قائد اعظم کی لحد تیار کرنے والے گورکن کا خاندان مفلسی کا شکار
والد نورمحمد نے لیاقت علی،فاطمہ جناح ،محمد حسین سہروردی ،سردار عبدالرب نشتر، سر عبداللہ ہارون ودیگرکی قبریں تیارکیں
قائداعظم محمد علی جناح، لیاقت علی خان اور فاطمہ جناح سمیت اہم سرکاری شخصیات کی تدفین کے لیے خدمات فراہم کرنے والے گورکن کی اولادیں بھی کسمپرسی کی زندگی گزارہی ہیں، قائد اعظم کی تدفین کے لیے قبر تیار کرنے والے گورکن نور محمد مرتے دم تک غربت کا شکار رہا جن کی وفات کے بعد بیٹا فتح محمد بھی عمر کے آخری حصے میں پہنچ گیا ہے۔
تاہم حکومتی سطح پر اس خاندان کی خدمات کا کوئی اعتراف نہیں کیا گیا ، فتح محمد بھی اپنے والد کی طرح غربت کاشکار ہیں 6 جوان لڑکیوں پر مشتمل گھرانہ فاقہ کشی کا شکار ہے، فتح محمد نے پیٹ کاٹ کر اپنی بچیوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا تاہم سندھ حکومت اور اعلیٰ شخصیات کے دفاتر کے چکر کاٹ کر تھک گئے ان کی بیٹیوں کو کوئی ملازمت نہ مل سکی۔
جن میں ایک بی کام تک تعلیم حاصل کرچکی ہیں، فتح محمد کا کہنا ہے کہ ان کے والد نور محمد نے 1930سے 1974تک بانیان پاکستان اور ملک کی معروف شخصیات کی آخری آرام گاہیں تیار کیں ان شخصیات میں قائد اعظم محمد علی جناح، قائد ملت لیاقت علی خان، سردار عبدالرب نشتر، آئی آئی چندریگر، محمد حسین سہروردی، چوہدری عبدالمتین، محترمہ فاطمہ جناح، سر عبداللہ ہارون، قاضی خدا بخش، بابائے اردو مولوی عبدالحق، یوسف شاہ غازی، عبدالرحمن کانچ قوال اور ہاشم گزدر شامل ہیں۔
عاشق رسول ؐ غازی عبدالقیوم شہید کی لحد کی تیاری کا اعزاز بھی نور محمد کے حصہ میں آیا جبکہ قائد اعظم کی ہدایت پر مولانا محمد علی جوہر کی بھی لحد تیار کی تاہم ان کی تدفین ان کی وصیت کے مطابق بیت المقدس میں کردی گئی، فتح محمد کے مطابق مولانا محمد علی جوہر کی کراچی میں تدفین کے لیے میوہ شاہ قبرستان میں لحد تیار کرلی گئی تاہم تدفین نہ ہونے کی وجہ سے قائد اعظم نے ذاتی طور پر ان سے معذرت کی اس موقع پر سرعبداللہ ہارون بھی ان کے ہمراہ تھے قائداعظم نے 10روپے ہدیہ پیش کیا اور خواہش ظاہر کی کہ ان کی قبر بھی نورمحمد تیار کریں۔
قائم علی شاہ کے حکم پر سٹی گورنمنٹ میں ملازمت ملی لیکن تنخواہ جاری نہ ہوسکی
گورکن فتح محمد کا کہنا ہے کہ سابق وزیرعلیٰ قائم علی شاہ کی ہدایت پر انہیں 2010سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ میں ملازمت دینے کی خوشخبری دی گئی جس پر انہوں نے متعلقہ محکمہ سے رجوع کیا تو انہیں تقرری کا لیٹر دینے کے لیے پچاس ہزار روپے رشوت کا تقاضہ کیا گیا جو انہوں نے قرض لے کر اور گھریلو اشیا فروخت کرکے ادا کیے اس رقم کے عیوض جاری کردہ تقرر نامے میں انہیں میوہ شاہ کا نگراں مقرر کیا گیا تاہم کئی سال گزرنے کے باوجود اس تقرری کی کوئی تنخواہ جاری نہیں کی گئی فتح محمد نے تنخواہ جاری کرنے کے لیے کئی بار وزیر اعلیٰ ہائوس سے رجوع کیااور وہاں سے محکمانہ احکام جاری ہوئے لیکن یہ احکام روایتی سرخ فیتے کی نذر ہوگئے۔
والدکی خدمات کی سرکاری سطح پرپذیرائی نہ ہوئی،فتح محمد
بانیان پاکستان کی لحد تیار کرنیوالے نور محمد کے بڑے بیٹے فتح محمد 60سال کی عمر کو پہنچ چکے ہیں۔ فتح محمد کا کہنا ہے کہ ان کی ساری عمر سرکاری دفاتر اور اہم شخصیات کے دفاتر کے چکر کاٹتے گزر گئی تاہم ان کے والد کی خدمات کی سرکاری سطح پر کوئی پذیرائی نہ ہوسکی، انھوں نے کہا کہ میری خواہش ہے کہ جس طرح قومی دنوں کی مناسب سے مختلف شعبوں میں نمایاں کارکردگی دکھانے والی شخصیات کی قومی خدمات کے اعتراف میں انھیں تمغہ اور سند جاری کی جاتی ہیں اسی طرح ان کے والد کی خدمات کا بھی اعتراف کیا جائے اور سند جاری کرنے کے ساتھ ان کے اہل خانہ کی کفالت کی ذمے داری بھی ریاست ادا کرے۔
فتح محمد ان دنوں شوبز شخصیات کو تمغہ امتیاز اور سرکاری اعزازات دیے جانے پر بے حد دل گرفتہ ہیں فتح محمد کا کہنا ہے کہ میری ساری عمر اپنے والد کی خدمات کے سرکاری اعتراف کے لیے جدوجہد کرتے گزری اور اب عمر کے آخری حصہ میں فاقہ کشی کا شکار ہوں 6 جوان بیٹیوں کا باپ ہوں سب کو میٹرک تک تعلیم دلوائی سب سے چھوٹا بیٹا تعلیم حاصل کرنے کے بجائے مکینک کا کام سیکھ رہا ہے کیونکہ گھر میں آمدن کا کوئی ذریعہ نہیں ہے۔
فتح محمد نے بتایا کہ ان کی ایک بیٹی نے بی کام تک تعلیم حاصل کی سندھ حکومت کی اعلی شخصیات سے بارہا درخواستیں کیں کہ کم از کم بیٹی کو کوئی ملازمت دی جائے تاکہ بچیوں کے ہاتھ پیلے کرسکوں لیکن کوئی شنوائی نہیں ہوئی انھوں نے بتایا کہ پچیس سال کی عمر کی ایک بیٹی گھریلو حالات کی وجہ سے ذہنی مریض بن گئی جس کے علاج معالجہ کے لیے بھی وسائل نہیں ہیں، فتح محمد نے سابق وزیر اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ اور موجودہ وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کو بھی بارہا درخواستیں پیش کیں اور خاندان کے لیے سند اور مراعات کی فراہمی کی اپیل کی لیکن کوئی شنوائی نہ ہوسکی۔
تاریخی میوہ شاہ تمام مذاہب کا مشترکہ قبرستان ہے
میوہ شاہ قبرستان کا شمار جنوبی ایشیا کے تاریخی اور بڑے قبرستانوں میں ہوتا ہے اس قبرستان کی خصوصیت ہے کہ یہاں مختلف مذاہب کے افراد مدفون ہیں اس قبرستان میں یہودیوں کی تاریخی قبریں بھی موجود ہیں جبکہ عیسائیوں کی قبروں کا بھی احاطہ ہے اسی طرح ہندوئوں کا شمشان گھاٹ اور بعض ہندئوں کی قبریں تک موجود ہیں جنھیں ان کی وصیت کی بنا پر چتا جلانے کے بجائے دفن کیا گیا، مذہبی ہم آہنگی کی علامت اس قبرستان کے وسیع رقبہ پر قبروں کو مسمار کرکے رہائشی مکانات ، کارخانے اور فیکٹریاں تعمیر کرلی گئیں، لینڈ مافیا نے میوہ شاہ قبرستان میں قبروں کو ہموار کرکے اراضی پر قبضہ کرلیا۔
گورکن اب دینی فہم سے عاریاور شریعت پر عمل نہیں کرتے
