مجرم ثابت ہونے والے ارکان پارلیمنٹ
حالیہ دنوں میں سپریم کورٹ نے معاملات کو درست کرنے کی خاطر قوم کی داد رسی کی کوشش کی ہے۔
پارلیمنٹ جمہوریت کی عبادت گاہ ہے۔ اراکین پارلیمنٹ مذہبی پیشوا ہیں۔ ان کی پاکیزگی عبادت گاہ کے تقدس پر اثر انداز ہوتی ہے۔ اگر اراکین اس تقدس کا خیال نہیں رکھتے تو عوام کی نظروں میں اس عبادت گاہ کا تقدس مجروح ہو جاتا ہے۔ بالکل اسی طرح کی صورت حال بھارتی پارلیمنٹ میں پیدا ہو چکی ہے جس نے اپنا وقار کھو دیا ہے اور اب اس پر وہ اعتماد نہیں رہا جو کبھی اس کا خاصا ہوا کرتا تھا۔ اب تو ہر قسم کی خرابیاں اور برائیاں اس کے ساتھ وابستہ کی جا رہی ہیں۔ وہ عبادت گاہ جو اعتماد کا گہوارہ تھی اب مضحکہ خیز بن چکی ہے۔
اس کے باوجود یہ حقیقت قائم ہے کہ طاقت پارلیمنٹ کے پاس ہی ہے۔ اس کے دو ایوان ہیں۔ لوک سبھا، جس کا انتخاب عوام براہ راست کرتے ہیں، جب کہ راجیہ سبھا کا انتخاب بالواسطہ ہوتا ہے اور یہ دونوں ایوان ملک کے لیے قوانین وضع کرتے ہیں۔ دونوں ایوان اپنے بہت سے اراکین کے گرتے ہوئے کردار سے اپنا وقار تذلیل میں بدلتے دیکھ رہے ہیں۔ ایک عمومی اندازے کے مطابق 10 فیصد اراکین عدالتی مقدمات میں ملوث ہیں۔ قوم کے لیے خوشی کی خبر یہ ہے کہ مقدمات کی سنگینی کے پیش نظر، یا جہاں اراکین پارلیمنٹ ان مقدمات میں مطلوب ہیں، عدالت عظمیٰ نے اس حوالے سے از خود ایکشن لے لیا ہے۔
حالیہ دنوں میں سپریم کورٹ نے معاملات کو درست کرنے کی خاطر قوم کی داد رسی کی کوشش کی ہے۔ عدالت عظمیٰ نے اپنے ایک انتہائی اہم نوعیت کے فیصلے میں کہا ہے کہ اگر پارلیمنٹ یا ریاستی قانون ساز اداروں کو کسی عدالت سے سزا ہوتی ہے تو وہ اپنے منصب کے لیے نا اہل ٹھہریں گے۔ اگرچہ امید یہ کی جا رہی ہے کہ یہ فیصلہ صرف انتہائی سنگین نوعیت کے جرائم کے ضمن میں قابل عمل ہو گا۔
عوامی نمائندگی کے ایکٹ میں یہ حالیہ اضافہ منفی اثرات کا حامل ہے کہ اگر کسی عوامی نمائندے پر فرد جرم لگائی جاتی ہے تو وہ اپنے منصب پر فائز رہے گا جب تک کہ اس کی فائنل اپیل کا فیصلہ نہیں ہو جاتا جس کا دورانیہ تین ماہ تک ہو گا۔ اس قانون کا غلط استعمال ہوا ہے کہ جس رکن پر فرد جرم عائد ہوتی ہے وہ مختلف عدالتوں میں چکر لگاتے ہوئے کئی سال گزار دیتے ہیں۔ بہار کے وزیر اعلیٰ لالو پرشاد یادیو کے خلاف فوڈر (چارہ) سکینڈل کا مقدمہ 17 سال سے ابھی تک فقط ٹرائل کورٹ کی سطح پر اٹکا ہوا ہے۔ شیبو شورین کو قتل کے مقدمے میں سزا سنائی گئی تھی لیکن آج وہ جھاڑ کھنڈ کا وزیراعلیٰ ہے۔یہ کہا جا سکتا ہے کہ پارلیمنٹ یا ریاستی قانون ساز اداروں کے اراکین کے متعلق اس قسم کے تمام معاملات ایوانوں تک ہی محدود رہتے ہیں' خواہ عدالتوں سے ان پر کوئی بھی فرد جرم عائد کیوں نہ ہو جائے۔ سیاست کی طاقت ایسا منہ زور گھوڑا ہے جس کے سامنے اخلاقیات اور اقدار کی کوئی حیثیت نہیں۔ بعینہ برطانوی پارلیمنٹ کا ایوان بالا یعنی ہائوس آف لارڈز سزا یافتہ اراکین کو ایوان سے باہر رکھنے کے لیے سوچ بچار کر رہا ہے۔ ان متاثرین میں ایک این آر آئی (NRI) ہے جس نے 50,000 اسٹرلنگ پائونڈ کے لگ بھگ جعلی اخراجات وصول کیے اور اسے صرف تین ماہ کے لیے رکنیت سے معطل کر دیا گیا۔
