شہری کانگو اور ڈینگی وائرس کی زد میں

ڈینگی میں آئی بوپروفن اسپرین اور نیپروکسن جیسی د رد دور کرنے والی ادویات قطعی استعمال نہ کریں۔

وائرس سے پھیلنے والی یہ بیماریاں متاثرہ شخص کو ’’ہیمریجک فیور ‘‘ میں مبتلا کردیتی ہیں۔ فوٹو: فائل

MATLI:
ڈینگی اور کانگو دونوں ہی ایسی متعدی بیماریاں ہیں جو اپنے شکار کے مدافعتی نظام کو متاثر کرکے موت سے ہمکنار کردیتی ہیں۔

وائرس سے پھیلنے والی یہ بیماریاں متاثرہ شخص کو ''ہیمریجک فیور '' میں مبتلا کردیتی ہیں اور مریض کے جسم کے مختلف حصوں سے خون بہنا شروع ہوجاتا ہے۔
دونوں بیماریوں کے عوامل ،علامات ،علاج اور احتیاطی تدابیر درج ذیل ہیں ۔

ڈینگی:
ڈینگی جسے عرف عام میں ہڈی توڑ بخار بھی کہا جاتا ہے ایک ایسی وبائی بیماری ہے جو ڈینگی وائرس سے متاثرہ مچھر ایڈییز (Aedes ) کے کاٹنے سے پھیلتی ہے۔ یہ وائرس ایک سے دوسرے انسان تک منتقل نہیں ہوتا لیکن متاثرہ مریض کو کاٹنے سے مچھر میں یہ وائرس منتقل ہوجاتاہے اور وہ مچھر اس وائرس کے پھیلانے کا سبب بن جاتاہے،جب کہ خون دینے یا اعضاء عطیہ کرنے کی صورت میں یہ وائرس ایک سے دوسرے شخص میں منتقل ہو سکتا ہے۔



ڈینگی وائرس کی چار اقسام ہیں اور ایک قسم کے وائرس سے متاثر ہونے کے بعد انسانی جسم میں اس وائرس کے خلاف مدافعت پیدا ہوجاتی ہے لیکن باقی کی تین اقسام انسان کو نشا نہ بنا سکتی ہیں۔ سیوئیر ڈینگی جسے ڈینگی ہیمریجک فیور بھی کہا جاتا ہے وہ زیادہ تر اس وقت ہوتی ہے جب انسان اس وائرس کا دوسری،تیسری یا چوتھی بار نشانہ بنا ہو۔

عالمی ادارہ برائے صحت WHOکے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق چند دہائیوں سے ڈینگی کے مرض میں حیرت انگیز طور پر اضافہ ہوا ہے۔ ہرسال 5سے 10کروڑ افراد اس بیماری کا شکار ہوتے ہیں۔ اس وقت دنیا کی 40فیصد اور ایشیاء پیسیفک خطے کی 75فیصد آبادی کو اس مہلک بیماری سے خطرات لاحق ہیں۔ 1970 سے قبل یہ بیماری صرف نو ملکوں میں تھی لیکن اب یہ افریقا،امریکا،مشرقی ،جنوبی ایشیاء اور مغربی پیسیفک کے 100سے زائد ممالک میں پھیل چکی ہے، جب کہ امریکی،مغربی پیسیفک،ایشیائی، خطے اس بیماری سے سب سے زیادہ متاثر ہورہے ہیں۔ اور ان ممالک میں ڈینگی کے مریضو ں کی تعداد میں دن بہ دن اضافہ ہورہا ہے۔ ڈینگی وائرس دنیا بھر کے گرم اور مرطوب آب و ہوا خصوصاً شہری اور نیم شہری علاقوں میں پایا جاتا ہے۔

2012 میں ڈینگی، مچھر سے پھیلنے والی وبائی بیماریوں میں سر فہرست تھی۔

ڈینگی کی تشخیص اگر جلد کرلی جائے تو علاج ممکن ہے لیکن بیماری بڑھ جانے کی صورت میں یہ موت کا سبب بھی بن سکتی ہے۔ ڈینگی کااب تک کوئی باقاعدہ علاج دریافت نہیں ہوا ہے۔ سیوئیر(Severe ) ڈینگی( ڈینگی ہیمریجک فیور) کا وائرس 1950 میں پہلی بار فلپائن اور تھائی لینڈ میں پھیلنے والی وباء کے بعد شناخت کیا گیا تھا ۔

