جشن کے نام پر ہلڑ بازی قابل افسوس ہے
ان منچلے نوجوانوں نے سڑکوں، مرکزی شاہراہوں اور تفریحی مقامات پر طوفان بدتمیزی برپا کیا۔
اپنی آزادی کا جشن منانا ہر قوم کا حق ہے لیکن پاکستان کے 67 ویں یوم آزادی پر کراچی شہر کے منچلے نوجوانوں نے جشن کے نام پر ہلڑ بازی اور اخلاق باختہ حرکات کرکے پوری قوم کا سر شرم سے جھکا دیا ہے۔ 14 اگست کی رات سے ہی نوجوانوں کی بڑی تعداد جشن آزادی کے نام پر بے ہنگم انداز میں سڑکوں پر نکل آئی، جہاں سائلنسر کے بغیر موٹر سائیکلوں نے شہر کا سکون تہہ و بالا کردیا وہیں اوباش نوجوانوں نے اہل خانہ کے ہمراہ تفریحی مقامات کا رخ کرنے والے شہریوں کی زندگی وبال بنادی، ٹریفک پولیس بھی گدھے کے سر سے سینگ کی طرح غائب رہی جس سے نہ صرف ٹریفک کے مسائل پیدا ہوئے بلکہ قانون نافذ کرنے والے ادارے غیرقانونی اور اخلاق باختہ حرکتیں کرنے والے ان نوجوانوں کے سامنے خاموش تماشائی بنے رہے، سب سے قابل شرم بات یہ ہے کہ مزار قائدآنے والے درجنوں نوجوان مزار کی چھت پر چڑھ گئے، جس سے بابائے قوم کے مزار کی حرمت بھی پامال ہوئی۔
ان منچلے نوجوانوں نے سڑکوں، مرکزی شاہراہوں اور تفریحی مقامات پر طوفان بدتمیزی برپا کیا، ہزاروں کی تعداد میں موٹر سائیکل سوار نوجوان منگل اور بدھ کی درمیانی شب سڑکوں پر نکل آئے اور نہ صرف ٹریفک بلکہ دیگر قوانین کی کھلے عام خلاف ورزی کرتے رہے، موٹرسائیکل سوار نوجوانوں کی ٹولیوں نے اہل خانہ کے ساتھ جشن آزادی کے موقع پر تفریحی مقامات اور ریسٹورنٹس کا رخ کرنے والے شہریوں کو بھی خوب پریشان کیا اور خواتین سے چھیڑ چھاڑ شروع کردی۔ اہل خانہ کے ہمراہ تفریحی مقامات کا رخ کرنے والے شہریوں نے جب اوباش نوجوانوں کو ان کی غیر اخلاقی حرکتوں پر سرزنش کرنے کی کوشش کی تو یہ نوجوان تشدد پر اتر آئے۔
شہر میں متعدد مقامات پر پرتشدد واقعات کی اطلاعات بھی موصول ہوئی ہیں۔ جشن آزادی کے نام پر 24 گھنٹے جاری رہنے والے غنڈہ راج سے ایک مرتبہ پھر یہ ثابت ہوگیا ہے کہ شہر قائد میں قانون نام کی شے کا کوئی وجود نہیں، شہریوں کا کہنا ہے کہ اس صورتحال سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ ہم اخلاقی طور پر انتہائی پستی کا شکار ہوچکے ہیں، نئی نسل کو اپنے اسلاف اور سنگین ملکی صورتحال کے پیش نظر تہذیبی قدروں کا لحاظ رکھنا چاہیے تھا۔حقیقت یہ ہے کہ جو قوم اپنے یوم آزادی کو باوقار انداز میں نہیں مناسکتی اس کی مجموعی اخلاقیات کا اندازہ لگانا زیادہ مشکل نہیں ہے۔ کاش پاکستان کے نوجوان اپنی اقدار و اخلاقیات کی پاسداری کا سبق حاصل کرسکیں۔
ان منچلے نوجوانوں نے سڑکوں، مرکزی شاہراہوں اور تفریحی مقامات پر طوفان بدتمیزی برپا کیا، ہزاروں کی تعداد میں موٹر سائیکل سوار نوجوان منگل اور بدھ کی درمیانی شب سڑکوں پر نکل آئے اور نہ صرف ٹریفک بلکہ دیگر قوانین کی کھلے عام خلاف ورزی کرتے رہے، موٹرسائیکل سوار نوجوانوں کی ٹولیوں نے اہل خانہ کے ساتھ جشن آزادی کے موقع پر تفریحی مقامات اور ریسٹورنٹس کا رخ کرنے والے شہریوں کو بھی خوب پریشان کیا اور خواتین سے چھیڑ چھاڑ شروع کردی۔ اہل خانہ کے ہمراہ تفریحی مقامات کا رخ کرنے والے شہریوں نے جب اوباش نوجوانوں کو ان کی غیر اخلاقی حرکتوں پر سرزنش کرنے کی کوشش کی تو یہ نوجوان تشدد پر اتر آئے۔
شہر میں متعدد مقامات پر پرتشدد واقعات کی اطلاعات بھی موصول ہوئی ہیں۔ جشن آزادی کے نام پر 24 گھنٹے جاری رہنے والے غنڈہ راج سے ایک مرتبہ پھر یہ ثابت ہوگیا ہے کہ شہر قائد میں قانون نام کی شے کا کوئی وجود نہیں، شہریوں کا کہنا ہے کہ اس صورتحال سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ ہم اخلاقی طور پر انتہائی پستی کا شکار ہوچکے ہیں، نئی نسل کو اپنے اسلاف اور سنگین ملکی صورتحال کے پیش نظر تہذیبی قدروں کا لحاظ رکھنا چاہیے تھا۔حقیقت یہ ہے کہ جو قوم اپنے یوم آزادی کو باوقار انداز میں نہیں مناسکتی اس کی مجموعی اخلاقیات کا اندازہ لگانا زیادہ مشکل نہیں ہے۔ کاش پاکستان کے نوجوان اپنی اقدار و اخلاقیات کی پاسداری کا سبق حاصل کرسکیں۔