اوپن کرنسی مارکیٹ میں ڈالر کی قدر 20 پیسے کم ہوگئی
مارکیٹ میں ڈالر کی طلب بھی 80فیصد سے گھٹ کر10فیصد تک محدود ہوگئی۔
اوپن کرنسی مارکیٹ میں ڈالر کی قدر 20 پیسے کی کمی سے142 روپے 80پیسے کی سطح پر آگئی۔
وفاقی حکومت کی جانب سے ڈالر کے ذخیرہ اندوزوں کے خلاف ڈنڈا اٹھانے کے اعلان اور فاریکس ایسوسی ایشن کا غیرملکی کرنسیوں میں سرمایہ کاری کرنے والوں کو ڈالر فروخت نہ کرنے کے اعلان کے باعث ہفتے کو اوپن کرنسی مارکیٹ میں ڈالر کی قدر 20 پیسے کی کمی سے142 روپے 80پیسے کی سطح پر آگئی اور مارکیٹ میں ڈالر کی طلب بھی 80فیصد سے گھٹ کر10فیصد تک محدود ہوگئی۔
اسی طرح صرافہ مارکیٹوں میں فی تولہ سونے کی قیمت میں بھی یک دم900روپے کی واقع ہوئی، ایکس چینج کمپنیوں کی جانب سے ایف آئی اے کے توسط سے ڈالر کے ذخیرہ اندوزوں کے خلاف حکومتی کارروائی کے اعلان کوسراہتے ہوئے اسے ناگزیر قراردیاگیاہے۔
فاریکس ایوسی ایشن آف پاکستان کے صدر ملک بوستان کاکہنا تھا کہ ایکس چینج کمپنیاں اپنے ان تمام صارفین کا ریکارڈ رکھتی ہے جو ان سے ڈالر کا لین دین کرتے ہیں اور ان صارفین کا دستاویزی اور ویڈیوریکارڈنگ پر مشتمل ڈیٹا بھی یومیہ ماہوار سہ ماہی ششماہی بنیادوں پر اسٹیٹ بینک کوفراہم کیا جاتا ہے، خواہ کوئی کسٹمر ایک ڈالر ہی کیوں نہ خریدے۔
انھوں نے انکشاف کیا کہ ڈالر کی غیرقانونی لین دین میں30ہزار سے زائد وہ غیرقانونی منی چینجرزملوث ہیں جو بظاہر جیولرز، کپڑافروش یا جوتوں کے دکاندار ہیں، دوسری جانب معاشی تجزیہ نگاروں نے ایف آئی اے کی ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کارروائی کو ناکافی قراردیتے ہوئے قانون سازی کرنے کی تجویز دی ہے۔
معاشی تجزیہ نگارمزمل اسلم نے ایکسپریس سے بات چیت کرتے ہوئے کہاکہ چالیس ہزار روپے کے انعامی بانڈز کی بندش اور غیر قانونی منی چینجرز کی جانب سے ڈالر کی ذخیرہ اندوزی روپے کی بے قدری کی بڑی وجوہات ہیں کیونکہ محسوس ہوتاہے کہ اب بلیک منی کو امریکی ڈالر، درہم، ریال اور سنگاپور کی بڑی کرنسیوں میں منتقل کرکے چھپایا جارہاہے،ملک میں روز بروز ڈالر کی بڑھتی قیمت اور مارکیٹ سے ڈالر کے بڑے پیمانے پر غائب ہونے کے انکشاف کے بعد حکومت نے ڈالر کی ذخیرہ اندوزی کرنے والوں کے خلاف ایف آئی اے کو کارروائی کا حکم دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ڈالر کی ذخیرہ اندوزی اور قدر پا قابو پانے کے لیے حکومت کو اسٹیٹ بینک کے ماتحت ان ایکس چینج کمپنیوں پر سختی کرنے کی ضرورت ہے جو رائج قوانین پر مکمل عمل درآمد نہیں کررہی ہیں، ایکس چینج کمپنیوں کو بیرون ملک دورے کرنے والوں کے بچوں کی تعلیمی فیس، علاج کرنے والوں حج وعمرہ کرنے والوں کو کی حقیقت جاننے کے لیے مطلوبہ دستاویزات اور معلومات حاصل کرکے زرمبادلہ کی فراہمی کو یقینی بنانا ہوگا۔
