میاں صاحب بحیثیت ’’نیشنل لیڈر اور فیڈریشن‘‘…
میاں صاحب ایک تو پنجاب سے ہی جیتے اور ماضی کی طرح نہ سندھ سے، نہ خیبرپختونخواہ میں لیکن پھر بھی ان کے دو فیصلے۔۔۔
سندھ کے قوم پرستوں کو میاں صاحب نے ایک مشکل موڑ پر لا کے کھڑ ا کر دیا ہے۔ دونوں کے اتحاد کی بنیادی وجہ متحدہ اور پیپلز پارٹی کا سنگم تھا۔ جو پورے پانچ سال چلا یہاں تک کہ ،بقول قوم پرستوں کے، سندھ کے مفادات بھی داؤ پر لگا دیے۔ سندھ کو دو مختلف انتظامی حصوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ میاں صاحب، قوم پرست اور پیر پگارا صاحب اس وکٹ پر خوب کھیلے۔ پیپلز پارٹی کو سندھ دشمنی کے تمغے سے نوازا گیا۔ بات جا کے سپریم کورٹ تک پہنچی اور سپریم کورٹ نے اسے آئین سے متصادم قرار دیدیا۔ قوم پرست میاں صاحب و پیر پگارا نے الیکشن اتحاد بھی بنایا۔ مگر الیکشن میں ان کی کارکردگی وہی رہی، ایک صوبائی نشست بھی نہ جیت پائے۔ پیرپگارا اپنے روایتی حلقوں سے جیت کر آئے تو جتوئی صاحبان بھی مگر ارباب رحیم صاحب ہار گئے۔
موجودہ حکومت کو ابھی دو مہینے بھی نہیں گزر ے تھے کہ صدراتی انتخابات سر پر آگئے، متحدہ سے میاں صاحب کی قربتیں بڑھنے لگیں تو سندھ کے گورنر وہی ! تو کیا ممتاز بھٹو اور غوث علی شاہ صدارتی امیدوار تو دور کی بات، گورنر ہونے کی امید سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے؟ بات قوم پرستوں سے بھی آگے نکلتی ہوئی پورے سندھ کے پڑھے لکھے حلقوں میں اس وقت غم و غصہ کی شکل اختیار کرگئی جب شاہد خاقان عباسی صاحب کا یہ بیان سامنے آیا کہ ان کی پارٹی آئین کے آرٹیکل 158 میں ترمیم لائے گی تاکہ گیس کی فراہمی کو پورے ملک میں یکسانیت دی جاسکے۔ اور پھر یہ سرگوشیاں بھی اٹھنے لگیں کہ اٹھارویں ترمیم کو رول بیک کیا جائے گا۔
اب یہ موقع پیپلز پارٹی کے لیے بھی کسی شارٹ بال سے کم نہ تھا اور انھوں نے بھی اس وکٹ پر خوب کھیلا۔ پارٹی نے زرداری صاحب کے منہ بولے بھائی اویس مظفر ہاشمی عرف ''ٹپی'' کو اپنے ایکشن میں یہ باور کرانے کی اجازت دیدی کہ وہ سندھ کے defacto وزیراعلیٰ ہیں۔ کتنا مشکل تھا ، اس سے پہلے ''ٹپی ' ' کو وزی راعلیٰ بنانا!! کہ سندھی قوم پرست کہیں لوکل باڈیز آرڈیننس جیسا شوشہ نہ کھڑا کردیں۔ کیوں کہ اویس مظفر ٹپی سندھ کے پہلے مہاجر وزیراعلیٰ ہوتے۔
پیرپگارا ابھی نئے افق پر ابھرے تھے، یوں لگا کہ وہ سندھ کو متبادل قیادت دے سکیں گے۔ انھوں نے یہ تاثر دینے میں کامیابی حاصل کی کہ وہ اپنے والد کی روایت کے نہیں بلکہ اپنے دادا کی روایات کی پاسداری رکھیں گے۔ وہ احساس بھی یک بہ یک ٹوٹ گیا ۔ قوم پرست اب خود گھروں کے اندر محصور ہو کر رہ گئے۔ ڈاکٹر قادر مگسی کی پارٹی سے ایک بڑا گروپ ٹوٹا تو پیپلز پارٹی میں جا کے ضم ہوا، گل محمد جکھرانی کے پارٹی میں آنے کے بعد یہ دوسرا بڑا واقعہ تھا جس سے یہ قیاس آرائی کی جاسکتی ہے کہ آگے جاکے پیپلز پارٹی یا تو اپنی ماہیت تبدیل کرکے سندھ کے اندر NAP والی شکل نہ اختیار کرلے اور قوم پرست اس موقع پرست سیاست کا حصہ بن جائیں جس کا الزام وہ پیپلز پارٹی پر لگایا کرتے تھے۔