فتح محمد نے افسوس کا اظہار کیا کہ اب گورکن دین کی معلومات سے عاری ہیں اور شریعت پر عمل نہیں کرتے، پہلے زمانے میں قبرکیلیے جگہ کی قیمت نہیں لی جاتی تھی صرف قبر کھودنے کی محنت کا ہدیہ لیا جاتا تھا اب جگہ کیلیے بھائو تائو کیا جاتا ہے 6 ماہ میں قبر میں دوسرا مردہ دفن کردیا جاتا ہے اور لواحقین کو ذہنی تکلیف پہنچائی جاتی ہے۔
والد نے جگہ بنانے کے لیے پرانی قبرکھودی تو اندر تازہ میت پڑی تھی
فتح محمد نے بتایا کہ ان کی عمر میوہ شاہ قبرستان میں گزری بچپن سے والد کا ہاتھ بٹایا اور سیکڑوں قبریں تیار کیں، انھوں نے بتایا کہ جب ان کے والد جوان تھے تو ان کے ساتھ ایک واقع پیش آیا ایک دن انھوں نے ایک پرانی قبر کی جگہ نئی قبر تیار کرنے کے لیے صفائی شرو ع کی تو ایک بڑا پتھر سامنے آیا جیسے ہی اس پتھر کو ہٹایا تو قبر میں تازہ حالت میں ایک میت موجود تھی جس کا کفن تک میلا نہ ہوا تھا، والد یہ منظر دیکھ کر بھاگ کھڑے ہوئے اور راستے میں بیہوش ہوگئے لوگوں نے گھر پہنچایا تو تین روز تک غشی کے دورے پڑتے رہے اس دوران ان کی دادی کو خواب میں ایک بزرگ نے شکایت کی کہ تمہارے بیٹے نے ہمیں پریشان کیا اور ہمارا گھر خراب کیا اور قبر کی نشاندہی بھی کی 3 روز تک مسلسل خواب آتا رہا اور والد کی حالت خراب رہی ان کی دادی نے خود جاکر اس قبر کو درست کیا جس کے بعد جیسے ہی گھر پہنچیں تو والد کی حالت سنبھل چکی تھی اس واقعے کا تذکرہ ان کے والد نے کئی بار کیا اور تلقین کی کہ ہمیشہ باوضو ہوکر قبر کھودیں اور مسنون دعائیں اور قرانی آیات یاد کریں جو ہمیشہ قبر میں میت اتارتے وقت پڑھی جاتی ہیں۔
والدہ کی وفات کے بعد میوہ شاہ قبرستان کا انتظام سنبھالا
فتح محمد نے بتایا کہ والد کی وفات کے بعد ان کی والدہ نے قبرستان کا انتظام سنبھال لیا تاہم والدہ کی وفات کے بعد فتح محمد نے بڑے بیٹے کی حیثیت سے یہ گدی سنبھالی تاہم اس دوران میوہ شاہ قبرستان پر گینگ وار نے قبضہ جمالیا تاریخی قبرستان جرائم اور منشیات کا گڑھ بن گیا اور مافیا نے ڈیرے ڈال لیے سٹی گورنمنٹ کی جانب سے نگراں مقرر کیے جانے سے انھیں قبرستان میں تدفین کی سرکاری رسید جاری کرنے کا اختیار ملا جس کے عوض لواحقین انھیں 100 روپے کی ادائیگی کردیتے تھے تاہم مافیا کے قابض ہونے کے ساتھ ہی قبرکے لیے جگہ مہیا کرنے کی قیمت 20 سے 25 ہزار روپے تک پہنچ گئی اور مافیا نے اپنے منظور نظر گورکنوں کو تعینات کردیا اور فتح محمد کو قبرستان سے بے دخل کردیا اب یہ صورتحال ہے کہ فتح محمد جن کے دادا پردادا بھی میوہ شاہ قبرستان کے گورکن اور نگراں رہے قبرستان میں داخل نہیں ہوسکتے ایکسپریس کو انٹرویو بھی انہوں نے قبرستان سے ملحقہ ایک مسجد میں بیٹھ کر دیا اور اس دوران ان کے مسلسل آنسو جاری رہے۔
عمر کے آخری حصہ میں پہنچنے والے فتح محمد مارواڑی قبرستان کے دروازے کے سامنے بیٹھ کر آنے جانے والوں کی جانب سے کی جانے والی امداد سے اپنے اور بچوں کی بھوک مٹانے پر مجبور ہیں، قبرستان آنے جانے والے پرانے واقف ان کی مدد کرتے ہیں جس سے گھر کی گزر بسر ہوتی ہے، فتح محمد کی اہلیہ اور وہ خود کئی بیماریوں میں مبتلا ہیں گھر میں فاقہ کشی کی صورتحال جب بیماری سنگین ہوجاتی ہے تو سرکاری اسپتال سے رجوع کرتے ہیں۔
تاہم حکومتی سطح پر اس خاندان کی خدمات کا کوئی اعتراف نہیں کیا گیا ، فتح محمد بھی اپنے والد کی طرح غربت کاشکار ہیں 6 جوان لڑکیوں پر مشتمل گھرانہ فاقہ کشی کا شکار ہے، فتح محمد نے پیٹ کاٹ کر اپنی بچیوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا تاہم سندھ حکومت اور اعلیٰ شخصیات کے دفاتر کے چکر کاٹ کر تھک گئے ان کی بیٹیوں کو کوئی ملازمت نہ مل سکی۔
جن میں ایک بی کام تک تعلیم حاصل کرچکی ہیں، فتح محمد کا کہنا ہے کہ ان کے والد نور محمد نے 1930سے 1974تک بانیان پاکستان اور ملک کی معروف شخصیات کی آخری آرام گاہیں تیار کیں ان شخصیات میں قائد اعظم محمد علی جناح، قائد ملت لیاقت علی خان، سردار عبدالرب نشتر، آئی آئی چندریگر، محمد حسین سہروردی، چوہدری عبدالمتین، محترمہ فاطمہ جناح، سر عبداللہ ہارون، قاضی خدا بخش، بابائے اردو مولوی عبدالحق، یوسف شاہ غازی، عبدالرحمن کانچ قوال اور ہاشم گزدر شامل ہیں۔
عاشق رسول ؐ غازی عبدالقیوم شہید کی لحد کی تیاری کا اعزاز بھی نور محمد کے حصہ میں آیا جبکہ قائد اعظم کی ہدایت پر مولانا محمد علی جوہر کی بھی لحد تیار کی تاہم ان کی تدفین ان کی وصیت کے مطابق بیت المقدس میں کردی گئی، فتح محمد کے مطابق مولانا محمد علی جوہر کی کراچی میں تدفین کے لیے میوہ شاہ قبرستان میں لحد تیار کرلی گئی تاہم تدفین نہ ہونے کی وجہ سے قائد اعظم نے ذاتی طور پر ان سے معذرت کی اس موقع پر سرعبداللہ ہارون بھی ان کے ہمراہ تھے قائداعظم نے 10روپے ہدیہ پیش کیا اور خواہش ظاہر کی کہ ان کی قبر بھی نورمحمد تیار کریں۔
قائم علی شاہ کے حکم پر سٹی گورنمنٹ میں ملازمت ملی لیکن تنخواہ جاری نہ ہوسکی
گورکن فتح محمد کا کہنا ہے کہ سابق وزیرعلیٰ قائم علی شاہ کی ہدایت پر انہیں 2010سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ میں ملازمت دینے کی خوشخبری دی گئی جس پر انہوں نے متعلقہ محکمہ سے رجوع کیا تو انہیں تقرری کا لیٹر دینے کے لیے پچاس ہزار روپے رشوت کا تقاضہ کیا گیا جو انہوں نے قرض لے کر اور گھریلو اشیا فروخت کرکے ادا کیے اس رقم کے عیوض جاری کردہ تقرر نامے میں انہیں میوہ شاہ کا نگراں مقرر کیا گیا تاہم کئی سال گزرنے کے باوجود اس تقرری کی کوئی تنخواہ جاری نہیں کی گئی فتح محمد نے تنخواہ جاری کرنے کے لیے کئی بار وزیر اعلیٰ ہائوس سے رجوع کیااور وہاں سے محکمانہ احکام جاری ہوئے لیکن یہ احکام روایتی سرخ فیتے کی نذر ہوگئے۔
والدکی خدمات کی سرکاری سطح پرپذیرائی نہ ہوئی،فتح محمد
