فلسطین مصر اور عراق کی صورتحال پہلا حصہ

غزہ کا محاصرہ بھی ختم نہیں کیا جائے گا تاہم امن مذاکرات ہوتے رہے ہیں۔


Sabir Karbalai August 15, 2013

ISLAMABAD: فلسطین کے جائز حقوق کی پامالی کا خطرہ، عراقی عوام کی قتل و غارت اور مصر میں جاری سیاسی بحران سے پائی جانے والی تشویش وہ عمل ہے کہ جو مشرق وسطی میں بسنے والی تمام مسلمان اقوام میں بھی قابل مشاہدہ ہے۔گزشتہ چند ماہ میں مشرق وسطیٰ میں رونما ہونے والے حالات اور واقعات کو دیکھتے ہوئے ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ امریکا اور اس کے حواری غاصب صہیونی ریاست اسرائیل کے تحفظ کے لیے مشرق وسطیٰ کو ترنوالہ سمجھ کر ہڑپنا چاہتے ہیں۔ ایک طرف تو مصر میں جاری سیاسی کشمکش اور فلسطین اتھارٹی اور اسرائیلی حکام کے درمیان شروع ہونے والے امن مذاکرات ہیں تو دوسری طرف عراق اور شام کی صورتحال انتہائی تشویش ناک ہے۔

فلسطین اور اسرائیل کے درمیان مذاکرات یا امن مذاکرات کا ڈراما شروع کرنے میں در اصل امریکا کا اہم ترین کردار ہے جسے کسی صورت فراموش نہیں کیا جا سکتا ہے۔ امریکا ایک طرف مشرق وسطیٰ کے ممالک مصر، عراق، لبنان، شام سمیت دیگر مقامات پر اپنے ایجنٹوں کی مدد سے بحران پیدا کررہا ہے تاکہ مشرق وسطیٰ غیر مستحکم حالت میں رہے جب کہ اسی صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے امریکی صدر بارک اوباما نے ایک مرتبہ پھر امن مذاکرات کا راگ الاپنا شروع کردیا ہے، جس کا نتیجہ پہلے سے ہی طے شدہ ہے کہ غاصب اسرائیل ان امن مذاکرات کو کسی خاطر میں نہ لاتے ہوئے فلسطینیوں کی سرزمین پر یہودی بستیاں تعمیر کرتا رہے گا، معصوم فلسطینیوں کے خون سے ہولی کھیلی جاتی رہے گی، فلسطینیوں کا قتل عام بھی جاری رہے گا، غزہ کا محاصرہ بھی ختم نہیں کیا جائے گا تاہم امن مذاکرات ہوتے رہے ہیں۔ یقیناً یہ ایک حیرت انگیز بات ہے۔

امریکا میں بارک اوباما کا دوسری بار صدر منتخب ہونے اور جان کیری کو وزیر خارجہ کے عہدے پر منصوب کیے جانے کے بعد نام نہاد مشرق وسطیٰ امن مذاکرات کو بحال کرنے کی کوششوں میں تیزی آگئی۔ جان کیری 2004 میں امریکا کے صدارتی انتخابات میں امیدوار کے طور پر سامنے آچکا ہے لیکن القاعدہ کے سابق سربراہ اسامہ بن لادن کی جانب سے شدید اللحن دھمکیاں باعث بنیں کہ اس کا رقیب یعنی جارج بش جونیئر صدارتی انتخابات میں کامیاب قرار پائے۔ اس نے امریکی وزارت خارجہ کا قلمدان سنبھالتے ہی فلسطین اتھارٹی اور اسرائیلی حکام کے درمیان امن مذاکرات دوبارہ شروع کروانے کی سرتوڑ کوششیں شروع کردیں۔ مشرق وسطیٰ میں امن مذاکرات کے احیاء کے لیے امریکا کی جانب سے یہ پہلی کوشش نہ تھی بلکہ جب ہلیری کلنٹن امریکی وزیر خارجہ کے عہدے پر فائز تھی اس وقت بھی امریکا نے اس سلسلے میں کافی کوششیں انجام دیں۔ لیکن 1967 کی فلسطینی سرزمین میں یہودی بستیوں کی تعمیر کے سلسلے کو جاری رکھے جانے کے بارے میں اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کی جانب سے غیرمعقول اور شدت پسندانہ موقف اپنائے جانے کی وجہ سے فلسطین اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس نے مذاکرات سے کنارہ کشی کا اعلان کر دیا۔ جب کہ اس بار مشرقی بیت المقدس اور کرانہ باختری میں یہودی بستیوں کی تعمیر کا سلسلہ جاری رہنے کے باوجود محمود عباس امریکی دبائو کے تحت مذاکرات کی میز پر واپس لوٹ آئے ہیں۔

