوام الناس حکمرانوں کے طور اطوار اور عادات اختیار کر لیتے ہیں۔ (الناس علی دین ملوکہم) ہمارا وطن عزیز اس کی بہترین مثال ہے ۔ یہاں وہ تما م خرابیاں گھر کر چکی ہیں جو ہمارے بڑے لوگوں اور حکمرانوں میں بدرجہ اتم رہی ہیں۔ جب کوئی حکمران ذاتی مفادات کے لیے دیوانہ ہو جائے تو ا س میں وسیع القلبی اور فیاضی کہاں آسکتی ہے یہ تو ان حکمرانوں کا وصف ہے جو عوام کے لیے جیتے ہیں اور ان کی فلاح و بہبود کے لیے حکومت کرتے ہیں اور یہ کوئی کتابی یا افسانوی بات نہیں ہے ۔

آج جو قومیں باعزت زندگی بسر کر رہی ہیں ان کے حکمران اپنے سے بھی پہلے یا اپنے ساتھ ساتھ عوام کا بھی اپنے جتنا خیال رکھتے ہیں مگر ہمارے ہاں جو بھی آتا ہے وہ آتے ہی لوٹ مار میں لگ جاتا ہے اور جب اقتدار سے الگ ہونے یا کیے جانے کے بعد نئے حکمران اس پر ہاتھ ڈالتے ہیں تو وہ بے اندازہ چیخ و پکار کرتا ہے جیسے کسی پر ظلم ہو رہا ہو ۔ اس وقت وہ ایسی معصوم اور مظلوم صورت بناتا ہے اور ایسے ایسے عذر تراشتا ہے کہ اس جیسے دوسرے اقتدار سے محروم اس کی اس جعلی مظلومیت پر آنسو بہانے لگتے ہیں ۔ شاید اس لیے کہ انھیں خود بھی اسی انجام کا خطرہ لاحق ہوتا ہے اور آج تم کل ہماری باری ہے کا خطرہ ان کی آنکھوں کے سامنے گھومتا رہتا ہے۔

ان دنوں ہم سابق حکمرانوں کو اسی حال میں دیکھ رہے ہیں ان کے ساتھ منسلک لوگوں کا انکشاف ہو رہا ہے جنہوں نے ان بڑے لوگوں کے لیے اپنے مستقبل کو دائو پر لگا کر ان بڑے لوگوں کی آڑ میں کمائی کرنے کی کوشش کی لیکن جب احتساب کا شکنجہ کسا گیا تو ان بڑے لوگوں سے پہلے ان کے مصاحبین کی باری آگئی ہے اور انھوں نے اپنے آقائوں کے بارے میں احتسابی نمائندوں کو سب کچھ بیان کر دیا ہے ۔ ہمارے ملک میں دھیلوں کی کرپش نہیں کی گئی بلکہ تھیلوں کی کرپش کی گئی ۔ تھیلوں میں نوٹ بھر بھر کر بیرون ملک منتقل کیے گئے اور کروڑوں کے اثاثوں والے بڑے لوگ اربوں کے مالک بن گئے۔

ابھی کل کی بات ہے کہ ہمارے سابق وزیر اعلیٰ شہباز شریف کے صاحبزادے عزیزم حمزہ کے گھر پر نیب نے چھاپہ مار کر ان کو گرفتار کرنے کی کوشش کی جو ان کے حفاظت پر مامور عملے نے ناکام بنا دی یعنی کار سرکار میں مداخلت کرتے ہوئے عزیزم حمزہ شہباز کو وقتی طور پر گرفتاری سے بچا لیا گیا ۔ برخوردار حمزہ اپنے والد کے سیاسی جانشین ہیں اور انھوں نے سیاست کا آغاز نواز لیگ کے لاہور جیسے محفوظ سیاسی مقام سے کیا اور آج کل وہ پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کے عہدے پر براجمان ہیں جب کہ ان کے والد شہباز شریف قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف ہیں ۔

حمزہ شہباز نے ٹھنڈی چھائوں میں سیاست کا آغاز کیا اور اپنے والد کے زیر سایہ سیاسی تربیت سے گزرے ہیں اس لیے ان سے یہ توقع تھی کہ ان کا رویہ مکمل سیاسی ہونا چاہیئے تھا لیکن معلوم ہوتا ہے کہ ہمارا سیاسی سبق ہی غلط ہے، کوئی براہ راست حکمران بنے یا قدم بقدم یہاں تک پہنچے وہ حکمران بن جانے کے بعد وہی کچھ کرتا ہے جو پہلے حکمران کرتے آئے ہیں یعنی کم از کم وقت میں زیادہ سے زیادہ زر اندوزی۔ اس ضمن میں اگرچہ ایک سابق صدر کا مقابلہ تو نہیں کیا جا سکتا لیکن حسب توفیق کسی نے کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔

کل کے حکمرانوں کے فیصلے آج ہو رہے ہیں اور آج کے حکمرانوں کے فیصلے کل ہوں گے جب ان کے مخالف اقتدار میں آکر ان کے رجسٹروں کی پڑتال کریں گے ۔ جو وقت کل کے حکمرانوں پر آیا ہے وہ آج کے حکمرانوں پر بھی آسکتا ہے کیونکہ کسی کی کرسی اتنی مضبوط نہیں ہوتی کہ وہ حساب کتاب سے بچ نکلے ۔ دنوں کے اس پھیر سے سبق یہ ملتا ہے کہ یوم حساب ملتوی ہوتا رہا ہے لیکن اب چونکہ انتہا ہو چکی ہے اس لیے یا تو حساب ہو گا یا پھر یہ ملک اس لوٹ کھسوٹ کی نظر ہو جائے گا ۔ ہماری بقاء احتساب میں ہے ۔ قوم کی مردنی ختم کرنے کے لیے لازم ہے کہ قوم کے چوروں کا محاسبہ کر کے قوم کے اندر زندہ رہنے کی امنگ اور اعتماد پیدا کیا جائے ۔ آپ دیکھ لیں گے کہ یہ احتساب ضرور ہو گا اور یہ بھی پتہ چل جائے گا کہ کون یہ احتساب کر رہا ہے ۔ معاشی سرحدوں کی حفاظت کرنے والے یا کوئی اور...!

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں