شخصی امراض کا سد باب کیجیے
شخصی بحران میں مزید دو وجوہات کار فرما ہوتی ہیں جس میں طبعی وموروثی عنصر شامل ہے
انسانی شخصیت میں کسی بھی قسم کا عدم توازن ، ذہنی ناپختگی کا ثبوت ہے ۔ ذہنی اور جذباتی طور پر ناپختہ شخصیت انفرادی طور پرگھر اور سماج کے لیے نقصان دے ثابت ہوتی ہے۔ شخصیت کے عروج و زوال میں چند عوامل کار فرما ہوتے ہیں جن میں والدین ، اساتذہ ، ہمجولی اور سماج وغیرہ آجاتے ہیں۔
شخصی بحران میں مزید دو وجوہات کار فرما ہوتی ہیں جس میں طبعی وموروثی عنصر شامل ہے۔ طبعی عوامل میں نیورولوجیکل ڈس آرڈر یعنی اعصابی بیماریاں جیسے مرگی، ڈیمینشیا ، الزائمر، پارکنسنز ودیگر علامات وغیرہ ۔ عصبیات کے ماہرین ایم آر آئی یا سی ٹی اسکین کے ذریعے ان بیماریوں کی تشخیص کرتے ہیں تاہم یہ طریقہ کار مہنگا اور تابکاری مضر اثرات مرتب کرسکتا ہے۔ دوسری جانب مینٹل ڈس آرڈرز یعنی نفسیاتی عارضے میں ڈپریشن، اینگزائٹی، سکزوفرینیا ، پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر، آٹزم وغیرہ آجاتے ہیں۔
اچھی یا معتدل شخصیت پرسکون ، با اعتماد ، حوصلہ افزا ، پرجوش ، مثبت اور مطمئن ہوتی ہے جب کہ منفی سوچ ، بے جا غصہ ، احساس برتری ، انا پرستی ، حسد، عدم تعاون وغیرہ ذہنی عارضے ہیں ۔ شخصیت کی تکمیل میں کئی سال لگتے ہیں۔کئی دکھ ، ناکامیاں وحادثے جھیل کر جذباتی طور پر مضبوط یا کمزور شخصیت تشکیل پاتی ہے۔ ذہنی امراض کے حوالے سے ہم آج ایسے مسئلے پر بات کرینگے جو ہمارے معاشرے میں جڑ پکڑ چکا ہے جسے نفسیات کی رو سے Paranoid Personality Disorder (شکی مزاج شخصیت )کہا جاتا ہے جو ہمارے معاشرے کا پیچیدہ مسئلہ بن چکا ہے۔ اس ذہنی عارضے میں فرد دوسروں پر شک کرتا ہے، وہ سمجھتا ہے کہ اس کا استحصال کیا جا رہا ہے۔ یہ لوگ ذاتی رنجشوں کے لیے دوسروں کو قصور وار ٹھہراتے ہیں ۔ اپنی غلطی تسلیم نہیں کرتے اوران سے بے عزتی برداشت نہیں ہوتی ۔ یہ مرض پیرانائڈ اسکزوفرینیا سے مختلف ہے۔ یہ بیماری گھروں کی خوشی وخوشحالی برباد کردیتی ہے، اداروں میں انتشار پھیلادیتی ہے، رشتے ناتے اور دوستی شدید متاثر ہو جاتے ہیں۔
یہ لوگ ذاتی معلومات دینے سے گریز کرتے ہیں کہ کہیں ان کے خلاف استعمال نہ کی جائے۔ عفو و درگذر سے کام نہیں لیتے اور سالہاسال تک کدورتیں پالتے ہیں ۔ زود رنج ہونے کی بناء پر جائز تنقید برداشت نہیں کرسکتے ۔ بیوی یا محبوبہ کو بلاجواز مورد الزام ٹھراتے ہیں اور ان کی سچائی کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے اچھا بھلا تعلق بگاڑ کے رکھ دیتے ہیں۔رشتوں کے ساتھ سرد مہری و فاصلے روا رکھتے ہیں ۔ سادہ جملوں یا گفتگوکو طنز یا تضحیک گردانتے ہیں۔
ذرا سوچیے ایسے لوگوں کے ساتھ گذارا کرنا کس قدر مشکل ہے؟ اب آتے ہیں حل کی طرف تو سب سے پہلے انھیں نفسیاتی ماہر سے رجوع کرنے کے انتظامات کیے جانے چاہئیں۔ کچھ لوگ اپنی شخصی بے اعتدالی کو معمول کے مطابق سمجھتے ہیں۔ انھیں ایسا مشورہ دینا مشکل ترین کام ہے۔ ایسے لوگ اداروں میں من مانی کرتے ہیں مگر ان کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھایا جاتا ۔گھروں میں ان سے کوئی باز پرس کرنے کی ہمت نہیں رکھتا۔
سماجی زندگی انھیں قبول کرلیتی ہے اورکافی لوگ ذاتی طور پر تکلیف اٹھاتے ہیں مگر ایسے لوگوں سے مقابلہ نہیں کر سکتے۔ بات مقابلے کی نہیں سمجھ کی ہے۔ اگر آپ ایسے مریضوں کی کیفیت سمجھ لیں تو ان سے رابطے میں آسانی رہتی ہے۔ بات چیت اور مکالمے سے کئی پیچیدہ مسائل حل ہو جاتے ہیں۔ کوئی اگر آپ پر اعتماد نہیں کر رہا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس شخص کا اعتبار منتشر ہوا ہوگا۔ اس کا اعتماد بحال کرنے کے لیے مثبت انداز فکر اور برداشت کی انتہائی ضروری ہے۔
شکی مزاج شخصیت بننے کے عوامل میں والدین و اساتذہ کے سخت رویے ، بچپن کی سختیاں ، عزت نفس کا مجروح ہونا اور منفی معاشرتی عوامل کار فرما ہیں، جو ماحول و معاشرہ فرد کو دیتا ہے وہی رویہ وہ سماج کو لوٹا دیتا ہے۔ یہ مرض مردوں میں پایا جاتا ہے اور ہر سو افراد میں ایک مرد اس عارضے کا شکار ہے۔ اس ملک میں ذہنی صحت کوکم اہمیت دی جاتی ہے اور پانچ سو افراد پر ایک نفسیاتی ماہر معمور ہے۔ علاوہ ازیں کسی نفسیاتی بیماری میں مبتلا فرد اپنی بیماری چھپانے پر مجبور ہوجاتا ہے ۔
نفسیاتی علاج کے مختلف طریقے ہیں جن میں تحلیل نفسی ، وقوفی کرداری طریقہ علاج ، عقلی جذباتی کرداری طریقہ علاج REBT کے علاوہ دوائیں وغیرہ شامل ہیں لیکن یہاں سب سے بڑا مسئلہ مریض کی غیریقینی طبیعت ہے جو علاج کی راہ میں حائل ہوجاتی ہے۔ ایسے لوگ کسی پر اعتبار نہیں کرتے اور علاج ادھورا رہ جاتا ہے اور بیماری مزید پیچیدہ ہوجاتی ہے۔ ذہنی امراض کے لیے استعمال کی جانیوالی دوائیں، معالج کے مشورے کے بغیر ایک دم بند نہیں کردینی چاہئیں۔ ایک بار علاج میں افاقے کے بعد دوا بند کردی جاتی ہے اس کے بعد کچھ عرصے کے بعد جب بیماری دوبارہ حملہ کردیتی ہے تو مریض دوبارہ وہی دوا استعمال کرنے لگتے ہیں ۔ یہ خود ساختہ دوائی لینے کا عمل انتہائی خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ سب سے اہم مرحلہ درست تشخیص کا ہے۔ اس کے بعد علاج ممکن ہے۔ ضروری نہیں کہ ماہر نفسیات ہی کوئی موثر حل دے سکے۔ حل انسان کی مثبت سوچ اور مسائل کے ادراک میں پوشیدہ ہے لیکن سب سے اہم مرحلہ درست تشخیص کا ہے۔ اس کے بعد علاج ممکن ہے۔
جدید تحقیق کے مطابق سرسبز ماحول ذہنی صحت کی بہتری میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ماحول میں تبدیلی مثبت نتائج برآمد کرتی ہے۔ سب سے زیادہ اہم کردارگھرکے افراد کا ہے جن کی سمجھ، برداشت اور مشفق رویہ مثبت نتائج برآمد کرتا ہے۔اس کے علاوہ Alternative Therapy (متبادل علاج) کے طریقے سے بھی مطلوبہ نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں ۔ متبادل علاج میں موسیقی، تخلیقی مشغلے، تفریح اور باغات، پہاڑوں یا دریاؤں کے قریب وقت گذار کے ذہنی صحت میں تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔ والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کی تربیت میں عملی سوچ ، حقیقت پسندی پر مبنی رویوں کو مد نظر رکھنے کی کوشش کریں۔