یہ بات بھی یہاں و اضح کرتا چلوں کہ زرداری صاحب کے والد حاکم علی زرداری NAP سندھ کے صدر بھی رہ چکے ہیں۔ لیکن مختلف بات یہ ہے کہ خیبرپختونخواہ میں خان اور اس کی بیٹھک Locus of Power نہیں رہی جب کہ سندھ کے اندر وڈیرہ اور اس کی اوطاق اب بھی معنی رکھتی ہے۔ پارٹی اربن امیج والا مظفر ہاشمی اور رضا ربانی جیسا لیڈر سامنے لا کے اس مرتبہ سندھ کی اربن مڈل کلاس کے لیے گنجائش نکالتی ہوئی بھی نظر آرہی ہے۔ یوں لگتا ہے کہ صرف قوم پرستوں کو مشکل میں نہیں بلکہ خود میاں صاحب کو بھی مشکل میں ڈالتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ اس کے باوجود بھی کہ شاہد خاقان عباسی نے اپنے بیان کی تردید کردی ہے۔
میاں صاحب ایک تو پنجاب سے ہی جیتے اور ماضی کی طرح نہ سندھ سے، نہ خیبرپختونخواہ میں لیکن پھر بھی ان کے دو فیصلے ان میں نیشنل لیڈر کی جھلک دکھلا رہے تھے۔ ایک تو خیبرپختونخواہ میں عمران کے مینڈیٹ کا احترام کیا۔ بلوچستان میں بھی قوم پرستوں کو حکومت بنانے دی۔ لیکن متحدہ کے ساتھ اتحاد ، آرٹیکل 158 میں ترمیم، اٹھارویں ترمیم میں ترمیم وغیرہ وغیرہ۔چنانچہ وہ جو بے نظیر جیسے نیشنل لیڈر نظر آتے تھے، اب لاہوری زیادہ نظر آتے ہیں۔
غور سے دیکھا جائے تو وزیراعظم کا چناؤ آبادی کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ کیونکہ یہ کام قومی اسمبلی کرتی ہے، اس کے برعکس صدر کا انتخاب سینیٹ و صوبائی اسمبلیاں بھی کرتی ہیں۔ صدر اور کچھ نہیں وفاق کی علامت تو ہوتا ہے، لیکن آئین کے آرٹیکل 48 کے تحت وہ وہی کچھ کرسکتا ہے جو اسے حکومت کہے گی ۔
پاکستان 1970ء میں ایک مشکل دوراہے پر اس وقت کھڑا ہوگیا جب بنگالیوں نے صرف ایک ہی پارٹی کو ووٹ دیا، اور وہ پارٹی اکیلے وفاق میں حکومت بنانے کے قابل ہوگئی۔ مگر عسکری طاقت جس کا تعلق ویسٹ پاکستان سے تھا، اقتدار د ینے سے انکار کر بیٹھی اور یوں پاکستان دو لخت ہوا۔
1970ء کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ پنجاب نے تقریباً اسی انداز میں ایک پارٹی کو جتوایا ہے اور وہ پارٹی صرف پنجاب میں سے جیتے ہوئے ووٹ سے وفاق میں حکومت بناسکتی ہے اور اس نے بنائی۔ یہ ایک آئینی حقیقت ہے اور حق بھی ہے لیکن فیڈریشن کے نازک و باریک توازن پر کچھ زیادہ بوجھ پڑ گیا ہے اور معاملہ کچھ زیادہ ہی حساس ہے۔ اس لیے پھونک پھونک کر چلنے کی اشد ضرورت ہے۔ غور سے دیکھا جائے تو جیتے ہوئے صدر صاحب بھی اپنے ووٹوں میں 80 فیصد تناسب پنجاب سے رکھتے ہیں۔ اور اگر غور سے دیکھا جائے تو سپریم کورٹ میں ججوں کا تقرر بھی آبادی کے تناسب سے ہی ہوتا ہے۔ اور یہ حقیقت بھی آئینی ہے۔
تو پھر آئین میں اگر ترمیم لانی ہے تو ایک ایسا آئین وضع ہوسکے جو بالکل اپنی روح میں فیڈریشن کی عکاس کرتا ہو نہ کہ روایتی ۔یوں چاروں صوبوں میں اور بھی اعتماد کی فضا قائم کرسکے گا۔ اس طرح کے خیالات کوئی اور نہیں بلکہ عاصمہ جہانگیر رکھتی ہیں۔ جو پاکستان کا میری نظر میں ایک ضمیر ہیں ، جن کا تعلق کسی اور جگہ سے نہیں بلکہ میاں صاحب کے لاہور سے ہی ہے۔
دوسری طرف بھی سارے سیاسی تجزیہ نگار اس کسوٹی کو توڑنا چاہتے ہیں کہ بھلا آخر کیا وجہ تھی کہ میاں صاحب، متحدہ کے بالکل قریب آگئے جو دیکھنے میں اس سے پہلے انہونی سی بات تھی؟ دراصل دونوں کا مقابلہ PTI سے ہے۔ PTI اگر کراچی میں اگلے انتخابات میں جگہ بناتی ہے تو وہ پھر لاہور میں بھی جگہ بنائے گی۔ اس لیے متحدہ جو اپنے تاریخ کے بدترین داخلی بحران سے گذر رہی ہے۔ اس کو بھی میاں صاحب کی قربت سے ایک اخلاقی بیل آؤٹ مل گیا۔ دوسری طرف کراچی کے مجموعی ماڈریٹ حلقوں میں یہ بھی خوف ہے کہ اگر متحدہ بالکل ہی کمزور ہوجائے گی تو ہوسکتا ہے کہیں وہ خلا طالبان نہ بھر لیں۔
ہاں مگر ساتھ ساتھ حقیقت یہ بھی ہے کہ خود پیپلز پارٹی بھی اپنے زاویے سے ہی سہی ، جو کہ متحدہ کے بحران سے مختلف ہے، لیکن گذر یہ بھی اپنی تاریخ کے شدید بحران سے رہی ہے۔ جو قیادت کا خلا بلاول بھٹو نے بھرنا تھا وہ اس کی غیر سنجیدگی کی وجہ سے اب عمران خان بھرتا ہوا نظر آرہا ہے۔
ابھی میاں صاحب کے لیے ماحول ہموار ہوا ہی تھا ، وہ دہشتگردی کے خلاف ایک جامع حکمت عملی جوڑنے کو جارہے تھے ، معیشت کی بہتری کے لیے غیر مقبول فیصلے کرنے تھے، کہ اچانک فیڈریشن کے باریک و نازک توازن پر بھی زور آگیا ہے۔ وہ یقیناً چاہیں گے کہ کبھی بھی یہ تاثر نہ ابھرے کہ وہ صرف لاہور کے وزیراعظم ہیں، بلکہ وہ اتنے ہی لاڑکانہ، کوئٹہ اور پشاور کے بھی ہیں۔ اس حوالے سے بھی ان کو آگے آنا پڑے گا ، اس لیے اگر وہ آئندہ پنجاب سے 15 بیس نشستیں گنواتے بھی ہیں اور اس کے عوض پانچ دس سندھ سے حاصل کرسکتے ہیں تو نیشنل لیڈر کے طور پر ابھرنے کے لیے یہ سودا مہنگا نہیں ہوگا۔
موجودہ حکومت کو ابھی دو مہینے بھی نہیں گزر ے تھے کہ صدراتی انتخابات سر پر آگئے، متحدہ سے میاں صاحب کی قربتیں بڑھنے لگیں تو سندھ کے گورنر وہی ! تو کیا ممتاز بھٹو اور غوث علی شاہ صدارتی امیدوار تو دور کی بات، گورنر ہونے کی امید سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے؟ بات قوم پرستوں سے بھی آگے نکلتی ہوئی پورے سندھ کے پڑھے لکھے حلقوں میں اس وقت غم و غصہ کی شکل اختیار کرگئی جب شاہد خاقان عباسی صاحب کا یہ بیان سامنے آیا کہ ان کی پارٹی آئین کے آرٹیکل 158 میں ترمیم لائے گی تاکہ گیس کی فراہمی کو پورے ملک میں یکسانیت دی جاسکے۔ اور پھر یہ سرگوشیاں بھی اٹھنے لگیں کہ اٹھارویں ترمیم کو رول بیک کیا جائے گا۔
اب یہ موقع پیپلز پارٹی کے لیے بھی کسی شارٹ بال سے کم نہ تھا اور انھوں نے بھی اس وکٹ پر خوب کھیلا۔ پارٹی نے زرداری صاحب کے منہ بولے بھائی اویس مظفر ہاشمی عرف ''ٹپی'' کو اپنے ایکشن میں یہ باور کرانے کی اجازت دیدی کہ وہ سندھ کے defacto وزیراعلیٰ ہیں۔ کتنا مشکل تھا ، اس سے پہلے ''ٹپی ' ' کو وزی راعلیٰ بنانا!! کہ سندھی قوم پرست کہیں لوکل باڈیز آرڈیننس جیسا شوشہ نہ کھڑا کردیں۔ کیوں کہ اویس مظفر ٹپی سندھ کے پہلے مہاجر وزیراعلیٰ ہوتے۔
پیرپگارا ابھی نئے افق پر ابھرے تھے، یوں لگا کہ وہ سندھ کو متبادل قیادت دے سکیں گے۔ انھوں نے یہ تاثر دینے میں کامیابی حاصل کی کہ وہ اپنے والد کی روایت کے نہیں بلکہ اپنے دادا کی روایات کی پاسداری رکھیں گے۔ وہ احساس بھی یک بہ یک ٹوٹ گیا ۔ قوم پرست اب خود گھروں کے اندر محصور ہو کر رہ گئے۔ ڈاکٹر قادر مگسی کی پارٹی سے ایک بڑا گروپ ٹوٹا تو پیپلز پارٹی میں جا کے ضم ہوا، گل محمد جکھرانی کے پارٹی میں آنے کے بعد یہ دوسرا بڑا واقعہ تھا جس سے یہ قیاس آرائی کی جاسکتی ہے کہ آگے جاکے پیپلز پارٹی یا تو اپنی ماہیت تبدیل کرکے سندھ کے اندر NAP والی شکل نہ اختیار کرلے اور قوم پرست اس موقع پرست سیاست کا حصہ بن جائیں جس کا الزام وہ پیپلز پارٹی پر لگایا کرتے تھے۔
یہ بات بھی یہاں و اضح کرتا چلوں کہ زرداری صاحب کے والد حاکم علی زرداری NAP سندھ کے صدر بھی رہ چکے ہیں۔ لیکن مختلف بات یہ ہے کہ خیبرپختونخواہ میں خان اور اس کی بیٹھک Locus of Power نہیں رہی جب کہ سندھ کے اندر وڈیرہ اور اس کی اوطاق اب بھی معنی رکھتی ہے۔ پارٹی اربن امیج والا مظفر ہاشمی اور رضا ربانی جیسا لیڈر سامنے لا کے اس مرتبہ سندھ کی اربن مڈل کلاس کے لیے گنجائش نکالتی ہوئی بھی نظر آرہی ہے۔ یوں لگتا ہے کہ صرف قوم پرستوں کو مشکل میں نہیں بلکہ خود میاں صاحب کو بھی مشکل میں ڈالتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ اس کے باوجود بھی کہ شاہد خاقان عباسی نے اپنے بیان کی تردید کردی ہے۔
میاں صاحب ایک تو پنجاب سے ہی جیتے اور ماضی کی طرح نہ سندھ سے، نہ خیبرپختونخواہ میں لیکن پھر بھی ان کے دو فیصلے ان میں نیشنل لیڈر کی جھلک دکھلا رہے تھے۔ ایک تو خیبرپختونخواہ میں عمران کے مینڈیٹ کا احترام کیا۔ بلوچستان میں بھی قوم پرستوں کو حکومت بنانے دی۔ لیکن متحدہ کے ساتھ اتحاد ، آرٹیکل 158 میں ترمیم، اٹھارویں ترمیم میں ترمیم وغیرہ وغیرہ۔چنانچہ وہ جو بے نظیر جیسے نیشنل لیڈر نظر آتے تھے، اب لاہوری زیادہ نظر آتے ہیں۔
غور سے دیکھا جائے تو وزیراعظم کا چناؤ آبادی کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ کیونکہ یہ کام قومی اسمبلی کرتی ہے، اس کے برعکس صدر کا انتخاب سینیٹ و صوبائی اسمبلیاں بھی کرتی ہیں۔ صدر اور کچھ نہیں وفاق کی علامت تو ہوتا ہے، لیکن آئین کے آرٹیکل 48 کے تحت وہ وہی کچھ کرسکتا ہے جو اسے حکومت کہے گی ۔
پاکستان 1970ء میں ایک مشکل دوراہے پر اس وقت کھڑا ہوگیا جب بنگالیوں نے صرف ایک ہی پارٹی کو ووٹ دیا، اور وہ پارٹی اکیلے وفاق میں حکومت بنانے کے قابل ہوگئی۔ مگر عسکری طاقت جس کا تعلق ویسٹ پاکستان سے تھا، اقتدار د ینے سے انکار کر بیٹھی اور یوں پاکستان دو لخت ہوا۔