ڈینگی وائرس انسان میں کس طرح منتقل ہوتا ہے؟
ڈینگی سے متاثرہ مادہ مچھر ایڈیز کے کاٹنے سے یہ وائرس انسان کے خون میں منتقل ہو جاتا ہے۔ صاف پانی میں پایا جانے والا یہ مچھر صبح سویرے اور شام میں اندھیرا چھانے سے پہلے انسانوں کو اپنا نشانہ بناتا ہے۔ ڈینگی وائرس پھیلنے کی ایک اہم وجہ استعمال شدہ ٹائروں اور بانس کی تجارت بھی ہے۔ ڈینگی کا وائرس سرد ترین درجہ حرارت میں بھی زندہ رہنے کی خاصیت رکھتا ہے۔

ڈینگی کی علامات:
ڈینگی کے مریض کو106ڈگری فارن ہائٹ تک تیز بخار ہوسکتا ہے عموماً یہ بخار اترنے کے ایک یا دو دن بعد دوبارہ ہوجاتا ہے۔
مریض سر، ہڈیوں ،پٹھوں، جوڑوں اور آنکھوں کے نیچے درد ،گھبراہٹ اور بے چینی محسوس کرتا ہے۔



مریض کی جلد پر خارش اور سرخ دھبے ظاہر ہوتے ہیں
مریض متلی چکر کی شکایت کرتا ہے
مسوڑھوں ناک یا الٹی میں معمولی ساخون بھی آسکتا ہے اگرفوراً طبی امداد فراہم کردی جائے تو مریض ایک ہفتے میں صحت یاب ہوسکتا ہے لیکن اگر علاج یا تشخیص میں دیر کردی جائے تو مریض سیوئیر ڈینگی میں مبتلا ہوکر موت سے بھی ہمکنار ہوسکتاہے۔

سیوئیر ڈینگی(ڈینگی ہیمریجک فیور)
بخار کی علامات :
ڈینگی ہیمریجک بخار میں خون کو گاڑھا کرنے والے خلیات متاثر ہو نے سے خون کا بہاؤ متا ثر ہوجاتا ہے۔ جس سے مریض کے خون کی نالیاں متاثر ہوتی ہیں اور ان سے خون رسنا شروع ہوجاتا ہیں۔

مریض کا بلڈ پریشر خطرناک حد تک کم ہوسکتا ہے جو فالج کا سبب بھی بن سکتا ہے۔
مریض کے ناک اور منہ سے خون نکلنا شروع ہوجاتا ہے
مریض کے جسم میں سفید خلیات کی تعداد کم ہوجاتی ہے

مریض پیٹ میں شدید درد اور سانس لینے میں دشواری محسوس کرتا ہے

مریض کی جلد پر سرخ دھبے پڑجاتے ہیں
مریض غنودگی میں چلا جاتا ہے
مریض کی جلد ٹھنڈی اور پیلی ہوجاتی ہے
مریض کے اعضائے رئیسہ (دل،جگر اور پھیپھڑے) متاثر ہوجاتے ہیں

علاج
ڈینگی سے بچاؤ کے لئے اب تک کوئی ویکسین دریافت نہیں ہوئی ہے۔ سیوئیر ڈینگی کی صورت میں جسم میں سفید خلیات کی تعداد برابر کرنے کے لئے خون چڑھایا جاتا ہے۔ جب کہ عام ڈینگی کے لئے دافع درد ادویات کے ساتھ مائع کا استعمال جاری رکھیں تاکہ جسم میں پانی کی کمی نہ ہو، مچھر کے کاٹنے سے بچیں اور فوراً کسی مستند ڈاکٹر سے کریں۔



نوٹ:
ڈینگی میں آئی بوپروفن اسپرین اور نیپروکسن جیسی د رد دور کرنے والی ادویات قطعی استعمال نہ کریں۔
ڈینگی سے بچاؤ کی تدابیر:
ڈینگی سے بچاؤ کا سب سے محفوظ طریقہ یہ ہی ہے کہ آپ ممکنہ حد تک مچھر کے کاٹنے سے بچیں۔