انڈین سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کے باوجود وفاقی و ریاستی اراکین کے ضمیر میں ذرہ بھر خلش پیدا نہیں ہوئی۔ بلکہ تمام سیاسی جماعتیں اپنی اپنی وابستگیوں کے ساتھ عدالت عظمیٰ کے فیصلے کو کالعدم کرانے کے در پے ہیں۔ بلکہ آئین میں ہی ایک ترمیم لانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ کوئی رکن نا اہل نہیں ہو سکتا جب تک اس کی اپیل کا فیصلہ عدالت میں ہو نہیں جاتا۔ سنجیدہ سوچ کے حامل اراکین کو اس طرز عمل کا احساس ہونا چاہیے مگر وہ چُپ سادھے ہیں کہ کہیں وہ اپنی سیاسی جماعت یا ہم جیسے لوگوں کے لیے باعث آزار ثابت نہ ہوں۔ اس مجوزہ آئینی ترمیم کے خلاف کافی بلند آواز اٹھائی گئی ہے۔ یہ قدرتی امر ہے کہ لوگ خوف زدہ ہو گئے ہیں کیونکہ پارلیمنٹ کی وقعت ان کی نظروں میں مزید کم ہو رہی ہے۔
پہلے ہی مقدمات کی سماعت میں آئے روز کے التوا اور فضول مناقشے اس طرح کے سوالات اٹھا رہے ہیں کہ آخر پارلیمنٹ کی ضرورت ہی کیا ہے جب کہ اس پر روزانہ کا خرچ 2.8 لاکھ روپے ہے؟ فوری نوعیت کے مسودہ ہائے قوانین سیاسی اختلاف رائے کی بنا پر دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کو اس بات کا کوئی ادراک نہیں کہ کچھ ہمسایہ ممالک میں عوام کی مایوسی جمہوری حکومتوں کی ناکامی کا سبب بنتی رہی ہے۔ یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ عدالت عظمیٰ مجوزہ آئینی ترمیم کی حمایت کر پائے گی یا نہیں۔ آئین کا آرٹیکل 14 قانون کے سامنے برابری کی ضمانت دینا ہے۔ اراکین پارلیمنٹ بدمعاشی سے اکٹھے ہو کر عدالت عظمیٰ کی وضح کردہ مساوات کا گلا نہیں گھونٹ سکتے۔ آئین کسی بھی سزا یافتہ شخص کو انتخاب میں حصہ لینے کی اجازت نہیں دیتا۔ پھر کس طرح ایک سزا یافتہ وفاقی پارلیمنٹ یا ریاستی مقننہ کا ممبر عام لوگوں سے مختلف ہے؟ پس یہ لازم ہے کہ انھیں بھی نا اہل قرار دیا جائے۔
آرٹیکل 14 آئین کے بنیادی ڈھانچے کا بھی جزو ہے۔ عدالت عظمیٰ کے فیصلے سے پہلے ہی اس بات پر کوئی دو رائے نہیں کہ پارلیمنٹ آئین کے بنیادی ڈھانچے کو تبدیل نہیں کر سکتی۔ اگر مجوزہ ترمیم پارلیمنٹ میں منظور کر لی جاتی ہے تو عدالت عظمیٰ اس بنیاد پر اسے رد کر سکتی ہے کہ آرٹیکل 14 آئین کے بنیادی ڈھانچے کا حصہ ہے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ عدلیہ اور پارلیمنٹ باہم بر سر پیکار ہیں۔ خوش قسمتی سے حکومت نے اس مسودہ قانون کو ججوں کی تعیناتی کی وجہ سے موخر کر دیا ہے۔ حکومت ہوا کا رخ دیکھ کر ہی قدم اٹھانا چاہتی ہے۔ عدالت اس دور سے گزر چکی ہے جب عدلیہ اور حکومت میں ججوں کی تعیناتی پر کھلم کھلا اختلافات پیدا ہو گئے تھے۔ اب مشترکہ افہام و تفہیم کا نظام بروئے کار ہے جو کولیجیئم سسٹم (Collegium System) کہلاتا ہے۔ ہائی کورٹ کے چار سینئر ججوں پر مشتمل یہ Collegium فیصلہ کرتا ہے کہ کون ترقی پا کر بنچ کا حصہ بنے گا۔ عدالت عظمیٰ کے ججوں کے لیے بھی یہی طریق کار اپنایا جانا ہے جسے حکومت نے کبھی بھی پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھا کیونکہ اس سے انتظامیہ کے اختیارات میں وہ بات نہیں رہ جاتی جس کی وہ متمنی ہوتی ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ اگر عدالت عظمیٰ مجوزہ مسودہ قانون کو رد کرتی ہے تو حکومت کا ردعمل کیا ہو گا۔
اس کے بعد بھی عدالت عظمیٰ ہی اس مسئلے کا حل نکال سکتی ہے۔ حکومت سیاسی جماعتوں کو شفافیت سے مستثنیٰ کرتے ہوئے حق معلومات ایکٹ (Right to Information) میں ترمیم کرنا چاہتی ہے۔ یہ مجوزہ مسودہ قانون سیاسی پارٹیوں کو مرکزی اطلاعات کمیشن کے حکم کے خلاف بچائو کرتا ہے کہ سیاسی جماعتیں پبلک ادارے ہیں اور یہ اپنے مالیاتی معاملات کے لیے جوابدہ ہیں۔
درست کہ عوام کے منتخب نمائندے ہی حتمی اتھارٹی ہوتے ہیں۔ لیکن آخر اس کا کیا علاج جب جمہوری نظام کا ہر پرزہ ہی سیاست زدہ ہو گیا ہو؟ اختیارات کی سیاست نے بہت سے اقدامات تجویز کر رکھے ہیں۔ اس وجہ سے پارلیمنٹ حقیقی معنوں میں جمہوریت کی معبد نہیں رہتی۔
کاغذات پر یہ ایسی ہی رہے گی۔ ممکن ہے یہی حقیقت اراکین پارلیمنٹ کو اپنا اخلاقی معیار بلند کرنے پر مجبور کر دے اور وہ فی الواقعی وہ مقام حاصل کر لیں جس کی ان سے توقع کی جاتی ہے۔ یہ وہی ہیں جو جمہوریت کو عدم اعتماد کے گڑھے سے باہر نکال سکتے ہیں۔ جن اراکین پر فردجرم عائد ہو چکی ہے انھیں خود ہی رضاکارانہ طور پر آگے بڑھ کر مستعفی ہو جانا چاہیے۔ یہ ان کی اخلاقی ذمے داری ہے۔
(ترجمہ: مظہر منہاس)
اس کے باوجود یہ حقیقت قائم ہے کہ طاقت پارلیمنٹ کے پاس ہی ہے۔ اس کے دو ایوان ہیں۔ لوک سبھا، جس کا انتخاب عوام براہ راست کرتے ہیں، جب کہ راجیہ سبھا کا انتخاب بالواسطہ ہوتا ہے اور یہ دونوں ایوان ملک کے لیے قوانین وضع کرتے ہیں۔ دونوں ایوان اپنے بہت سے اراکین کے گرتے ہوئے کردار سے اپنا وقار تذلیل میں بدلتے دیکھ رہے ہیں۔ ایک عمومی اندازے کے مطابق 10 فیصد اراکین عدالتی مقدمات میں ملوث ہیں۔ قوم کے لیے خوشی کی خبر یہ ہے کہ مقدمات کی سنگینی کے پیش نظر، یا جہاں اراکین پارلیمنٹ ان مقدمات میں مطلوب ہیں، عدالت عظمیٰ نے اس حوالے سے از خود ایکشن لے لیا ہے۔
حالیہ دنوں میں سپریم کورٹ نے معاملات کو درست کرنے کی خاطر قوم کی داد رسی کی کوشش کی ہے۔ عدالت عظمیٰ نے اپنے ایک انتہائی اہم نوعیت کے فیصلے میں کہا ہے کہ اگر پارلیمنٹ یا ریاستی قانون ساز اداروں کو کسی عدالت سے سزا ہوتی ہے تو وہ اپنے منصب کے لیے نا اہل ٹھہریں گے۔ اگرچہ امید یہ کی جا رہی ہے کہ یہ فیصلہ صرف انتہائی سنگین نوعیت کے جرائم کے ضمن میں قابل عمل ہو گا۔
عوامی نمائندگی کے ایکٹ میں یہ حالیہ اضافہ منفی اثرات کا حامل ہے کہ اگر کسی عوامی نمائندے پر فرد جرم لگائی جاتی ہے تو وہ اپنے منصب پر فائز رہے گا جب تک کہ اس کی فائنل اپیل کا فیصلہ نہیں ہو جاتا جس کا دورانیہ تین ماہ تک ہو گا۔ اس قانون کا غلط استعمال ہوا ہے کہ جس رکن پر فرد جرم عائد ہوتی ہے وہ مختلف عدالتوں میں چکر لگاتے ہوئے کئی سال گزار دیتے ہیں۔ بہار کے وزیر اعلیٰ لالو پرشاد یادیو کے خلاف فوڈر (چارہ) سکینڈل کا مقدمہ 17 سال سے ابھی تک فقط ٹرائل کورٹ کی سطح پر اٹکا ہوا ہے۔ شیبو شورین کو قتل کے مقدمے میں سزا سنائی گئی تھی لیکن آج وہ جھاڑ کھنڈ کا وزیراعلیٰ ہے۔یہ کہا جا سکتا ہے کہ پارلیمنٹ یا ریاستی قانون ساز اداروں کے اراکین کے متعلق اس قسم کے تمام معاملات ایوانوں تک ہی محدود رہتے ہیں' خواہ عدالتوں سے ان پر کوئی بھی فرد جرم عائد کیوں نہ ہو جائے۔ سیاست کی طاقت ایسا منہ زور گھوڑا ہے جس کے سامنے اخلاقیات اور اقدار کی کوئی حیثیت نہیں۔ بعینہ برطانوی پارلیمنٹ کا ایوان بالا یعنی ہائوس آف لارڈز سزا یافتہ اراکین کو ایوان سے باہر رکھنے کے لیے سوچ بچار کر رہا ہے۔ ان متاثرین میں ایک این آر آئی (NRI) ہے جس نے 50,000 اسٹرلنگ پائونڈ کے لگ بھگ جعلی اخراجات وصول کیے اور اسے صرف تین ماہ کے لیے رکنیت سے معطل کر دیا گیا۔
انڈین سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کے باوجود وفاقی و ریاستی اراکین کے ضمیر میں ذرہ بھر خلش پیدا نہیں ہوئی۔ بلکہ تمام سیاسی جماعتیں اپنی اپنی وابستگیوں کے ساتھ عدالت عظمیٰ کے فیصلے کو کالعدم کرانے کے در پے ہیں۔ بلکہ آئین میں ہی ایک ترمیم لانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ کوئی رکن نا اہل نہیں ہو سکتا جب تک اس کی اپیل کا فیصلہ عدالت میں ہو نہیں جاتا۔ سنجیدہ سوچ کے حامل اراکین کو اس طرز عمل کا احساس ہونا چاہیے مگر وہ چُپ سادھے ہیں کہ کہیں وہ اپنی سیاسی جماعت یا ہم جیسے لوگوں کے لیے باعث آزار ثابت نہ ہوں۔ اس مجوزہ آئینی ترمیم کے خلاف کافی بلند آواز اٹھائی گئی ہے۔ یہ قدرتی امر ہے کہ لوگ خوف زدہ ہو گئے ہیں کیونکہ پارلیمنٹ کی وقعت ان کی نظروں میں مزید کم ہو رہی ہے۔
پہلے ہی مقدمات کی سماعت میں آئے روز کے التوا اور فضول مناقشے اس طرح کے سوالات اٹھا رہے ہیں کہ آخر پارلیمنٹ کی ضرورت ہی کیا ہے جب کہ اس پر روزانہ کا خرچ 2.8 لاکھ روپے ہے؟ فوری نوعیت کے مسودہ ہائے قوانین سیاسی اختلاف رائے کی بنا پر دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کو اس بات کا کوئی ادراک نہیں کہ کچھ ہمسایہ ممالک میں عوام کی مایوسی جمہوری حکومتوں کی ناکامی کا سبب بنتی رہی ہے۔ یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ عدالت عظمیٰ مجوزہ آئینی ترمیم کی حمایت کر پائے گی یا نہیں۔ آئین کا آرٹیکل 14 قانون کے سامنے برابری کی ضمانت دینا ہے۔ اراکین پارلیمنٹ بدمعاشی سے اکٹھے ہو کر عدالت عظمیٰ کی وضح کردہ مساوات کا گلا نہیں گھونٹ سکتے۔ آئین کسی بھی سزا یافتہ شخص کو انتخاب میں حصہ لینے کی اجازت نہیں دیتا۔ پھر کس طرح ایک سزا یافتہ وفاقی پارلیمنٹ یا ریاستی مقننہ کا ممبر عام لوگوں سے مختلف ہے؟ پس یہ لازم ہے کہ انھیں بھی نا اہل قرار دیا جائے۔