1970ء کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ پنجاب نے تقریباً اسی انداز میں ایک پارٹی کو جتوایا ہے اور وہ پارٹی صرف پنجاب میں سے جیتے ہوئے ووٹ سے وفاق میں حکومت بناسکتی ہے اور اس نے بنائی۔ یہ ایک آئینی حقیقت ہے اور حق بھی ہے لیکن فیڈریشن کے نازک و باریک توازن پر کچھ زیادہ بوجھ پڑ گیا ہے اور معاملہ کچھ زیادہ ہی حساس ہے۔ اس لیے پھونک پھونک کر چلنے کی اشد ضرورت ہے۔ غور سے دیکھا جائے تو جیتے ہوئے صدر صاحب بھی اپنے ووٹوں میں 80 فیصد تناسب پنجاب سے رکھتے ہیں۔ اور اگر غور سے دیکھا جائے تو سپریم کورٹ میں ججوں کا تقرر بھی آبادی کے تناسب سے ہی ہوتا ہے۔ اور یہ حقیقت بھی آئینی ہے۔
تو پھر آئین میں اگر ترمیم لانی ہے تو ایک ایسا آئین وضع ہوسکے جو بالکل اپنی روح میں فیڈریشن کی عکاس کرتا ہو نہ کہ روایتی ۔یوں چاروں صوبوں میں اور بھی اعتماد کی فضا قائم کرسکے گا۔ اس طرح کے خیالات کوئی اور نہیں بلکہ عاصمہ جہانگیر رکھتی ہیں۔ جو پاکستان کا میری نظر میں ایک ضمیر ہیں ، جن کا تعلق کسی اور جگہ سے نہیں بلکہ میاں صاحب کے لاہور سے ہی ہے۔
دوسری طرف بھی سارے سیاسی تجزیہ نگار اس کسوٹی کو توڑنا چاہتے ہیں کہ بھلا آخر کیا وجہ تھی کہ میاں صاحب، متحدہ کے بالکل قریب آگئے جو دیکھنے میں اس سے پہلے انہونی سی بات تھی؟ دراصل دونوں کا مقابلہ PTI سے ہے۔ PTI اگر کراچی میں اگلے انتخابات میں جگہ بناتی ہے تو وہ پھر لاہور میں بھی جگہ بنائے گی۔ اس لیے متحدہ جو اپنے تاریخ کے بدترین داخلی بحران سے گذر رہی ہے۔ اس کو بھی میاں صاحب کی قربت سے ایک اخلاقی بیل آؤٹ مل گیا۔ دوسری طرف کراچی کے مجموعی ماڈریٹ حلقوں میں یہ بھی خوف ہے کہ اگر متحدہ بالکل ہی کمزور ہوجائے گی تو ہوسکتا ہے کہیں وہ خلا طالبان نہ بھر لیں۔
ہاں مگر ساتھ ساتھ حقیقت یہ بھی ہے کہ خود پیپلز پارٹی بھی اپنے زاویے سے ہی سہی ، جو کہ متحدہ کے بحران سے مختلف ہے، لیکن گذر یہ بھی اپنی تاریخ کے شدید بحران سے رہی ہے۔ جو قیادت کا خلا بلاول بھٹو نے بھرنا تھا وہ اس کی غیر سنجیدگی کی وجہ سے اب عمران خان بھرتا ہوا نظر آرہا ہے۔
ابھی میاں صاحب کے لیے ماحول ہموار ہوا ہی تھا ، وہ دہشتگردی کے خلاف ایک جامع حکمت عملی جوڑنے کو جارہے تھے ، معیشت کی بہتری کے لیے غیر مقبول فیصلے کرنے تھے، کہ اچانک فیڈریشن کے باریک و نازک توازن پر بھی زور آگیا ہے۔ وہ یقیناً چاہیں گے کہ کبھی بھی یہ تاثر نہ ابھرے کہ وہ صرف لاہور کے وزیراعظم ہیں، بلکہ وہ اتنے ہی لاڑکانہ، کوئٹہ اور پشاور کے بھی ہیں۔ اس حوالے سے بھی ان کو آگے آنا پڑے گا ، اس لیے اگر وہ آئندہ پنجاب سے 15 بیس نشستیں گنواتے بھی ہیں اور اس کے عوض پانچ دس سندھ سے حاصل کرسکتے ہیں تو نیشنل لیڈر کے طور پر ابھرنے کے لیے یہ سودا مہنگا نہیں ہوگا۔