وفاقی حکومت کی جانب سے ڈالر کے ذخیرہ اندوزوں کے خلاف ڈنڈا اٹھانے کے اعلان اور فاریکس ایسوسی ایشن کا غیرملکی کرنسیوں میں سرمایہ کاری کرنے والوں کو ڈالر فروخت نہ کرنے کے اعلان کے باعث ہفتے کو اوپن کرنسی مارکیٹ میں ڈالر کی قدر 20 پیسے کی کمی سے142 روپے 80پیسے کی سطح پر آگئی اور مارکیٹ میں ڈالر کی طلب بھی 80فیصد سے گھٹ کر10فیصد تک محدود ہوگئی۔
اسی طرح صرافہ مارکیٹوں میں فی تولہ سونے کی قیمت میں بھی یک دم900روپے کی واقع ہوئی، ایکس چینج کمپنیوں کی جانب سے ایف آئی اے کے توسط سے ڈالر کے ذخیرہ اندوزوں کے خلاف حکومتی کارروائی کے اعلان کوسراہتے ہوئے اسے ناگزیر قراردیاگیاہے۔
فاریکس ایوسی ایشن آف پاکستان کے صدر ملک بوستان کاکہنا تھا کہ ایکس چینج کمپنیاں اپنے ان تمام صارفین کا ریکارڈ رکھتی ہے جو ان سے ڈالر کا لین دین کرتے ہیں اور ان صارفین کا دستاویزی اور ویڈیوریکارڈنگ پر مشتمل ڈیٹا بھی یومیہ ماہوار سہ ماہی ششماہی بنیادوں پر اسٹیٹ بینک کوفراہم کیا جاتا ہے، خواہ کوئی کسٹمر ایک ڈالر ہی کیوں نہ خریدے۔
انھوں نے انکشاف کیا کہ ڈالر کی غیرقانونی لین دین میں30ہزار سے زائد وہ غیرقانونی منی چینجرزملوث ہیں جو بظاہر جیولرز، کپڑافروش یا جوتوں کے دکاندار ہیں، دوسری جانب معاشی تجزیہ نگاروں نے ایف آئی اے کی ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کارروائی کو ناکافی قراردیتے ہوئے قانون سازی کرنے کی تجویز دی ہے۔
معاشی تجزیہ نگارمزمل اسلم نے ایکسپریس سے بات چیت کرتے ہوئے کہاکہ چالیس ہزار روپے کے انعامی بانڈز کی بندش اور غیر قانونی منی چینجرز کی جانب سے ڈالر کی ذخیرہ اندوزی روپے کی بے قدری کی بڑی وجوہات ہیں کیونکہ محسوس ہوتاہے کہ اب بلیک منی کو امریکی ڈالر، درہم، ریال اور سنگاپور کی بڑی کرنسیوں میں منتقل کرکے چھپایا جارہاہے،ملک میں روز بروز ڈالر کی بڑھتی قیمت اور مارکیٹ سے ڈالر کے بڑے پیمانے پر غائب ہونے کے انکشاف کے بعد حکومت نے ڈالر کی ذخیرہ اندوزی کرنے والوں کے خلاف ایف آئی اے کو کارروائی کا حکم دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ڈالر کی ذخیرہ اندوزی اور قدر پا قابو پانے کے لیے حکومت کو اسٹیٹ بینک کے ماتحت ان ایکس چینج کمپنیوں پر سختی کرنے کی ضرورت ہے جو رائج قوانین پر مکمل عمل درآمد نہیں کررہی ہیں، ایکس چینج کمپنیوں کو بیرون ملک دورے کرنے والوں کے بچوں کی تعلیمی فیس، علاج کرنے والوں حج وعمرہ کرنے والوں کو کی حقیقت جاننے کے لیے مطلوبہ دستاویزات اور معلومات حاصل کرکے زرمبادلہ کی فراہمی کو یقینی بنانا ہوگا۔