باہر جانے سے پہلے جسم کے کھلے ہوئے حصوں پر مچھر بھگاؤ لوشن لگائیں۔
بغیر آستین کی قمیض اور نیکر پہننے سے گریز کریں۔
کھڑکیوں اور دروازوں پر جالی لگائیں۔
گملے،استعمال شدہ ٹائر، اور دیگر ایسے مقامات جہاں ڈینگی مچھر افزائش نسل کرتے ہیں پانی کھڑا نہ ہونے دیں۔

کانگو:
کانگو (کرائی مین کانگو ہیمریجک فیور) دنیا بھر میں تیزی سے پھیلنے والی وبائی بیماری ہے ۔ یہ بیماری پالتو ،جنگلی جانوروں اور چیچڑی (Tick) سے انسانوں میں منتقل ہوتی ہے۔ مشرقی اور مغربی افریقا میں یہ بیماری عام ہے۔ کانگو وائرس سے متاثرہ شخص یا جانور کے خون،اعضاء اور جسمانی رطوبت کو چھونے سے یہ بیماری ایک فرد سے دوسرے فرد میں منتقل ہوسکتی ہے۔ ڈینگی کی طر ح اس بیماری کی بھی اب تک کوئی دوا دریافت نہیںہوئی ہے۔ یہ جراثیم انسانوں میں چیچڑی کے کاٹنے یااس بیماری کے شکار جانور کے ذبح یا اس کے بعد خون کو چھونے سے منتقل ہوتا ہے ۔

کانگو کی علامات:
انسانوں میں چیچڑی کے کاٹنے سے اس کی علامات ایک سے تین دن جب کہ جانور کے خون سے متاثر ہونے کی صورت میں 5سے6دن میں ظاہر ہوتی ہیں۔ ابتدا میں اس کی علاما ت فلو کی طرح ظاہر ہوتی ہیں لیکن بروقت تشخیص نہ کی جائے تو ہیمرج فیور کی علامات ظاہر ہوتی ہیں۔
بخار کے ساتھ پٹھوں میں کچھاؤ، چکر ،گردن میں درد اور اکڑن ،کمر درد،سر درد ہوتا ہے ۔
کچھ مریض آنکھوں میں سوجن اور روشنی سے حساسیت محسوس کرتے ہیں۔
پیٹ میں درد،الٹی ،چکر،دست اور گلے میں سوزش ہوجاتی ہے اور 2سے4دن بعد مریض بے چینی،بے خوابی اور مایوسی کا شکار ہو جاتا ہے۔
کانگو کی کلینیکل علامات میں ٹیکی کارڈیا(دل کا تیز دھڑکنا) لمف نوڈ کا بڑھ جانا اورحلق اور منہ میں سرخ اور جامنی دھبے پڑ جانا شامل ہے۔ مرض کی شدت بڑھ جائے تو بیماری کے 5دن کے بعد ہی مریض گردے،جگر اور پھپھڑے کام کرنا چھوڑ سکتے ہیں ۔


علاج :
عموما ً علامتی طور پر اینٹی وائرل دوا ''ریبا ویرین'' منہ اور انجکشن کے ذریعے دی جاتی ہے۔
کانگو سے بچاؤ کی احتیاطی تدابیر:
کانگو سے بچاؤ اور اس پر قابو پانا تھوڑ ا مشکل ہے کیوں کہ جانوروں میں اس کی علامات بظاہر نظر نہیں آتیں تاہم ان میں چیچڑیوں کو ختم کرنے کے لیے کیمیائی دوا کا اسپرے کیا جاسکتا ہے۔
کانگو سے متاثرہ مریض سے ہاتھ نہ ملائیں۔
مریض کی دیکھ بھال کرتے وقت دستانے پہنیں۔
مریض کی عیادت کے بعد ہاتھ اچھی طرح دھوئیں۔
لمبی آستینوں والی قمیض پہنیں۔
کپڑوںاور جلد پر چیچڑیوں سے بچاؤ کا لوشن لگائیں۔
جانوروں کی نقل وحمل کرتے وقت دستانے اور دیگر حفاظتی لباس پہنیں، خصوصاً مذبح خانوں ،قصائی اور گھر میں ذبیحہ کرنے والے افراد لازمی احتیاطی تدابیراختیار کریں ۔
مذبح خانوں کی صفائی کاخاص خیال رکھیں۔
Load Next Story