گھر والے عزت دیتے نہ معاشرہ قبول کرتا ہے خواجہ سرا فرزانہ

مر جائیں تو رشتہ دار ہماری میتیں قبول نہیں کرتے، قتل پر خون بہا لینے آ جا تے ہیں

والدین کا انتقال ہوا تو جنازہ پر نہ جا سکی، ڈر تھا کہ بھائی بدنامی کے ڈر سے مار دیں گے۔ فوٹو : فائل

ISLAMABAD:
خواجہ سراؤں کی دکھ بھری زندگی کا اندازہ اس کمیونٹی کی فرزانہ کے ان آنسوؤں سے لگایا جا سکتا ہے جو ایکسپریس ٹربیون سے گفتگو کرتے ہوئے ان کے گالوں پر ٹپ ٹپ گر رہ تھے۔

خواجہ سرا فرزانہ کاکہنا تھا کہ وہ اپنی ماں کے ان الفاظ کو نہیں بھول سکتی جب اس نے میرے ساتھ خاندان اور معاشرے کی بدسلوکی دیکھ کر میرے بھائیوں کو کہا تھا کہ اس سے تو بہتر ہے کہ وہ مجھے مار ہی ڈالیں۔

ان کا کہنا تھا کہ خواجہ سراؤں کو گھر والے قبول کرتے ہیں نہ ہی معاشرہ عزت دیتا ہے۔ہمیں ساری عمر ذلت کے طعنے سہنا پڑتے ہیں۔ہم پر تشدد،جنسی استحصال حتیٰ کہ قتل بھی کوئی غیرمعمولی بات نہیں۔ معاشرہ تو کیا ہمارے خون کے رشتہ دار بھی ہمیں قبول نہیں کرتے۔


فرزانہ جو اپنی کمیونٹی کے چند دیگر افراد کے ساتھ جھنڈا بازار میں رہتی ہے کا مزید کہنا تھا کہ جب وہ مردان میں پیدا ہوئیں تو ان کا نام ریاض رکھا گیا۔لیکن میرے گھر والے اپنے ساتھ بٹھا کر کھانا نہیں کھلاتے تھے،مجھے منحوس سمجھا جاتا تھا، بھائی غیرت کے نام پر مجھے ماردینا چاہتے تھے،گھر میں اس طرح کے امتیازی سلوک نے مجھے توڑ پھوڑ کر رکھ دیا۔میں تنہائی اور کسمپرسی میں گھر گئی۔

انہوں نے بتایا کہ گزشتہ 35 سال سے میری اپنے گھر والوں سے کبھی ملاقات نہیں ہوئی۔میرے والدین اور قریبی رشتہ داروں کا انتقال ہوا تو میں ان کے جنازوں میں بھی نہیں جا سکی، وجہ اس کی یہی تھی کہ مجھے اپنے بھائیوں کی طرف سے قتل کیے جانے کا ڈر تھا۔

فرزانہ کا کہنا تھا کہ اگر ہم مرجائیں تو ہماری میتیں رشتہ دار قبول نہیں کرتے البتہ قتل کردیئے جائیں تو والدین اور دیگر رشتہ دار فوری پولیس سے رابطہ کرکے اپنی رشتہ دار چتاتے ہیں۔وجہ اس کی یہ ہوتی ہے کہ قاتلوں سے ہمارا خون بہا وصول کیا جائے۔خون بہا کی رقم وصول کرنے کے بعد ہمارے رشہ دار پھر ہمیں بھول جاتے ہیں ۔ان کا مقصود صرف ہمارا خون بیچنا ہوتا ہے ۔یہ ہرایک خواجہ سرا کی کہانی ہے جس سے اسے گزرنا پڑتا ہے۔

 
Load Next Story