امریکا نے اسرائیل کو مذاکرات کی میز پر بیٹھنے اور ابومازن محمود عباس کے ساتھ گفتگو کو ازسر نو شروع کرنے پر مجبور کرنے کے لیے دھمکیوں اور لالچ دینے کی پالیسی سے کام لیا ہے۔ اگرچہ اوباما کی حکومت نے اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کو مذاکرات میں شرکت کرنے کی صورت میں وسیع پیمانے پر مدد کا وعدہ کیا ہے لیکن دوسری طرف یورپی یونین نے اسرائیلی بستیوں میں تیارکردہ مصنوعات کے بائیکاٹ کا اعلان کرکے لالچ پر مبنی امریکی پالیسی کی تکمیل کردی ہے۔ دوسری طرف محمود عباس کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے امریکا کو کسی تگ و دو کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔ محمود عباس اس لیے مذاکرات کو جاری رکھے ہوئے ہیں کیونکہ انھوں نے 1993 میں اسرائیل کے مقابلے میں مسلح جدوجہد کا آپشن ترک کرکے اپنے سامنے اسرائیل کے ساتھ مذاکرات جیسے تحقیر آمیز راستے کے علاوہ کوئی اور راستہ باقی نہیں چھوڑا۔ جس دن ابوعمار یاسر عرفات نے وائٹ ہائوس کے سامنے والے لان میں بیٹھ کر اسرائیل کے مقابلے میں مسلح جدوجہد کے خاتمے کی علامت کے طور پر اپنا ذاتی اسلحہ امریکی صدر بل کلنٹن کے حوالے کر دیا، اسی وقت واضح ہو گیا تھا کہ یاسر عرفات اور ان کی جماعت پی ایل او جس کے موجودہ وارث ابومازن محمود عباس ہیں اپنی عزت اور اعتبار کھو چکے ہیں۔

فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ ابومازن یقیناً مذاکرات میں کم ترین امتیازات پر راضی ہو جانے کی پالیسی اپنائیں گے جب کہ دوسری طرف اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو جو بین الاقوامی سطح پر امریکا اور مغربی قوتوں جیسی مضبوط بیک کا حامل ہے، کی پوری کوشش ہو گی کہ ان مذاکرات میں اپنے فلسطینی رقیب سے زیادہ سے زیادہ مراعات وصول کرے۔ ابھی سے یہ پیش بینی بھی کی جاسکتی ہے کہ بنجمن نیتن یاہو کسی حالت میں فلسطینی مہاجرین کی اپنی آبائی سرزمین میں واپسی کو قبول نہیں کرے گا بلکہ اس کی کوشش ہو گی کہ 1967 کی جنگ میں ہتھیانے والی فلسطینی سرزمین خاص طور پر وہ علاقے جہاں یہودی بستیاں تعمیر کی جا رہی ہیں پر اپنا دائمی قبضہ جما لے، اس کے علاوہ چونکہ اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو اسرائیل کی قومی سلامتی پر بہت زیادہ تاکید کرتا ہوا نظر آتا ہے لہٰذا اس سے یہ توقع بھی نہیں رکھی جاسکتی کہ وہ فلسطینیوں کو ایک ایسی آزاد اور خودمختار مسلح فورس بنانے کی اجازت دے گا جو فلسطین کی جغرافیائی حدود کا معقول دفاع کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو اور ایسی ریاست جو اپنی جغرافیائی حدود کا دفاع کرنے پر قادر نہ ہو اس کی حاکمیت اور رٹ کا کیا تصور کیا جا سکتا ہے؟

فلسطین کے نام نہاد امن مذاکرات کے بارے میں ایران کے سپریم لیڈر آیت اﷲ سید علی خامنہ ای کا اصولی موقف ہے جو انھوں نے گزشتہ 34 سال سے اپنا رکھا ہے۔ خامنہ ای نے عید الفطر کے موقع پر لاکھوں افراد کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ ''یقیناً ماضی کے مذاکرات کی طرح حالیہ مذاکرات کا نتیجہ بھی مظلوم فلسطینی عوام کے جائز حقوق کی پامالی اور مزید ظلم و ستم کرنے کے لیے ظالم اسرائیلی رجیم کی حوصلہ افزائی کے سوا کچھ نہیں نکلے گا''۔ انھوں نے ان مذاکرات میں امریکا کی جانب سے ثالثی کا کردار ادا کرنے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ''امریکا کھلم کھلا غاصب صہیونی رجیم کی حمایت کر رہا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ عالمی استعماری قوتوں کی جانب سے انجام پانے والے مذاکرات کا نتیجہ صرف اور صرف فلسطینی عوام کے نقصان پر ہی منتج ہوسکتا ہے''۔ ان کاکہنا تھا کہ ''عالم اسلام کو چاہیے کہ وہ اس واضح ظلم و ستم کے مقابلے میں اٹھ کھڑا ہو اور صہیونی بھیڑیوں کے شرمناک جرائم اور ان کے بین الاقوامی حامیوں کی شدید الفاظ میں مذمت کرے''۔ (جاری ہے)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