اختلافات
نئے پاکستان کی نئی حکومت کے وزیروں نے آتے ہی سندھ حکومت کو ہٹانے کی کوشش شروع کردی تھی
وزیر اعظم عمران خان نے اپنی حکومت میں پہلی بار ملک کے دوسرے بڑے صوبے سندھ کے وزیر اعلیٰ کو اپنے دورہ کراچی میں نظراندازکیا اور اپنے کسی بھی سرکاری اجلاس میں وزیر اعلیٰ کو مدعوکرنا یا سندھ کے مسائل پر ملنا بھی ضروری نہیں سمجھا ۔ پہلی بار وزیر اعلیٰ کو نظرانداز کرنے کی ابتدا کسی وزیر اعظم کی طرف سے کی گئی ہے، جو ملک کے چاروں صوبوں کے وزیر اعظم ہیں۔
ماضی میں ملک میں دو بڑی سیاسی پارٹیاں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) ہوا کرتی تھیں اور 1988 کے بعد جب پیپلز پارٹی اقتدار میں آئی تھی تو پہلا موقعہ تھا کہ ملک کے سب سے بڑے صوبے کا وزیر اعلیٰ پیپلز پارٹی کا نہیں تھا اور بے نظیر بھٹو جب پہلی بار وزیر اعظم بنیں تو ان کا واسطہ میاں نواز شریف سے پڑا تھا جو اسلامی جمہوری اتحاد کے وزیر اعلیٰ تھے اور انھیں صدر غلام اسحاق خان کی مکمل حمایت حاصل تھی، جس کی وجہ سے انھوں نے وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کو اہمیت نہیں دی اور وہ نہ کبھی لاہور آنے پر وزیر اعظم کا استقبال کرتے تھے نہ وزیر اعظم کی صدارت میں منعقدہ کسی اجلاس میں شریک ہوتے تھے۔
وزیر اعظم بے نظیر بھٹوکی حکومت مخلوط اور کمزور تھی اور انھوں نے سندھ میں قائم علی شاہ کو وزیر اعلیٰ مقرر کیا تھا اور سندھ کے تمام معاملات ان کے شوہر آصف علی زرداری اور ان کے بااعتماد قریبی ساتھی آغا سراج درانی اور ذوالفقار مرزا دیکھا کرتے تھے۔ اس وقت سندھ اور وفاق میں کرپشن عروج پر تھی اور سندھ میں لسانی فسادات بھی ہوئے تھے جس کی وجہ سے پیپلز پارٹی کی وفاقی حکومت صدر غلام اسحاق خان نے برطرف کردی تھی۔ بے نظیر دور میں قائم علی شاہ ایک کمزور وزیر اعلیٰ ثابت ہو رہے تھے۔
جس کی وجہ سے وزیر اعظم نے شکار پور سے تعلق رکھنے والے آفتاب شعبان میرانی کو وزیر اعلیٰ بنایا تھا جن کے دور میں یکم جون 1990 کو ان کے اپنے شہر شکارپور میں شہریوں کی دکانیں لوٹی اور جلائی گئی تھیں اور وزیر اعلیٰ پہلے کبھی یوسی چیئرمین ایوب دور میں رہے تھے مگر وزیر اعظم نے اپنا قابل اعتماد اور شریف سیاستدان سمجھ کر وزیر اعلیٰ بنایا تھا جنھیں چلنے نہیں دیا گیا اور ان کی حکومت کے چند ماہ میں بھی سندھ کے حالات بہتر نہ ہوسکے تھے اور چھ اگست 1990 کو وفاقی حکومت کے خاتمے کے ساتھ مختصر عرصہ وزیر اعلیٰ رہ سکے تھے اور نئے انتخابات میں نواز شریف وزیر اعظم بنے تو سندھ میں پی پی ارکان توڑ کر متحدہ کو ملاکر جام صادق کی حکومت بنوائی گئی تھی ۔ پنجاب میں نواز شریف نے پنجاب میں سیاسی اہمیت نہ رکھنے والے مگر ایماندار شخص کو وزیر اعلیٰ پنجاب بنایا تھا گو عملی طور پر وزیر اعلیٰ غلام حیدر وائیں تھے اور ان کے نام پر پنجاب میں حکومت شہباز شریف چلا رہے تھے۔
بے نظیر بھٹو کی طرح نواز شریف بھی صدر غلام اسحاق کے ساتھ نبھا نہ کر سکے اور ان میں اختلافات پیدا ہو گئے جس پر ان کی حکومت صدر اسحاق نے برطرف کردی مگر سپریم کورٹ نے ان کی حکومت بحال کردی تھی مگر انھوں نے پنجاب میں غلام حیدر وائیں کے خلاف بغاوت کرا کر راتوں رات منظور وٹو کو وزیر اعلیٰ بنوایا گیا جو وزیر اعظم نواز شریف کی مرضی سے ہی پنجاب اسمبلی کے اسپیکر بنے تھے مگر صدر اسحاق کی بدولت وزیر اعلیٰ پنجاب بنائے گئے جنھوں نے پنجاب اسمبلی بھی توڑی تھی جو عدلیہ نے بحال کی تھی جسے منظور وٹو نے دوبارہ توڑا مگر اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت پر صدر اسحاق اور وزیر اعظم نواز شریف سے استعفیٰ لے لیے گئے تھے جس کے بعد بے نظیر بھٹو دوبارہ وزیر اعظم منتخب ہوئیں تو پنجاب میں پی پی اکثریت نہ ہونے کے باعث نواز شریف کے مخالف حامد ناصر چٹھہ کی جونیجو مسلم لیگ کے منظور وٹوکو ہی وزیر اعلیٰ پنجاب بنانا پڑا تھا ۔ پی پی کی دوسری حکومت بھی پنجاب سے تعلق رکھنے والے صدر مملکت فاروق لغاری نے سنگین الزامات کے تحت بر طرف کی تھی۔
دوسری بار وزیر اعظم بن کر نواز شریف نے پنجاب جو ان کے اقتدار کا سرچشمہ بن چکا تھا کو کنٹرول میں رکھنے کے لیے اپنے بھائی شہباز شریف کو وزیر اعلیٰ بنایا تھا اور چودہ سال بعد اقتدار میں آکر بھی پنجاب کا اقتدار اپنے بھائی کو دیا تھا مگر سندھ میں پیپلز پارٹی کی دوسری حکومت کو مکمل فری ہینڈ دیا تھا اور مسلم لیگ (ن) کی وفاقی حکومت نے سندھ حکومت کو خوش رکھنے کے لیے سندھ سے مسلم لیگ (ن) کا خاتمہ تک کرا لیا تھا ۔
2008 میں وفاق میں پیپلز پارٹی نے اور پنجاب میں مسلم لیگ (ن) نے اپنی مخلوط حکومتیں بنائی تھیں اور چند ماہ بعد وفاقی حکومت سے مسلم لیگ (ن) کی حکومت سے علیحدگی کے بعد صدر زرداری نے پنجاب میں گورنر راج بھی لگایا تھا جو عدلیہ نے غیر قانونی قرار دیا تھا مگر مسلم لیگ (ن) کی وفاقی حکومت نے اپنے پانچ سالوں میں دوسرے بڑے صوبے سے جھگڑا نہیں کیا تھا ۔
جولائی کے انتخابات میں متحدہ کی جگہ کراچی سے پی ٹی آئی کو نشستیں دلانے والوں نے اندرون سندھ پیپلز پارٹی کے لیے کوئی انتخابی مسئلہ پیدا نہیں کیا تھا جس کی وجہ سے اندرون سندھ سے پیپلز پارٹی نے بھرپور کامیابی حاصل کرکے اپنے دو تہائی ووٹوں سے تنہا ہی حکومت بنائی تھی۔ سندھ میں متحدہ اپوزیشن بنالی گئی تھی اور اپوزیشن لیڈر کا عہدہ پی ٹی آئی کو ملا تھا مگر پیپلز پارٹی نے وفاق میں اپنے اصول پر سندھ میں عمل نہیں کیا اور اپوزیشن کے مطالبات کے باوجود پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی سربراہی اپوزیشن کو نہیں دی اور اپنے ہی رکن کو چیئرمین اے پی سی مقرر کردیا ہے۔
نئے پاکستان کی نئی حکومت کے وزیروں نے آتے ہی سندھ حکومت کو ہٹانے کی کوشش شروع کردی تھی اور وفاقی وزیر سندھ پر حملہ آور بھی ہوئے تھے۔ سپریم کورٹ نے سندھ میں گورنر راج کے خلاف ریمارکس دے دیے تھے جس سے وفاقی حکومت سندھ میں گورنر راج لانے میں ناکام رہی تو وفاقی وزیروں نے مراد علی شاہ کو ہٹانے کے مطالبات شروع کیے جس کی حمایت میں وزیر اعظم نے اپنے حالیہ دورے میں وزیر اعلیٰ سندھ کو نظرانداز کردیا ہے اور سندھ حکومت وفاقی حکومت پر سندھ کے 120 ارب روپے نہ دینے پرکھل کر احتجاج کر رہی ہے۔
وفاقی حکومت کے رویے نے سندھ اور وفاق کے درمیان کشیدگی مزید بڑھادی ہے جس سے سندھ میں احساس محرومیبڑھے گا۔ بے نظیر انکم سپورٹ نام کی تبدیلی کی کوشش سندھ کو مزید ناراض کرے گی جو معمولی اکثریت کی حامل وفاقی حکومت کے لیے اچھا نہیں ہوگا۔