محکمہ آثار قدیمہ کا جام پور میں بدھ مت کے قدیم آثارمیں کھدائی کا فیصلہ

کھدائی کے بعد پارتھین عہد کے ان قدیم آثار کے بارے مزیدحقائق سامنے آسکیں گے، محکمہ آثارقدیمہ پنجاب


آصف محمود April 07, 2019
محکمہ آثارقدیمہ پنجاب نے ڈیرہ غازی خان کے علاقہ جام پورمیں بدھ مت کے قدیم آثار ٹبہ دلورائے میں کھدائی کا فیصلہ کیاہے فوٹوایکسپریس

محکمہ آثارقدیمہ پنجاب نے ڈیرہ غازی خان کے علاقہ جام پورمیں بدھ مت کے قدیم آثار ٹبہ دلورائے میں کھدائی کا فیصلہ کیا ہے، آثارقدیمہ ماہرین کی ٹیم آئندہ ہفتے یہاں کھدائی شروع کرنے جارہی ہے جس کے بعد پارتھین عہد کے ان قدیم آثار کے بارے مزیدحقائق سامنے آسکیں گے۔

محکمہ آثارقدیمہ پنجاب کے ڈائریکٹرمحمدافضل خان نے ایکسپریس کو بتایا کہ ان کی ٹیم آئندہ ہفتے جام پورسے چند کلومیٹردور واقع ٹبہ دلورائے میں کھدائی شروع کرنے جارہی ہے۔ پنجاب حکومت نے اس منصوبے کے لیے ایک کروڑ 73 لاکھ 23 ہزار روپے کی رقم مختص کی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس تاریخی مقام کو فروری 1964ء میں تاریخی مقامات کی فہرست میں شامل کیا گیا تھا اور یہاں سے برآمد ہونے والی اشیاء اور نوادرات پر تحقیق کی گئی جس کے نتیجے میں یہ معلوم ہوا کہ یہ علاقہ بدھ مت کے پیروکاروں کا تھا اور یہ پارتھین عہد کے آثار ہیں، یہ پہلی صدی قبل مسیح سے دوسری صدی بعد مسیح کے زمانے کے آثار بتائے جاتے ہیں۔



محمدافضل خان کے مطابق 262 کنال پر واقع اس تاریخی مقام کا بڑا حصہ ضلع ڈیرہ غازی خان میں واقع ہے جبکہ صرف تین کنال رقبہ تحصیل جام پور میں موجود ہے۔یہ آثار تحصیل جام پور سے ڈھائی میل کے فاصلے پر شمال مغرب میں واقع ہیں۔ دلورائے کے دو کھنڈرات 100 سے 150 گز کے فاصلے پر ہیں، یہ دونوں آثار مقامی کاشتکاروں کی کھدائی کے نتیجے میں ظاہر ہوئے تھے جن سے معلوم ہوا کہ یہ سڑکوں اور مکانوں کے آثار ہیں۔



محمدافضل خان نے اس بات کی تصدیق کی کہ دلورائے کے کھنڈرات سے بڑے پیمانے پر برتن بھی برآمد ہوئے تھے جن پر نقش ونگار بنے ہوئے تھے، اس کے علاوہ سجاوٹی سامان، تیل کے دیئے، چمچموں کے دستے اور پہیے بھی برآمد ہوئے۔ یہ تمام اشیاء پارتھین عہد کی ہیں اور بھمبھور اورٹیکسلا سے ملنے والی اشیاء سے مشابہت رکھتی ہیں۔ یہاں سے ملنے والی بعض پختہ اینٹوں پر پتوں اور سورج مکھی کے پھولوں کے نقش ونگار بھی ہیں اور یہ سب اشیاء بدھ مت کے زمانے کی ثقافت اور تہذیب سے مشابہت رکھتی ہیں۔ دلورائے کھنڈرات سے مٹی کی چھتریوں، سٹوپا اور سرخ مٹی سے بنی ہوئی عورتوں کی مورتیاں بھی ملیں، ان مورتیوں کو اس انداز میں بنایا گیا تھا کہ ان کے سر ڈھانپے ہوئے تھے، کانوں میں بالیاں تھیں، دھوتی پہنی ہوئی تھی ور کمنڈلی بھی موجود تھی۔ یہ سب کچھ بدھ مت کی روایات اور مذہب و ثقافت کی عکاسی کرتا ہے۔



محکمہ آثارقدیمہ کی تحقیق کے مطابق جنوبی پنجاب میں 1183 تاریخی سائٹس موجودہیں۔ 1992 میں محکمہ آثارقدیمہ نے ان تاریخی آثارسے متعلق رپورٹ جاری کی تھی تاہم فنڈزکی عدم دستیابی کی وجہ سے ان آثارکی بحالی کے حوالے سے کام نہیں ہوسکا تھا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں