قیادت کا فقدن اور قومی بحران
جمہوریت میں سیاست اوراس سے جڑی قیادت کی اہمیت سب سے زیادہ ہوتی ہے
MUMBAI, INDIA:
پاکستان داخلی اور خارجی محاذ پر بڑے بحران سے گزررہا ہے۔ یہ بحران آج کا پیدا کردہ نہیں بلکہ کئی دہائیوں سے جاری ہے۔ سیاسی قیادت ہی نہیں بلکہ تمام اداروں سمیت ہر شعبہ کی قیادت اس بحران کی براہ راست ذمے دار ہے۔سیاسی اور فوجی قیادتوں نے ماضی میں جس انداز سے ملک چلایا وہ ظاہر کرتا ہے کہ مسئلہ ملک کو قانون کی حکمرانی کے تابع بن کر چلانا مقصود نہیں تھا۔ سب فریقین جب ذاتی مفادات پر مبنی سیاست کریں گے تو اس سے ملک کا قومی مفاد ہمیشہ پس پشت چلا جاتا ہے ۔ مسئلہ یہ نہیں کہ ہم کسی ایک فریق پر ناکامی کی ذمے داری ڈال کر باقی فریقین کو بچانے کی کوشش کریں، یہ رویہ حالات کی درست نشاندہی اور مسائل کو سمجھنے اورحل کی طرف بڑھنے سے روکتی ہے۔
جمہوریت میں سیاست اوراس سے جڑی قیادت کی اہمیت سب سے زیادہ ہوتی ہے۔کیونکہ جو سیاسی، انتظامی، سماجی اورمعاشی بگاڑ ہے اس کو حل کرنے کی بڑی ذمے داری سیاسی قیادت پر عائد ہوتی ہے۔ لیکن لگتا ہے کہ ہم قومی سطح پر سیاسی بونوں کے شکنجے میں ہیں۔ ہماری سیاسیت شخصیات اوران کے ذاتی مسائل کے گرد گھوم رہی ہے۔ سیاستدان ہوں یا اہل دانش یا میڈیا کا محاذ سب ہی شخصیات کی جنگ لڑرہے ہیں۔
عموماً یہ دلیل دی جاتی ہے کہ قیادت بڑے مسائل اور بحران سے نکلنے کا راستہ فراہم کرتی ہے۔ وہ لوگوں میں مایوسی کے بجائے امید کا پہلو اور یقین پیدا کرتی ہے لیکن جب قیادت کے سامنے اہداف ذاتی ہوں تو پھر یہ سوال اہم ہوگا کہ قومی مفاد کی جنگ کون لڑے گا۔ یہ جو لوگوں میں قومی سطح پر بداعتمادی کا مسئلہ ہے یہ ایسے ہی پیدا نہیں ہوا بلکہ اس کے پیچھے قیادت کا وہ منفی طرز عمل ہے جو کئی دہائیوں سے جاری ہے۔
ایک طرف سیاسی قیادت جمہوریت کی جنگ لڑنا چاہتی ہے لیکن ان کے لیے یہ محض ایک سیاسی ہتھیار ہے کیونکہ ساری قیادت جمہوریت کا درس تو دیتی ہے لیکن جمہوریت کو مضبوط کرنا ان کا ایجنڈا نہیں۔ سیاستدان سیاسی جماعتوں کو ایک ذاتی پراؤیٹ کمپنی کے طور پر چلانا چاہتے ہیں جو ان کی خاندانی جاگیر کے سوا کچھ نہیں۔ جب سیاسی جماعتوں کا اپنا داخلی نظام غیر جمہوری ہوگا تو ان سے یہ توقع رکھنا کہ یہ لوگ حقیقی جمہوریت کی جنگ لڑنا چاہتے ہیں، محض خوش فہمی ہوگی۔ اسی طرح ہماری قیادت سیاست اور جرائم کے درمیان بنیادی نوعیت کے فرق کو بھی سمجھنے کے لیے تیار نہیں۔ سیاست اور جرائم کا جو گٹھ جوڑ ہے اس نے جمہوریت کو بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ سیاسی جماعتوں میں اچھے پڑھے لکھے لوگوں کے مقابلے میں جرائم پیشہ افراد بالادست ہیں یا ان کا مقصد سیاست کی مدد سے دولت کا حصول ہے۔ یہ جو عالمی سطی پر کارپوریٹ جمہوریت کا مسئلہ ہے جس میں پیسے کو بنیادی فوقیت حاصل ہوگئی ہے اس کی وجہ سے سیاست اور جمہوریت دولت مند افراد کے قبضہ میں ہے۔ اس قبضہ سے کیسے سیاست اورجمہوریت کو بچایا جا سکتا ہے، یہ سوال توجہ طلب ہے۔
پارلیمنٹ کے مسئلہ کو ہی لے لیں۔ کیا پارلیمانی جمہوری نظام میں پارلیمنٹ کو ایسے چلایا جاتا ہے جیسے یہاں چلائی جا رہی ہے۔ حکومت ہو یا حزب اختلاف دونوں کا کردار مایوس کن ہے۔ پارلیمنٹ قومی اور علاقائی سیاسی، سماجی، معاشی اور داخلی و خارجی بحران سے نمٹنے کا ایسا فورم ہے جس نے متبادل حل پیش کرنا ہوتا ہے۔ لیکن یہاں تووزیر اعظم، وفاقی کابینہ، حزب اختلاف، اسٹینڈنگ کمیٹیاں، پارلیمانی سیکریٹری ہوں یا ممبران اسمبلی سب کی پارلیمانی عدم دلچسپی نے پارلیمانی نظام کی افادیت کو ختم کردیا ہے۔
یہ جو سیاسی نظام کے بارے میں بداعتمادی پائی جاتی ہے اس کی دیگر وجوہات کے علاوہ قومی قیادت کا طرز عمل بھی ہے۔ قومی سطح پر ہر طبقہ کی قیادت کی کامیابی کی کنجی افراد کے مقابلے میں ادارہ سازی یا اداروں کی مضبوطی کا ایجنڈا ہوتا ہے۔ لیکن یہاں ہر شعبہ کی قیادت اداروں کو بالادست بنانے سے گریز کرتی ہے۔ کیونکہ ان کی سوچ یہ ہے کہ اگر ادارے مضبوط ہونگے تو ان کو ان اداروں کے سامنے جوابدہ ہونا پڑے گا۔ ان کی سوچ یہ ہوتی ہے کہ وہ اداروں کو مجبور کریں کہ وہ ہمارے تابع ہوں۔ یہ ہی وہ بنیادی مسئلہ ہے جو قومی سطح پر ادارہ سازی میں رکاوٹ پیدا کرتا ہے۔
قیادت کا کمال یہ ہوتا ہے کہ یہ معاشرے میں تقسیم کو ختم کرکے ان میں یکجہتی کو پیدا کرتی ہے۔ لیکن جب قیادت خود تقسیم کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کرے اور یہ ثابت کرے کہ بس وہی محب وطن ہے اورباقی سب غدار۔ یہ رویہ پرتشدد سیاست کو جنم دیتا ہے۔اسی طرح قوم میں ایک مسئلہ طبقاتی نظام بھی ہے۔ ایک اچھی اوربہتر قیادت طبقاتی مسئلہ کے خاتمہ کو اہمیت دیتی ہے اور یہ مسئلہ ان کی ترجیحات کا ہوتا ہے۔ لیکن آج ہماری سیاست، معیشت، سماجیات سمیت ہر شعبہ میں طبقاتی مسئلہ غالب اور انصاف بھی طبقوں میں بٹ کر رہ گیا ہے۔
اس وقت سیاسی اورمعاشی سطح پرجو بحران ہے اس سے نمٹنے کا ایک طریقہ باہمی اشتراک یا مفاہمت کی سیاست سے جڑا ہے۔ مفاہمت سے مراد یہ نہیں ایک دوسرے کے جرائم پر پردہ ڈالا جائے بلکہ قومی معاملات پر یکسوئی درکار ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہم ایک دوسرے کو قبول نہ کرنے یا ایک دوسرے کو ناکام بنانے کے کھیل کا حصہ بن جائیں تو بحران حل نہیں ہوتے بلکہ یہ اور زیادہ بگاڑ پیدا کرتے ہیں ۔مسائل سے نمٹنے کا ایک طریقہ دنیا نے عدم مرکزیت پر مبنی نظا م میں تلاش کیا ہے۔ یعنی اختیارات و وسائل کو زیادہ سے زیادہ نچلی سطح پر لوگوں کے ساتھ جوڑا جائے۔لیکن ہماری قیادت عدم مرکزیت کے بجائے مرکزیت پر کھڑی ہے۔یعنی اختیارات کا مرکز وہ اپنی ذات یا چند اداروں تک ہی محدود کرکے نظام کو چلانا چاہتی ہے، جو ممکن نہیں ۔
ہمیں عملی طور پر ایسی قیادت درکارہے جو ہجوم کو ایک قوم میں تبدیل کرے۔یہ کام مشکل ضرور ہے، مگر ناممکن نہیں۔جب قیادت کے سامنے قومی اہداف واضح ہوں اور قوم کا اس پر اتفاق ہو تو یہ مل کر اس جنگ میں جیت بھی سکتے ہیں ۔لیکن اس کے لیے شرط یہ ہے کہ قیادت خود بھی شفاف اورجوابدہی پر مبنی نظام پر یقین بھی رکھتی ہے۔ سیاست اورجمہوریت کی کامیابی کی ایک بڑی شرط خود احتسابی پر مبنی نظام ہے اوریہ ہی ہماری بڑی ترجیح بھی ہونی چاہیے۔
اس وقت ہمیں بحران سے نکلنے کے لیے روائتی طور طریقوں کے بجائے غیر معمولی اقدامات کو فوقیت دینی ہو گی یعنی کڑوی گولیا ں کھانی ہونگی۔ لیکن یہ اسی صورت میں ممکن ہوگا جب ہم داخلی سطح پر یہ اعتراف کریں کہ ہم سے غلطیاں ہورہی ہیں اور ہم بھی برے حالات کے ذمے دار ہیں۔اب وقت آگیا ہے کہ ہم بطور قوم یا افراد سیاسی قیادتوں کی پوجا پاٹ یا شخصیت پرستی یا اندھا دھند اعتماد یا محبت کرنے کے جنون سے باہر نکلیں اور قیادت پر دباو بڑھائیں کہ ہمیں ان کا روائتی اور ذاتی مفاد پر مبنی کھیل قبول نہیں۔اگر ہمیں یہ جنگ جیتنی ہے تو سیاسی قیادت کو قانون، سیاست، جمہوریت اوراحتساب کے دائرہ کار میں لانا ہوگا، وگرنہ سیاست کا تماشہ ختم نہیں بلکہ اور زیادہ بگاڑ پیدا کرے گا۔
پاکستان داخلی اور خارجی محاذ پر بڑے بحران سے گزررہا ہے۔ یہ بحران آج کا پیدا کردہ نہیں بلکہ کئی دہائیوں سے جاری ہے۔ سیاسی قیادت ہی نہیں بلکہ تمام اداروں سمیت ہر شعبہ کی قیادت اس بحران کی براہ راست ذمے دار ہے۔سیاسی اور فوجی قیادتوں نے ماضی میں جس انداز سے ملک چلایا وہ ظاہر کرتا ہے کہ مسئلہ ملک کو قانون کی حکمرانی کے تابع بن کر چلانا مقصود نہیں تھا۔ سب فریقین جب ذاتی مفادات پر مبنی سیاست کریں گے تو اس سے ملک کا قومی مفاد ہمیشہ پس پشت چلا جاتا ہے ۔ مسئلہ یہ نہیں کہ ہم کسی ایک فریق پر ناکامی کی ذمے داری ڈال کر باقی فریقین کو بچانے کی کوشش کریں، یہ رویہ حالات کی درست نشاندہی اور مسائل کو سمجھنے اورحل کی طرف بڑھنے سے روکتی ہے۔
جمہوریت میں سیاست اوراس سے جڑی قیادت کی اہمیت سب سے زیادہ ہوتی ہے۔کیونکہ جو سیاسی، انتظامی، سماجی اورمعاشی بگاڑ ہے اس کو حل کرنے کی بڑی ذمے داری سیاسی قیادت پر عائد ہوتی ہے۔ لیکن لگتا ہے کہ ہم قومی سطح پر سیاسی بونوں کے شکنجے میں ہیں۔ ہماری سیاسیت شخصیات اوران کے ذاتی مسائل کے گرد گھوم رہی ہے۔ سیاستدان ہوں یا اہل دانش یا میڈیا کا محاذ سب ہی شخصیات کی جنگ لڑرہے ہیں۔
عموماً یہ دلیل دی جاتی ہے کہ قیادت بڑے مسائل اور بحران سے نکلنے کا راستہ فراہم کرتی ہے۔ وہ لوگوں میں مایوسی کے بجائے امید کا پہلو اور یقین پیدا کرتی ہے لیکن جب قیادت کے سامنے اہداف ذاتی ہوں تو پھر یہ سوال اہم ہوگا کہ قومی مفاد کی جنگ کون لڑے گا۔ یہ جو لوگوں میں قومی سطح پر بداعتمادی کا مسئلہ ہے یہ ایسے ہی پیدا نہیں ہوا بلکہ اس کے پیچھے قیادت کا وہ منفی طرز عمل ہے جو کئی دہائیوں سے جاری ہے۔
ایک طرف سیاسی قیادت جمہوریت کی جنگ لڑنا چاہتی ہے لیکن ان کے لیے یہ محض ایک سیاسی ہتھیار ہے کیونکہ ساری قیادت جمہوریت کا درس تو دیتی ہے لیکن جمہوریت کو مضبوط کرنا ان کا ایجنڈا نہیں۔ سیاستدان سیاسی جماعتوں کو ایک ذاتی پراؤیٹ کمپنی کے طور پر چلانا چاہتے ہیں جو ان کی خاندانی جاگیر کے سوا کچھ نہیں۔ جب سیاسی جماعتوں کا اپنا داخلی نظام غیر جمہوری ہوگا تو ان سے یہ توقع رکھنا کہ یہ لوگ حقیقی جمہوریت کی جنگ لڑنا چاہتے ہیں، محض خوش فہمی ہوگی۔ اسی طرح ہماری قیادت سیاست اور جرائم کے درمیان بنیادی نوعیت کے فرق کو بھی سمجھنے کے لیے تیار نہیں۔ سیاست اور جرائم کا جو گٹھ جوڑ ہے اس نے جمہوریت کو بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ سیاسی جماعتوں میں اچھے پڑھے لکھے لوگوں کے مقابلے میں جرائم پیشہ افراد بالادست ہیں یا ان کا مقصد سیاست کی مدد سے دولت کا حصول ہے۔ یہ جو عالمی سطی پر کارپوریٹ جمہوریت کا مسئلہ ہے جس میں پیسے کو بنیادی فوقیت حاصل ہوگئی ہے اس کی وجہ سے سیاست اور جمہوریت دولت مند افراد کے قبضہ میں ہے۔ اس قبضہ سے کیسے سیاست اورجمہوریت کو بچایا جا سکتا ہے، یہ سوال توجہ طلب ہے۔
پارلیمنٹ کے مسئلہ کو ہی لے لیں۔ کیا پارلیمانی جمہوری نظام میں پارلیمنٹ کو ایسے چلایا جاتا ہے جیسے یہاں چلائی جا رہی ہے۔ حکومت ہو یا حزب اختلاف دونوں کا کردار مایوس کن ہے۔ پارلیمنٹ قومی اور علاقائی سیاسی، سماجی، معاشی اور داخلی و خارجی بحران سے نمٹنے کا ایسا فورم ہے جس نے متبادل حل پیش کرنا ہوتا ہے۔ لیکن یہاں تووزیر اعظم، وفاقی کابینہ، حزب اختلاف، اسٹینڈنگ کمیٹیاں، پارلیمانی سیکریٹری ہوں یا ممبران اسمبلی سب کی پارلیمانی عدم دلچسپی نے پارلیمانی نظام کی افادیت کو ختم کردیا ہے۔
یہ جو سیاسی نظام کے بارے میں بداعتمادی پائی جاتی ہے اس کی دیگر وجوہات کے علاوہ قومی قیادت کا طرز عمل بھی ہے۔ قومی سطح پر ہر طبقہ کی قیادت کی کامیابی کی کنجی افراد کے مقابلے میں ادارہ سازی یا اداروں کی مضبوطی کا ایجنڈا ہوتا ہے۔ لیکن یہاں ہر شعبہ کی قیادت اداروں کو بالادست بنانے سے گریز کرتی ہے۔ کیونکہ ان کی سوچ یہ ہے کہ اگر ادارے مضبوط ہونگے تو ان کو ان اداروں کے سامنے جوابدہ ہونا پڑے گا۔ ان کی سوچ یہ ہوتی ہے کہ وہ اداروں کو مجبور کریں کہ وہ ہمارے تابع ہوں۔ یہ ہی وہ بنیادی مسئلہ ہے جو قومی سطح پر ادارہ سازی میں رکاوٹ پیدا کرتا ہے۔
قیادت کا کمال یہ ہوتا ہے کہ یہ معاشرے میں تقسیم کو ختم کرکے ان میں یکجہتی کو پیدا کرتی ہے۔ لیکن جب قیادت خود تقسیم کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کرے اور یہ ثابت کرے کہ بس وہی محب وطن ہے اورباقی سب غدار۔ یہ رویہ پرتشدد سیاست کو جنم دیتا ہے۔اسی طرح قوم میں ایک مسئلہ طبقاتی نظام بھی ہے۔ ایک اچھی اوربہتر قیادت طبقاتی مسئلہ کے خاتمہ کو اہمیت دیتی ہے اور یہ مسئلہ ان کی ترجیحات کا ہوتا ہے۔ لیکن آج ہماری سیاست، معیشت، سماجیات سمیت ہر شعبہ میں طبقاتی مسئلہ غالب اور انصاف بھی طبقوں میں بٹ کر رہ گیا ہے۔
اس وقت سیاسی اورمعاشی سطح پرجو بحران ہے اس سے نمٹنے کا ایک طریقہ باہمی اشتراک یا مفاہمت کی سیاست سے جڑا ہے۔ مفاہمت سے مراد یہ نہیں ایک دوسرے کے جرائم پر پردہ ڈالا جائے بلکہ قومی معاملات پر یکسوئی درکار ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہم ایک دوسرے کو قبول نہ کرنے یا ایک دوسرے کو ناکام بنانے کے کھیل کا حصہ بن جائیں تو بحران حل نہیں ہوتے بلکہ یہ اور زیادہ بگاڑ پیدا کرتے ہیں ۔مسائل سے نمٹنے کا ایک طریقہ دنیا نے عدم مرکزیت پر مبنی نظا م میں تلاش کیا ہے۔ یعنی اختیارات و وسائل کو زیادہ سے زیادہ نچلی سطح پر لوگوں کے ساتھ جوڑا جائے۔لیکن ہماری قیادت عدم مرکزیت کے بجائے مرکزیت پر کھڑی ہے۔یعنی اختیارات کا مرکز وہ اپنی ذات یا چند اداروں تک ہی محدود کرکے نظام کو چلانا چاہتی ہے، جو ممکن نہیں ۔
ہمیں عملی طور پر ایسی قیادت درکارہے جو ہجوم کو ایک قوم میں تبدیل کرے۔یہ کام مشکل ضرور ہے، مگر ناممکن نہیں۔جب قیادت کے سامنے قومی اہداف واضح ہوں اور قوم کا اس پر اتفاق ہو تو یہ مل کر اس جنگ میں جیت بھی سکتے ہیں ۔لیکن اس کے لیے شرط یہ ہے کہ قیادت خود بھی شفاف اورجوابدہی پر مبنی نظام پر یقین بھی رکھتی ہے۔ سیاست اورجمہوریت کی کامیابی کی ایک بڑی شرط خود احتسابی پر مبنی نظام ہے اوریہ ہی ہماری بڑی ترجیح بھی ہونی چاہیے۔
اس وقت ہمیں بحران سے نکلنے کے لیے روائتی طور طریقوں کے بجائے غیر معمولی اقدامات کو فوقیت دینی ہو گی یعنی کڑوی گولیا ں کھانی ہونگی۔ لیکن یہ اسی صورت میں ممکن ہوگا جب ہم داخلی سطح پر یہ اعتراف کریں کہ ہم سے غلطیاں ہورہی ہیں اور ہم بھی برے حالات کے ذمے دار ہیں۔اب وقت آگیا ہے کہ ہم بطور قوم یا افراد سیاسی قیادتوں کی پوجا پاٹ یا شخصیت پرستی یا اندھا دھند اعتماد یا محبت کرنے کے جنون سے باہر نکلیں اور قیادت پر دباو بڑھائیں کہ ہمیں ان کا روائتی اور ذاتی مفاد پر مبنی کھیل قبول نہیں۔اگر ہمیں یہ جنگ جیتنی ہے تو سیاسی قیادت کو قانون، سیاست، جمہوریت اوراحتساب کے دائرہ کار میں لانا ہوگا، وگرنہ سیاست کا تماشہ ختم نہیں بلکہ اور زیادہ بگاڑ پیدا کرے گا۔