بانیان پاکستان کی لحد تیار کرنیوالے نور محمد کے بڑے بیٹے فتح محمد 60سال کی عمر کو پہنچ چکے ہیں۔ فتح محمد کا کہنا ہے کہ ان کی ساری عمر سرکاری دفاتر اور اہم شخصیات کے دفاتر کے چکر کاٹتے گزر گئی تاہم ان کے والد کی خدمات کی سرکاری سطح پر کوئی پذیرائی نہ ہوسکی، انھوں نے کہا کہ میری خواہش ہے کہ جس طرح قومی دنوں کی مناسب سے مختلف شعبوں میں نمایاں کارکردگی دکھانے والی شخصیات کی قومی خدمات کے اعتراف میں انھیں تمغہ اور سند جاری کی جاتی ہیں اسی طرح ان کے والد کی خدمات کا بھی اعتراف کیا جائے اور سند جاری کرنے کے ساتھ ان کے اہل خانہ کی کفالت کی ذمے داری بھی ریاست ادا کرے۔
فتح محمد ان دنوں شوبز شخصیات کو تمغہ امتیاز اور سرکاری اعزازات دیے جانے پر بے حد دل گرفتہ ہیں فتح محمد کا کہنا ہے کہ میری ساری عمر اپنے والد کی خدمات کے سرکاری اعتراف کے لیے جدوجہد کرتے گزری اور اب عمر کے آخری حصہ میں فاقہ کشی کا شکار ہوں 6 جوان بیٹیوں کا باپ ہوں سب کو میٹرک تک تعلیم دلوائی سب سے چھوٹا بیٹا تعلیم حاصل کرنے کے بجائے مکینک کا کام سیکھ رہا ہے کیونکہ گھر میں آمدن کا کوئی ذریعہ نہیں ہے۔
فتح محمد نے بتایا کہ ان کی ایک بیٹی نے بی کام تک تعلیم حاصل کی سندھ حکومت کی اعلی شخصیات سے بارہا درخواستیں کیں کہ کم از کم بیٹی کو کوئی ملازمت دی جائے تاکہ بچیوں کے ہاتھ پیلے کرسکوں لیکن کوئی شنوائی نہیں ہوئی انھوں نے بتایا کہ پچیس سال کی عمر کی ایک بیٹی گھریلو حالات کی وجہ سے ذہنی مریض بن گئی جس کے علاج معالجہ کے لیے بھی وسائل نہیں ہیں، فتح محمد نے سابق وزیر اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ اور موجودہ وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کو بھی بارہا درخواستیں پیش کیں اور خاندان کے لیے سند اور مراعات کی فراہمی کی اپیل کی لیکن کوئی شنوائی نہ ہوسکی۔
تاریخی میوہ شاہ تمام مذاہب کا مشترکہ قبرستان ہے
میوہ شاہ قبرستان کا شمار جنوبی ایشیا کے تاریخی اور بڑے قبرستانوں میں ہوتا ہے اس قبرستان کی خصوصیت ہے کہ یہاں مختلف مذاہب کے افراد مدفون ہیں اس قبرستان میں یہودیوں کی تاریخی قبریں بھی موجود ہیں جبکہ عیسائیوں کی قبروں کا بھی احاطہ ہے اسی طرح ہندوئوں کا شمشان گھاٹ اور بعض ہندئوں کی قبریں تک موجود ہیں جنھیں ان کی وصیت کی بنا پر چتا جلانے کے بجائے دفن کیا گیا، مذہبی ہم آہنگی کی علامت اس قبرستان کے وسیع رقبہ پر قبروں کو مسمار کرکے رہائشی مکانات ، کارخانے اور فیکٹریاں تعمیر کرلی گئیں، لینڈ مافیا نے میوہ شاہ قبرستان میں قبروں کو ہموار کرکے اراضی پر قبضہ کرلیا۔
گورکن اب دینی فہم سے عاریاور شریعت پر عمل نہیں کرتے
فتح محمد نے افسوس کا اظہار کیا کہ اب گورکن دین کی معلومات سے عاری ہیں اور شریعت پر عمل نہیں کرتے، پہلے زمانے میں قبرکیلیے جگہ کی قیمت نہیں لی جاتی تھی صرف قبر کھودنے کی محنت کا ہدیہ لیا جاتا تھا اب جگہ کیلیے بھائو تائو کیا جاتا ہے 6 ماہ میں قبر میں دوسرا مردہ دفن کردیا جاتا ہے اور لواحقین کو ذہنی تکلیف پہنچائی جاتی ہے۔
