انصاف کی دنیا میں مثبت قدم
خیبرپختونخوا میں موبائل کورٹ کے قیام کی طرف پہلا قدم بڑھایا گیا ہے.
اس امر سے کسی کو اختلاف نہیں اور اس امر پر سب کا اتفاق ہے کہ کسی بھی معاشرے میں سماجی مار دھاڑ خواہ وہ انسانی جانوں کے لینے دینے کے جرائم کے حوالے سے ہو یا اخلاقی گراوٹ سے، اس کو اس وقت تک ''نقطہ صفر'' پر نہیں لایا جاسکتا جب تک اس معاشرے میں انصاف کا عملی طور پر بول بالا اور ظلم کا منہ کالا نہ ہو۔ ناانصافی کی کوکھ سے ہر جرم جنم لیتا ہے اور ایک ایک کرکے یہ معاشرتی و سماجی جرائم آخرکار معاشرے کا مکروہ چہرہ بن جایا کرتے ہیں۔ جلد انصاف، تیز تر انصاف اور سستا انصاف، یہ اوصاف جب معاشرے میں عملی طور پر راسخ ہوجائیں تو اس معاشرے میں بکری اور شیر ایک گھاٹ پر پائے جاتے ہیں۔
خیبرپختونخوا میں موبائل کورٹ کے قیام کی طرف پہلا قدم بڑھایا گیا ہے، انصاف کی فراہمی بلکہ سستے انصاف کی روانی میں یہ موبائل کورٹ کس حد تک کارآمد ثابت ہو تے ہیں؟ آنے والے دنوں میں جب یہ موبائل کورٹ کارکردگی دکھائیں گے تو ان کے نتائج پر بحث کرنا قدرے سہل ہوگا۔ پاکستانی معاشرے میں پسے ہوئے طبقات اس امر کی بنا پر خط ناانصافی میں زندگیاں گزارنے پر مجبور ہیں کہ ان کا کوئی سننے والا نہیں۔ انتظامیہ کی جانب سے ڈھائے جانے والے مظالم اور زیادتیوں کے ازالے کے لیے ہمارے ملک میں انگریزوں کا عطیہ کردہ نظام انصاف رائج ہے، جس میں اتنے پیچ و خم ہیں کہ مظلوم اور خاص طور پر غریب طبقات کے لیے اس نظام کے تحت انصاف کا حصول ناممکن نہیں تو ازحد مشکل ضرور ہے۔ صرف ضلعی عدالتوں میں جانے اور وہاں پر کیس چلانے کے لیے نہ صرف عمر خضر درکار ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ جیب کا ''بھاری'' ہونا بھی ضروری ہے۔
نظام انصاف میں ''خم دار'' قسم کے الجھائو اور پھر پیسے سے جیب کا خالی ہونا یہ وہ دو اہم تر محرکات ہیں کہ جن کی بنا پر عام اور خاص طور پر غریب عوام عدالتی نظام سے انصاف حاصل کرنے سے قاصر ہیں۔ اگر موبائل کورٹ کے نظام کو انصاف کی فراہمی اور عام آدمی کے انصاف تک رسائی کے لیے پورے ملک میں عام کیا جائے تو اس سے جہاں انصاف کی فراہمی میں خاطر خواہ اضافہ دیکھنے کو مل سکے گا، وہاں تحصیل، ضلعی اور اعلیٰ عدالتوں پر مقدمات کا بوجھ بھی کسی حد تک کم ہو سکے گا۔ موبائل کورٹ کے ساتھ ساتھ اگر ہائی کورٹ کے سنگل بنچ کو ڈویژن سے ضلعی مقامات تک وسعت دی جائے، اس اقدام سے بھی سستے اور تیز تر انصاف کی فراہمی میں کافی حد تک بہتری آسکے گی اور عوام کو اپنے حقوق کے حصول کے لیے دور دراز شہروں میں دھکے کھانے سے نجات مل سکے گی۔
معاشرے میں جبر، ناانصافی یا پھر انصاف کے عمل میں تاخیر سے جنم لیا کرتا ہے۔ فقط ایک لمحے کے لیے اگر پاکستانی معاشرے کے مسائل کا مشاہدہ کیا جائے، اس مشاہدے کے بعد جو نتیجہ ہمارے سامنے آئے گا اس کے تانے بانے کہیں نہ کہیں معاشرتی ناانصافی سے ملتے نظر آئیں گے۔ ملکی خزانے کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے کی سوچ اور عمل کے پیچھے کیا نظریہ کارفر ما ہے؟ یہی کہ انصاف کا عمل چونکہ ''خم دار'' ہے لہٰذا پھنسنے سے پہلے ہی چھوٹ جانے کا نظریہ تناور درخت بن چکا ہے۔ دیوانی معاملات میں قانون کو ہاتھ میں لینے کے پیچھے بھی کچھ ایسے ہی عوامل کارفرما نظر آتے ہیں۔ معاشرے میں قدم قدم پر عدم برداشت اور قانون کو ہاتھ میں لینے کے جو مناظر ہر روز میڈیا کے توسط سے ہم ملاحظہ کرتے ہیں، ان کے پیچھے صرف اور صرف یہ سوچ کارفرما ہے کہ انصاف بروقت ملتا نہیں اور جو کمزور ہیں وہ انصاف ملنے کی نوید سے ناامید ہیں، جو طاقت ور ہیں وہ قانون کو پہلے ہاتھ میں لیتے ہیں اور بعد میں اسی قانون سے ''کھیلتے'' نظر آتے ہیں۔ دوسری جانب پسے ہوئے طبقات محض ہاتھ ''ملتے'' اور آہیں بھرتے نظر آتے ہیں۔
پاکستانی معاشرے کو مہذب معاشرے کے سانچے میں ڈھالنے کے لیے ضروری ہے کہ ہر ایک کو بلاتفریق اور بلاتخصیص انصاف ملے، لیکن بروقت اور برمحل ملے۔ کے پی کے میں جس طرح سے تیز تر انصاف کی فراہمی کے لیے موبائل کورٹ کے قیام کا قدم اٹھایا گیا ہے، اگر باقی ماندہ تین صوبے بھی انصاف کی جلد فراہمی کے سلسلے میں ایسے بلکہ اس سے کہیں زیادہ بہتر، موثر اور جامع قسم کے انقلاب آفریں اقدمات کریں تو معاشرے میں قانون کی حکمرانی کا خواب صحیح معنوں میں شرمندہ تعبیر پاسکتا ہے۔ معاشرے کی تمام تر خوش حالی کے سرچشمے انصاف کے وصف سے پھوٹتے ہیں، جب تک پاکستانی معاشرے میں عوامی امنگوں کے عین مطابق انصاف کی فراہمی کو ممکن نہیں بنایا جاتا۔ معاشرے کے تمام اداروں میں ظلم کی رادھا اسی طرح ناچا کر ے گی جس طرح سے اب ناچ رہی ہے۔آج بطور مجموعی ہمارا معاشرہ جن مسائل کا شکار ہے ان کی بنیادی وجہ صرف انصاف کی فراہمی میں تاخیر ہے۔ جب انصاف بولے گا تو معاشرے کا فرد اپنے عمل کو ہر قدم پر ''تولے'' گا اور جب ہمارے معاشرتی زندگی کے ہر پہلو میں ''ناپ تول'' کا حساب ہر فرد رکھے گا تو یہاں خوش حالی بھی ہوگی، امن بھی ہوگا اورجرائم کی بیخ کنی کی آرزو بھی حقیقت کا روپ دھار سکے گی۔