آرٹیکل 14 آئین کے بنیادی ڈھانچے کا بھی جزو ہے۔ عدالت عظمیٰ کے فیصلے سے پہلے ہی اس بات پر کوئی دو رائے نہیں کہ پارلیمنٹ آئین کے بنیادی ڈھانچے کو تبدیل نہیں کر سکتی۔ اگر مجوزہ ترمیم پارلیمنٹ میں منظور کر لی جاتی ہے تو عدالت عظمیٰ اس بنیاد پر اسے رد کر سکتی ہے کہ آرٹیکل 14 آئین کے بنیادی ڈھانچے کا حصہ ہے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ عدلیہ اور پارلیمنٹ باہم بر سر پیکار ہیں۔ خوش قسمتی سے حکومت نے اس مسودہ قانون کو ججوں کی تعیناتی کی وجہ سے موخر کر دیا ہے۔ حکومت ہوا کا رخ دیکھ کر ہی قدم اٹھانا چاہتی ہے۔ عدالت اس دور سے گزر چکی ہے جب عدلیہ اور حکومت میں ججوں کی تعیناتی پر کھلم کھلا اختلافات پیدا ہو گئے تھے۔ اب مشترکہ افہام و تفہیم کا نظام بروئے کار ہے جو کولیجیئم سسٹم (Collegium System) کہلاتا ہے۔ ہائی کورٹ کے چار سینئر ججوں پر مشتمل یہ Collegium فیصلہ کرتا ہے کہ کون ترقی پا کر بنچ کا حصہ بنے گا۔ عدالت عظمیٰ کے ججوں کے لیے بھی یہی طریق کار اپنایا جانا ہے جسے حکومت نے کبھی بھی پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھا کیونکہ اس سے انتظامیہ کے اختیارات میں وہ بات نہیں رہ جاتی جس کی وہ متمنی ہوتی ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ اگر عدالت عظمیٰ مجوزہ مسودہ قانون کو رد کرتی ہے تو حکومت کا ردعمل کیا ہو گا۔
اس کے بعد بھی عدالت عظمیٰ ہی اس مسئلے کا حل نکال سکتی ہے۔ حکومت سیاسی جماعتوں کو شفافیت سے مستثنیٰ کرتے ہوئے حق معلومات ایکٹ (Right to Information) میں ترمیم کرنا چاہتی ہے۔ یہ مجوزہ مسودہ قانون سیاسی پارٹیوں کو مرکزی اطلاعات کمیشن کے حکم کے خلاف بچائو کرتا ہے کہ سیاسی جماعتیں پبلک ادارے ہیں اور یہ اپنے مالیاتی معاملات کے لیے جوابدہ ہیں۔
درست کہ عوام کے منتخب نمائندے ہی حتمی اتھارٹی ہوتے ہیں۔ لیکن آخر اس کا کیا علاج جب جمہوری نظام کا ہر پرزہ ہی سیاست زدہ ہو گیا ہو؟ اختیارات کی سیاست نے بہت سے اقدامات تجویز کر رکھے ہیں۔ اس وجہ سے پارلیمنٹ حقیقی معنوں میں جمہوریت کی معبد نہیں رہتی۔
کاغذات پر یہ ایسی ہی رہے گی۔ ممکن ہے یہی حقیقت اراکین پارلیمنٹ کو اپنا اخلاقی معیار بلند کرنے پر مجبور کر دے اور وہ فی الواقعی وہ مقام حاصل کر لیں جس کی ان سے توقع کی جاتی ہے۔ یہ وہی ہیں جو جمہوریت کو عدم اعتماد کے گڑھے سے باہر نکال سکتے ہیں۔ جن اراکین پر فردجرم عائد ہو چکی ہے انھیں خود ہی رضاکارانہ طور پر آگے بڑھ کر مستعفی ہو جانا چاہیے۔ یہ ان کی اخلاقی ذمے داری ہے۔
(ترجمہ: مظہر منہاس)