والد نے جگہ بنانے کے لیے پرانی قبرکھودی تو اندر تازہ میت پڑی تھی
فتح محمد نے بتایا کہ ان کی عمر میوہ شاہ قبرستان میں گزری بچپن سے والد کا ہاتھ بٹایا اور سیکڑوں قبریں تیار کیں، انھوں نے بتایا کہ جب ان کے والد جوان تھے تو ان کے ساتھ ایک واقع پیش آیا ایک دن انھوں نے ایک پرانی قبر کی جگہ نئی قبر تیار کرنے کے لیے صفائی شرو ع کی تو ایک بڑا پتھر سامنے آیا جیسے ہی اس پتھر کو ہٹایا تو قبر میں تازہ حالت میں ایک میت موجود تھی جس کا کفن تک میلا نہ ہوا تھا، والد یہ منظر دیکھ کر بھاگ کھڑے ہوئے اور راستے میں بیہوش ہوگئے لوگوں نے گھر پہنچایا تو تین روز تک غشی کے دورے پڑتے رہے اس دوران ان کی دادی کو خواب میں ایک بزرگ نے شکایت کی کہ تمہارے بیٹے نے ہمیں پریشان کیا اور ہمارا گھر خراب کیا اور قبر کی نشاندہی بھی کی 3 روز تک مسلسل خواب آتا رہا اور والد کی حالت خراب رہی ان کی دادی نے خود جاکر اس قبر کو درست کیا جس کے بعد جیسے ہی گھر پہنچیں تو والد کی حالت سنبھل چکی تھی اس واقعے کا تذکرہ ان کے والد نے کئی بار کیا اور تلقین کی کہ ہمیشہ باوضو ہوکر قبر کھودیں اور مسنون دعائیں اور قرانی آیات یاد کریں جو ہمیشہ قبر میں میت اتارتے وقت پڑھی جاتی ہیں۔
والدہ کی وفات کے بعد میوہ شاہ قبرستان کا انتظام سنبھالا
فتح محمد نے بتایا کہ والد کی وفات کے بعد ان کی والدہ نے قبرستان کا انتظام سنبھال لیا تاہم والدہ کی وفات کے بعد فتح محمد نے بڑے بیٹے کی حیثیت سے یہ گدی سنبھالی تاہم اس دوران میوہ شاہ قبرستان پر گینگ وار نے قبضہ جمالیا تاریخی قبرستان جرائم اور منشیات کا گڑھ بن گیا اور مافیا نے ڈیرے ڈال لیے سٹی گورنمنٹ کی جانب سے نگراں مقرر کیے جانے سے انھیں قبرستان میں تدفین کی سرکاری رسید جاری کرنے کا اختیار ملا جس کے عوض لواحقین انھیں 100 روپے کی ادائیگی کردیتے تھے تاہم مافیا کے قابض ہونے کے ساتھ ہی قبرکے لیے جگہ مہیا کرنے کی قیمت 20 سے 25 ہزار روپے تک پہنچ گئی اور مافیا نے اپنے منظور نظر گورکنوں کو تعینات کردیا اور فتح محمد کو قبرستان سے بے دخل کردیا اب یہ صورتحال ہے کہ فتح محمد جن کے دادا پردادا بھی میوہ شاہ قبرستان کے گورکن اور نگراں رہے قبرستان میں داخل نہیں ہوسکتے ایکسپریس کو انٹرویو بھی انہوں نے قبرستان سے ملحقہ ایک مسجد میں بیٹھ کر دیا اور اس دوران ان کے مسلسل آنسو جاری رہے۔
عمر کے آخری حصہ میں پہنچنے والے فتح محمد مارواڑی قبرستان کے دروازے کے سامنے بیٹھ کر آنے جانے والوں کی جانب سے کی جانے والی امداد سے اپنے اور بچوں کی بھوک مٹانے پر مجبور ہیں، قبرستان آنے جانے والے پرانے واقف ان کی مدد کرتے ہیں جس سے گھر کی گزر بسر ہوتی ہے، فتح محمد کی اہلیہ اور وہ خود کئی بیماریوں میں مبتلا ہیں گھر میں فاقہ کشی کی صورتحال جب بیماری سنگین ہوجاتی ہے تو سرکاری اسپتال سے رجوع کرتے ہیں۔