شخصی بحران میں مزید دو وجوہات کار فرما ہوتی ہیں جس میں طبعی وموروثی عنصر شامل ہے۔ طبعی عوامل میں نیورولوجیکل ڈس آرڈر یعنی اعصابی بیماریاں جیسے مرگی، ڈیمینشیا ، الزائمر، پارکنسنز ودیگر علامات وغیرہ ۔ عصبیات کے ماہرین ایم آر آئی یا سی ٹی اسکین کے ذریعے ان بیماریوں کی تشخیص کرتے ہیں تاہم یہ طریقہ کار مہنگا اور تابکاری مضر اثرات مرتب کرسکتا ہے۔ دوسری جانب مینٹل ڈس آرڈرز یعنی نفسیاتی عارضے میں ڈپریشن، اینگزائٹی، سکزوفرینیا ، پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر، آٹزم وغیرہ آجاتے ہیں۔
اچھی یا معتدل شخصیت پرسکون ، با اعتماد ، حوصلہ افزا ، پرجوش ، مثبت اور مطمئن ہوتی ہے جب کہ منفی سوچ ، بے جا غصہ ، احساس برتری ، انا پرستی ، حسد، عدم تعاون وغیرہ ذہنی عارضے ہیں ۔ شخصیت کی تکمیل میں کئی سال لگتے ہیں۔کئی دکھ ، ناکامیاں وحادثے جھیل کر جذباتی طور پر مضبوط یا کمزور شخصیت تشکیل پاتی ہے۔ ذہنی امراض کے حوالے سے ہم آج ایسے مسئلے پر بات کرینگے جو ہمارے معاشرے میں جڑ پکڑ چکا ہے جسے نفسیات کی رو سے Paranoid Personality Disorder (شکی مزاج شخصیت )کہا جاتا ہے جو ہمارے معاشرے کا پیچیدہ مسئلہ بن چکا ہے۔ اس ذہنی عارضے میں فرد دوسروں پر شک کرتا ہے، وہ سمجھتا ہے کہ اس کا استحصال کیا جا رہا ہے۔ یہ لوگ ذاتی رنجشوں کے لیے دوسروں کو قصور وار ٹھہراتے ہیں ۔ اپنی غلطی تسلیم نہیں کرتے اوران سے بے عزتی برداشت نہیں ہوتی ۔ یہ مرض پیرانائڈ اسکزوفرینیا سے مختلف ہے۔ یہ بیماری گھروں کی خوشی وخوشحالی برباد کردیتی ہے، اداروں میں انتشار پھیلادیتی ہے، رشتے ناتے اور دوستی شدید متاثر ہو جاتے ہیں۔
یہ لوگ ذاتی معلومات دینے سے گریز کرتے ہیں کہ کہیں ان کے خلاف استعمال نہ کی جائے۔ عفو و درگذر سے کام نہیں لیتے اور سالہاسال تک کدورتیں پالتے ہیں ۔ زود رنج ہونے کی بناء پر جائز تنقید برداشت نہیں کرسکتے ۔ بیوی یا محبوبہ کو بلاجواز مورد الزام ٹھراتے ہیں اور ان کی سچائی کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے اچھا بھلا تعلق بگاڑ کے رکھ دیتے ہیں۔رشتوں کے ساتھ سرد مہری و فاصلے روا رکھتے ہیں ۔ سادہ جملوں یا گفتگوکو طنز یا تضحیک گردانتے ہیں۔
ذرا سوچیے ایسے لوگوں کے ساتھ گذارا کرنا کس قدر مشکل ہے؟ اب آتے ہیں حل کی طرف تو سب سے پہلے انھیں نفسیاتی ماہر سے رجوع کرنے کے انتظامات کیے جانے چاہئیں۔ کچھ لوگ اپنی شخصی بے اعتدالی کو معمول کے مطابق سمجھتے ہیں۔ انھیں ایسا مشورہ دینا مشکل ترین کام ہے۔ ایسے لوگ اداروں میں من مانی کرتے ہیں مگر ان کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھایا جاتا ۔گھروں میں ان سے کوئی باز پرس کرنے کی ہمت نہیں رکھتا۔
سماجی زندگی انھیں قبول کرلیتی ہے اورکافی لوگ ذاتی طور پر تکلیف اٹھاتے ہیں مگر ایسے لوگوں سے مقابلہ نہیں کر سکتے۔ بات مقابلے کی نہیں سمجھ کی ہے۔ اگر آپ ایسے مریضوں کی کیفیت سمجھ لیں تو ان سے رابطے میں آسانی رہتی ہے۔ بات چیت اور مکالمے سے کئی پیچیدہ مسائل حل ہو جاتے ہیں۔ کوئی اگر آپ پر اعتماد نہیں کر رہا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس شخص کا اعتبار منتشر ہوا ہوگا۔ اس کا اعتماد بحال کرنے کے لیے مثبت انداز فکر اور برداشت کی انتہائی ضروری ہے۔
شکی مزاج شخصیت بننے کے عوامل میں والدین و اساتذہ کے سخت رویے ، بچپن کی سختیاں ، عزت نفس کا مجروح ہونا اور منفی معاشرتی عوامل کار فرما ہیں، جو ماحول و معاشرہ فرد کو دیتا ہے وہی رویہ وہ سماج کو لوٹا دیتا ہے۔ یہ مرض مردوں میں پایا جاتا ہے اور ہر سو افراد میں ایک مرد اس عارضے کا شکار ہے۔ اس ملک میں ذہنی صحت کوکم اہمیت دی جاتی ہے اور پانچ سو افراد پر ایک نفسیاتی ماہر معمور ہے۔ علاوہ ازیں کسی نفسیاتی بیماری میں مبتلا فرد اپنی بیماری چھپانے پر مجبور ہوجاتا ہے ۔
نفسیاتی علاج کے مختلف طریقے ہیں جن میں تحلیل نفسی ، وقوفی کرداری طریقہ علاج ، عقلی جذباتی کرداری طریقہ علاج REBT کے علاوہ دوائیں وغیرہ شامل ہیں لیکن یہاں سب سے بڑا مسئلہ مریض کی غیریقینی طبیعت ہے جو علاج کی راہ میں حائل ہوجاتی ہے۔ ایسے لوگ کسی پر اعتبار نہیں کرتے اور علاج ادھورا رہ جاتا ہے اور بیماری مزید پیچیدہ ہوجاتی ہے۔ ذہنی امراض کے لیے استعمال کی جانیوالی دوائیں، معالج کے مشورے کے بغیر ایک دم بند نہیں کردینی چاہئیں۔ ایک بار علاج میں افاقے کے بعد دوا بند کردی جاتی ہے اس کے بعد کچھ عرصے کے بعد جب بیماری دوبارہ حملہ کردیتی ہے تو مریض دوبارہ وہی دوا استعمال کرنے لگتے ہیں ۔ یہ خود ساختہ دوائی لینے کا عمل انتہائی خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ سب سے اہم مرحلہ درست تشخیص کا ہے۔ اس کے بعد علاج ممکن ہے۔ ضروری نہیں کہ ماہر نفسیات ہی کوئی موثر حل دے سکے۔ حل انسان کی مثبت سوچ اور مسائل کے ادراک میں پوشیدہ ہے لیکن سب سے اہم مرحلہ درست تشخیص کا ہے۔ اس کے بعد علاج ممکن ہے۔
جدید تحقیق کے مطابق سرسبز ماحول ذہنی صحت کی بہتری میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ماحول میں تبدیلی مثبت نتائج برآمد کرتی ہے۔ سب سے زیادہ اہم کردارگھرکے افراد کا ہے جن کی سمجھ، برداشت اور مشفق رویہ مثبت نتائج برآمد کرتا ہے۔اس کے علاوہ Alternative Therapy (متبادل علاج) کے طریقے سے بھی مطلوبہ نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں ۔ متبادل علاج میں موسیقی، تخلیقی مشغلے، تفریح اور باغات، پہاڑوں یا دریاؤں کے قریب وقت گذار کے ذہنی صحت میں تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔ والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کی تربیت میں عملی سوچ ، حقیقت پسندی پر مبنی رویوں کو مد نظر رکھنے کی کوشش کریں۔